اسلام میں کسی بھی عبادت یا نیک عمل کی قبولیت کے لیے چند بنیادی شرائط ہیں۔ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو بظاہر نیک اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتے۔ دینِ اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لیے، نبی ﷺ کی شریعت کے مطابق، اور خالص نیت کے ساتھ انجام دی جائے۔ یہی اخلاص ہے — اور اسی کے بغیر کوئی بھی عبادت مردہ جسم کی مانند ہے جس میں روح نہیں۔
اعمال کی قبولیت کی تین شرائط
➊ پہلی شرط:
عمل کرنے والا موحد ہو — یعنی اللہ کی وحدانیت کا دل سے اقرار کرے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔ اگر انسان شرک کرتا ہو تو اس کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
➋ دوسری شرط:
نیت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے قرب کے لیے ہو، دکھاوے یا شہرت کے لیے نہیں۔ اس کو اخلاص کہا جاتا ہے۔
➌ تیسری شرط:
عمل قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ ایسا عمل جو نبی ﷺ کی شریعت سے ثابت نہ ہو، وہ مردود ہے۔
نبی ﷺ کی واضح ہدایت
( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ )
[صحیح البخاری: 2697، صحیح مسلم: 1718]
ترجمہ: "جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس کا حصہ نہیں، وہ مردود ہے۔”
ایک اور روایت میں فرمایا:
( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ )
[صحیح مسلم: 1718]
ترجمہ: "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں، وہ مردود ہے۔”
اخلاص کا مفہوم
لفظ اخلاص لغت میں “چھانٹنے” یا “ملاوٹ سے پاک کرنے” کے معنی میں ہے۔
شرعی لحاظ سے اخلاص کا مطلب ہے کہ بندہ اپنی عبادت میں صرف اللہ کی رضا کا طالب ہو، کسی دنیاوی مقصد — جیسے تعریف، شہرت، مال یا عزت — کو شامل نہ کرے۔
یعنی بندے کے دل میں اللہ کی محبت، اس کے حکم پر عمل اور اس کی مغفرت و رضا کی طلب ہو۔
دنیاوی مفادات اس نیت میں شامل نہ ہوں۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کی وضاحت
"جب بندہ یہ یقین رکھ کر عمل کرے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے، وہ اس کے قریب ہے اور اس پر مطلع ہے، تو وہ مخلص ہوتا ہے۔ یہی کیفیت انسان کو غیراللہ کی طرف متوجہ ہونے سے روکتی ہے۔”
[جامع العلوم والحکم: 129/1]
امام ابو عثمان نیسابوری رحمہ اللہ کے مطابق اخلاص کے چار اجزاء
① نیت میں صرف اللہ کی رضا کا ارادہ ہو۔
② عمل کو اللہ کی توفیق کا احسان سمجھا جائے تاکہ خود پسندی ختم ہو۔
③ عمل میں نرمی اور ٹھہراؤ اختیار کیا جائے، جلد بازی سے بچا جائے۔
④ عمل مکمل ہونے کے بعد دل میں قبولیت کا خوف ہو کہ کہیں اللہ رد نہ کر دے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَالَّذِیْنَ یُؤتُوْنَ مَآ اٰتَوا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ ﴾
[المؤمنون: 60]
ترجمہ: "جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں، اس حال میں کہ ان کے دل ڈر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔”
اخلاص کی روح اور اہمیت
❀ اخلاص ہر عبادت کی روح ہے۔
جیسے جسم روح کے بغیر مردہ ہوتا ہے، ویسے ہی عبادت اخلاص کے بغیر مردہ ہے۔
❀ اخلاص دل کا عمل ہے۔
یہ دل کو منور کرتا ہے، جبکہ بے اخلاص دل تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ ، وَلٰکِنْ یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ )
[صحیح مسلم: 2564]
ترجمہ: "اللہ تمہاری صورتوں اور مال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔”
اخلاص کی قرآنی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر اخلاص کو ایمان اور عبادت کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس کے بغیر دین ناقص اور اعمال بے وزن ہیں۔
❶ قرآن میں اخلاص کا حکم
﴿ وَمَآ اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَیُؤتُوْا الزَّکَاۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾
[البیّنۃ: 5]
ترجمہ: "انہیں صرف یہ حکم دیا گیا کہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اس کے لیے خالص رکھتے ہوئے، شرک سے دور رہیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ یہی سیدھا اور درست دین ہے۔”
اس آیت میں پانچ احکامات بیان ہوئے ہیں:
① عبادت صرف اللہ کی ہو۔
② دین کو اس کے لیے خالص رکھا جائے۔
③ غیر اللہ سے منہ موڑ کر یکسوئی اختیار کی جائے۔
④ نماز کو باقاعدگی سے ادا کیا جائے۔
⑤ زکوٰۃ ادا کی جائے۔
آخر میں فرمایا گیا:
﴿ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾
یعنی یہی خالص اور درست دین ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اخلاص دینِ اسلام کی بنیاد ہے، اور جس میں اخلاص نہیں، اس کا دین بھی بے روح ہے۔
❷ دین خالص صرف اللہ کے لیے ہے
﴿ اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ﴾
[الزمر: 3]
ترجمہ: "سن لو! خالص دین صرف اللہ کے لیے ہے۔”
یعنی وہی دین اللہ کے نزدیک مقبول ہے جو ریاکاری اور شرک سے پاک ہو۔
❸ عمل کی قبولیت اخلاص پر موقوف ہے
ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا:
"یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص جہاد میں اجر بھی چاہے اور ساتھ شہرت بھی، تو اسے کیا ملے گا؟”
نبی ﷺ نے فرمایا:
( لَا شَیْیٔ ) — "اسے کچھ بھی نہیں ملے گا۔”
یہ بات آپ ﷺ نے تین بار دہرائی، پھر فرمایا:
( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُہُ )
[سنن النسائی: 3140، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے جو صرف اسی کے لیے خالص ہو اور جس میں اس کی رضا مطلوب ہو۔”
❹ نبی ﷺ کو بھی اخلاص کا حکم
﴿ قُلْ اِِنِّیٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ ﴾
[الزمر: 11]
ترجمہ: "آپ کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، دین کو اسی کے لیے خالص رکھتے ہوئے۔”
جب نبی ﷺ کو یہ حکم دیا گیا تو یقیناً یہ حکم آپ ﷺ کی امت کے لیے بھی ہے۔
❺ دنیا کی حقیقت — خالص عمل ہی مقبول ہے
نبی ﷺ نے فرمایا:
( اَلدُّنْیَا مَلْعُونَۃٌ مَلْعُونٌ مَّا فِیْہَا، إِلَّا مَا ابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ )
[صحیح الترغیب والترہیب: 9]
ترجمہ: "دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہے، سوائے اس کے جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔”
یعنی وہی کام قابلِ قدر ہے جو خالص نیت سے کیا جائے۔
❻ نبی ﷺ کی نماز کے بعد اخلاص کی دعا
رسول اکرم ﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
( لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ … لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ )
[صحیح مسلم: 594]
ترجمہ: "اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہیں، خواہ کافروں کو ناگوار گزرے۔”
یہ دعا اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ہر عبادت کے بعد اخلاص کا اقرار اور حفاظت ضروری ہے۔
❼ سچے مومن وہ ہیں جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہیں
﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤمِنِیْنَ ﴾
[النساء: 146]
ترجمہ: "وہ لوگ جو توبہ کریں، اپنی اصلاح کریں، اللہ سے وابستہ ہوں، اور اپنا دین خالصتاً اللہ کے لیے کریں، یہی لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے۔”
اللہ تعالیٰ نے ان چار صفات — توبہ، اصلاح، اللہ سے تعلق، اور اخلاص — کو ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔
❽ نیت اور اخلاص کا تعلق
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوَی )
[صحیح البخاری: 1، صحیح مسلم: 1907]
ترجمہ: "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔”
اسی بنا پر اگر نیت خالص ہو تو عمل مقبول ہوتا ہے، اور اگر نیت ریا کی ہو تو عمل ضائع ہو جاتا ہے۔
مختلف عبادات میں اخلاص کی اہمیت
اخلاص تمام عبادات کی روح ہے۔ اگر نیت میں ریا، خود نمائی، یا دنیاوی غرض شامل ہو تو نیکیوں کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ نبی ﷺ نے کئی مواقع پر واضح فرمایا کہ عمل کی قدر نیت پر منحصر ہے۔
ذیل میں ہم چند اہم عبادات کا ذکر کرتے ہیں جن میں اخلاص کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔
❶ علمِ دین سیکھنے میں اخلاص
ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ، لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلَّا لِیُصِیْبَ بِہٖ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا، لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )
[سنن أبی داوُد: 3664، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "جو شخص ایسا علم سیکھے جو اللہ کی رضا کے لیے سکھایا جاتا ہے، مگر وہ اسے دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے سیکھے، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔”
یہ حدیث اہلِ علم اور طلبہ دونوں کے لیے انتباہ ہے کہ علم کا مقصد اللہ کی رضا ہو، نہ کہ شہرت، بحث یا دنیاوی عزت۔
❷ توحید و عقیدہ میں اخلاص
حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ شَہِدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِہٖ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ )
[مسند أحمد: 22195، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "جس نے دل کی گہرائی سے خالص نیت کے ساتھ لا إلہ إلا اللہ کی گواہی دی، وہ جنت میں داخل ہو گیا۔”
ایک اور روایت میں ہے:
( إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ )
[صحیح البخاری: 425، صحیح مسلم: 33]
ترجمہ: "اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر جہنم کو حرام کر دیا جو صرف اللہ کی رضا کے لیے لا إلہ إلا اللہ کہے۔”
❸ نماز میں اخلاص
نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا فِیْ جَمَاعَۃٍ یُدْرِکُ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلٰی، کُتِبَتْ لَہُ بَرَاءَتَانِ: بَرَاءَۃٌ مِنَ النَّارِ وَبَرَاءَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ )
[سنن الترمذی: 241، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "جو شخص خالص نیت سے چالیس دن تک باجماعت نماز اس طرح پڑھے کہ تکبیرِ اولی فوت نہ ہو، اس کے لیے جہنم اور نفاق دونوں سے براءت لکھ دی جاتی ہے۔”
❹ سجدوں میں اخلاص
حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ، فَإِنَّکَ لَا تَسْجُدُ لِلّٰہِ سَجْدَۃً إِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً، وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیْئَۃً )
[صحیح مسلم: 488]
ترجمہ: "زیادہ سجدے کرو، کیونکہ جب بھی تم اللہ کی رضا کے لیے سجدہ کرتے ہو، اللہ تمہارا ایک درجہ بلند اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔”
❺ مسجد کی تعمیر میں اخلاص
حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا یَبْتَغِیْ بِہٖ وَجْہَ اللّٰہِ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ مِثْلَہُ فِی الْجَنَّۃِ )
[صحیح البخاری: 439، صحیح مسلم: 533]
ترجمہ: "جو شخص اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے اسی طرح کا گھر بنا دیتا ہے۔”
یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر نیت ریا کی ہو — یعنی شہرت یا نام کی خاطر — تو وہ عمل بے قدر ہے۔
❻ انفاق فی سبیل اللہ میں اخلاص
﴿ وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ كَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ ﴾
[البقرۃ: 265]
ترجمہ: "جو لوگ اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایک اونچی جگہ کے باغ جیسی ہے جو موسلا دھار بارش سے دوگنا پھل دیتا ہے۔”
یعنی اللہ تعالیٰ انفاقِ خالص کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
❼ بھائی چارے اور محبت میں اخلاص
نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ وَأَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِیْمَانَ )
[سنن أبی داوُد: 4681، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "جو اللہ کے لیے محبت کرے، اللہ کے لیے دشمنی رکھے، اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے روکے — اس نے ایمان مکمل کر لیا۔”
❽ جنازے کی دعا میں اخلاص
نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوا لَہُ الدُّعَاءَ )
[سنن أبی داوُد: 3199، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "جب تم میت پر نماز پڑھو تو اس کے لیے خالص دل سے دعا کرو۔”
❾ غصہ ضبط کرنے میں اخلاص
نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَا مِنْ جُرْعَۃٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ جُرْعَۃِ غَیْظٍ، كَظَمَہَا عَبْدٌ ابْتِغَاءَ وَجْہِ اللّٰہِ )
[سنن ابن ماجہ: 4189، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "اللہ کے نزدیک سب سے بڑے اجر والا گھونٹ وہ ہے جو بندہ صرف اللہ کی رضا کے لیے اپنا غصہ پی لے۔”
اخلاص کے مزید مظاہر اور اس کے عظیم ثمرات
اخلاص بندے کے اعمال کو نور بخشتا ہے، ان میں وزن پیدا کرتا ہے، اور اللہ کے ہاں انہیں قبولیت عطا کرتا ہے۔ قرآن و سنت میں ایسے کئی اعمال بیان کیے گئے ہیں جن میں اخلاص کے نتیجے میں انسان کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوتی ہیں۔
❶ قربانی میں اخلاص
حضرت جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے قربانی کے دن دو مینڈھے ذبح کیے، جب آپ ﷺ نے انہیں لٹایا تو یہ دعا پڑھی:
( إِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ عَلٰی مِلَّةِ إِبْرَاهِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ، إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِهِ )
[سنن أبی داوُد: 2795، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر، اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ میری نماز، قربانی، زندگی اور موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اے اللہ! یہ قربانی تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے، محمد ﷺ اور ان کی امت کی جانب سے۔”
یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ قربانی ہو یا کوئی اور عبادت، نیت صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔
❷ حج میں اخلاص
انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک پرانے کجاوے پر حج کیا اور ایسی چادر اوڑھی جس کی قیمت چار درہم سے بھی کم تھی۔ پھر فرمایا:
( اَللّٰهُمَّ حَجَّةً لَا رِيَاءَ فِيهَا وَلَا سُمْعَةَ )
[سنن ابن ماجہ: 2890، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "اے اللہ! یہ حج ایسا بنا دے کہ اس میں نہ ریا ہو اور نہ نام و نمود۔”
اخلاص ہی وہ بنیاد ہے جو حج کو مقبول بناتی ہے، ورنہ سفر، خرچ اور محنت سب ضائع ہو جاتے ہیں۔
❸ صبر میں اخلاص
﴿ وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴾
[الرعد: 22]
ترجمہ: "جو لوگ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، خفیہ و علانیہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، ان ہی کے لیے اچھا انجام ہے۔”
صبر اگر خالص اللہ کے لیے ہو تو وہ نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔
❹ تواضع میں اخلاص
نبی ﷺ نے فرمایا:
( وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰہُ )
[صحیح مسلم: 2588]
ترجمہ: "جو شخص اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ اسے بلند مقام عطا کرتا ہے۔”
عاجزی کا مطلب صرف ظاہری نرم مزاجی نہیں بلکہ دل میں خود کو کم تر سمجھنا اور اللہ کی کبریائی کا اقرار کرنا ہے۔
❺ دعا اور نیکی میں اخلاص کے ثمرات
اخلاص کی برکت سے دعا قبول ہوتی ہے اور نیکی میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جو خالص نیت سے مانگتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔
❻ دنیا و آخرت میں بلند درجہ
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِیْ بِهِ وَجْهَ اللّٰہِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً )
[صحیح البخاری: 3936، صحیح مسلم: 1628]
ترجمہ: "تمہیں اگر زندگی دی گئی اور تم اللہ کی رضا کے لیے کوئی عمل کرو گے، تو اللہ اس کے بدلے تمہارا درجہ بلند کرے گا۔”
❼ خوف و غم سے نجات
﴿ بَلٰى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰہِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾
[البقرۃ: 112]
ترجمہ: "جو شخص اللہ کے حضور جھک جائے اور نیکی کرے، اس کے لیے اس کے رب کے ہاں اجر ہے، اور ایسے لوگوں پر نہ خوف ہو گا نہ غم۔”
❽ مصیبتوں سے نجات — اصحابِ غار کا واقعہ
نبی ﷺ نے تین آدمیوں کا واقعہ بیان فرمایا جو غار میں پھنَس گئے۔ انہوں نے اللہ سے عرض کیا:
( اَللّٰهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ )
ترجمہ: "اے اللہ! اگر میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔”
ہر ایک نے اپنا خالص عمل پیش کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے غار کا پتھر ہٹا دیا۔
[صحیح البخاری: 2272، صحیح مسلم: 2743]
یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ اخلاص مصیبتوں سے نجات کا سبب بنتا ہے۔
❾ گناہوں سے حفاظت
﴿ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴾
[یوسف: 24]
ترجمہ: "ہم نے اسے برائی اور بے حیائی سے اس لیے بچا لیا کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔”
یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ مخلص بندہ خود بخود اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے۔
اخلاص کے مزید فضائل اور عظیم انعامات
اخلاص بندے کے ایمان کی علامت اور اس کی نجات کا ذریعہ ہے۔ قرآن و سنت میں مخلصین کے لیے جو وعدے اور انعامات بیان ہوئے ہیں، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے قیمتی چیز بندے کا خالص دل ہے۔
❶ شیطان کے شر سے نجات
جب ابلیس نے انسان کو گمراہ کرنے کا عزم کیا تو اس نے کہا:
﴿ قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴾
[الحجر: 39–40]
ترجمہ: "ابلیس نے کہا: اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے بہکایا ہے، میں زمین میں ان کے لیے (گناہ) خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گا، سوائے تیرے اُن بندوں کے جو مخلص ہیں۔”
یعنی مخلص بندے شیطان کے فریب سے محفوظ رہتے ہیں، کیونکہ ان کی نیت صرف اللہ کی رضا ہوتی ہے۔
❷ خاتمہ بالخیر اور جنت کا وعدہ
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللّٰهِ، خُتِمَ لَهُ بِهَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ… )
[مسند أحمد: 23324، صحیح الترغیب والترہیب: 985]
ترجمہ: "جس شخص نے اللہ کی رضا کے لیے ‘لا إلہ إلا اللہ’ کہا اور اسی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور جس نے اللہ کی رضا کے لیے روزہ رکھا یا صدقہ دیا اور اسی پر موت آئی، وہ بھی جنت میں جائے گا۔”
یعنی اخلاص کے ساتھ کیے گئے اعمال خاتمہ بالخیر کا سبب بنتے ہیں۔
❸ دل کی پاکیزگی
نبی ﷺ نے فرمایا:
( ثَلَاثٌ لَا يَغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُؤْمِنٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلّٰهِ، وَالنَّصِيحَةُ لِوُلَاةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ )
[سنن الترمذی: 2658، صحیحہ الألبانی]
ترجمہ: "تین چیزوں کی موجودگی میں مومن کے دل میں کینہ نہیں رہتا:
(1) اللہ کے لیے عمل کو خالص کرنا،
(2) مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے خیر خواہی،
(3) ان کی جماعت سے وابستہ رہنا۔”
اخلاص دل سے حسد، بغض اور ریا جیسے امراض کو دور کر دیتا ہے۔
❹ اللہ کے عذاب سے نجات
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُنْذِرِينَ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ إِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِينَ ﴾
[الصافات: 72–74]
ترجمہ: "ہم نے ان (قوموں) میں ڈرانے والے بھیجے، پھر دیکھو جنہیں ڈرایا گیا ان کا انجام کیا ہوا! مگر اللہ کے مخلص بندوں کو (عذاب سے) بچا لیا گیا۔”
یعنی مخلصین وہ ہیں جو اللہ کے غضب سے محفوظ رہتے ہیں۔
❺ قیامت کے دن عرش کے سائے تلے جگہ
نبی ﷺ نے فرمایا:
( سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ… وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ )
[صحیح البخاری: 660، صحیح مسلم: 1031]
ترجمہ: "سات افراد ایسے ہوں گے جنہیں اللہ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے صدقہ اتنے خفیہ انداز سے دیا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔”
یہ حدیث اخلاص کی اعلیٰ ترین صورت کو بیان کرتی ہے — ایسی نیکی جو صرف اللہ کے لیے ہو، حتیٰ کہ انسان خود بھی اس پر فخر نہ کرے۔
❻ جہنم سے نجات اور جنت میں عزت
﴿ إِنَّكُمْ لَذَائِقُو الْعَذَابِ الْأَلِيمِ وَمَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِينَ أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ فَوَاكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴾
[الصافات: 38–43]
ترجمہ: "یقیناً تم عذاب چکھو گے اور تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، مگر اللہ کے مخلص بندے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کے لیے معلوم رزق ہے، وہ عزت کے ساتھ نعمتوں بھری جنتوں میں ہوں گے۔”
یہ اعلان مخلصین کے لیے ابدی کامیابی کی خوشخبری ہے۔
❼ دنیا و آخرت میں کامیابی
اخلاص کی بدولت انسان کو دنیا میں سکونِ قلب، عزت، نیکی میں استقامت، اور آخرت میں جنت نصیب ہوتی ہے۔
مخلص بندہ اللہ کے نزدیک محبوب ہوتا ہے، اس کے اعمال میں برکت آتی ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں مقبول ہو جاتا ہے۔
نتیجہ
اخلاص ایمان کا جوہر اور عبادت کی بنیاد ہے۔
جو شخص خالص نیت سے اللہ کی رضا چاہتا ہے، وہی اللہ کے ہاں کامیاب ہے۔
جبکہ ریاکار شخص دنیا میں تعریف تو پا سکتا ہے، مگر آخرت میں اس کا حصہ کچھ نہیں۔
لہٰذا ہر مومن کو لازم ہے کہ وہ اپنے ہر عمل سے پہلے نیت درست کرے،
ہر عبادت کے بعد اللہ سے قبولیت مانگے،
اور ریاکاری سے پناہ طلب کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تمام اعمال میں اخلاص نصیب فرمائے،
ریاکاری، خود پسندی اور دکھاوے سے محفوظ رکھے،
اور ہمیں ان مخلص بندوں میں شامل فرمائے جن کے لیے جنت کی بشارت ہے۔
آمین یا رب العالمین۔