سوال:
بعض لوگ آہستہ آمین پر آیت:﴿ ٱدْعُوا۟ رَبَّكُمْ تَضَرُّعًۭا وَخُفْيَةً ﴾”اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور آہستہ سے پکارو“ کو دلیل بناتے ہیں، یہ استدلال کہاں تک درست ہے؟
جواب:
یہ استدلال غیر درست ہے۔ یہ آیت عام ہے، جس میں دعا کے آداب بیان ہوئے ہیں کہ عاجزی و در ماندگی کے ساتھ مانگی جائے اور آہستہ آواز میں مانگی جائے۔ اگرچہ سورت فاتحہ اور آمین بھی دعا ہے، مگر :
① آمین بالجہر پر دلائل خاص ہیں اور مذکورہ آیت عام ہے۔ خاص کو عام پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
② یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اونچی آمین کہا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اونچی آمین کہتے تھے، جیسا کہ دلائل سے ثابت ہے۔ اگر یہ آیت آہستہ آمین پر دلیل ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اونچی آمین نہ کہتے۔
③ کسی ثقہ امام یا محدث نے مذکورہ آیت کو آہستہ آمین پر دلیل نہیں بنایا۔