سوال
اکثر ادویات میں نشہ آور اشیاء جیسے الکحل وغیرہ استعمال ہوتی ہیں تو ان ادویات کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✿ ادویات صرف نشہ آور اشیاء پر مشتمل نہیں ہوتیں بلکہ بہت سی دوسری اشیاء بھی شامل ہوتی ہیں۔ جب یہ دیگر اجزاء آپس میں ملتے ہیں تو ان کے اثرات بدل جاتے ہیں اور نشہ زائل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کا استعمال درست ہے کیونکہ اب وہ نشہ آور نہیں رہتیں۔
✿ یہ بات اہلِ کیمیا اور ماہرینِ علم ہی جان سکتے ہیں، جو مختلف اجزاء کو ملا کر مرکب بناتے ہیں، اس پر تجربات کرتے ہیں اور اس کے اثرات و خواص کا مطالعہ کرتے ہیں۔
✿ لیکن اگر کوئی دوا ایسی ہو کہ جس میں نشہ باقی رہے اور مخصوص مقدار یا اس سے زیادہ لینے سے نشہ پیدا ہو، تو ایسی دوا بلا شبہ حرام ہے۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے:
((ماأسكركثيرة فقليله حرام’أوكماقال النبى صلى الله عليه وسلم))
’’جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرتی ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔‘‘
اس مسئلہ کی حقیقت اور ذمہ داری
✿ یہ معاملہ جدید مسائل میں سے ہے۔
✿ لہٰذا ایسے متبحر علماء کو، جو قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے بھی واقف ہیں، چاہیے کہ وہ اکٹھے بیٹھیں اور ان مسائل پر کتاب و سنت کی روشنی میں غور و فکر کریں۔
✿ اس کے بعد ایک مجلس یا محاضرہ رکھا جائے جس میں عصری علوم کے ماہرین بھی شامل ہوں اور اس موضوع پر بحث کی جائے۔
✿ جو نتیجہ تحقیق اور شرح صدر کے بعد نکلے، اسی کو پوری تحقیق کے ساتھ نافذ کیا جائے اور کسی سے خوف نہ کھایا جائے تاکہ اس اشتباہ اور مشکل کو دور کیا جاسکے۔
✿ لیکن فی الحال میں اس مسئلہ میں کوئی واضح رائے دینے سے قاصر ہوں۔ والله أعلم بالصواب
ابو القاسم عفی اللہ عنہ کی وضاحت
ابوالقاسم عفی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
✿ میں نے اس مسئلہ پر اپنے برادرِ محترم سے تبادلہ خیال کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ ہر حال میں اس سے اجتناب کیا جائے۔
✿ اگرچہ ہم یہ مان بھی لیں کہ دیگر اجزاء کے ملنے سے نشہ زائل ہوجاتا ہے، تب بھی نبی ﷺ نے نشہ کو بیماری قرار دیا ہے۔
✿ جو چیز خود بیماری ہے وہ بیماری کو کیسے دور کرسکتی ہے؟
✿ مزید یہ کہ نبی ﷺ نے نشہ آور چیز کو دوا قرار نہیں دیا۔
✿ اگر تمام اطباء اور ڈاکٹروں کا اتفاق بھی ہوجائے کہ یہ شفا ہے تو بھی ہم اسے نہیں مانیں گے کیونکہ نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر سچا کوئی نہیں۔
ہمارا عقیدہ
✿ یہی ہمارا مسلک، عقیدہ اور ایمان ہے۔
✿ راہِ راست پر چلنے والے بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔
✿ اگر کوئی یہ جرات کرے کہ ڈاکٹروں کی بات کو صحیح سمجھے اور نبی ﷺ کی بات کو غلط، تو اسے اپنے ایمان پر غور اور نوحہ کرنا چاہیے۔
✿ حق بات صرف اللہ ہی فرماتے ہیں اور وہی راہِ راست کی ہدایت دینے والے ہیں۔
ممکنہ سوال اور اس کا جواب
سوال: اگر ان ادویات سے علاج ہورہا ہے تو پھر کیا حرج ہے؟
جواب:
✿ اللہ تعالیٰ نے زمین میں بے شمار حلال اشیاء، معدنیات اور جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جن سے علاج ممکن ہے۔
✿ پھر ہم حلال کو چھوڑ کر حرام کی طرف کیوں جائیں؟
✿ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج:٧٨)
’’اللہ نے تمہارے دین میں تم پر کوئی سختی نہیں کی۔‘‘
✿ لہٰذا حرج کا تصور نہ کریں، بلکہ کتاب و سنت کی اتباع میں پختہ ارادہ اور سچی نیت اختیار کریں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب