سوال:
کیا مختلف مواقع پر، جیسے دکان کے افتتاح، جانور ذبح کرنے یا کھانے سے پہلے اجتماعی دعا کرنا درست ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
1. اجتماعی دعا کا عمومی جواز:
اجتماعی دعا بعض مواقع پر جائز ہے، خاص طور پر جب موقع کی نزاکت اور ضرورت کے تحت ہو۔
اگر کسی موقع پر لوگ دعا کی درخواست کریں یا کسی عالم سے اپیل کی جائے تو علماء کرام خود بھی دعا کروا سکتے ہیں۔
وعظ و نصیحت کے دوران یا کسی اجتماع میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ اسے مستقل یا لازمی عمل نہ بنا دیا جائے۔
2. ممانعت کی حدود:
جو ممانعت ہے وہ ہر نماز کے بعد مستقل اجتماعی دعا کرنے کی ہے، جب یہ سمجھ میں بھی نہ آئے کہ کیا دعا ہو رہی ہے اور اسے ایک لازمی عبادت بنا دیا جائے۔
اگر وقتاً فوقتاً اور ضرورت کے مطابق دعا کی جائے، تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔
3. افتتاح یا دیگر مواقع پر اجتماعی دعا:
دکان یا گھر کے افتتاح کے وقت بلا کر دعا کروانا جائز ہے، بشرطیکہ یہ عمل اس حد تک نہ پہنچے کہ وہ اسلامی شعار یا بدعت کی شکل اختیار کر جائے۔
کبھی زبانی نصیحت کے بعد دعا کی جا سکتی ہے، کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا کی جا سکتی ہے، اور کبھی صرف نصیحت پر اکتفا بھی کیا جا سکتا ہے۔
4. کھانے سے پہلے یا بعد کی دعا:
کھانے سے پہلے اور بعد میں انفرادی دعا کرنا سنت ہے، لیکن اسے اجتماعی دعا کی شکل میں لازمی بنانا یا کسی خاص شکل میں باندھنا درست نہیں۔
اگر کوئی شخص نصیحت کے دوران دعا کی اپیل کرے اور دعا کر دی جائے، تو اس میں بھی جواز ہے، لیکن اس کا افراط یا لازمی حیثیت میں لینا درست نہیں۔
5. توازن کی ضرورت:
افراط و تفریط دونوں سے بچنا ضروری ہے۔
کسی عمل کو اس قدر رواج نہ دیا جائے کہ وہ دین کا حصہ سمجھا جانے لگے، اور نہ ہی ہر قسم کی اجتماعی دعا کو مکمل طور پر رد کیا جائے۔
خلاصہ:
اجتماعی دعا مخصوص مواقع پر جائز ہے، جیسے دکان کے افتتاح، وعظ و نصیحت، یا دعوت پر نصیحت کے ساتھ دعا کرنا۔
ممانعت اس وقت ہے جب اجتماعی دعا کو ہر نماز کے بعد مستقل اور لازمی بنا دیا جائے یا کسی خاص شکل میں اسے دین کا حصہ سمجھا جائے۔
توازن کے ساتھ ان مواقع پر دعا کی جا سکتی ہے، لیکن لازمی رسم نہ بنایا جائے۔