آٹھ رکعات تراویح اور غیر اہلِ حدیث علماء
تحریر: حافظ زبیر علی زئی

رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد جو نماز بطور قیام پڑھی جاتی ہے، اسے عرف عام میں تراویح کہتے ہیں۔ راقم الحروف نے ”نور المصابیح فی مسئلۃ التراویح“ میں ثابت کر دیا ہے کہ گیارہ رکعات قیام رمضان (تراویح) سنت ہے۔

❀نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نمازسے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک (عام طور پر) گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔ آپ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور (آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔ دیکھئے صحیح مسلم [ 254/1 ح 736]

❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جماعت سے) آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ دیکھئے [صحیح ابن خزیمہ 138/2 ح 1070 و صحیح ابن حبان الاحسان 62/4 ح 2401، 64/4 ح 2406]
↰ اس روایت کی سند حسن ہے۔

❀ سیدنا امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (نماز پڑھانے والوں) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں نماز عشاء کے بعد) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ دیکھئے [موطأ امام مالک 114/1 ح 249 و السنن الکبریٰ للنسائی 113/3 ح 4687]
↰ اس روایت کی سند صحیح ہے اور محمد بن علی النیموی (تقلیدی) نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ دیکھئے [آثار السنن ح 775، دوسرانسخہ : 776]
↰ صحابہ و تابعین اور سلف صالحین کا اس پر عمل رہا ہے۔

اب اس مضمون میں حنفی و تقلیدی علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی آٹھ رکعات تراویح سنت ہے۔
➊ ابن ہمام حنفی (متوفی 861؁ھ) لکھتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احديٰ عشرة ركعة بالوتر فى جماعة
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے . [فتح القدير شرح الهدايه ج 1 ص 407 باب النوافل]

➋ سید احمد طحطاوی حنفی (متوفی 1233؁ھ) نے کہا :
لأن النبى عليه الصلوة و السلام لم يصلها عشرين، بل ثماني
کیونکہ بے شک نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھیں۔ [حاشيه الطحطاوي على الدر المختارج 1 ص 295]

➌ ابن نجیم مصری (متوفی 970؁ھ) نے ابن ہمام حنفی کو بطور اقرار نقل کیا کہ
فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشر
”پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں) مسنون اور بارہ (رکعتیں) مستحب ہوجاتی ہیں۔“ [البحرالرائق ج 2 ص 67]

تنبیہ : ابن ہمام وغیرہ کا آٹھ کے بعد بارہ [12] رکعتوں کو مستحب کہنا حنفیوں و تقلیدیوں کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ ”بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہے۔“

➍ ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014؁ھ) نے کہا :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحديٰ عشرة بالوترفي جماعة فعله عليه الصلوة و السلام
”اس سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعات مع وتر، جماعت کے ساتھ سنت ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے۔“ [مرقاة المفاتيح 382/3 ح 1303]

➎ دیوبندیوں کے منظور نظر محمد احسن نانوتوی (متوفی 1312؁ھ) فرماتے ہیں :
لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانيا
”کیونکہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس [20] نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ [8] پڑھیں۔“ [حاشيه كنز الدقائق ص 36 حاشيه : 4]
◈ نیز دیکھئے [شرح کنز الدقائق لابی السعود الحنفی ص 265]

➏ دیوبندیوں کے منظور خاطر عبدالشکور لکھنوی (متوفی 1381؁ھ) لکھتے ہیں کہ :
”اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی۔ مگر …..“ [علم الفقه ص 198، حاشيه]

➐ دیوبندیوں کے دل پسند عبدالحئی لکھنوی (متوفی 1304؁ھ) لکھتے ہیں :
”آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے۔
① بیس رکعتیں بے جماعت…… لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ….
② آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت….“ [مجموعه فتاويٰ عبدالحئي ج 1 ص 331، 332]

➑ خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی (متوفی 1345؁ھ) لکھتے ہیں :
”البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھاہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔“ [براهين قاطعه ص 8]
◈ خلیل احمد سہارنپوری مزید لکھتے ہیں کہ ”اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔“ [براهين قاطعه ص 195]

➒ انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی 1352؁ھ) فرماتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح و التجهد عليحدة فى رمضان…. وأما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق….
”اور اس کے تسلیم کرنے سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي ص 166 ج 1]

➓ نماز تراویح کے بارے میں حسن بن عمار بن علی الشرنبلالی حنفی (متوفی 1069؁ھ) فرماتے ہیں :
(وصلوتها بالجماعة سنة كفاية) لما يثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى، بالجماعة احديٰ عشرة ركعة بالوتر..
”(اور اس کی باجماعت نماز سنت کفایہ ہے) کیونکہ یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔“ [مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص 98]

⓫ محمد یوسف بنوری دیوبندی (متوفی 1397؁ھ) نے کہا :
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلى التراويح أيضا ثماني ركعات
”پس یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح بھی پڑھی ہے۔“ [معارف السنن ج 5 ص 543]

تنبیہ ① یہ تمام حوالے ان لوگوں پر بطور الزام و اتمام حجت پیش کیے گئے ہیں جو ان علماء کو اپنا اکابر مانتے ہیں اور ان کے اقوال کو عملاً حجت تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان بعض علماء نے بغیر کسی صحیح دلیل کے یہ غلط دعویٰ کر رکھا ہے کہ

”مگر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا اور جماعت قائم کر دی“

↰ اس قسم کے بے دلیل دعووں کے رد کے لئے یہی کافی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [ديكهئے موطأ امام مالك 114/1 و سنده صحيح]

تنبیہ ② امام ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف، محمد بن الحسن الشیبانی اور امام طحاوی کسی سے بھی بیس رکعات تراویح کا سنت ہونا باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ وما علينا الا البلاغ

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے