سوال:
اجماع کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اجماع شرعی حجت ہے، یہ سبیل مؤمنین ہے، اس سے روگردانی صراط مستقیم سے انحراف ہے۔
❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾
(النساء: 115)
جس کے لیے ہدایت واضح ہو جائے اور وہ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور سبیل مؤمنین سے ہٹ جائے تو ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے جہنم رسید کر دیں گے، وہ برا ٹھکانہ ہے۔
❀ علامہ ابوالقاسم سعد بن علی زنجانی رحمہ اللہ (471ھ) فرماتے ہیں:
وما أجمعت فيه الصحابة رضي الله عنهم حجة وتلك سبيل المؤمنين لمن سبر ففي الأخذ بالإجماع فاعلم، سعادة كما فى شدوذ القول نوع من الخطر
جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجماع کر لیں، وہ حجت ہے، علم والے کے لیے یہی سبیل مؤمنین ہے۔ جان لیجئے کہ اجماع پر عمل کرنے میں ہی سعادت ہے، نیز اجماع سے ہٹ کر شاذ قول اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں۔
(سِير أعلام النبلاء للذهبي: 389/18)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
ما زال العلماء يختلفون، ويتكلم العالم فى العالم باجتهاده، وكل منهم معذور مأجور، ومن عاند أو خرق الإجماع، فهو مأزور، وإلى الله ترجع الأمور
اہل علم میں ہمیشہ سے اختلاف ہوتا رہا ہے، ایک عالم دوسرے عالم کے متعلق اپنے اجتہاد سے بات کرتا ہے، ہر ایک معذور و ماجور ہے۔ لیکن جو معاند ہوا اور اجماع کی مخالفت کی، وہ گناہ گار ہے۔ تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹائے جائیں گے۔
(سِير أعلام النبلاء: 327/19)