آیت "يَهۡدِ قَلۡبَه” کی درست تفسیر اور غلط تاویلات کا حکم

سوال

آیت "وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ يَهۡدِ قَلۡبَه‌ؕ” [التغابن: 11] کی تفسیر میں یہ کہنا کہ انسان کے دل میں ایک چھوٹا سا اللہ کا گھر یا ایک چھوٹا عرش بن جاتا ہے، کیا درست ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب از فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں امام طبری کے حوالے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے:

"يَعْنِيْ يَهْدِ قَلْبَهُ لِلْيَقِيْنِ فَيَعْلَمُ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِه وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيْبَه”
[تفسیر طبری: 12/23، ح: 34509]

یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھے، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو یقین کی ہدایت دیتا ہے، اور وہ جان لیتا ہے کہ جو مصیبت اسے پہنچی وہ کسی صورت میں اس سے ٹلنے والی نہیں تھی، اور جو اس سے ٹل گئی وہ کسی صورت میں اسے پہنچنے والی نہیں تھی۔

اسی طرح اعمش نے ابو ظبیان سے روایت کیا کہ ہم علقمہ کے پاس تھے، ان کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی اور اس کا مطلب پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:

"اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس پر راضی ہو جاتا ہے اور اسے تسلیم کر لیتا ہے۔”
[ابن جریر و ابن ابی حاتم، بسند صحیح]

"دل میں چھوٹے عرش” والی وضاحت کا حکم

یہ وضاحت غلط اور ناپسندیدہ ہے کیونکہ اس میں عقیدہ حلول (اللہ کے کسی مخلوق میں حلول کر جانے) کی بو آتی ہے۔ اگرچہ مفسر کا یہ نظریہ نہ بھی ہو، اور وہ اس کی تاویلات کرے، تب بھی یہ تفسیر حلولیوں اور وجودیوں کے عقائد سے مشابہت رکھتی ہے، لہٰذا اس طرح کی تعبیرات اور تفسیریں کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1