اتباع سنت کے تین تقاضے فعل ، ترک اور توقف
اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ذریعے سے اس کی رضا حاصل کرنے کا نام اسلام ہے اور کسی بندے کے پاس اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے چار ذرائع ہیں:
➊ دل
➋ زبان
➌ ظاہری اعضاء بدن
➍ (آنکھ ، کان ، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ)
اور
➎ مال خرچ کرنا۔
یہی وہ چار چیزیں ہیں جو ادائیگی عبادت کا ذریعہ ہیں، اس لئے عبادت کی عموماً چار اقسام بتائی جاتی ہیں:
➊ قلبی عبادات
➋ قولی عبادات
➌ بدنی عبادات اور
➍ مالی عبادات ۔
(قلبی عبادات) سے مراد اطاعت و عبادت کے وہ کام ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے کا تعلق دل سے ہے، مثلاً غلط و باطل عقائد کے بجائے صحیح اسلامی عقائد کو اپنانا، دنیاوی مفادات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نیکی کے ذریعے سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا۔ غفلت ، لا پرواہی و شک و شبہ سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے خالص توجہ اور یقین سے کام لینا وغیرہ۔
(قولی عبادات) سے مراد اطاعت و عبادت کے وہ کام ہیں جن کے کرنے یا نہ کرنے کا تعلق زبان سے ہے، مثلا کلمہ طیبہ کا اقرار کرنا، تلاوت کرنا مسنون اذکار اور دعائیں پڑھنا تعلیم و تدریس اور وعظ و تبلیغ کا اہتمام کرنا اور فضولیات ولغویات سے پر ہیز کرنا وغیرہ۔
(بدنی عبادات) سے مراد اطاعت و عبادت کے وہ کام ہیں جن سے کرنے یا نہ کرنے کا تعلق بدن کے مختلف ظاہری اعضاء سے ہے، مثلاً مخلوق کے بجائے صرف خالق کو سجدہ کرنا، غیر محرم عورتوں سے نظر بازی کے بجائے صرف اپنی بیوی تک محدود رہنا، فحاشی اور بے حیائی پر مبنی مجالس کو ترک کر کے دینی اور پاکیزہ محافل کا انتخاب کرنا، نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور بُرے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنا ( خواہ مدد کے لئے پکارنے والا کوئی ’’عزیز‘‘ ہی کیوں نہ ہو۔)
(مالی عبادات) سے مراد اطاعت و عبادت کے وہ کام ہیں جن کا تعلق مال کو خرچ کرنے یا نہ کرنے سے ہے، مثلاً با قاعدگی کے ساتھ زکوٰۃ، عشر اور فطرانہ دینا، لا چارلوگوں کی مدد کرنا، حقداروں کو ان کا حق ادا کرنا ، گناہ و گمراہی اور فضول کاموں میں ایک پائی بھی خرچ نہ کرنا وغیرہ ۔ ہر عبادت میں دل شریک ہوتا ہے، کیونکہ ایک سچا مسلمان اپنی عبادت کے ذریعے سے صرف اللہ کی رضا حاصل کرے گا (جبکہ مشرک آدمی اپنے معبودِ باطل کی رضا حاصل کرتا ہے) چونکہ رضا چاہنا دل کا فعل ہے اس لئے ہر عبادت قلبی ضرور ہوتی ہے، البتہ بعض عبادتوں میں دل کے ساتھ ساتھ دوسرے مختلف ذرائع بھی شامل ہو جاتے ہیں، مثلاً نماز ایک ( قلبی عبادت تو ہے ہی ) بدنی اور قولی عبادت بھی ہے، اسی طرح حج میں ادا ئیگی عبادت سے چاروں ذرائع استعمال ہوتے ہیں ، دل، زبان ،اعضائے بدن اور مال بھی (خوب خرچ ہوتا ہے۔)
الغرض، جس طرح کسی کام کو ہر صورت کرنا ایک کام ہے اسی طرح کر سکنے کے باوجود کچھ نہ کرنا بھی ایک کام ہے جس طرح ایک آدمی نماز پڑھتا ہے اور اجر وثواب کا مستحق بنتا ہے،
اسی طرح جو شخص پڑھ سکنے کے باوجود نماز نہیں پڑھتاوہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔
(سنن ترمذی ۲۶۲۱، وسنده صحیح، مسند احمد ۳۴۶٫۵ ح ۲۳۳۲۵)
اسی طرح اپنی کزن کے ساتھ منہ کالا کرنے والا شخص مجرم و گنہگار گنا جاتا ہے مگر جو شخص موقع ملنے کے باوجود محض اللہ کے ڈر کی وجہ سے اس کام سے باز آ جائے وہ یقیناً نیک و
صالح شمار ہوگا۔
(دیکھئے صحیح بخاری: ۳۴۶۵)
چونکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کا خالق و مالک اور رب و رازق ہے، اسی نے انسان کو وجود بخشا ہے وہی اس کی ہر لمحہ نگہداشت و نگرانی کرتا ہے اور اس کی جملہ ضروریات اسے مہیا کرتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ بندہ بھی اس کی پسند و نا پسند کا پابند ہو کر زندگی گزارے یعنی بندے کا دل اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ عقائد کو اپنائے اور نا پسندیدہ عقائد کو چھوڑ دے، اس کی زبان اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کلمات کہے اور ناپسندیدہ کلمات کہنے سے باز رہے ۔ اس کے کان، آنکھیں ، ہاتھ وغیرہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کی بجا آوری میں مصروف ہوں اور ناپسندیدہ کاموں کے لئے استعمال نہ ہوں حتی کہ انسان کا مال بھی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ امور میں صرف ہو، نا پسندیدہ کاموں ( مثلاً شرک و بدعت ، گناه و گمراہی ، ظلم وعیاشی اور فضول و بے مقصد امور ) میں خرچ نہ ہو۔
یہی وہ آزمائش ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے جن اور انسان بنائے ، ان کی طرف انبیاء ورسلؑ بھیجے۔ اپنا دین نازل کیا، انھیں اپنی پسند و نا پسند سے آگاہ کیا، چنانچہ تقریباً سارا دین اسی پسند و نا پسند سے عبارت ہے، مثلاً اگر آپ اسلام اور کفر، ایمان اور نفاق، سچ اور جھوٹ ،حق اور باطل، اطاعت اور معصیت، حلال اور حرام، جائز اور ناجائز ، نیکی اور بدی، سنت اور بدعت ، ہدایت اور ضلالت اور اسی طرح کے دیگر الفاظ پر غور کریں تو آپ پر خوب اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ اسلام میں کچھ کام کرنے کے ہیں اور کچھ کام چھوڑنے کے ہیں ۔ پھر جس کام کا اللہ تعالیٰ نے حکم یا ترغیب دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ کام ہے، اسے کرنا ہی مطلوب ہے، اسے بجالانے کو فعل کہیں گے، اور جس کام سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا یا اس سے نفرت دلائی ہے وہ اس کے ہاں نا پسندیدہ کام ہے اس سے بچنا ہی مطلوب ہے، اس سے پرہیز کرنا ترک کہلائے گا۔ یہی فعل و ترک رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واتباع کا طرہ امتیاز ہے، البتہ انسانی اعمال کا ایک پہلو اور بھی بیان کیا جاتا ہے اور وہ ہے اختیار کا پہلو۔ اختیار کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو ایک سے زائد کاموں میں اختیار دیا جائے کہ وہ ان میں سے کوئی ایک کام کر لے باقی کاموں کو وہ چھوڑ سکتا ہے، جبکہ اباحت کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی کام کے متعلق بندے کو اختیار دیا جائے کہ وہ چاہے تو اسے کر لے اور چاہے تو نہ کرے، چونکہ بندہ اختیاری کام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے، لہٰذا اختیار واباحت کی یہ صورت بھی فعل یا ترک میں شامل ہو جاتی ہے، کیونکہ بندہ جب کسی ایک پہلوکو ترجیح دیتا ہے تو دوسرے پہلو کو چھوڑ کر ہی ترجیح دیتا ہے، اگر کرنے کو ترجیح دیتا ہے تو نہ کرنا چھوٹ گیا اور اگر نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو کرنا چھوٹ گیا۔
سنت اور بدعت بھی دراصل دو مختلف اور متضاد طریقوں کا نام ہے۔ ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں پر نہایت نیک نیتی کے ساتھ دین، نیکی اور کار ثواب سمجھ کر عمل کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سنت دین کا اصل طریقہ ہے اور بدعت (دین کے نام پر جاری کئے ہوئے) جعلی طریقے کا نام ہے ۔ سنت رسول ﷺ کے ذریعے سے امت کو ملی، جبکہ بدعت بعض مفاد پرست حکمرانوں اور مولویوں کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہوتی ہے۔
سنت پر عمل کیا جائے تو یہ بندے کو اللہ کے قریب کرتی ہے اور اگر بدعت پر عمل کیا جائے تو یہ بندے کو اللہ سے دُور کر دیتی ہے۔ سنت کو ہر موقع اور ہر حال میں بجالانا، جبکہ بدعت کو ہر موقع اور ہر حال میں ترک کر دینا اطاعت و اتباع کی بہترین تصویر قرار پائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ہر موقع پر بدعت کا اہتمام والتزام کرتے کراتے ہیں ان سے مقابلے کی سنت مستقل طور پر چھوٹ جاتی ہے۔ چونکہ سنت پر عمل پیرا ہونا اور بدعت کو چھوڑنا ہی شرعی دلائل کا مطالبہ ہے، اس لحاظ سے یہ مسئلہ بھی انسان کے فعل و ترک کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے۔
انسانی آزمائش کا ایک پہلو مشتبہ امور ہیں، ان میں سے بعض کا موں کو کر لینا احتیاط کا تقاضا ہوتا ہے، جبکہ بعض کاموں کو نہ کرنا تقویٰ و طہارت کا آئینہ دار ہوتا ہے، مثلاً نمازی نماز کے دوران میں تعداد رکعات کی بابت شک کا شکار ہو جائے اور اس سے درست بات کا فیصلہ نہ ہو رہا ہو تو اس کے لئے یقین ( کم تعداد ) پر عمل کرتے ہوئے ایک اور رکعت پڑھ لینا ہی محتاط و مسنون عمل ہے۔
(صحیح مسلم : ۵۷۱، دار السلام : ۱۲۷۲)
رسول اللہ ﷺ گری ہوئی کھجور کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا:
اگر اس کے صدقہ ہونے کا شبہ نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔
(صحیح بخاری:۲۰۵۵)
ان مثالوں میں سے پہلی مثال فعل کی اور دوسری ترک کی ہے۔
البتہ کتاب وسنت سے فعل و ترک کے علاوہ ایک تیسرا آپشن بھی ملتا ہے اور وہ ہے تو قف، بظاہر یہ فعل و ترک کی درمیانی کیفیت کا نام ہے یعنی نفی نہ اثبات فعل نہ ترک ، اقرار نہ انکار بلکہ توقف اختیار کرنا یعنی جس کام کی بابت اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے قصداً خاموشی اختیار فرمائی ہو اس کی بابت خاموش رہنا ہی بہتر ہے، الا یہ کہ کوئی اجتہادی مسئلہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ﴾
اور جس بات کا تجھے علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت پڑو۔
(الاسراء : ۳۶)
خود نبی اکرم ﷺ سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ بعض اوقات وحی کے انتظار میں توقف فرمایا کرتے تھے ، جیسا کہ مدینہ کے یہودی علماء کے کہنے پر قریش مکہ نے آپ ﷺ سے درج ذیل تین سوالات کئے تھے:
روح کیا ہے؟
اصحاب کہف کون تھے؟
ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے؟
آپ ﷺ نے توقف فرما یا حتیٰ کہ سورۃ الکہف نازل ہوئی۔
(المصباح المنیر ص۷۹۱)
ارشاد باری تعالی ہے:
(يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھو ( تمام مسائل میں ان کے پیچھے پیچھے رہو۔)
(الحجرات:1)
یعنی اے جماعت صحابہؓ ! جب نبی اکرم ﷺ موجود ہوں تو از خود کسی کوکسی بات کا حکم نہ دوحتیٰ کہ نبی اکرم ﷺ اس کا حکم دے دیں اسی طرح از خود کسی کو کسی بات سے منع نہ کرو حتیٰ کہ نبی اکرم ﷺ اس سے منع فرمائیں۔
نبی اکرم ﷺ کے بعد اس آیت کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب وسنت سے راہنمائی لئے بغیر از خود کسی فعل یا ترک کا فیصلہ نہ کرو بلکہ توقف اختیار کرو۔ واللہ اعلم
شاید اسی لئے اہل سنت والجماعت کے علماء حق کا کہنا ہے کہ کتاب وسنت نے اللہ تعالیٰ کی بابت جن صفات کی خبر دی ہے ان کا اثبات کیا جائے اور جن باتوں سے اسے پاک و منزہ قرار دیا ہے ان کی نفی کی جائے اور جن چیزوں کی بابت خاموشی اختیار کی ہے، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے (ان کا اقرار یا انکار کرنے کے بجائے تو قف اختیار کیا جائے ۔)
مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت
(اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ)
(طهٰ :۵/۲۰)
کو ہی لے لیں سلف سے اس کا معنی ’’بلند ہوا‘‘ منقول ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب التوحید باب (۲۲) وکان عرشه على الماء (ھود: ۷) قبل حدیث ۷۴۱۸)
شاہ رفیع الدین دہلوی نے اس کا معنی ”قرار پکڑا‘‘ (طهٰ : ۵/۲۰) کیا ہے، لیکن اس بلند ہونے اور قرار پکڑنے کی کیفیت کتاب وسنت نے بیان نہیں کی ، لہٰذا ہم اس کی بابت توقف کرتے ہوئے خاموشی اختیار کریں گے، کیونکہ جب کتاب وسنت خاموش ہیں تو خاموش رہنا ہی سنت ہے مگر اہل بدعت نے حسب عادت اس خاموشی کو توڑتے ہوئے نیا راستہ ڈھونڈ لیا یعنی سب سے پہلے کیفیت کی بابت سوال و جواب کرنے کی جرات و جسارت کرنے لگے، پھر اس کی خود ساختہ کیفیتیں بیان کرنا شروع کر دیں، پھر جب تشبیہ کا دھڑ کا لگا تو اصل صفت ہی کا انکار کر بیٹھے۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ بعض جاہل خطیب بھی جوش خطابت میں کہہ جاتے ہیں :
”اللہ عرش پر بیٹھا ہنس رہا تھا‘‘ حالانکہ بیٹھنا ایک کیفیت ہے جو کتاب وسنت نے نہیں بتائی پھر یہ حضرات کیوں بتاتے ہیں؟ اس سلسلے میں خاموش رہنا ہی محتاط عمل ہے۔
بدعت کی ایک علامت تو یہ ہوتی ہے کہ کتاب وسنت میں ان کا نام لے کر کچھ نہیں کہا جاتا نہ حکم دیا جاتا ہے نہ ترغیب، نہ حرام کیا جاتا ہے نہ مکروہ بلکہ اس کے جائز یا نا جائز ہونے کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل بدعت کے مختلف گروہ اپنی اپنی بدعات کو تحفظ دینے کے لئے شور بپا کرتے ہیں کہ
’’چونکہ نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا تھا، لہٰذا وہابیوں کو بھی چاہئے کہ ہمیں منع نہ کریں۔“
ہم انھیں عرض کرتے ہیں کہ بدعت کو پورے عہد رسالت میں بار بار کر سکنے( کی طاقت) کے باوجود کوئی مسلمان نہیں کرتا تھا، نہ نبی اکرم ﷺ کرتے تھے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین لہٰذا تم اسے خود کرو نہ دوسروں سے کراؤ پھر ہم بھی تمھیں نہیں روکیں گے۔ اصل بات وہی ہے کہ جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ،اپنی پوری زندگی میں ضرورت سہولت اور استطاعت کے باوجود ، جبکہ کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو، ایک کام کبھی نہیں کرتے تو اسے نہ کرنا ہی آپ ﷺ کی سنت ہے۔ اب اگر کوئی مفاد پرست ٹولہ اس کام کو موقع بہ موقع بار بار کرے گا تو اس کا یہ طرز عمل بدعت ہوگا۔
خیر بات ہو رہی تھی توقف اختیار کرنے کی تو کتاب وسنت میں ماضی اور مستقبل کی جتنی غیبی خبریں بتائی گئی ہیں، ان سب میں یہی اصول مسلم ہے کہ جتنی بات بتائی گئی ہے اتنی مان لو جس بات کی نفی کی گئی ہو اس کی نفی کرو اور جس بات کی بابت خاموشی اختیار کی گئی ہو اس کی بابت خاموشی اختیار کرو۔
امور غیبیہ کے ساتھ ساتھ جملہ اسلامی عقائد کا اصول بھی یہی ہے جہاں تک اعمال المکلفین یعنی عاقل و بالغ مسلمانوں کی عملی زندگی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں محدثین کا ایک اصول یاد آتا ہے کہ جب دو مقبول حدیثوں میں ظاہری تضاد و تعارض نظر آئے تو سب سے پہلے تطبیق و توفیق کی کوشش کی جائے گی یعنی دونوں کے درمیان مطابقت اور موافقت پیدا کر کے انھیں کسی مشترکہ مفہوم پر جمع کر دیا جائے گا۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو نسخ کا پتا چلایا جائے گا۔ پتا چل جائے تو ناسخ حدیث پر عمل کیا جائے گا اور منسوخ حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا۔
اگر نسخ کا پتا بھی نہ چلے تو مسلکی تعصب سے بالا تر ہو کر اضافی فنی خوبیوں کی بنیاد پر راجح حدیث پر عمل کیا جائے گا اور مرجوح حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر دونوں حدیثیں یکساں درجے کی مقبول ہوں اور ان مراحل میں سے کوئی مرحلہ طے نہ ہو تو پھر دونوں حدیثوں پر عمل کرنے سے توقف اختیار کیا جائے گا یعنی کسی ایک حدیث پر عمل کر کے دوسری کو چھوڑنے کے بجائے دونوں پر عمل کرنا موقوف کر دیا جائے گا حتی کہ کسی ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کی کوئی معقول علمی اور فنی وجہ سامنے آ جائے۔ تاہم تو قف تک نوبت شاذ و نادر ہی پہنچتی ہے۔ عموماً پہلے تین مراحل میں ہی تعارض دُور ہو جاتا ہے۔
والحمد لله علىٰ ذلك
[الحدیث:۵۳]