ابلیس جنات میں سے تھا یا فرشتوں میں سے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل تحقیق
ابتدائی وضاحت:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید کی سورۃ الکہف کی آیت نمبر 50 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِـٔادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ كانَ مِنَ الجِنِّ فَفَسَقَ عَن أَمرِ رَبِّهِ﴾
… سورة الكهف: 50
’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنوں میں سے تھا، پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔‘‘ (الکہف:۵۰)
مختلف مفسرین کے ترجمے
- ◈ شاہ ولی اللہ الدہلوی: ’’ویادکن چون گفتیم برفرشتگاں سجدہ کنید آدم را پس سجدہ کردند مگر ابلیس بوداز جن پس بیرون شد از فرمان پروردگار خود‘‘ (ص۳۶۱)
- ◈ شاہ عبدالقادر دہلوی: ’’اور جب کہا ہم نے فرشتوں کو، سجدہ کرو آدم کو، تو سجدہ کر پڑے مگر ابلیس۔ تھا جن کی قسم سے سو نکل بھاگا اپنے رب کے حکم سے۔‘‘ (ص۳۶۱)
- ◈ اشرف علی تھانوی دیوبندی: ’’اور جبکہ ہم نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے، وہ جنات میں سے تھا سو اس نے اپنے رب کے حکم سے عدول کیا۔‘‘ (بیان القرآن ج۶ ص۱۲۴)
- ◈ احمد رضا خان بریلوی: ’’اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے، قوم جن سے تھا تو اپنے رب کے حکم سے نکل گیا۔‘‘ (ص۴۷۹)
- ◈ پیر محمد کرم شاہ بھیروی: ’’اور یاد کرو جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو پس سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ قوم جن سے تھا۔ سو اس نے نافرمانی کی اپنے رب کے حکم کی۔‘‘ (ضیاء القرآن ج۳ ص۳۴)
اس آیت سے واضح نتیجہ
پیر محمد کرم شاہ لکھتے ہیں:
’’ان الفاظ سے بتا دیا کہ ابلیس فرشتہ نہیں تھا بلکہ جن تھا۔‘‘ (ضیاء القرآن ج۳ ص۳۴ حاشیہ: ۷۵)
حدیث سے تائید
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«خلقت الملائکة من نور و خلق ابلیس من نار السموم و خلق آدم علیه السلام مما قد و صف لکم»
’’فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور ابلیس کو جھلسانے والی آگ کے سیاہی مائل تیز شعلے سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کو اس (مٹی) سے پیدا کیا گیا ہے جس کی حالت تمھارے سامنے بیان کر دی گئی ہے۔‘‘
(کتاب التوحید لابن مندہ ج۱ ص۲۰۸ ح۷۳، نیز دیکھئے صحیح مسلم: ۲۹۹۶ [۷۴۹۵])
اقوال تابعین و مفسرین
- ◈ حسن بصری رحمہ اللہ:
ما کان إبلیس من الملائکة طرفة عین قط و إنه لأصل الجن کما أن آدم علیه السلام أتل الإنس
’’ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہیں تھا۔ جس طرح آدم علیہ السلام انسانوں کی اصل ہیں اسی طرح ابلیس جنوں کی اصل ہے۔‘‘
(تفسیر طبری ۱۷۹/۱، ۱۷۰/۱۵ و صححہ ابن کثیر فی تفسیرہ ۲۲۲/۴، الکہف: ۵۰، کتاب العظمۃ لابی الشیخ ۱۶۸۱/۵ ح۱۱۲۹، و سندہ صحیح)
ابلیس کو فرشتہ قرار دینے والے اقوال
- ◈ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:
کان إبلیس اسمه عزازیل و کان من أشرف الملائکة من ذوی الأربعة الإجنحة ثم ابلیس بعد
’’ابلیس کا نام عزازیل تھا اور وہ چار پروں والے بلند رتبہ فرشتوں میں سے تھا، پھر ابلیس بن گیا۔‘‘
(تفسیر ابن ابی حاتم ۸۴/۱ ح۳۶۱ و سندہ صحیح) - ◈ قتادہ تابعی:
ابلیس فرشتوں کے اس قبیلے میں سے تھا جسے جن کہتے ہیں۔
(تفسیر عبدالرزاق: ۱۶۸۷، و سندہ صحیح، تفسیر طبری ۱۷۸/۱، ۱۷۹، ۱۷۰/۱۵، و سندہ صحیح) - ◈ ابن مسعود رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ:
جعل إبلیس علی ملک سماء الدنیا و کان من قبیلة من الملائکة یقال لهم الجن و إنما سموا الجن الأنهم خزان الجنة و کان إبلیس مع ملکة خازنا
’’ابلیس آسمان دنیا کی بادشاہی پر مامور تھا، اور وہ فرشتوں کے اس قبیلے میں سے تھا جنھیں جن کہا جاتا ہے۔ وہ جنت کے خزانچی تھے اور ابلیس بھی خزانچی تھا۔‘‘
(تفسیر ابن جریر الطبری ۱۷۸/۱، و سندہ حسن)
راجح قول اور دلائل
سلف صالحین کے اختلاف کی صورت میں قرآن و حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس مسئلہ میں راجح بات یہ ہے کہ ابلیس جن تھا، اس کے دلائل:
- ➊ قرآن کریم کی واضح نص
﴿كانَ مِنَ الجِنِّ﴾ (الکہف: 50) - ➋ ابلیس کی پیدائش آگ سے ہوئی
(حدیث صحیح مسلم: ۲۹۹۶) - ➌ فرشتوں کی اولاد نہیں ہوتی، ابلیس کی اولاد ہے
(دیکھئے سورۃ الکہف: ۵۰) - ➍ فرشتے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے، ابلیس نے کی
(دیکھئے سورہ تحریم: 6) - ➎ ابلیس کو فرشتہ کہنے والے اقوال اسرائیلیات پر مبنی ہیں، قرآن و حدیث پر نہیں
وضاحت از ڈاکٹر ذاکر نائیک (کتاب: اسلام پر ۴۰ اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب، مکتبہ دارالسلام)
قرآن کے مختلف مقامات پر ابلیس کو فرشتہ کہا گیا، لیکن سورہ کہف میں اسے جن قرار دیا گیا، کیا یہ تضاد ہے؟
- ◈ قرآن میں تضاد نہیں
سورۃ البقرہ، اعراف، حجر، بنی اسرائیل، طہٰ، صٓ میں ذکر ہے:
﴿إِلّا إِبليسَ﴾ (سجدہ نہ کیا) - ◈ سورۃ الکہف کی آیت 50 میں وضاحت ہے کہ:
﴿كانَ مِنَ الجِنِّ﴾ - ◈ تغلیب کا قاعدہ:
عربی گرامر کے اصول کے مطابق اگر اکثریتی گروہ (فرشتے) سے خطاب ہو اور اس میں کوئی اقلیتی گروہ (ابلیس) بھی موجود ہو تو اس کا ذکر ضمنی طور پر شامل ہو جاتا ہے۔ - ◈ قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ابلیس فرشتہ تھا۔
- ◈ جنوں کو اختیار دیا گیا ہے، فرشتوں کو نہیں:
جن اطاعت سے انکار کر سکتے ہیں، فرشتے نہیں۔
لہٰذا ابلیس کی نافرمانی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جن تھا، فرشتہ نہیں۔
خلاصہ:
ابلیس، جو کہ شیطان ہے، فرشتہ نہیں بلکہ جن تھا۔
قرآن کی واضح نص، احادیث، تابعین کے اقوال، اور عقلی دلائل سب اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔