سوال
آیت مبارکہ:
﴿إِذۡ عُرِضَ عَلَيۡهِ بِٱلۡعَشِيِّ ٱلصَّٰفِنَٰتُ ٱلۡجِيَادُ- فَقَالَ إِنِّيٓ أَحۡبَبۡتُ حُبَّ ٱلۡخَيۡرِ عَن ذِكۡرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتۡ بِٱلۡحِجَابِ- رُدُّوهَا عَلَيَّۖ فَطَفِقَ مَسۡحَۢا بِٱلسُّوقِ وَٱلۡأَعۡنَاقِ﴾
(ص: 31-33)
ترجمہ:
جب شام کے وقت ان کے سامنے عمدہ نسل کے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے،
تو (سلیمان علیہ السلام نے) کہا: "میں نے اس مال (گھوڑوں) کی محبت کو اپنے رب کی یاد کے مقابلے میں پسند کیا، یہاں تک کہ وہ (گھوڑے) پردے کے پیچھے چھپ گئے۔”
پھر فرمایا: "انہیں میرے پاس واپس لاؤ!” تو وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
سوال:
ان آیات مبارکہ میں جو اختلاف ہے، اس کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب و سنت اور سیاق و سباق کی روشنی میں صحیح بات واضح کریں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے آیت
﴿فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ﴾
کی تفسیر کے بارے میں منقول اقوال میں سے راجح قول دریافت فرمایا ہے، تو اس حوالے سے درج ذیل وضاحت پیش خدمت ہے:
مطالعہ تفاسیر کی ترغیب
آپ سے گزارش ہے کہ اس مقام کی مزید وضاحت کے لیے ان تفاسیر کا مطالعہ ضرور فرمائیں:
✿ تفسیر ابن کثیر
✿ تفسیر فتح القدیر
✿ تفسیر روح المعانی
ان تفاسیر کے مطالعے سے ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کے تمام اشکالات دور ہو جائیں گے۔
امام رازی کے قول پر تنقید اور رد
خصوصاً روح المعانی میں اس مقام پر امام رازی کے بیان کو نقل کیا گیا ہے، اور پھر اس پر تفصیل سے علمی رد بھی فرمایا گیا ہے۔
روح المعانی کے مصنف نے واضح کیا ہے کہ:
رسول اللہﷺ سے منقول تفسیر
«قَطَعَ سُوْقَهَا وَأَعْنَاقَهَا بِالسَّيْفِ»
"کاٹا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں کو تلوار کے ساتھ”
میں کسی بھی قسم کا کوئی اشکال نہیں پایا جاتا۔
لہٰذا اس تفسیر کو بلا جھجک قبول کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے، اور اس پر کوئی علمی اعتراض یا اشکال باقی نہیں رہتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب