آیتِ کریمہ پڑھنے کا صحیح طریقہ اور مروجہ بدعات کا حکم
ماخوذ : قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01، ص 488

سوال

ہمارے علاقے میں کچھ دنوں سے ایک نیا رواج عام ہو گیا ہے۔ پہلے یہ کبھی کبھار ہوتا تھا، لیکن آج کل تو شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب نہ ہو۔ طریقہ یہ ہے کہ جب کسی شخص پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ تقریباً 50 یا 60 یا اس سے بھی زیادہ عورتوں کو جمع کرتا ہے۔ یعنی جس پر مصیبت آتی ہے وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے کہتا ہے کہ آج آپ نے ہمارے گھر آنا ہے اور آیتِ کریمہ پڑھانی ہے۔

عورتیں پھر اس کے گھر جمع ہوتی ہیں۔ ایک چادر یا بڑی سی دری بچھائی جاتی ہے، اور اس کے درمیان میں ارنڈ کے بیج یا کوئی اور دانے وغیرہ رکھے جاتے ہیں تاکہ شمار کیا جا سکے۔ عورتیں تقریباً دائرے کی شکل میں بیٹھ کر وہاں سے دانے اٹھا کر سوا لاکھ بار یہ آیت پڑھتی ہیں:

{لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ}
[الانبیاء: 87، پ 17]

اس کے بعد دعا کی جاتی ہے کہ جس شخص پر مصیبت آئی ہے، اس کی مصیبت دور ہو جائے۔

میرے سوالات یہ ہیں:

1. کیا آیتِ کریمہ صرف مصیبت سے نجات کے لیے پڑھی جاتی ہے یا آدمی یہ آیت اس نیت سے بھی پڑھ سکتا ہے کہ اللہ میرا فلاں کام کر دے؟
2. کیا دوسروں سے آیتِ کریمہ پڑھوانا درست ہے یا نہیں؟
3. کیا آیتِ کریمہ پڑھنے کا یہ مروجہ طریقہ درست ہے؟
4. کیا اس کی تعداد کسی حدیث سے ثابت ہے؟ کیا سوا لاکھ بار پڑھنا درست ہے؟ قرآن و حدیث میں اس کی کتنی تعداد مذکور ہے؟
5. کیا یہ مروجہ طریقہ بدعت ہے؟ اگر بدعت ہے تو بدعتی کے اعمال کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات بھی تحریر فرما دیں۔
6. آیتِ کریمہ پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

جواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:

1. آیتِ کریمہ {لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ} حضرت یونس علیہ السلام نے بوقتِ مصیبت پڑھی تھی۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

{وَذَا النُّوْنِ إِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذٰلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ}
[الأنبياء: 87-88، پ 17]

ترجمہ: "اور مچھلی والے کا ذکر سنو، جب وہ خفا ہو کر چلا گیا اور سمجھا کہ ہم اس پر سختی نہ کریں گے۔ پس اس نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ پس ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں۔”

2. حضرت یونس علیہ السلام نے یہ آیت خود پڑھی تھی، نہ کہ کسی اور سے پڑھوائی تھی۔

3. حضرت یونس علیہ السلام کا طریقہ یہی نہیں تھا جو آپ کے علاقے میں مروج ہے، اور نہ ہی یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔

4. قرآن و حدیث سے آیتِ کریمہ پڑھنے کی کوئی مخصوص تعداد ثابت نہیں ہے۔ البتہ ایک مرتبہ پڑھنا حضرت یونس علیہ السلام سے ثابت ہے۔

5. آپ کے بیان کردہ مروجہ طریقے کا ثبوت قرآن و سنت میں نہیں ہے، اس لیے یہ درست نہیں۔

6. آیتِ کریمہ پڑھنے کا صحیح طریقہ وہی ہے جو قرآنِ مجید نے حضرت یونس علیہ السلام کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے۔

واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1