نماز برائے ادائیگی قرض
ادائیگی قرض کی نماز کے متعلق ایک جھوٹی روایت آتی ہے، جس پر بنیاد نہیں ڈالی جا سکتی، لہذا یہ نماز بدعت ہے۔
❀ سیدنا نبیط بن شریط رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
علمني جبريل دعاء في الدين، فقال من أصابه دين فليتوضأ وليصل إذا زالت الشمس أربع ركعات وليقرأ في كل ركعة الحمد لله وقل هو الله أحد وآية الكرسي فإذا سلم قال: اللهم مالك الملك إلى قوله: بغير حساب ثم يقول: يا فارج الهم يا كاشف الغم يا مجيب دعوة المضطرين، يا رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما، ارحمني رحمة تغنيني بها عن رحمة من سواك واقض ديني، فإن الله يقضي عنه دينه وفيها اسم الله الأعظم
”جبریل نے مجھے قرض کی دعا سکھلائی اور کہا: جسے قرض کی پریشانی ہو، وہ سورج ڈھلنے کے بعد وضو کر کے چار رکعت ادا کرے، ہر رکعت میں سورت فاتحہ، سورت اخلاص اور آیۃ الکرسی پڑھے، سلام پھیرنے کے بعد پڑھے: ﴿اللهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ … بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ ، پھر کہے: اے پریشانیاں دور کرنے والے، غم ٹالنے والے مصیبت زدہ کی پکار سننے والے، دنیا و آخرت میں رحمن و رحیم! مجھ پر رحم فرما، تو اپنے علاوہ ہر ایک کی رحمت سے مستغنی کر دے، میرا قرض چکا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کے لیے ادائیگی قرض کے اسباب مہیا فرمائے گا، اس میں اسم اعظم بھی ہے۔“
(ذيل اللآلي المصنوعة للسيوطي، ص 201، تنزيه الشّريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لابن عراق الكناني : 330/2)
روایت جھوٹی ہے۔
➊ ابوحسن احمد بن القاسم بن کثیر بن صدقہ بن ریان کی ضعیف ہے۔
❀ اسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”ضعیف“ کہا ہے۔
(الموتلف ع المختلف : 1083/2)
❀ ابومحمد حسن بن علی زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالمرضي
”پسندیدہ نہیں۔“
(سؤالات السهمي، ص 149، الرقم : 152)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
له جزء سمعناه فيه ما ينكر
”اس کا ایک جز ہے، ہم نے اس میں منکر روایتیں سنی ہیں۔“
(سير أعلام النبلاء : 113/16)
➋ احمد بن اسحاق بن ابراہیم بن نبیط بن شریط کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عن أبيه، عن جده بنسخة فيها بلايا سمعناها من طريق أبي نعيم عن اللكي عنه: لا يحل الاحتجاج به، فإنه كذاب
”اس کے باپ اور دادا کی سند سے ایک نسخہ تھا، جس میں مصیبتیں تھیں، اس کا ہم نے ابو نعیم عن اللکی کے طریق سے سماع کیا، اس سے دلیل پکڑنی جائز نہیں ہے، یہ جھوٹا ہے۔“
(میزان الاعتدال : 82/1-83، المغني في الضعفاء : 72/1)