احتکار اور خریدی ہوئی چیز کی فروخت: شرعی حکم اور دلائل
ماخوذ: 📘 احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 378

احتکار کے مسئلہ کی وضاحت

سوال کا خلاصہ:

سائل نے دو اہم مسائل کی وضاحت درکار کی ہے:

احتکار (ذخیرہ اندوزی) کی حقیقت، حکم اور اس کے جواز یا ناجائز ہونے کی مختلف حالتیں، نیز اس پر دلائل کے ساتھ وضاحت۔
➋ حدیث نبوی ﷺ کے حوالے سے خریدی ہوئی چیز کو وہیں بیچنے کے جواز یا عدم جواز کی وضاحت۔

(1) احتکار: تعریف اور شرعی حکم

◉ احتکار کی تعریف:

عربی زبان میں "احتکار” مخصوص ذخیرہ اندوزی کو کہتے ہیں۔
لغت کی مشہور کتاب "القاموس” میں یہ تعریف آئی ہے:

«وَبِالتَّحْرِيْکِ مَا احْتُکِرَ اَیْ احْتُبِسَ اِنْتِظَارًا لِغَلاَئِهِ»
یعنی: "احتکار وہ ہے کہ کسی چیز کو روک کر رکھا جائے تاکہ وہ مہنگی ہو جائے۔”

اس سے مراد ایسی ذخیرہ اندوزی ہے جو صرف قیمت بڑھانے کے لیے کی جاتی ہے۔

◉ احتکار کی ممانعت:

احادیث میں "احتکار” کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض میں صرف طعام (کھانے کی چیزیں) کا ذکر ہے، جبکہ دیگر میں کوئی قید نہیں بلکہ مطلق احتکار کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"لفظِ طعام والی حدیث کو تنصیص علی فردٍ واحد (یعنی ایک خاص مثال پر توجہ دلانا) کے طور پر لیا جائے گا، نہ کہ تخصیص یا تقیید کے طور پر۔”

یعنی ایسی احادیث جن میں صرف طعام کا ذکر ہے، ان کا مقصد یہ نہیں کہ احتکار صرف کھانے کی چیزوں میں ناجائز ہے، بلکہ اس میں ہر وہ چیز شامل ہو گی جس کو روک کر اس کی قیمت بڑھائی جائے۔

◉ احتکار کا حکم قحط کے ساتھ مشروط ہے؟

بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ احتکار کی ممانعت قحط کی حالت کے ساتھ خاص ہے، یعنی اگر قحط کی حالت نہ ہو تو احتکار ناجائز نہیں۔

لیکن شرعی اصول کی رو سے نبی کریم ﷺ کا کوئی بھی حکم جب عموم پر وارد ہو تو وہ اپنے عموم پر ہی قائم رہتا ہے جب تک کوئی داخلی یا خارجی قرینہ اس عموم کو خاص نہ کر دے۔

لہٰذا:

✿ جب نبی کریم ﷺ نے مطلقاً احتکار سے منع فرمایا ہے تو یہ حکم ہر حالت پر لاگو ہوگا۔
✿ عقل یا قیاس سے اس عموم کو محدود کرنا جائز نہیں۔
✿ جب تک واضح دلیلِ شرعی نہ ہو، احتکار کو قحط تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔

◉ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احتکار کی نسبت؟

کچھ روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ سے احتکار کی صورتیں منقول ہیں، جبکہ وہی صحابہ حدیث احتکار کے راوی بھی ہیں۔

ایسی روایات کو درست طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے:

✿ اگر ان صحابہؓ کا فعل صحیح طور پر احتکار کے زمرے میں آتا ہو، تو یہ انفرادی اجتہاد ہو سکتا ہے، جو حدیث نبویﷺ کے عموم کے خلاف حجت نہیں۔
✿ یا پھر وہ عمل احتکار کی تعریف میں ہی شامل نہ ہو، جیسا کہ بعض علماء نے وضاحت کی ہے۔

(2) خریدی ہوئی چیز کو اسی جگہ بیچنے کا مسئلہ

◉ حدیث نبوی ﷺ:

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"چیزیں وہیں نہ بیچی جائیں جہاں سے انہیں خریدا گیا ہو”
یعنی خریدی ہوئی چیز کو اسی جگہ پر فروخت کرنا ممنوع ہے۔

◉ اس کا مطلب کیا ہے؟

یہ حدیث اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ:

✿ جب کوئی شخص کسی چیز کو خریدتا ہے، تو اسے اسی جگہ فروخت کرنے سے پہلے اسے منتقل کرنا ضروری ہے۔
✿ چاہے وہ:

  • اپنے گھر لے جائے،
  • اپنی دکان پر لے جائے،
  • یا کسی اور دکان پر لے جائے۔

◉ قبضہ ثابت کرنے کی بات:

بعض علماء کا کہنا ہے کہ اصل مقصد یہ ہے کہ مبیع پر مکمل قبضہ ثابت ہو جائے۔
اگر بائع مال بیچ کر چلا گیا، اور مشتری نے مال وصول کر لیا، تو گویا قبضہ ہو گیا۔

لیکن:

✿ محض عرفی قبضہ کافی نہیں، شرعی قبضہ بھی ضروری ہے۔
✿ شرعی قبضہ کی ایک شرط یہ ہے کہ خریدی ہوئی جگہ سے مال کو ہٹا کر منتقل کیا جائے۔
✿ یہ بات متعدد احادیث اور فقہی اصول سے ثابت ہے۔

◉ عملی مثال کی وضاحت:

اگر کوئی شخص منڈی میں کسی دکان سے مال خریدتا ہے:

✿ تو وہ مال وہیں فروخت نہیں کر سکتا، بلکہ:

  • اسے اپنے گھر، دکان یا کسی اور جگہ منتقل کرنا ہوگا۔
  • اگر کسی اور تاجر نے بھی خریدا ہو، تو وہ بھی پہلے اسے دوسری جگہ لے جائے پھر بیچے۔
  • دوچار فٹ آگے پیچھے کر لینے سے یہ شرط پوری نہیں ہوتی جب تک واضح تبدیلی نہ ہو۔

لہٰذا نبی کریم ﷺ کے فرمان کی ظاہری اور عملی تعمیل ضروری ہے، اور صرف عرف عام سے اس پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔

خلاصہ:

احتکار کا مطلب ہے مال کو روک کر رکھنا تاکہ اس کی قیمت بڑھے۔
✿ اس کی ممانعت احادیث میں مطلقاً آئی ہے، صرف قحط کے ساتھ مشروط نہیں۔
احادیث نبویہ ﷺ کے عموم کو بغیر دلیل کے محدود نہیں کیا جا سکتا۔
خریدی ہوئی چیز کو وہیں بیچنے کی اجازت نہیں، بلکہ اس کا انتقال ضروری ہے تاکہ شرعی قبضہ مکمل ہو۔

والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے