آیت: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ کی تفسیر
سوال کی تفصیل:
ترمذی کی روایت (حدیث نمبر 3095) کے متعلق سوال کیا گیا ہے جس کا متن اور سند درج ذیل ہے:
روایت:
"حَدَّثَنَا الحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: «يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ»”
سوال کنندہ نے اس روایت کے متعلق تحقیق طلب کی ہے کہ:
◈ کیا اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی” میں صحیح قرار دیا ہے؟
◈ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفۃ میں غطیف کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، اس کی ضعف کی وجوہات کیا ہیں؟
◈ کیا اس روایت کے کوئی صحیح یا حسن درجے کے شواہد موجود ہیں؟
◈ جامع بیان العلم وفضلہ میں ابو البختری کا قول، اس کی سند اور درجے کے بارے میں وضاحت درکار ہے۔
جواب:
آیت کی تشریح:
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾
مرفوع حدیث:
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ میری گردن میں سونے کی صلیب تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’اے عدی! اس بت کو اتار دو۔‘ اور میں نے آپ ﷺ کو یہ آیت تلاوت کرتے سنا: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی، لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے، تو یہ اسے حلال سمجھتے، اور جسے حرام کہتے، تو یہ اسے حرام مانتے۔‘”
مراجع:
◈ سنن ترمذی: 3095
◈ السنن الکبریٰ للبیہقی: 10/116
◈ التاریخ الکبیر للبخاری: 7/106
◈ المعجم الکبیر للطبرانی: 17/92، ح 218، 219
◈ تفسیر ابن جریر: 5/864، ح 16640-16641
◈ السلسلۃ الصحیحہ: 7/861، ح 3293
سند کا جائزہ:
راوی: غطیف بن اعین
یہ راوی ضعیف ہے، اور محدثین کی تصریحات درج ذیل ہیں:
➊ دارقطنی رحمہ اللہ – الضعفاء والمتروکین (ص 430)
➋ ابن الجوزی – الضعفاء والمتروکین (2/247، ت 2686)
➌ ذہبی – دیوان الضعفاء والمتروکین (2/230، ت 3333)
➍ ابن حجر – تقریب التہذیب: "ضعیف” (رقم: 5364)
متقابل رائے:
◈ ابن حبان – کتاب الثقات (7/311)
◈ ترمذی کے بعض نسخوں میں "حسن غریب” کا ذکر ہے، مگر یہ روایت جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں مرجوح ہے۔
شواہد (Supporting Narrations):
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ذکر کردہ دو شواہد:
➊ عامر بن سعد عن عدی بن حاتم – الکافی الشاف: 2/264
* سند میں **واقدی** (کذاب راوی) ہے۔
* واقدی تک کی سند بھی نامعلوم ہے۔
➋ عطاء بن یسار عن عدی بن حاتم
* اس کی بھی سند نامعلوم ہے۔
لہذا، بے سند روایات مردود ہوتی ہیں۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس روایت کو "حسن ان شاء اللہ” کہنا محل نظر ہے۔
موقوف روایت:
راوی: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ
ان سے سوال کیا گیا: کیا ان لوگوں نے احبار و رہبان کی عبادت کی تھی؟
جواب دیا: "نہیں، لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے، تو لوگ اسے حلال سمجھتے، اور جب وہ کسی چیز کو حرام کہتے، تو لوگ اسے حرام مانتے، یہی ان کی ربوبیت تھی۔”
مراجع:
◈ تفسیر عبدالرزاق: 1073
◈ تفسیر ابن جریر الطبری: 5/865، ح 16643
◈ السنن الکبریٰ للبیہقی: 10/116
◈ شعب الایمان: 9394 (دوسرا نسخہ: 8948)
◈ جامع بیان العلم وفضلہ: 2/219، ح 949
◈ السلسلۃ الصحیحہ: 7/865
سند کا مسئلہ:
ابو البختری (سعید بن فیروز الطائی) کی سیدنا حذیفہ سے ملاقات ثابت نہیں۔
حافظ علائی: جامع التحصیل: ص 183
"سعید بن فیروز … کثیر الارسال عن عمر، علی، ابن مسعود، حذیفہ …”
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس سند کو مرسل (منقطع) قرار دیا ہے۔
روایت کی ایک اور صورت:
تفسیر سعید بن منصور (5/245-246) میں روایت:
"قَالَ لِي حُذَيْفَةُ …”
* سند ابو البختری تک صحیح ہے۔
* مگر "قال لی” کا لفظ ممکنہ طور پر کاتب یا ناسخ کی خطا ہے۔
* بقیہ کتب میں "سماع” کی تصریح نہیں۔
جامع البیان للطبری (5/864) میں غالب قول:
"قیل لحذیفہ” – لہٰذا روایت مرسل ہے، واللہ اعلم۔
تنبیہ:
جامع بیان العلم وفضلہ (2/219، ح 948) میں ایک اور روایت صرف ابو البختری کے قول کے طور پر مذکور ہے، سند:
* ابو الاحوص → عطاء بن السائب → ابو البختری
یہ بھی ضعیف ہے کیونکہ:
* ابو الاحوص، عطاء بن السائب کے قدیم شاگرد نہیں (اختصار علوم الحدیث، ص 166)
* لہٰذا یہ مقطوع سند ہے۔
خلاصہ:
◈ روایت ترمذی 3095 میں موجود ہے مگر غطیف بن اعین کی وجہ سے ضعیف ہے۔
◈ اس روایت کے شواہد بھی ضعیف یا بے سند ہیں۔
◈ شیخ البانی کا اس کو "حسن ان شاء اللہ” کہنا جمہور محدثین کی رائے کے خلاف ہے۔
◈ جامع بیان العلم میں ابو البختری کی روایت یا قول بھی ضعیف ہے۔
فنی نکتہ:
ضعیف روایات کو محض جمع کرکے "حسن لغیرہ” قرار دینا متقدمین محدثین کا منہج نہیں، اور متاخرین کا بھی اس پر مکمل اتفاق نہیں ہے۔
اندازِ تنقید:
اپنی مرضی کی روایات کو "حسن لغیرہ” قرار دینا، جبکہ مخالفین کی مضبوط سند والی روایات کو "ضعیف، شاذ، یا منکر” کہنا — یہ ایک دوغلی پالیسی ہے۔
آیت کی مراد:
اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ:
◈ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور عبادت گزار راہبوں کو اللہ کے مقابلے میں رب بنا لیا۔
◈ ان کی اطاعت ایسے کی کہ جو انہوں نے حلال کیا، وہی حلال سمجھا، اور جو حرام کیا، وہی حرام مانا — خواہ یہ اللہ کی وحی اور انبیاء کی تعلیمات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
مراجع:
◈ تفسیر ابن جریر: 5/863
◈ تفسیر بغوی: 2/285
حوالہ:
انوار الصحیفہ، ص 281 پر اس حدیث کے متعلق درج ہے:
"غطيف :ضعيف(تق:٥٣٦٤) وللحديث شاهد موقوف عند الطبري في تفسيره(١-/٨١) وسنده ضعيف منقطع”
واللہ اعلم بالصواب