اجارہ: لغوی، اصطلاحی تعریف، مشروعیت اور احکام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اجارہ ہر اُس عمل میں جائز ہے جس سے شریعت نے روکا نہ ہو
لغوی وضاحت: لفظِ إجاره باب أَجَرَ يَا جُرُ (نصر ، ضرب) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”اجرت دینا ، بدلہ دینا اور اجرت“ مستعمل ہے۔ إيجار (إفعال) اور استيجار (استفعال) کا معنی ”کسی کو مزدور بنانا ہے ۔“ استيجار کا ایک اور معنی ہے ”گھر اُجرت پر لینا ۔“ أجير ، مزدور کو کہتے ہیں۔
[المنجد: ص/ 4 ، لسان العرب: 10/4 ، القاموس المحيط: ص/436]
اصطلاحی تعریف: کسی چیز کے مباح نفع کا معلوم مدت اور معلوم معاوضے کے ساتھ مالک بنانا۔
[الشرح الكبير: 3/4 ، الفروق: 4/4 ، المغنى: 398/5 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 3804/5]
مشروعیت: اس کی مشروعیت کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ہے کہ :
قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ ‎ [القصص: 26]
”ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجیے ، کیونکہ جنہیں آپ اُجرت پر رکھیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو ۔“
وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ [البقرة: 233]
”اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم ان کو دستور کے مطابق جو دینا ہو وہ ان کے حوالے کر دو ۔“
حدیث نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: روز قیامت تین آدمیوں کا میں مدمقابل و مخالف ہوں گا (ان میں سے ایک یہ ہے )
رجل استاجر أجيرا فاستوفى منه ولم يوفه أجره
”ایسا آدمی جس نے کسی کو مزدور بنا کر اس سے پورا کام لیا لیکن اس کو اُجرت پوری نہ دی ۔“
[بخاري: 2270 ، كتاب الإجارة: باب إثم من منع أجر الأجير ، الفتح الرباني: 393]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام انبیا بکریاں چراتے رہے ۔“
صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا اور آپ بھی؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:
نعم ، كنت أرعاها على قراريط لأهل مكة
”ہاں ، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چرایا کرتا تھا ۔“
[بخاري: 2262 ، كتاب الإجارة: باب رعى الغنم على قراريط ، ابن ماجة: 3140]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہجرت کے راستے میں ایک شخص کو بطور رہنما ”اجیر“ مقرر کرنا بھی اجارہ کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے۔
[بخارى: 2263 ، كتاب الإجارة: باب استيجار المشركين عند الضرورة]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1