یہ مضمون اس ایک راوی حدیث أبو صخر حُمَید بن زیاد (المعروف: حمید بن صخر، حمید بن أبی المخارق المدنی، کنیت: أبو صخر) کے گرد گھومتا ہے۔
قبر پرست حضرات دو مشہور روایات پیش کرتے ہیں جن کے اندر قبر پر نداء (پکارنے) یا قبر کے ساتھ مخصوص تعلق کا ذکر ہے، مگر یہ دونوں روایات أبو صخر کی منفرد اور ضعیف روایات ہیں:
-
مسند أبي يعلی کی روایتِ نزولِ عیسیٰؑ، جس میں منفرد اضافہ ہے:
«ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لَأُجِيبَنَّهُ»
یعنی: "پھر اگر میری قبر پر کھڑے ہو کر کہا: اے محمد تو میں جواب دوں گا۔”
-
سنن أبي داود کی روایت:
«مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ»
یعنی: "جو بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، اللہ میری روح مجھے واپس لوٹا دیتا ہے تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔”
ان دونوں روایات کی سب سے بڑی علت یہی ہے کہ ان کے مرکزی راوی أبو صخر حمید بن زیاد کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔
روایت 1: قبر پر نداء (مسند أبي يعلی)
عربی متن:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ، أَنَّ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:
«وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ … ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لَأُجِيبَنَّهُ».
حوالہ: مسند أبي يعلی (6584)
ترجمہ:
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، ضرور عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے … پھر اگر وہ میری قبر پر کھڑے ہو کر کہیں: ’اے محمد‘ تو میں جواب دوں گا۔"
وضاحت:
یہ جملہ «لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي…» أبو صخر کی منفرد زیادت ہے۔ نہ یہ صحیحین میں ہے، نہ کبار محدثین کے صحیح طرق میں۔ اس اضافے کی بنیاد مکمل طور پر اسی راوی پر ہے۔
روایت 2: ”ردّ الروح“ (سنن أبي داود)
عربی متن:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:
«مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ».
حوالہ: سنن أبي داود (2041)
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، اللہ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔”
وضاحت:
یہ روایت بھی أبو صخر کی منفرد سند سے ہے۔ امام دارقطنی اور دیگر ائمہ نے واضح کیا کہ اس کا صحیح مفہوم صرف یہ ہے کہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام پہنچایا جاتا ہے، مگر روح لوٹائے جانے والی کیفیت منکر زیادت ہے۔
أبو صخر حمید بن زیاد پر محدثین کی جرح
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جمہور محدثین نے أبو صخر پر کیا کہا:
1. ابن القیم (751ھ)
عربی:
«وَأُنْكِرَ عَلَيْهِ بَعْضُ حَدِيثِهِ، وَهُوَ مِمَّنْ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إِذَا انْفَرَدَ.»
حوالہ: زاد المعاد 1/305
ترجمہ:
أبو صخر کی بعض احادیث منکر ہیں اور وہ ان رواۃ میں سے ہیں جن کی منفرد روایت سے احتجاج نہیں کیا جاتا۔
وضاحت:
ابن القیم نے صاف اصول بتا دیا کہ أبو صخر اگر کسی بات میں اکیلا ہو تو اس پر دین کی بنیاد رکھنا درست نہیں۔
2. امام عقیلی (332ھ)
عربی:
ذكره في كتاب الضعفاء.
حوالہ: الضعفاء الكبير 2/348
ترجمہ:
امام عقیلی نے انہیں اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت:
ضعفاء کی فہرست میں شامل کرنا محدثین کی اصطلاح میں صریح جرح ہے۔
3. ابن شاہین (385ھ)
عربی:
«أبو صخر حميد بن زياد ضعيف.»
حوالہ: تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين (134)
ترجمہ:
أبو صخر حمید بن زیاد ضعیف ہے۔
وضاحت:
یہ صریح الفاظ ہیں ”ضعیف“ کے، اور ان کا مطلب ہے کہ اس کی روایت سے اعتماد نہیں کیا جاتا۔
4. ابن الاثیر (630ھ)
عربی:
«أبو صخر حميد بن زياد الخراط مولى بني هاشم … هو ضعيف.»
حوالہ: اللباب في تهذيب الأنساب (1/301)
ترجمہ:
أبو صخر حمید بن زیاد الخراط، بنو ہاشم کا مولیٰ … یہ ضعیف ہے۔
وضاحت:
یہ بعد کے دور کے محدث کی صریح تصدیق ہے کہ وہ ضعیف ہے۔
5. ابن الجوزی (594ھ)
عربی:
«قال أحمد: ضعيف، وقال النسائي: ليس بالقوي.»
حوالہ: الضعفاء والمتروكون (1029)
ترجمہ:
امام احمد نے کہا: وہ ضعیف ہے، اور امام نسائی نے کہا: وہ قوی نہیں ہے۔
وضاحت:
جب دو بڑے امام (احمد اور نسائی) متفق ہو گئے کہ وہ ضعیف ہے، تو اس کی روایت پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
6. محمد بن طاہر المقدسی (507ھ)
عربی:
«… رواه حميد بن زياد … وحميد ضعيف.»
حوالہ: ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي)
ترجمہ:
یہ روایت حمید بن زیاد سے آئی ہے، اور حمید ضعیف ہے۔
وضاحت:
یہاں بھی اس کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ راوی ضعیف ہے۔
7. یحییٰ بن معین (م 233ھ)
عربی:
«أبو صخر حميد بن زياد ضعيف.»
حوالہ: الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (3/433)، الكامل لابن عدي (2/439)
ترجمہ:
ابو صخر حمید بن زیاد ضعیف ہے۔
وضاحت:
اگرچہ ابن معین سے ایک موقع پر ”لا بأس به“ بھی منقول ہے، مگر محققین (ابن حجر، الرحیلی وغیرہ) نے صراحت کی ہے کہ ان کا آخری اور راجح قول ضعیف ہی ہے۔
8. حافظ ابن حجر (م 852ھ)
عربی:
«حميد بن زياد أبو صخر … صدوق يهم من السادسة.»
حوالہ: تقريب التهذيب (1546)
ترجمہ:
ابو صخر حمید بن زیاد … صدوق ہے لیکن وہم کرتا ہے، طبقہ سادسہ سے ہے۔
وضاحت:
طبقہ سادسہ کے بارے میں خود ابن حجر نے مقدمہ میں لکھا ہے:
«من ليس له من الحديث إلا القليل … مقبول حيث يتابع، وإلا فليّن الحديث.»
➝ یعنی: جس کے پاس حدیثیں کم ہیں، اگر اس کی متابعت ہو تو مقبول ہے، ورنہ وہ لین الحدیث (ضعیف) ہے۔
➝ مطلب یہ کہ ابو صخر اکیلا ہو تو حجت نہیں۔
9. امام احمد بن حنبل (م 241ھ)
قول اوّل:
«سئل عن أبي صخر فقال: ليس به بأس.»
(العلل لابنه 4126)
قول دوم:
«سألت أحمد بن حنبل عن حميد بن صخر فقال: ضعيف.»
(الضعفاء الكبير للعقيلي 2/318، سند صحیح)
وضاحت:
یعنی امام احمد کا پہلا قول تسامح والا ہے (کہ اس کی روایت لکھی جاتی ہے مگر دیکھی جاتی ہے)۔ دوسرا قول ان کا راجح ہے کہ وہ ضعیف ہے۔
10. امام نسائی (م 303ھ)
عربی:
«حميد بن صخر … ليس بالقوي.»
حوالہ: الضعفاء والمتروكون (143)
«حميد بن صخر … ضعيف.»
حوالہ: الكامل لابن عدي (2/439)
ترجمہ:
ابو صخر حمید بن زیاد … قوی نہیں، بلکہ ضعیف ہے۔
وضاحت:
نسائی کے الفاظ ”لیس بالقوی“ خود جرح ہیں۔
11. حافظ ذہبی (م 748ھ)
عربی:
«حميد بن صخر المدني عن المقبري وغيره، ضعفه أحمد.»
حوالہ: المغني في الضعفاء (1775)
اور تاریخ الاسلام میں بھی ذکر کیا:
«هو الذي قال فيه أحمد بن حنبل: ضعيف.»
وضاحت:
ذہبی نے بھی اس کو ضعیف شمار کیا ہے۔
12. ابن عدی (م 365ھ)
عربی:
«لحاتم بن إسماعيل عن حميد بن صخر أحاديث … لا يُتابع عليها.»
حوالہ: الكامل في ضعفاء الرجال (2/439)
ترجمہ:
حاتم بن اسماعیل نے ابو صخر سے کچھ احادیث روایت کی ہیں … ان میں ایسی بھی ہیں جن پر اس کی متابعت نہیں ملتی۔
وضاحت:
یعنی یہ روایات منکر ہیں کیونکہ کسی دوسرے ثقہ راوی نے ان کی تائید نہیں کی۔
13. علامہ البانی (م 1420ھ)
عربی:
«رجاله ثقات على ضعف يسير في أبي صخر واسمه حميد بن زياد الخراط.»
حوالہ: سلسلة الأحاديث الضعيفة (4617)
ترجمہ:
اس کے رجال تو ثقہ ہیں مگر ابو صخر میں کمزوری ہے۔
امام عجلی اور دارقطنی کی توثیق کا جواب
امام عجلی (م 261ھ)
عربی:
«حميد بن زياد أبو صخر ثقة.»
حوالہ: الثقات للعجلي (362)
وضاحت:
امام عجلی کا معروف تساہل ہے کہ وہ ”ثقة“ کا لفظ کبھی صرف ”صدوق“ یا ”لا بأس به“ کے درجے پر بھی بول دیتے ہیں (جیسا کہ عبدالعلیم بستوی نے مقدمہ الثقات میں وضاحت کی ہے)۔ اس لیے ان کی توثیق جمہور کی جرح کے مقابلے میں ناقابلِ ترجیح ہے۔
امام دارقطنی (م 385ھ)
عربی (سؤالات البرقاني):
«هو حميد بن زياد مدني، وهو ثقة.»
لیکن اپنی کتاب العلل میں کہا:
«… خالفه عبيد الله بن عمر … وقول عبيد الله أشبه بالصواب.»
(العلل الواردة، رقم 2066)
اور الإلزامات والتتبع میں:
«ولم يُتابَع عليه وغيره أثبت منه.»
ترجمہ:
ابو صخر نے ایک روایت میں سعید المقبری سے اختلاف کیا، اور عبیداللہ بن عمر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ اور بعض جگہ کہا: اس کی متابعت نہیں ملتی اور دوسرے اس سے زیادہ مضبوط ہیں۔
وضاحت:
یعنی دارقطنی نے ایک جگہ تو اسے ”ثقة“ کہا، لیکن اپنے علمی نقد میں اس کی روایات کو کمزور ٹھہرایا اور دوسروں کی متابعت کو ترجیح دی۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ بھی اس کی منفرد روایات کو قابلِ اعتماد نہیں مانتے تھے۔
دونوں روایات کا حکم
-
مسند أبي يعلی کی زیادت:
«ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ لَأُجِيبَنَّهُ»
➝ یہ زیادت صرف ابو صخر کی منفرد روایت ہے، جس پر جمہور محدثین کی جرح ہے۔ لہٰذا یہ منکر زیادت ہے اور قابلِ حجت نہیں۔ -
سنن أبي داود کی روایت:
«مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي …»
➝ یہ روایت بھی ابو صخر کے واسطے سے ہے۔ اس لیے اس کا وہ حصہ جو ”روح لوٹائے جانے“ کے ساتھ آیا ہے، منکر اضافہ ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ نبی ﷺ پر سلام پہنچایا جاتا ہے اور آپ ﷺ جواب دیتے ہیں، مگر ”روح لوٹانے“ والی کیفیت ثابت نہیں۔
حتمی نتیجہ
-
أبو صخر حمید بن زیاد جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
-
اس کی منفرد روایات پر اعتماد جائز نہیں۔
-
مسند أبي يعلی کی ”قبر پر نداء“ اور أبي داود کی ”ردّ الروح“ والی روایت دونوں مردود ہیں۔
-
دین میں ان سے استدلال کرنا اور قبر پرستی یا استغاثہ کا جواز نکالنا باطل ہے۔
اہم حوالوں کے سکین




















