سوال
اگر کوئی شخص اجرت کے بدلے میں کسی دوسرے کی طرف سے حج ادا کرے اور حج کے اخراجات کے بعد کچھ رقم بچ جائے، تو کیا یہ بچی ہوئی رقم مالک کو واپس کرنا واجب ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی شخص کسی سے ایک خاص رقم لیتا ہے تاکہ وہ اس رقم کے ذریعے اس کی طرف سے حج کرے، اور حج کے اخراجات اس رقم سے کم ہوں، تو بچی ہوئی رقم کے حوالے سے حکم درج ذیل صورتوں پر مبنی ہے:
پہلی صورت: جب دینے والے نے یہ کہا ہو کہ "اس رقم میں سے حج کر لو”
◈ ایسی صورت میں، بچی ہوئی رقم مالک کو واپس کرنا واجب ہے۔
◈ یہ اس لیے لازم ہے کہ دینے والے نے واضح کیا کہ صرف "اس رقم میں سے” حج کرنا ہے، تو باقی ماندہ رقم کا حق بھی اُسی کا ہے۔
◈ اب یہ مالک (یعنی رقم دینے والا) پر ہے:
اگر وہ چاہے تو رقم واپس نہ لے۔
اگر چاہے تو رقم واپس لے سکتا ہے۔
دوسری صورت: جب دینے والے نے کہا ہو کہ "اس کے ساتھ حج کر لو”
◈ اس صورت میں بچی ہوئی رقم واپس کرنا ضروری نہیں۔
◈ لیکن اگر یہ اندیشہ ہو کہ دینے والے کو حج کے اخراجات کی تفصیل کا علم نہیں اور اس نے لاعلمی یا غلط فہمی کی بنیاد پر زیادہ رقم دے دی ہو، تو پھر:
اجرت لینے والے پر لازم ہے کہ سچائی اور حقیقت حال کو واضح کرے۔
اُسے بتا دے کہ حج پر صرف اتنی رقم خرچ ہوئی ہے۔
یوں وہ وضاحت کر دے کہ تم نے جو رقم دی وہ اصل اخراجات سے زیادہ تھی۔
◈ اگر وضاحت کے بعد بھی مالک کہے کہ باقی رقم تم رکھ لو، اور وہ رقم واپس نہ لے، تو پھر اس شخص کے لیے باقی رقم اپنے پاس رکھنا جائز ہے۔
نتیجہ
◈ معاملہ نیت اور الفاظ پر منحصر ہے جو رقم دینے والے نے استعمال کیے۔
◈ اگر اس نے کہا "اس رقم میں سے حج کر لو” تو باقی رقم واپس کرنا لازم ہے۔
◈ اگر کہا "اس کے ساتھ حج کر لو” تو واپس کرنا لازم نہیں، لیکن وضاحت دینا ضروری ہے اگر دینے والا لاعلم ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب