ابن جریر طبری دو مختلف شخصیات یا ایک؟ تحقیقی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 422

کیا "ابن جریر الطبری” دو مختلف شخص ہیں؟

سوال:

کیا "ابن جریر طبری” صاحبِ تفسیر اور "ابن جریر طبری” صاحبِ تاریخ دو الگ افراد ہیں؟ اگر یہ ایک ہی شخصیت ہیں، تو بعض علماء کے بقول صاحبِ تاریخ رافضی تھے، تو پھر مفسر پر علماء کو اعتماد کیوں ہے؟ اور اگر یہ دونوں الگ الگ افراد ہیں تو ان دونوں کے مختصر حالات زندگی (ترجمہ) بیان کریں۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تاریخی اور حدیثی مصادر کے مطابق، "ابن جریر الطبری” کے نام سے دو مختلف افراد گزرے ہیں:

(1) محمد بن جریر بن رستم الطہری، ابوجعفر الآملی

عقیدہ: یہ شخص رافضی تھا۔

تفصیل:
اس کے حالات درج ذیل کتب میں بیان کیے گئے ہیں:

میزان الاعتدال (جلد 3، صفحہ 499، ترجمہ 7307)
ذیل المیزان للعراقی (صفحہ 304، ترجمہ 637)
لسان المیزان (جلد 5، صفحہ 103، ترجمہ 7191)
سیر اعلام النبلاء (جلد 14، صفحہ 282)

اہل سنت کا موقف:
اہل سنت کے کسی معتبر امام نے اسے ثقہ یا صدوق قرار نہیں دیا۔

عبدالعزیز الکتانی کا قول:
وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص رافضی تھا۔

بعض روایات کے مطابق:
کچھ لوگوں نے اسے معتزلی بھی کہا ہے۔

شیعہ کتب میں اس کا ذکر:
مجمع الرجال للقہبائی (جلد 5، صفحہ 173)
معجم رجال الحدیث للخوئی (جلد 15، صفحہ 147، ترجمہ 10354)
رجال النجاشی (صفحہ 266)
"جلیل من اصحابنا کثیر العلم حسن الکلام، ثقة فی الحدیث، لہ کتاب المسترشد فی الامامۃ”
تنقیح المقال (جلد 1، صفحہ 134، ترجمہ 1330)

ابن داود الحلی الرافضی کا قول:
"ثقۃ فی الحدیث، صاحب کتاب المسترشد فی الامامۃ۔۔۔ وھو غیر صاحب التاریخ، ذاک عامی” (صفحہ 167)

علامہ زبیر علی زئی کا بیان:
"میں نے اس رافضی کی کتاب ’الامامۃ‘ دیکھی ہے، یہ تمام تر بے اصل اور موضوع روایات سے بھری ہوئی ہے۔”

(2) محمد بن جریر بن یزید، ابوجعفر الطبری

عقیدہ:
یہ اہل سنت کے جلیل القدر امام تھے۔

تفصیل:
ان کے حالات درج ذیل کتب میں موجود ہیں:

تاریخ بغداد للخطیب (جلد 2، صفحہ 162، ترجمہ 589)
المنتظم لابن الجوزی (جلد 13، صفحہ 215، ترجمہ 2199)
لسان المیزان (جلد 5، صفحہ 100 تا 103، ترجمہ 7190)
میزان الاعتدال (جلد 3، صفحہ 498، ترجمہ 7306)
سیر اعلام النبلاء (جلد 14، صفحہ 267، ترجمہ 175)
طبقات الشافعیہ للسبکی (جلد 3، صفحہ 120 تا 128)

علمائے اہل سنت کا اعتماد:
جیسے ابو سعید بن یونس المصری اور خطیب بغدادی وغیرہ نے ان کی بھرپور تعریف کی ہے۔

حافظ ذہبی کا قول:
"کان ثقة صدقا حافظا”
(سیر اعلام النبلاء، جلد 14، صفحہ 270)

امام ابن خزیمہ کا قول:
"وما اعلم علی ادیم الارض اعلم من محمد بن جریر، ولقد ظلمته الحنابلة”
(سیر اعلام النبلاء، جلد 14، صفحہ 273)

ابن جریر الطبری السنی کی مشہور کتابیں:

◈ تفسیر طبری
◈ تاریخ طبری
◈ تہذیب الآثار
◈ صریح السنہ

ان کے عقائد کا بیان ان کی کتابوں میں موجود ہے:

"ایمان قول و عمل کا نام ہے، یہ بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔”
صریح السنہ، صفحہ 25

"وکذلک نقول فافضل اصحابه صلی اللہ علیہ وسلم الصدیق ابوبکر رضی اللہ عنه ثم الفاروق بعدہ عمر ثم ذوالنورین عثمان بن عفان ثم امیرالمومنین وامام المتقین علی بن ابی طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین”
صریح السنہ، صفحہ 24

یہ عبارت واضح کرتی ہے کہ ابن جریر الطبری شیعہ نہیں بلکہ سنی تھے۔

مامقانی رافضی کا بیان:
"عامی لم یوثق”
تنقیح المقال، جلد 1، صفحہ 134

تنبیہ:

ابن جریر کے ثقہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تاریخ طبری کی تمام روایات صحیح ہیں۔ بلکہ ہر روایت کی پوری سند (ابن جریر سے لے کر اوپر تک) کا صحیح ہونا ضروری ہے۔

علامہ زبیر علی زئی کا تحقیق پر مبنی بیان:
"میں نے تاریخ طبری کی تحقیق کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کتاب کا 90 فیصد حصہ موضوع اور باطل روایات پر مشتمل ہے، جن کی وجہ وہ راوی ہیں جو ضعیف و مجروح تھے، اور جن سے ابن جریر نے روایات لے کر اپنی کتاب میں درج کیں۔”

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے