حالت احرام میں جماع کرنے والے جاہل شخص کا حکم
سوال:
ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو احرام کی حالت میں جماع کرتا ہے، جبکہ اسے اس بات کا علم نہیں کہ احرام میں جماع کرنا حرام ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات معلوم و معروف ہے کہ حالت احرام میں جماع کرنا سختی سے ممنوع ہے۔ بلکہ یہ ان بڑے ممنوعات میں شامل ہے جن سے احرام کی حالت میں بچنا لازم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الحَجُّ أَشهُرٌ مَعلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الحَجِّ﴾ (سورۃ البقرہ، آیت 197)
’’حج کے مہینے (مقرر) ہیں، جو ان میں حج کی نیت کرے، وہ حج کے دوران نہ عورتوں سے اختلاط کرے، نہ گناہ کرے اور نہ جھگڑے۔‘‘
◈ یہاں ﴿رَفَثَ﴾ کا مطلب جماع اور اس سے متعلق ابتدائی افعال ہیں۔
◈ احرام کی حالت میں جماع کرنا ان سنگین ترین امور میں شامل ہے جو ممنوع ہیں۔
اگر احرام کی حالت میں جماع پہلی بار حلال ہونے سے پہلے ہو:
تو اس کے درج ذیل احکام ہوں گے:
➊ حج فاسد ہو جائے گا، چاہے وہ فرض ہو یا نفل، دونوں صورتوں میں ادا نہ ہوگا۔
➋ اس فعل پر گناہ لازم ہوگا۔
➌ اگرچہ حج فاسد ہو جائے، پھر بھی اسے مکمل کرنا ہوگا اور اس فاسد حج کے تمام افعال اسی طرح ادا کرنا ہوں گے جیسے صحیح حج کے لیے کیے جاتے ہیں۔
➍ اگلے سال اس حج کی قضا لازم ہوگی، چاہے وہ فرض حج ہو یا نفل۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ﴾ (سورۃ البقرہ، آیت 196)
’’اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ کو مکمل کرو۔‘‘
اسی لیے فاسد حج کی قضا بھی لازم ہوگی۔
➎ کفارہ کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر کے مکہ کے فقراء میں تقسیم کیا جائے۔ اگر اونٹ نہ ہو تو سات بکریاں ذبح کرنا بھی جائز ہے۔
اگر جماع پہلی بار حلال ہونے کے بعد کیا جائے:
تو اس کے احکام مختلف ہوں گے:
◈ گناہ لازم ہوگا۔
◈ احرام فاسد ہو جائے گا، لیکن حج فاسد نہیں ہوگا۔
◈ کفارہ میں سے کوئی ایک چیز لازم ہوگی:
❀ ایک بکری ذبح کر کے فقراء میں تقسیم کی جائے۔
❀ یا چھ مسکینوں کو نصف صاع گندم یا کھانے کی اشیاء دی جائیں (فی کس)۔
❀ یا تین روزے رکھے جائیں۔
◈ ان تینوں میں سے کوئی ایک عمل کرنے کا اختیار ہوگا۔
◈ ساتھ ہی اسے قریب ترین حل کی جگہ (میقات) سے نیا احرام باندھ کر طوافِ افاضہ کرنا ہوگا۔
تحللِ اول (پہلی حلت) کب حاصل ہوتا ہے؟
تحللِ اول حاصل ہوتا ہے جب حاجی عید کے دن جمرہ عقبہ کو کنکریاں مار دے اور سر کے بال منڈوائے یا کٹوائے۔ اس کے بعد احرام کی حالت ختم ہو جاتی ہے، سوائے بیوی سے تعلقات کے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
«كُنْتُ أُطَيِّبُ النَّبِيِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِحْرَامِهِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ»
(صحیح البخاری، الحج، باب الطیب عند الاحرام، حدیث: 1539
صحیح مسلم، الحج، باب الطیب للمحرم عند الاحرام، حدیث: 1189، 33)
◈ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحلل اول کنکریاں مارنے اور سر منڈوانے سے حاصل ہوتا ہے۔
◈ اگر تحلل اول سے پہلے جماع ہو تو اوپر بیان کردہ پانچ احکام لاگو ہوں گے۔
◈ اگر تحلل اول کے بعد ہو تو صرف کفارہ اور گناہ ہوگا، اور حج فاسد نہیں ہوگا۔
اگر کسی شخص نے جہالت کے باعث جماع کیا ہو:
یعنی اسے معلوم ہی نہ ہو کہ احرام میں جماع حرام ہے، تو:
◈ اس پر کوئی گناہ یا کفارہ واجب نہیں ہوگا، چاہے وہ تحلل اول سے پہلے جماع کرے یا بعد میں۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا﴾ (سورۃ البقرہ، آیت 286)
’’اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول چوک ہو گئی ہو تو ہمیں نہ پکڑیے۔‘‘
﴿وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ (سورۃ الاحزاب، آیت 5)
’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہو جائے اس پر تم پر کوئی گناہ نہیں، البتہ جو تمہارے دل سے ارادہ ہو، اس پر مؤاخذہ ہوگا۔‘‘
اگر کسی شخص کو یہ علم ہو کہ جماع حرام ہے، لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ اس پر کفارہ یا فدیہ وغیرہ لازم آتے ہیں:
تو یہ عذر معتبر نہیں ہوگا۔
◈ شریعت میں حرام فعل کے احکام سے ناواقف ہونا معافی کا جواز نہیں بنتا، بشرطیکہ اسے اصل فعل کے حرام ہونے کا علم ہو۔
◈ مثال کے طور پر: اگر کوئی شادی شدہ مرد جانتا ہو کہ زنا حرام ہے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ اس کی سزا رجم ہے، تو اسے رجم کیا جائے گا، خواہ اسے سزا کا علم نہ ہو۔
◈ اسی طرح رمضان میں جماع کرنے والے شخص پر بھی نبی ﷺ نے کفارہ واجب کیا، حالانکہ اسے معلوم نہ تھا کہ کیا کفارہ دینا ہوگا۔
صحیح البخاری، الصوم، باب اذا جامع فی رمضان ولم یکن لہ شیء… حدیث: 1936
یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے اور اس کے احکام کی حرمت کو توڑے، اس پر ان افعال کے شرعی اثرات لاگو ہوں گے، چاہے اسے ان اثرات کا علم ہو یا نہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب