آن لائن ٹریڈنگ اور شرعی اصولوں کی وضاحت

سوال

آج کل مختلف بین الاقوامی ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز (جیسے: اوکٹا ایف ایکس) کے ذریعے سونے، تیل، اور دیگر اشیاء کی تجارت کی جاتی ہے۔ ان اشیاء کو حقیقی طور پر خریدا یا بیچا نہیں جاتا بلکہ صرف رقم انویسٹ کی جاتی ہے۔ اس میں مارکیٹ شیئرز کی طرح اتار چڑھاؤ ہوتا ہے اور ایک بروکر کے ذریعے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ کیا یہ طریقہ کار شرعاً جائز ہے؟

جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

یہ تجارت درج ذیل وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے:

1. حقیقی خرید و فروخت کی عدم موجودگی

◈ شرعی طور پر تجارت اس وقت درست ہوتی ہے جب اشیاء (جیسے: سونا یا تیل) حقیقی طور پر خریدی اور بیچی جائیں۔
◈ آن لائن ٹریڈنگ میں یہ صورت موجود نہیں ہوتی، بلکہ صرف اعداد و شمار اور قیاسی لین دین پر انحصار کیا جاتا ہے، جو حقیقی تجارت نہیں۔

2. مشارکت کے اصولوں کی خلاف ورزی

مشارکت کا اصول: اگر کوئی شخص اپنا سرمایہ کسی کو دیتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف سے تجارت کرے، تو شریعت کے مطابق نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہونا ضروری ہے۔
◈ آن لائن ٹریڈنگ میں عموماً نقصان کی ذمہ داری سرمایہ کار پر آتی ہے، جبکہ بروکر یا کمپنی نقصان سے مستثنیٰ رہتی ہے، جو مشارکت کے اصولوں کے خلاف ہے۔

3. سود اور جوے کی مشابہت

سود کی مثال: سرمایہ کار کو زیادہ رقم واپس ملتی ہے، جیسا کہ سودی کاروبار میں ہوتا ہے۔
جوے کی مثال: تمام سرمایہ ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جیسا کہ جوے میں ہوتا ہے۔

4. اسٹاک مارکیٹ کی مشابہت

◈ آن لائن ٹریڈنگ کا تعلق اسٹاک مارکیٹ سے بھی ہوتا ہے، جس کے شرعی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی ناجائز قرار دی گئی ہے۔

خلاصہ

◈ یہ آن لائن ٹریڈنگ حقیقی تجارت نہیں بلکہ تجارت کا ایک حیلہ ہے، جس میں سود اور جوے کی مشابہت واضح ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
واللہ اعلم

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1