ابتدائیہ کتاب نور العینین فی اثبات رفع یدین
یہ اقتباس محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمه الله کی کتاب نور العینین فی اثبات رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ فی الصلٰوۃ سے ماخوذ ہے۔

ابتدائیہ

نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانے کو رفع الیدین کہتے ہیں۔ اہل الحدیث (كثر الله أمثالهم) اس رفع الیدین کو سیدنا امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر منسوخہ و غیر متروکہ سنت کہتے ہیں اور اس پر ایماناً واحتساباً عامل ہیں حتی کہ ان کے بعض جلیل القدر علماء نے رفع الیدین کو اہل الحدیث کا شعار قرار دیا ہے۔
امام ابو احمد الحاکم (378ھ) نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ”شعار اصحاب الحدیث“ ہے۔ اسے مکتبہ ظاہریہ، شام کے مخطوطہ سے شائع کیا گیا ہے اس کے صفحہ 47 پر امام ابو احمد رفع الیدین کا باب باندھتے ہیں اور رفع الیدین کی حدیثیں بیان کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ رفع الیدین تمام محدثین (اہل الحدیث) کا شعار ہے۔

◈ ا مام ابو احمد الحاکم الکبیر کا مختصر تعارف

آپ کا اسم گرامی محمد بن محمد بن احمد بن اسحاق ہے۔ آپ نیشاپور کے مایہ ناز فرزند ہیں۔ آپ کی ”کتاب الکنی“ ہر طرف (علمائے حدیث میں) مشہور ہے۔ آپ کے بارے میں حافظ شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی (673-748ھ) فرماتے ہیں:
”الإمام الحافظ العلامة الثبت محدث خراسان“ (سیر اعلام النبلاء 16/370)
نیشاپور کے امام ابو عبد اللہ الحاکم نے آپ کو ”إمام عصره فى هذه الصنعة كثير التصانيف مقدم فى معرفة شروط الصحيح والأسامي والكنى“ قرار دیا ہے۔ یعنی آپ علم حدیث میں زمانے کے امام تھے۔ بے شمار تصانیف کے مصنف، صحیح حدیث، نام اور کنیتوں کی معرفت میں مقدم تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ 976/3)
حافظ ابن الجوزی (510-597ھ) نے کہا: ”القاضي إمام عصره فى صنعة الحديث“ (المنتظم في تاريخ الملوك والأمم 146/7)
حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی (773-852ھ) نے ان کو امام كبير و معروف بسعة الحفظ کے ساتھ موصوف کیا۔ (لسان المیزان 5/7)
مؤرخ ابو الفلاح عبد الحئی بن العماد الحنبلي (متوفی 1089ھ) نے کہا:
الحافظ الثقة المأمون أحد أئمة الحديث (شذرات الذهب فی اخبار من ذهب 3/93)
خلاصہ یہ کہ آپ ثقہ، مامون اور عالم کبیر تھے۔
فائدہ: کسی شخص کے ساتھ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی وغیرہ نسبتوں کے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شخص مقلد ہے۔
[ تقریرات الرافعی ج 1 ص 11 پر ابو بکر القفال ابو علی اور قاضی حسین سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا: ”لسنا مقلدين للشافعي بل وافق رأينا رأيه“ ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں، بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے (اتفاقاً یا اجتہاداً) موافق ہو گئی ہے۔ نیز دیکھئے التحریر والتقریر ج 3 ص 453 – النافع الكبير ص 7]
احمد بن محمد بن سلامہ الطحاوی (متوفی 321ھ) مشہور حنفی عالم ہیں۔ ان کی کتب حنفیوں کا دارو مدار ہے۔ ان سے ایک شخص نے کہا: ”ما ظننتك إلا مقلدا“ میرا گمان یہ تھا کہ آپ مقلد ہیں تو انھوں نے کہا: و هل يقلد إلا عصبي أو غبي تقلید صرف وہی کرتا ہے جو متعصب یا جاہل ہو۔ (لسان المیزان 1/280)
ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الجیلی الزیلعی مشہور حنفی عالم ہیں۔ ان کی کتاب ”نصب الرایۃ لأحاديث الهدایہ“ کا نام زبان زد عام ہے۔ زیلعی حنفی (المتوفی 762ھ) فرماتے ہیں: فالمقلد ذهل والمقلد جهل مقلد غافل ہو جاتا ہے اور مقلد جہالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ (نصب الرایۃ 219/1)
عینی حنفی فرماتے ہیں:
فالمقلد ذهل والمقلد جهل و آفة كل شيء من التقليد
پس مقلد غافل ہوتا ہے اور مقلد جہالت کا مرتکب ہوتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔ (البنائیة فی شرح الهدایہ ج 1 ص 222 وفی نسخہ ص 317)
عقل مند کے لیے یہ چند مثالیں ہی کافی ہیں اور جاہل کے لیے دلائل کے انبار بھی ناکافی ہیں۔

رفع الیدین پر کتابیں

اہل حدیث (نور الله وجوههم يوم القيامة) اپنی قدیم و جدید سب کتابوں میں رفع الیدین کا اثبات اور سنت ہونا نقل کرتے آئے ہیں۔
شیخ الاسلام، امام الدنیا فی فقہ الحدیث، امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری نے رفع الیدین کے اثبات پر ایک کتاب ”جزء رفع الیدین“ لکھی ہے۔

◈ امام بخاری کا تعارف

آپ کی امامت، عدالت اور ثقاہت پر اہل السنۃ والجماعۃ (اہل حدیث) کا اجماع ہے۔ آپ کی کتاب ”صحیح بخاری“ ساری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ کے اساتذہ و تلامذہ سب آپ کی تعریف و ثناء میں رطب اللسان تھے۔
امام ترمذی نے فرمایا: میں نے علل، تاریخ اور معرفت اسانید میں محمد بن اسماعیل (بخاری) رحمہ اللہ سے بڑا کوئی عالم نہ عراق میں دیکھا اور نہ خراسان میں۔ (كتاب العلل للترمذی مع شرح ابن رجب 32/1)
امام مسلم نے فرمایا: اے امام بخاری آپ سے صرف حسد کرنے والا شخص ہی بغض کرتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ دنیا میں آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔ (الارشاد تحلیلی 961/3 وسنده صحیح)
امام ابن خزیمہ نے فرمایا: میں نے آسمان کے نیچے محمد بن اسماعیل البخاری سے زیادہ بڑا حدیث کا عالم نہیں دیکھا۔ (معرفة علوم الحدیث للحاکم ص 74 ح 155 وسندہ صحیح)
حافظ ابن حبان نے کہا: آپ لوگوں میں بہترین انسان تھے، آپ نے احادیث جمع کیں، کتابیں لکھیں سفر کیا اور (احادیث) یاد کیں۔ آپ نے مذاکرہ کیا، اس کی ترغیب دی اور اخبار و آثار یاد کرنے میں بہت زیادہ توجہ دی۔ آپ تاریخ اور لوگوں کے حالات کو خوب جانتے تھے۔ آپ اپنی وفات تک خفیہ پرہیز گاری اور عبادت دائمہ پر قائم رہے۔ رحمہ اللہ (کتاب الثقات 113/9-114)
علمائے حدیث کی ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ امام بخاری زبر دست ثقہ امام اور عظیم بے مثال عالم، فقیہ بلکہ فقیہ گر تھے۔ (نیز دیکھئے میری کتاب صحیح بخاری کا دفاع) حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ”وكان إماما حافظا رأسا فى الفقه والحديث مجتهدا من أفراد العالم مع الدين والورع والتأله“ (الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة 18/3)
امام بخاری سے جزء رفع الیدین کے راوی محمود بن اسحاق بن محمود القواس ہیں ان سے دو ثقہ شخص روایت کرتے ہیں۔ (محمود بن اسحاق کا تذکرہ تاریخ الاسلام للذہبی ج 25 ص 83 – الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث مخلیلی ج 3 ص 968 میں موجود ہے ان کی وفات 332ھ میں ہوئی رحمہ اللہ)
➊ احمد بن محمد بن الحسین الرازی (تاریخ بغداد 411/13، وفی نسخہ 13/438، تذکرۃ الحفاظ 1029/3) خطیب نے کہا: ثقہ حافظ تھے، احمد بن محمد العقیقی نے کہا: ثقہ مامون تھے۔ (تاریخ بغداد 435/4)
➋ ابو نصر محمد بن احمد بن محمد بن موسیٰ البخاری الملاحمی (النبلاء 86/17)
حافظ ابن جوزی نے کہا: ”وكان من أعيان أصحاب الحديث و حفاظهم“ (المنتظم 230/7) حافظ ابن کثیر اور ابو العلاء نے اسے حفاظ میں سے قرار دیا ہے۔ (البدایہ والنہایۃ 358/11، سیر اعلام النبلاء 87/17)، حافظ ذہبی نے کہا: ”وكان ثقة يحفظ ويفهم“ (العبر في خبر من غبر 187/2) ابن عماد نے کہا: ”وكان حافظا ثقة“ (شذرات الذهب 145/3) معلوم ہوا کہ دو ثقہ حافظ محمود بن اسحاق کے شاگرد ہیں اور دو یا دو سے زیادہ ثقہ (مشہور) راوی اگر کسی سے روایت کریں تو اس کی جہالت عین رفع ہو جاتی ہے۔
(الكفايه في علم الرواية للخطيب ص 88، 89 مقدمہ ابن الصلاح ص 146، اختصار علوم الحدیث لابن کثیر ص 92 تقریب النووی مع تدریب الراوی 317 قواعد فی علوم الحدیث لظفر احمد تھانوی ص 30 السان المیزان 226/6)
ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں: ”وليس بمجهول من روى عنه ثقتان“ (اعلاء السنن 114/1)
رہی اس کی جہالت حال تو عبد الرحمن بن یحیی المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اہل علم نے اس کی توثیق کی ہے۔ (التنکیل بمافی تأنيب الكوثرى من الاباطیل 475/1)
شیخ معلمی کی تائید درج ذیل علماء کے اقوال سے ہوتی ہے، جنھوں نے جزء رفع الیدین کو بطور جزء امام بخاری سے منسوب کیا ہے۔
● النووی (المجموع شرح المهذب 399/3)
● ابن حجر (فتح الباری 174/2) و غیرہما
لہذا معلوم ہوا کہ
● محمود بن اسحاق مجہول العین نہیں ہے۔
● علماء کا جزء رفع الیدین کو بطور جزء بخاری کی تصنیف قرار دینا اس کی توثیق ہے۔
● کسی امام نے بھی اسے مجہول یا ضعیف نہیں کہا ہے۔
● حافظ ابن حجر نے محمود بن اسحاق کی سند سے ایک روایت نقل کر کے اسے حسن کہا ہے۔ (موافقہ الخبر ج 1 ص 417)
لہذا محمود مذکور حافظ ابن حجر کے نزدیک صدوق ہے۔
● احمد بن علی بن عمر السلیمانی نے بھی محمود بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ دیکھئے تذكرة الحفاظ (1036/3 ت 960) لہذا معلوم ہوا کہ محمود بن اسحاق کے تین شاگرد ہیں۔ والحمد للہ (نیز دیکھئے تحقیقی مقالات 218/5)
امام ابو عبد اللہ محمد بن نصر المروزی (متوفی 294ھ) نے چار جلدوں میں ایک کتاب ”رفع الیدین فی الصلوۃ“ لکھی ہے۔
(ذكره الصفدی فی الوانی، 111/5 کذا فی مقدمة اختلاف العلماء ص 15 نیز ملاحظہ فرمائیں: التمهيد لما فی الموطا من المعانی والاسانید لابن عبدالبر 213/9، والاستذكار 125/2، مختصر قیام اللیل ص 88)
محدث ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق البزار البصری صاحب المسند الكبير المعلل (متوفی 292ھ) نے مسئلہ رفع الیدین پر ایک کتاب لکھی ہے۔
(التخمير في الحجم الكبير لابی سعد السمعانی 179/1-182 بحوالہ جلاء العینین لابی محمد السندھی ص 8 و راجع الاستذكار 125/2)
حافظ ابو نعیم الاصبہانی صاحب حلیۃ الاولیاء نے بھی رفع الیدین پر ایک کتاب لکھی ہے۔
(ملاحظہ فرمائیں سیر اعلام النبلاء ج 19 ص 306)
تقی الدین السبکی کا جزء رفع الیدین مطبوعہ ہے۔
(نیز ملاحظہ فرمائیں طبقات الشافعیة الكبری 214/6)
حافظ ابن قیم الجوزیہ نے بھی اس مسئلہ پر ایک کتاب لکھی ہے۔
(ذیل طبقات الحنابلہ 450/2 الوافي بالوفيات للصفدى 271/2 الدرر الكامنة 402/3 البدر الطالع 144/2، کشف الظنون 911/1)
خلاصہ یہ کہ علمائے اہل السنۃ والجماعۃ وغیرہم نے رفع الیدین کے اثبات میں متعدد کتابیں اور رسالے تصنیف کیے ہیں۔ کسی نے بھی رفع الیدین کے خلاف یا انکار میں کوئی کتاب یا رسالہ نہیں لکھا۔
بعض جہمیہ، مرجئہ اور اہل الرائے نے عصر جدید میں رفع الیدین کی سنت کے خلاف بعض رسالے یا کتابیں لکھ ماری ہیں مگر بحمد اللہ علمائے اہل السنۃ والجماعۃ (اور دیگر علماء) ان کی تدلیسات و اغلوطات سے مسلسل پردہ اٹھا رہے ہیں۔
مثلاً شیخ الاسلام حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی ”التحقیق الراسخ في ان الاحادیث رفع الیدین لیس لہا ناسخ“ المعروف ”مسئلہ رفع الیدین پر محققانہ نظر“ مولانا عبد اللہ روپڑی کی ”رفع الیدین اور آمین“ الاستاذ بدیع الدین الراشدی کی” جلاء العینین“ مولانا رحمت اللہ ربانی کی” مسئلہ رفع الیدین مع آمین بالجہر“ حکیم محمد سلفی صاحب کی ”شمس الضحیٰ بجواب نور الصباح فی اثبات رفع الیدین بعد الافتتاح “ مولانا خالد گر جاکھی کی ”جزء رفع الیدین“ حافظ عبد المنان نور پوری کی ”مسئلہ رفع الیدین، تحریری مناظرہ“ عبد الرشید انصاری صاحب کی ”الرسائل “اور شیخ مولانا حافظ محمد ایوب صابر صاحب سابق مدرس مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث حیدر آباد کی ”حصول الفلاح برفع الیدین عند الافتتاح بعد الافتتاح “وغیرہ۔
ہم اس کتاب میں اختصار کے ساتھ صحیح احادیث اصول حدیث اور اصول فقہ کی روشنی میں اس معرکتہ الآراء مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اصول لکھے جاتے ہیں جن کو اس کتاب میں پیش نظر رکھا گیا ہے۔

اصول ①

(ہر) خاص (دلیل ہر) عام (دلیل) پر مقدم ہوتی ہے۔ مثلاً مردار عموماً حرام ہے اور مچھلی خصوصاً حلال ہے لہذا مردار کا عمومی حکم مچھلی کے خاص حکم پر نہیں لگتا۔ (نیز دیکھئے ارشاد الفحول للشوكاني ص 143 و کتب الاصول)

اصول ②

عدم ذکر نفی ذکر کو مستلزم نہیں ہے۔ یعنی کسی آیت یا حدیث میں کسی بات کے نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بات ہوئی ہی نہیں جب کہ دیگر آیات یا احادیث سے وہ بات ثابت ہو۔
ہمارے استاد حافظ عبد المنان نور پوری فرماتے ہیں: کسی شے کا مذکور و منقول نہ ہونا اس شے کے نہ ہونے کو مستلزم نہیں۔

اصول ③

قرآن (و سنت) کی تخصیص خبر واحد صحیح کے ساتھ جائز ہے۔ (کہا جاتا ہے کہ) ائمہ اربعہ کا یہی مسلک ہے۔ (الاحکام للآمدی ج 2 ص 347 وغیرہ، حاشیۃ البنانی علی جمع الجوامع ج 2 ص 27 شرح تنقیح الفصول في اختصار الحصول في الاصول للقرافي ص 208)

اصول ④

اثبات نفی پر مقدم ہے۔

بنیادی اصول کا تعارف

① معیار حق

کتاب اللہ اور حدیث رسول حجت اور معیار حق ہیں بشرطیکہ وہ حدیث مقبول ہو یعنی متواتر یا صحیح یا حسن ہو۔
دلیل: قال اللہ تعالى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اولوالامر (اصحاب اقتدار) کی، پھر جب کسی چیز میں تمھارا تنازعہ (اختلاف) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور قیامت پر یقین رکھتے ہو، یہی بہتر اور اچھی تفسیر ہے۔(4-النساء:59) (تفہیم القرآن ج 1 ص 366، 363)
اجماع بھی حجت ہے۔
(دیکھئے الرسالہ للشافعی و عام کتب اصول و ماہنامہ الحدیث حضرو:1 ص 4)

② مقابلہ

اللہ اور رسول کے مقابلے میں ہر شخص کی بات مردود ہے چاہے کہنے والا کتنا ہی بزرگ اور بڑا کیوں نہ ہو۔

③ صحیح حدیث کی تعریف

”أما الحديث الصحيح فهو الحديث المسند الذى يتصل إسناده بنقل العدل الضابط عن العدل الضابط إلى منتها و لا يكون شاذا و لا معللا…… فهذا هو الحديث الذى يحكم له بالصحة بلا خلاف بين أهل الحديث“
صحیح حدیث وہ حدیث ہوتی ہے جو باسند ہو، عادل ضابط عن عادل ضابط آخر تک متصل ہو، شاذ اور معلول نہ ہو۔ اس حدیث کی صحت کے حکم میں اہل الحدیث (محدثین) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ (اجماع ہے) (مقدمہ ابن الصلاح مع شرح العراقی ص 20)
متصل کا مطلب یہ ہے کہ منقطع معلق، معضل اور مرسل نہ ہو۔
شاذ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سے اوثق یا زیادہ ثقات کے خلاف نہ ہو۔
معلول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں علت قادحہ نہ ہو۔
● مختلط کا اختلاط کے بعد روایت بیان کرنا علت قادحہ ہے۔
● مدلس کا عن وغیرہ کے ساتھ بدون تصریح سماع روایت کرنا علت قادحہ ہے۔
● علل حدیث کے ماہر محدثین کا کسی روایت کو بالاتفاق معلول و ضعیف قرار دینا علت قادحہ ہے۔

④ ضعیف حدیث کی تعریف

ہر وہ حدیث جس میں صحیح حدیث یا حسن حدیث کی صفات موجود نہ ہوں تو وہ حدیث ضعیف ہوگی اور اس کی اقسام یہ ہیں مثلاً (ضعیف) موضوع، مقلوب، شاذ معلل، مضطرب، مرسل منقطع اور معضل وغیرہ۔ (ملخصاً من مقدمة ابن الصلاح ص 20 طبع ملتان)

⑤ تصحیح و تضعیف میں ائمہ محدثین کا اختلاف

اگر کسی روایت کی تصحیح و تضعیف میں ائمہ محدثین کا اختلاف ہو تو حدیث کے ثقہ مشہور اور ماہر اہل فن کی اکثریت کو لامحالہ ترجیح دی جائے گی۔
اگر کسی حدیث کے راوی ثقہ ہوں، سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہو مگر (تمام محدثین یا) محدثین کی اکثریت نے اسے ضعیف قرار دیا ہو تو اسے ضعیف سمجھا جائے گا۔

⑥ جرح و تعدیل میں ائمہ محدثین کا اختلاف

جس کو ائمہ محدثین ثقہ یا ضعیف کہیں تو وہ ہمیشہ ثقہ یا ضعیف ہی ہوتا ہے اور اگر ان کا اختلاف ہو اور جرح و تعدیل دونوں مفسر اور متعارض ہوں تطبیق ممکن نہ ہو تو ائمہ محدثین (ثقہ مشہور اور ماہر اہل فن) کی اکثریت کو ہمیشہ اور لامحالہ ترجیح ہوگی۔
● جرح مفسر، تعدیل مبہم پر مقدم ہوگی۔
● تعدیل مفسر، جرح مبہم پر مقدم ہوگی۔
مثال ➊ دس نے کہا: ”الف“ ثقہ ہے۔
ایک نے کہا: ”الف“ ”ب“ میں ضعیف ہے۔
نتیجہ: ”الف“ ثقہ ہے اور ”ب“ میں ضعیف ہے۔
مثال ➋ دس نے کہا: ”ج“ ضعیف ہے۔
ایک نے کہا: ”ج“ ”د“ میں ثقہ ہے۔
نتیجہ: ”ج“ ضعیف ہے لیکن ”د“ میں ثقہ ہے۔
● اگر جرح (مفسر) اور تعدیل (مفسر) باہم برابر ہوں تو جرح مقدم ہوگی۔

⑦ صحت کتاب

روایات وغیرہ کے صحیح ہونے کا علمی معیار یہ ہے کہ
اولاً جن کتابوں میں یہ روایات درج ہیں ان کے مصنفین بذات خود ثقہ اور معتبر ہوں۔ (اللمحات 73/1 الشیخ محمد رئیس ندوی)
ثانیاً: ان کتابوں کا مصنفین تک انتساب بالتواتر یا باسند صحیح ہو۔ کتاب کے دیگر نسخوں کو بھی مد نظر رکھا جائے۔
ثالثاً: ان مصنفین کی بیان کردہ اسانید، اقوال اور روایات باسند صحیح و متصل ہوں اور علت قادحہ سے خالی ہوں۔

⑧ اقوال وغیرہ کے صحیح ہونے کا تحقیقی معیار

اصول نمبر 7 کی تشریح میں مزید عرض ہے کہ اقوال وغیرہ کے صحیح ہونے کا علمی اور تحقیقی معیار یہ ہے:
● اگر صاحب کتاب کا قول اس کی کتاب سے نقل کیا جائے تو اس کتاب کا تصنیف مصنف ہونا صحیح و ثابت ہو۔
● اگر صاحب کتاب کسی پہلے کا قول نقل کر رہا ہے تو اس سے قائل تک سند صحیح و متصل ہو۔ اگر یہ شرطیں مفقود ہوں تو اس قول کو کالعدم سمجھا جائے گا۔

⑨ ایک ہی شخص کے اقوال میں تعارض

اگر ایک ہی شخص (محدث، امام، فقیہ وغیرہ) کے اقوال میں تعارض ہو تو:
● تطبیق و توفیق دی جائے گی، مثلاً:
ایک دفعہ کہا: ثقة
دوسری دفعہ کہا: ثقة سيء الحفظ يا سيء الحفظ
نتیجہ: (عدالت کے لحاظ سے) ثقة اور (حافظہ کے لحاظ سے) سيء الحفظ ہے۔
● دونوں اقوال ساقط کر دیے جائیں گے، مثلاً:
عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان پر امام ابن حبان نے جرح کی ہے اور اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ذہبی نے بتایا کہ ابن حبان کے دونوں اقوال ساقط ہو گئے ہیں۔ (میزان الاعتدال 552/2)

⑩ معمولی جرح

جس ثقہ یا صدوق عند الجمهور راوی پر معمولی جرح یعنی یہم، لہ اوہام یخطئی وغیرہ ہو تو اس کی منفرد حدیث (بشرطیکہ ثقات کے خلاف نہ ہو اور محدثین نے خاص اس روایت کو ضعیف وغیرہ نہ کہا ہو تو) حسن ہوتی ہے۔
جو (جمہور کے نزدیک) کثیر الغلط، کثیر الاوہام، کثیر الخطاء اور سيء الحفظ وغیرہ (راوی) ہو اس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے۔

⑪ مسلکی تفاوت صحت حدیث کے خلاف نہیں

مثلاً جس راوی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت ہو جائے، اس کا قدری، خارجی شیعی، معتزلی جہمی اور مرجی وغیرہ ہونا صحت حدیث کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ وہ اپنی بدعت کی طرف داعی و دعوت دینے والا نہ ہو اور اس کی بدعت بالا جماع مکفرہ نہ ہو۔
(نیز دیکھئے احسن الکلام، مصنفہ مولوی سرفراز صفدر صاحب دیوبندی ج 1 ص 30)
تنبیہ: راجح قول یہی ہے کہ اگر راوی ثقہ و صدوق عند الجمہور ہو تو اس کی غیر معلول روایت مطلقاً مقبول ہے چاہے وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا داعی ہو یا نہ ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے