احرام کے کپڑوں میں نجاست ہو تو عمرہ صحیح ہے یا نہیں؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

احرام کے کپڑے میں نجاست کا لگ جانا: عمرے کے بعد معلوم ہو تو کیا حکم ہے؟

سوال:

اگر کسی شخص کو عمرہ مکمل کرنے کے بعد یہ معلوم ہو کہ اس کے احرام کے کپڑوں کو نجاست لگی ہوئی تھی، تو ایسی صورت میں اس کے عمرے، طواف اور سعی کا کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر عمرہ کرنے کے بعد کسی کو یہ علم ہو کہ اس کے احرام کے کپڑوں پر نجاست لگی ہوئی تھی، تو اس کا عمرہ، طواف اور سعی سب درست ہیں۔ کیونکہ:

✿ اگر انسان کو نجاست کے بارے میں معلوم نہ ہو یا علم ہونے کے باوجود بھول جائے اور انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لے، تو اس کی نماز درست ہوتی ہے۔

✿ اسی طرح اگر انہی کپڑوں میں اس نے طواف کیا ہو، تو اس کا طواف بھی درست مانا جائے گا۔

اس کی دلیل قرآن سے:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا﴾
(سورة البقرة: 286)
’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘

یہ آیت ایک عمومی اصول فراہم کرتی ہے، جس کے تحت انسان کی غلطی یا بھول کے باعث اس پر مواخذہ نہیں ہوتا۔

ایک مخصوص دلیل حدیث سے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ عادتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں سمیت نماز پڑھتے تھے، مگر اس دن نماز کے دوران آپ نے اپنے جوتے اتار دیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کو دیکھ کر جوتے اتار دیے۔

نماز مکمل ہونے کے بعد آپ نے ان سے پوچھا:

«مَا شَأْنُکُمْ؟»
’’تمہیں کیا ہوا؟‘‘

انہوں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو جوتے اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی جوتے اتار دیے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اِنَّ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ اَتَانِی فَأَخْبَرَنِی اَنَّ فِيْهِمَا خبثا»
(سنن ابی داؤد، الصلاة، باب الصلاة فی النعال، ح: ۶۵۰)
’’بے شک جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ میرے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے۔‘‘

اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو دوبارہ نہیں پڑھایا، حالانکہ آپ نے نماز کا ابتدائی حصہ انہی جوتوں میں ادا کیا تھا جن میں نجاست تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھول یا لاعلمی کی حالت میں ناپاک کپڑوں میں نماز ادا کرنا نماز کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا۔

ایک اور اہم مسئلہ:

اگر کوئی شخص اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کیے بغیر نماز پڑھ لے، اس گمان میں کہ اس نے بکری کا گوشت کھایا ہے، تو جب اسے بعد میں علم ہو کہ وہ گوشت دراصل اونٹ کا تھا، تو اسے نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔

اس پر اشکال اور اس کا جواب:

بعض لوگ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ:

✿ اگر بھول یا لاعلمی کی حالت میں ناپاک کپڑوں میں نماز درست ہے، تو پھر گوشت کے معاملے میں نماز کیوں دہرائی جاتی ہے؟

اس کا جواب درج ذیل قاعدے کی روشنی میں ہے:

مامورات (جن باتوں کا حکم ہے) جہالت اور نسیان کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتیں، جبکہ منہیات (جن سے روکا گیا ہے) جہالت اور نسیان کی وجہ سے ساقط ہو جاتی ہیں۔

اس قاعدے کی دلیل:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْْ نَامَ عن صلاة أو نسيهافلييُصَلِّيَهَا إِذَا ذَکَرَهَا»
(صحیح البخاری، المواقيت، باب من نسی صلاة فليصل اذا ذکر، ح: ۵۹۷، صحیح مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة، ح: ۶۸۴ (۳۱۵)، واللفظ له)
’’جو شخص کسی نماز کے وقت سوجائے یا اس کے ذہن سے نماز کا خیال جاتا رہے تو وہ اسے اسی وقت پڑھ لے جب اسے یاد آئے۔‘‘

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ نسیان کے سبب مامورات ساقط نہیں ہوتے، بلکہ جیسے ہی یاد آئے، عمل لازم ہوتا ہے۔

ایک اور مثال:

اگر کوئی شخص ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دے اور باقی نماز بھول جائے، تو جب یاد آئے، تو نماز مکمل کرے گا۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ نسیان کی حالت میں مامورات ساقط نہیں ہوتے، بلکہ واجب الادا رہتے ہیں۔

جہالت کی مثال:

ایک صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سامنے نماز پڑھی، مگر وہ نماز کا درست طریقہ نہیں جانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

«اِرْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ»
(صحیح البخاری، الاذان، باب وجوب القراءة، ح: ۷۵۷، صحیح مسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة فی کل رکعة، ح: ۳۹۷)
’’واپس جاؤ اور نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘

یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی، یہاں تک کہ آپ نے انہیں نماز کا صحیح طریقہ سکھایا اور تب ان کی نماز درست ہوئی۔ اس صحابی نے عرض کیا:

’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں اس سے بہتر طریقے سے نماز نہیں پڑھ سکتا، لہٰذا آپ مجھے نماز سکھا دیجیے۔‘‘

اگر جہالت کے باعث مامورات ساقط ہو جاتے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں معذور سمجھتے، لیکن آپ نے نماز کا واجب سیکھنے کا حکم دیا۔ یہ قاعدہ علم حاصل کرنے والے کے لیے نہایت اہم ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے