اتباع اور تقلید سعودی علماء کی نظر میں
تحریر: حافظ محمد اسحاق زاھد حفظ اللہ، کویت

فرمان الہی ہے :
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ [7-الأعراف:3]
ترجمہ : ” جو تمہارے مالک کی طرف سے تم پر اترا، اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے چہیتوں کی پیروی مت کرو۔ “
گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں صرف اور صرف آسمان سے نازل شدہ وحی کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسری کسی چیز کی پیروی کرنے سے منع کر دیا گیا ہے کیونکہ آسمان سے نازل شدہ وحی ہی معصوم یعنی غلطی سے پاک اور برحق ہے، دوسری ہر چیز میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے۔ فرمان الہی ہے :
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ [47-محمد:2]
ترجمہ : ”اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا، اس پر بھی ایمان لائے اور وہی برحق ہے ان کے مالک کے پاس سے، ان کے گناہ اللہ نے بخش دیئے اور ان کا حال سنوار دیا۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی پر ایمان لانا اور اس کو برحق سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا انتہائی ضروری ہے، اس سے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں :
ایک اللہ کی طرف سے بخشش ہو جاتی ہے اور دوسرا حال سنور جاتا ہے۔
اور وحی الہی کی پابندی کر نے والا شخص ہی صراط مستقیم پر چلنے والا ہوتا ہے، اور جو بھی وحی الہی سے انحراف کرتا ہے، وہ صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے، فرمان الہی ہے :
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ [43-الزخرف:43]
ترجمہ : ’’ تو اس کو مضبوطی سے تھام لے جس کی تیری طرف وحی کی گئی، بے شک تو سیدھے راستے پر ہے۔“
اب سوال یہ ہے کہ جس وحی کی پیروی کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، اور جو برحق اور غلطی سے پاک ہے اور جس کی پابندی کرنے سے انسان صراط مستقیم پر چل نکلتا ہے وہ کیا ہے ؟
یقینی طور پر وہ دو چیزوں پر مشتمل ہے : کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث،
فرمان الہی ہے :
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ [53-النجم:3، 4 ]
ترجمہ :”اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتے، ان کی جو بات ہے، وہ وحی ہے۔“
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث بھی وحی ہیں اور قرآن کی طرح واجب الاتباع ہیں دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ قرآن وحی متلو ہے اور حدیث وحی غیر متلو ہے، اور یہی دو چیزیں ہیں جنھیں مضبوطی سے تھام لیا جائے اور انہی کی پابندی کی جائے تو انسان گمراہی سے بچ جاتا ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما : كتاب الله و سنتي [صحيح الجامع : 2937 رواه الحاكم]
ترجمہ : ”میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جن کے بعد تم كبھی گمراہ نہیں ہو گے : اور وہ ہیں قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم “
اور اختلافی مسائل میں اللہ تعالیٰ نے انہی دو چیزوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، فرمان الہی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [4-النساء:59]
ترجمہ : ا”ے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو، اور تم میں جو حكم والے ہیں، ان کا۔ پھر اگر تمہارا كسی بات میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن ایمان رکھتے ہو، یہی( تمہارے حق) میں بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے۔“
آیت مذکورہ میں في شيئ شرط کے بعد نکرہ ہے، جو کہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ اصول و فروع تمام مسائل میں اختلاف کا حل کتاب و سنت میں موجود ہے، اور اگر تمام متنازعہ مسائل کا حل کتاب اللہ اور سنت نبویہ میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم نہ دیتا۔
مذکورہ نصوص شرعیہ سے معلوم ہوا کہ ہم صرف وحی الہی یعنی قرآن مجید اور احادیث کی پیروی کرنے کے پابند ہیں، اگر ہم ایسا کریں گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے، اور اختلافی مسائل انہی دو کی روشنی میں حل کریں گے تو یقینا اختلاف ختم ہوگا اور مسلمانوں میں اتفاق پیدا ہوگا، اور اگر ہم کوئی مسئلہ اپنی کم فہمی کی وجہ سے نہیں سمجھ سکے تو اہل علم سے سوال کریں کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث ہی کی روشنی میں یہ مسئلہ سمجھائیں، کیونکہ صرف اسی صورت میں ان کی بات قابل قبول ہوگی، ورنہ کوئی عالم اگر کتاب اللہ اور سنت رسول سے ہٹ کر کوئی مسئلہ سمجھائے گا تو اس کی بات مردود ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ [ 49-الحجرات:1]
ترجمہ : ”اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔“
یعنی اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے تجاوز نہ کرو۔
ان دلائل سے یہ بات کھل کو واضح ہو جاتی ہے محض اتباع دلیل ہمارا فریضہ ہے، اور دین کے سلسلے میں کسی بھی شخص کی بات خواہ وہ امام ہو یا کتنا بڑا بزرگ، تبھی قابل قبول ہوگی جب وہ قرآن وسنت کی دلیل کے موافق ہوگی، اگر وہ دلیل کے مطابق نہیں تو اسے رڈ کر کے دلیل کو قبول کرنا واجب ہوگا۔
چونکہ اللہ رب العزت نے ہمیں صرف اتباع دلیل کا حکم دیا ہے، اس لئے ہم سے پوچھ گچھ بھی اس کے متعلق ہوگی، اور چونکہ اللہ نے تقلید بلا دلیل کا پابند نہیں کیا اس لئے وہ ہم سے قطعا یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم نے فلاں امام کی تقلید کیوں نہیں کی ؟
تقلید اور ائمہ اربعہ
یہی وجہ ہے کہ خود ائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے، آیئے ان کے تقلید سے متعلق چند اقوال ملاحظہ کریں :
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
حرام على من لم يعرف دليلي أن يفتي بكلامي، فإننا بشر نقول القول اليوم، ونرجع عنه غدا
”جو شخص میری دلیل کو نہ جانتا ہو اس پر حرام ہے کہ وہ میری بات کے ساتھ فتوی دے، کیونکہ ہم انسان ہیں، آج ایک بات کہتے ہیں اور اس سے رجوع کر لیتے ہیں۔“
إذ اقلت قولا يخالف كتاب الله وخبر الرسول فاتركوا قولي
”میں جب کوئی ایسی بات کہوں جو کتاب اللہ اور حدیث نبوی کے خلاف ہو، تو میری بات کو چھوڑ دو۔ “
امام مالک رحمہ اللہ
إنما أنا بشر أخطى وأصيب، فانظروا فى رأيي فكل ما وافق الكتاب والسنة فخذوه وكل ما لم يوافق الكتاب والسنة فاتركوه
”میں ایک انسان ہوں غلط بھی کر سکتا ہوں اور درست بھی، اس لئے میری رائے کے بارے میں غور کرو، جو کتاب وسنت کے موافق ہوا سے لے لو، اور جو کتاب وسنت کے مخالف ہوا سے چھوڑ دو۔“
ليس أحد بعد النبى صلى الله عليه وسلم إلا ويؤخذ من قوله ويترك إلا النبي
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں جس کی ہر بات کو قبول کرنا لازمی ہو۔“
امام شافعی رحمہ اللہ
أجمع المسلمون على أنه من استبان له سنة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحل لأحد أن يدعها بقول أحد
” تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت معلوم ہو جائے اس کیلئے قطعا درست نہیں کہ وہ کسی کے قول کی بنا پر اسے چھوڑ دے۔“
إذا صح الحديث فهو مذهبي
”جب حدیث صحیح موجود ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔“
كل مسألة صح فيها الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم عند أهل النقل بخلاف ما قلت فأنا راجع عنه فى حياتي وبعد موتي
”ہر ایسا مسئلہ جس میں صحیح حدیث میرے موقف کے خلاف ہو، تو میں اپنے موقف سے رجوع کرتا ہوں، زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی۔“
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
لاتقلدنى، ولا تقلد مالكا، ولا الشافعي، ولا الأوزاعي، ولا الثوري، و خذ من حيث أخذوا
”میری تقلید کرو نہ ما لک کی، اور نہ شافعی، اوزاعی، اور ثوری کی، اور شریعت وہاں سے لو جہاں سے انہوں نے اس کو لیا“
ائمہ اربعہ کے ان اقوال سے ثابت ہوا ہے کہ :
محض اتباع دلیل ہمارا فریضہ ہے——- تقلید ممنوع ہے اور کسی بھی شرعی مسئلہ میں جب ائمہ کرام کا نذہب حدیث نبوی سے ٹکراتا ہو، تو اسے چھوڑ کر حدیث کو قبول کرنا ضروری ہے۔
اس لئے مقلدین کو سوچنا چاہئے کہ جن کی وہ تقلید کرتے ہیں وہ انہیں تقلید سے منع کرتے ہیں، اور صحیح حدیث کو اپنا مذہب قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی مقلدین اندھی تقلید پر تلے ہوئے ہیں اور حدیث سے ٹکرانے والی اپنے بزرگوں کی آرا کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔
تقلید چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہے
اگر تقلید درست ہوتی تو پہلی تین صدیوں میں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر القرون قرار دیا، اس کا وجود ہوتا لیکن اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ تقلید چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہے، پہلی تین صدیوں میں تقلید نام کی کوئی چیز نہ تھی، چنانچہ خود ائمہ اربعہ نے ایک دوسرے کی تقلید کی نہ ان کے ہم عصر دیگر محدثین وائمہ کرام نے اسے گلے سے لگایا، بلکہ تاریخ اس کے برعکس شہادت دیتی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے ایک تہائی مسائل شرعیہ میں اپنے استاد کی مخالفت کی [حاشيه ابن عابدين 1/ 63 ]
اور اگر تقلید فعل ممدوح ہوتی تو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقلید کی جاتی جوکہ انبیاء کے بعد سب سے افضل انسان ہیں۔ پھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ تقلید کی جاتی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقلید کی جاتی، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی پوری تاریخ پڑھ لی جائے آپ کو کہیں بھی کوئی ایک دلیل نہیں ملے گی کہ فلاں صحابی نے فلاں کی تقلید کی، حالانکہ صحابہ کرام میں علماء بھی تھے اور عوام الناس بھی تھے۔
اس لئے رنگونی صاحب کا یہ دعوی بالکل جھوٹ ہے کہ
”محدثین اور مفسرین متکلمین و مجددین کی پوری جماعت کسی نہ کسی کام کی تقلید کرتی رہی ہے اور ائمہ اربعہ میں کسی نہ کسی سے منسلک رہے ہیں جب کہ غیر مقلدین ایک جدید فرقہ ہے اور ائمہ اربعہ کے مقابلے پر ایک نئے مسلک کی ایجاد ہے۔“
رنگونی صاحب کا یہ دعویٰ ان کی جہالت کا بہت بڑا ثبوت ہے، ورنہ انہیں بتانا چاہئے کہ خود ائمہ اربعہ، ان سے پہلے اور ان کے ہم عصر سلف صالحین کس کی تقلید کیا کرتے تھے ؟ محدثین کی پوری جماعت نہیں، صرف دوسری اور تیسری صدی ہجری کے دس محدثین کے نام بتا دیں جو ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کیا کرتے تھے، اگر نہیں بتا سکتے اور مجھے یقین ہےکہ وہ اور ان کے ہمنوا مقلدین کبھی نہیں بتا سکتے تو انہیں یقین کر لینا چاہئے کہ اہلحدیث نیا فرقہ نہیں، ان کا وجود تو اس وقت بھی تھا جب مقلدین کے بزرگ بھی پیدا نہیں ہوئے تھے، اور چونکہ رنگونی صاحب نے سعودی علماء کو اپنا ہمنوا بنانے کی ناکام کوشش کی ہے اس لئے اس سلسلے میں ایک سعودی عالم دین کی شہادت بھی ملاحظ فرمائے :
إن الدعوة بفتح باب الاجتهاد و عدم التعصب المذهبي، أتجاه سبق تاريخيا التقليد والمذهبية، حيث أرسى أصوله الرسول صلى الله عليه وسلم فكان المنهج السائد فى القرون المفضلة الثلاثة الأولى، إلا أنه فى القرون المتأخرة زادت الدعوة للمذاهب والتعصب لها مما أدى إلى القول بغلق باب الاجتهاد وتقديم آراء العلماء والمتبوعين على الكتاب والسنة وتمزيق شمل المسلمين [الموسوعة الميسرة فى الأديان والمذاهب، ج1، ص154 ]
ترجمہ : ”اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور مذہبی تعصب درست نہیں، یہ وہ دعوت ہے جو تاریخی اعتبار سے تقلید سے پہلے موجود تھی اور اس دعوت کے اصول خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرمائے اور یہی دعوت پہلی تین صدیوں میں جن کی فضیلت بیان کی گئی ہے، رائج تھی، پھر مذاہب اور ان کے لئے تعصب کی دعوت معرض وجود میں آئی، جس نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا، علماء کی آراء کو کتاب و سنت پر فوقیت دینا شروع کر دیا اور مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔ “
رنگونی صاحب اور ان کے ہمنوا اس سعودی عالم دین کی مذکورہ عبارت کو بار بار پڑھیں اور آئینے میں اپنا چہرہ بھی دیکھتے رہیں۔
اور یہ بھی بہت بڑی غلطی ہے کہ ”اہلحدیث ائمہ اربعہ کے مقابلے پر ایک نئے مسلک کی ایجاد ہے “کیونکہ اہلحدیث ائمہ اربعہ تو خود ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ اور ان کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ محض اتباع دلیل کا حکم دیتے ہیں اور اپنی آراء کو اس وقت چھوڑ دینے کی تلقین کرتے ہیں جب وہ حدیث نبوی کے مخالف ہوں، اور یہی منہج ہے اہحدیثوں کا، جبکہ مقلدین نے اپنے ائمہ کی تعلیمات سے انحراف کیا ہے اور آج اپنے بزرگوں کی آراء سے یوں چمٹے ہوئے ہیں کہ اس بات کی پرواہ ہی نہیں، کہ احادیث ان آراء کی تائید کرتی ہیں یا ان کے خلاف ہیں۔
تقلید اور فرقہ پرستی
اللہ رب العزت نے اقامت دین کے سلسلے میں فرقہ بندی سے منع کیا ہے، فرمان الہی ہے :
أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ [42-الشورى:13]
ترجمہ : ” یہ کہ دین قائم کرو، اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو۔“
اور فرمایا :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا [آل عمران : 103 ]
”تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو۔“
تو فرقہ بندی مذموم ہے اور اتفاق و اتحاد مطلوب وممدوح ہے، اور اس کی واحد شکل یہ ہے کہ سارے مسلمان صرف اور صرف کتاب و سنت پر عمل پیرا ہوں اور نصوص شرعیہ (قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ ) کو ائمہ اور بزرگوں کی آراء پر فوقیت دیں، اہلحدیث بھی اسی اصول کی پابندی کرتے ہیں اور اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں، لیکن آیئے دیکھتے ہیں کہ متعصب مقلدین اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں :
متعصب احناف
كل اية أو حديث تخالف المذهب فهي إما مؤولة أو منسوخة
”ہر ایسی آیت اور حدیث جو حنفی مذہب کے خلاف ہو، اس کی یا تاویل کر دی جائے گی یا اسے منسوخ تصور کیا جائے گا “ [مالايجوز فيه الخلاف بين المسلمين ص95]
فوالله لم يولد فى الاسلام بعد النبى صلى الله عليه وسلم وأصحابه أعبد وأسعد من أبى حنيفة
”اللہ کی قسم ! اسلام کی تاریخ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بعد ابوحنیفہ سے زیادہ عبادت گزار اور سعادت مند پیدا نہیں ہوا “ [اعلاء السنن ]
جبکہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ إن خير التابعين رجل يقال له أويس [صحيح مسلم ]
یعنی ” تابعین میں سب سے بہتر انسان اویس رحمہ اللہ ہیں “
تو کہاں متعصب احناف کا یہ قول اور کہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان !
فلعنة ربنا أعداد رمل
علي من رد قول أبى حنيفة
”سو ہر ایسے شخص پر ریت کے ذرات کے برابر اللہ کی لعنت ہو جو ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو رو کر دے“ [ سير اعلام النبلاء : 18
509٫| ]

متعصب شافعیہ
ابوعبداللہ البوشنجی کا کہنا ہے :
أنى حياتى شافعى وإن أمت
فتوصيتي بعد بأن يتشفعوا
” میں زندگی بھر شافعی مسلک پر چلتا رہا ہوں، اور جب مر جاؤں گا میری وصیت لوگوں کے لئے یہ ہوگی کہ وہ بھی شافعی بن جائیں “ [سير اعلام القبلاء 10/ 73]
متعصب مالکیہ
قاضی عیاض کا کہنا ہے :
ومالك المرتضي لاشك أفضلهم
إمام دار الهدى والوحي والسنن
” اور امام مالک ان میں سب سے افضل ہیں، جو کہ مدینہ منورہ دار الہدی کے امام ہیں۔ “
[سير اعلام النبلاء 10/8]
متعصب حنابلہ
ابو اسماعیل انصاری کا کہنا ہے :
أنا حنبلي ما حييت وإن أمت
فوصيتي للناس أن يتحنبلوا
”میں اپنی زندگی میں حنبلی ہوں، اور مرنے کے بعد لوگوں کے لئے میری وصیت یہ ہے کہ وہ بھی حنبلی بن جائیں“ [سير اعلام النبلاء 18/ 507 ]
ابوحاتم بن خاموش کہتے ہیں :
كل من لم يكن حنبليا فليس بمسلم
”ہر وہ شخص جو حنبلی نہیں، وہ مسلمان نہیں“ [ سير اعلام النبلاء 18 /509 ]
قارئین کرام ! اب آپ خود غور فرمائیں کہ جب ائمہ اربعہ میں سے ہر امام کے مقلدین اپنے اپنے امام کے مسلک کی طرف دعوت دیں، اور ہر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے، اور اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے تو بخدا بتایئے کیا یہ فرقہ پرست نہیں ؟ کیا یہ اتفاق و اتحاد امت کا راستہ ہے کہ اپنے امام کو دوسرے ائمہ سے اعلی و برتر تصور کیا جائے اور اس کی فقہ کو دوسرے امام کی فقہ پر ترجیح دی جائے ؟
اور اگر یقین نہیں آتا تو لیجئے خود حنفی عالم دین کی شہادت پڑھ لیجئے :
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ تقلید نے امت مسلمہ کو فرقوں میں بانٹ دیا اور مسلمانوں کے دلوں میں کدورتیں پیدا کر دیں۔
اور امام ابن ابی العز حنفی کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ ایک امام اور اس کی فقہ کے لئے تعصب کی وجہ سے فرقہ بندی کو ہوا ملتی ہے اور اجتماع امت کی شدید حوصلہ شکنی ہوتی ہے، چنانچہ محمد بن محمود نے النكت الظريفة فى ترجيح مذهب أبى حنيفة تالیف کی تو ان کے رد میں امام ابن ابی العز حنفی نے الاتباع تصنیف کی، جس کے شروع میں وہ یوں رقمطراز ہیں :
فإني وقفت على رسالة لبعض الحنفية رجح فيها تقليد مذهب أبى حنيفة، وحض على ذلك، وجدت فيها مواضع مشكلة، فأحببت أن أنبه عليها خوفا من التفرق المنهي عنه واتباع الهوى المردي [الاتباع : 21]
”میں نے ایک حنفی کا تصنیف کردہ رسالہ دیکھا جس میں اس نے مذہب ابو حنیفہ کی تقلید کو ترجیح دی ہے، اور اس میں اس کی ترغیب دلائی ہے، مجھے اس میں کافی اشکالات محسوس ہوئے، اس لئے میں نے پسند کیا ہے کہ ان پر تنبیہ کروں تا کہ امت میں وہ افتراق پیدا نہ ہو جس سے منع کیا گیا ہے اور اتباع دلیل کی بجائے خواہش پرستی شروع نہ ہو جائے جو تباہ کن ہے۔ “
اس سے معلوم ہوا کہ ایک امام کی تقلید کو ترجیح دینے اور اس کی طرف ترغیب دلانے سے امت میں افتراق پیدا ہوتا ہے اور خواہش پرستی شروع ہو جاتی ہے، یہ فرمان آپ ہی کے امام کا ہے :
؎ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

اور جب صاحب رسالہ ” النکت الظریفۃ فی ترجیح مذہب أبی حنیفۃ “ کی ایک دلیل یہ پیش کی گئی کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ خیر القرون میں تھے، لہٰذا وہ دوسرے ائمہ سے افضل ہیں، تو اس کے جواب میں ابن ابی العز حنفی کہتے ہیں کہ مالکی بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے امام (مالک رحمہ اللہ ) بھی خیر القرون میں تھے، اور ایسی جگہ پر تھے جہاں وحی اترتی تھی، اور ایسے شہر میں تھے کہ جس کے رہنے والوں کے اجماع کو بعض علماء باقاعدہ دلیل تصور کرتے ہیں، اس کے بعد امام ابن ابى العز کہتے ہیں :
ومن مثل هذا الاستدلال نشأ الافتراق فى هذه الأمة فإنا لله وإنا إليه راجعون [ الاتباع : 28 ]
”اسی طرح کے طریقہ استدلال سے امت میں فرقہ بندی پیدا ہوئی، سو اس پر جس قدر اظہار افسوس کیا جائے، کم ہے۔“
اور تقلید اور مذہبی تعصب کے بھیانک نتائج بیان کرتے ہوئے سعودی عالم دین دکتور مانع جہنی لکھتے ہیں :
’’ جب تقلید اور مذہبی تعصب قرون معطلہ کے بہت بعد امت میں پھیل گیا تو اس سے مسلمانوں میں افتراق پیدا ہوا، اور کافر مسلمانوں پر غالب آگئے، اور اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا، اور علماء کی آراء کو کتاب و سنت پر فوقیت دی جائے گی، اور کہا گیا کہ کتاب و سنت سے براہ راست استفادہ کرنا نا ممکن ہے، سو ایک مذہب کے لئے غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں، اور دوسرے مذاہب سے براء ت کا اعلان کر دیا گیا اور دوستی اور دشمنی اپنے فقہی مذہب کی بنیاد پر کی گئی“ [الموسوعة
الميسرة فى الأديان والمذاهب : ج اص 243 ]

اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ تقلید اور مذہبی تعصب کی وجہ سے احناف اور شافعیہ نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز کو باطل قرار دیا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور آپس میں مناکت کو حرام قرار دے دیا ہے، بلکہ اس سے بھی آگے چلے گئے اور اصفہان اور ”الری“ میں خون کی نہریں بہادیں، تفصیل کے لئے دیکھئے : [معجم البلدان 1 /273 , 4/ 355]
اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ ترکوں کے دور خلافت میں حرم مکی میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلی ہوا کرتے تھے ایک ہی مسجد میں ہر نماز کی چار جماعتیں ہوتی تھیں ؟ کیا یہ سب کچھ نہیں فرقہ پرستی کا نتیں نہیں تھا ؟ اس لئے ہم تمام مقلدین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ تقلیدی جمود کو توڑ کر ( اتباع) کتاب و سنت کا راستہ اپنائیں تا کہ اتحاد امت کے لئے راستہ ہموار ہو سکے، ورنہ جب تک یہ تقلیدی جمود باقی ہے اس وقت تک افتراق امت جیسی لعنت کے بادل امت مسلمہ پر چھائے رہیں گے۔
مقلدین سے مولانامحمد جونا گڑھی رحمہ اللہ کے پچاس سوالات
مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ نے مقلدین سے پچاس سوالات کئے تھے، جو کہ ”ضرب محمدی“ کے نام سے ایک رسالے میں چھپوائے گئے تھے، ہماری معلومات کے مطابق مقلدین میں سے کسی نے آج تک ان سوالوں کے جوابات نہیں دیئے، ہم یہاں پر ان کے چند سوالات درج کر رہے ہیں :
➊ کیا تقلید شخصی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں تھی ؟
➋ خود چاروں ائمہ حمہم اللہ نے اس تقلید کے متعلق کیا فرمایا ہے ؟
➌ اجماع کی تعریف کیا ہے ؟ اور کن لوگوں کا اجماع معتبر ہے ؟ کیا تقلید شخصی پر اجماع ہوا ہے ؟ اگر ہوا ہے تو کب ؟ کہاں ؟ اور کن کا ؟
➍ مجتہد کے کہتے ہیں ؟ اور کیا ہر مجتہد کی تقلید فرض ہوتی ہے ؟ اور کیا چودہ سو سال میں صرف چار مجتہد ہی ہوئے ہیں ؟ کیا صحابہ کرام و تابعین مجتہد نہ تھے ؟ اور ان چار مجتہدین میں سے ایک کی تقلید کس ترجیح کی بناء پر ہے ؟
➎ ان چار ائمہ نے کیسے تعلیم پائی ؟ بذریعہ وحی یا دیگر ائمہ سے ؟ اگر دیگر ائمہ سے انہوں نے تعلیم حاصل کی تو کیا ان کے اساتذہ ان سے افضل تھے یا مفضول ؟ اگر افضل تھے تو ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی ؟
➏ چاروں ائمہ افضل ہیں یا چاروں خلفائے راشدین ؟ اگر خلفائے راشدین افضل ہیں تو پھر ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی ؟
➐ اگر چار میں سے ایک امام کی تقلید کرنی ہے تو ہمیں کیا خبر کہ ان میں سے کس کے مسائل صحیح ہیں ؟ اور کس کے غلط ؟ اور اگر یہ چاروں مذہب برحق ہیں تو ایک مذہب پر عمل کرنے سے وقت کے تین حصے ہم سے چھوٹ جاتے ہیں ؟
➑ جب تک یہ ائمہ امامت کی حیثیت سے دنیا میں آئے اس وقت تک اسلام پر سو سال گزر چکے تھے، تو ان کی عدم موجودگی میں لوگ پورے مسلمان تھے یا ادھورے ؟ اگر کامل مسلمان تھے تو کیا ان کا طریقہ کار ہمارے لئے کافی نہیں ؟
➒ چوتھی صدی میں مسلمان بجائے ایک راہ کے چار راستوں پر بٹ گئے، اور اللہ کے گھر بیت اللہ کے بھی چار ٹکڑے کرنے پرمجبور ہو گئے، کیا قرآن و حدیث میں ان مصلوں، ان مذہبوں اور ان اماموں کے ناموں کا ذکر ہے ؟
➓ امام حسین رضی اللہ عنہ، امام حسن رضی اللہ عنہ، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، امام باقر رحمہ اللہ، اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ چاروں ائمہ سے افضل ہیں یا چار امام ان سے افضل ہیں ؟ آل رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے ان ائمہ کے مقلد کو تو ہم شیعہ رافضی کہیں اور ان سے کم درجے کے ائمہ کی تقلید کو ہم فرض مانیں، اس تفریق کی وجہ کیا ہے ؟
⓫ کیا اب کوئی شخص خلفائے راشدین میں سے کسی ایک کی تقلید کر سکتا ہے ؟ اگر کر سکتا ہے تو امام کی تقلید تو ہوگی ؟ اور اگر نہیں کر سکتا تو پھر امام کی بھی نہیں ہونی چاہیے ؟
⓬ اگر چاروں خلفائے راشدین کی تقلید اب منع ہے تو کیوں اور کس نے منع کیا ؟ اور چاروں ائمہ کی تقلید کیوں اور کس نے باقی رکھی ؟
⓭ کیا فقہ کی موجودہ کتابوں میں کوئی ایک بھی ایسی ہے جسے امام ابوحنیف رحمہ اللہ نے خود لکھا ہو ؟ اور ان میں جو خلاف تہذیب مسائل ہیں کیا وہ فی الواقع امام ابوحنیفہ کے ہیں ؟
⓮ تقلید شخصی کے متعلق قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے ؟ اگر تقلید کا حکم ہے تو آیت اور حدیث صاف صاف لکھ دیجئے جس میں یہ ہو کہ فلاں امام کی تقلید تم پر فرض ہے، اور جو نہ کرے وہ لا مذہب ہے۔
⓯ اگر چاروں ائمہ اپنے تئیں یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ مسائل قرآن و حدیث سے لیں تو ایسا ہم کیوں نہیں کر سکتے ؟
اختصار کے پیش نظر ہم انہی سوالات پر اکتفاء کرتے ہیں، اور آخر میں ایک سوال ہمارا بھی ملاحظہ ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام نزول کے بعد چاروں ائمہ میں سے کسی کی تقلید کریں گے ؟ اور چاروں میں سے کس کی فقہ کو نافذ کریں گے اور کس کی تبلیغ کریں گے ؟ اس سلسلے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔
امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ اور تقلید
”کتاب التوحید “امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ہے، اس کے ابواب میں سے ایک باب ان الفاظ میں ہے :
باب من أطاع العلماء والأمراء فى تحريم ما أحل الله أو تحليل ما حرم الله فقد اتخذهم أربابا من دون الله
”اس بات کا بیان کہ جس چیز کو اللہ نے حلال کر دیا ہے اسے حرام قرار دینے میں یا جس چیز کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے حلال قرار دینے میں جس نے علماء وامراء کی اطاعت کی، اس نے گویا انہیں اللہ کے سو ارب قرار دیا۔ “
اس باب کے تحت امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے سب سے پہلے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ذکر کیا ہے :
يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء، أقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقولون : قال أبو بكر وعمر ؟
”بہت قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسنا شروع ہوجائیں، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور تم اس کے مقابلے میں کہتے ہو : ابوبکر و عمر نے فرمایا۔“
پھر امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کرتے ہیں :
عجبت لقوم عرفوا الاسناد وصحته ويذهبون الى رأي سفيان
” مجھے تعجب ہے اس قوم پر جسے حدیث کی سند اور اس کی صحت معلوم ہے، اور اس کے باوجود بھی وہ سفیان کی رائے کی طرف جاتے ہیں۔“
امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا کتاب التوحید میں قائم کردہ یہ باب اور اس کے تحت مذکورہ آثار سے ان کا تقلید کے بارے میں موقف بالکل واقع ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل نکا ت میں کیا جاسکتا ہے :
➊ علماء کو تحلیل و تحریم کا اختیار دیا انہیں رب مانے کے مترادف ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں ائمہ اور علماء تو کجا، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہا کی آراء کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔
➌ صحیح حدیث معلوم کر لینے کے بعد ائمہ کی آراء سے چمٹے رہنا حیران کن ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کی شرح کرتے ہوئے امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے پوتے شیخ عبدالرحمن بن حسن آل الشیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
”یہ برائی عام ہو چکی ہے، خصوصا ان لوگوں میں جو اہل علم کہلاتے ہیں، انہوں نے کتاب و سنت کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے روک رہے ہیں، چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ کتاب وسنت سے صرف مجتہد ہی دلیل لے سکتا ہے، اور اب اجتہاد کا دروازہ بند ہے، نیز یہ کہتے ہیں کہ جس کی ہم تقلید کرتے ہیں وہ آپ سے بڑا عالم بالحدیث تھا، تو اس طرح کی باتوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کی جائے جو کہ وحی کے بغیر بولتے ہی نہیں تھے، اور اس شخص کی بات پرمکمل اعتماد کیا جائے جو غلطی بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔ سو ہر مکلف پر واجب ہے کہ اسے جب کتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ علیہ وسلم سے کوئی دلیل مل جائے اور اسے اس کا معنی بھی سمجھ میں آجائے تو وہ اس پر عمل کر گزرے، خواہ اس پر کسی عالم یا امام نے عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، اور اس بات پر ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا ہے۔ “ [فتح المجيد صفحه نمبر 339-340 ]
اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے دوسرے پوتے شیخ سلیمان بن عبداللہ آل شیخ رحمہ اللہ کتاب التوحید کے اسی باب کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”بلکہ ہر مومن پر فرض ہے کہ اسے جب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم معلوم ہو تو وہ اس پر عمل کرے، خواہ اس کی کسی بھی امام نے مخالفت کی ہو، کیونکہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کا حکم دیا ہے، اور اس پر تمام علماء کا اجماع ہے، سوائے جاہل اور خشک مقلدین کے کہ جن کے نزدیک ہدایت یافتہ شخص وہ
ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتے ہوئے کسی فقہی مذہب یا کسی عالم پر اعتماد کرے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلى اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے، فرمایا : وإن تطيعو تهتدوا یعنی اگر تم نے اس (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی تو تم ہدایت یافتہ ہو گے، اور افسوس اس بات پر ہے کہ اس حرام تقلید میں آج بہت ساری خلقت مبتلا ہے، اور ایسے لوگ بھی اسی تقلید کا شکار ہو چکے ہیں جو علم و معرفت کا دعوی کرتے ہیں اور علم حدیث و سنن میں بڑی بڑی کتابیں لکھ ڈالتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ تقلیدی جمود سے آزاد ہونے کو کبیرہ گناہ تصور کرتے ہیں۔“ [ديكهئے : تيسير العزيز الحميد، ص 546۔ 547 ]
اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے مسلک کے متعلق سعودی عالم دین الدکتور مانع بن حماد الجہنی کی شہادت ملاحظہ فرمایئے :
كان الشيخ محمد بن عبد الوهاب حنبلى المذهب فى دراسته لكنه لم يكن يلتزم ذلك فى فتاواه إذا ترجح لديه الدليل فيما يخالفه وعليه فإن دعوته اتسمت باتباع الدليل وفق فهم السلف الصالحين [ الموسوعة الميسرة فى الأديان والمذاهب والأحزاب المعاصرة : ج 1، ص 127 طبع سوم ]
”شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ اپنی بحث وتحقیق میں حنبلی المذہب تھے، لیکن وہ اپنے فتووں میں اس کی پابندی نہیں کرتے تھے جب کہ دلیل اس کے مخالف ہوتی، اس طرح آپ کی دعوت کی خاص بات سلف صالحین کی سمجھ کی روشنی میں اتباع دلیل ہے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے