احرام کی دو رکعتیں سنت یا بدعت؟
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب غیر مسنون نفلی نمازیں سے ماخوذ ہے۔

احرام کی دو رکعتیں

احرام کی نماز ثابت نہیں، اس کی مشروعیت پر کوئی واضح دلیل نہیں، بعض متاخرین علما کے نزدیک احرام کی دو رکعتیں مشروع اور مستحب ہیں۔ ان کی دلیل حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہے:
صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فى المسجد.
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی۔
(صحیح مسلم: 1218)
ایک دلیل یہ بھی ہے۔
❀ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووادی عقیق میں فرماتے سنا:
أتاني الليلة آت من ربي، فقال: صل فى هذا الوادي المبارك وقل: عمرة فى حجة.
رات میرے پاس رب کی طرف سے فرشتہ آیا اور کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھیے! اور کہیں کہ عمرہ حج میں شامل ہو گیا ہے۔
(صحيح البخاري: 1534)
اس سے مراد فرض نماز ہے۔ سلف میں سے کوئی بھی احرام کی نماز کا قائل نہیں۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں:
ليس للإحرام صلاة تخصه وهذا أرجح.
احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں، یہی راجح ہے۔
(مجموع الفتاوى: 109/26)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751 ھ) فرماتے ہیں:
لم ينقل عنه أنه صلى للإحرام ركعتين غير فرض الظهر.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر کے علاوہ احرام کی دو رکعت پڑھنا ثابت نہیں۔
(زاد المعاد في هدي خير العباد: 107/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے