آمین بالجہر
عن وائل بن حجر أنه صلى خلف رسول الله فجهر بآمين
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمين بالجہر کہی۔ [سنن ابی داود: ج 142/1 ح 933، مع العون: ج 352/1]
اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وسنده صحیح [تلخیص الحبیر ج1 ص 353]
فوائد
(1)اس حدیث اور دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جہری نماز میں امام و مقتدی دونوں آمين بالجہر کہیں گے۔
(2)آمين بالجہر کی حدیث متواتر ہے۔ [دیکھیے کتاب الاول من کتاب التمہید للامام مسلم بن الحجاج نیسابوری رحمہ اللہ، صاحب الصحیح ص 40]
(3)جس روایت میں سراً آمين کا ذکر آیا ہے، وہ امام شعبہ کے وہم کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(4)اگر امام شعبہ کے وہم والی روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سری نماز میں خفیہ آمين کہنی چاہیے۔
(5)عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اونچی آواز کے ساتھ «آمين» ثابت ہے۔ [صحیح البخاری: 107/1 قبل ح 780]
کسی صحابی سے باسند صحیح عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر انکار کرنا ثابت نہیں ہے، لہذا آمين بالجہر کی مشروعیت پر صحابہ کا اجماع ہے۔
تنبیہ: دیوبندی تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں اونچی آواز سے لاؤڈ سپیکر پر دعا کرنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ آمين دعا ہے اور دعا آہستہ کہنی چاہیے۔ اسے کہتے ہیں دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت۔
(6)صحیح مسلم والی حدیث ”جب امام آمين کہے تو تم آمين کہو“ آمين بالجہر کی دلیل ہے۔ دیکھیے تبویب صحیح ابن خزیمہ: 286/1 ح 569 وغیرہ کسی محدث نے اس سے آمين بالسر کا مسئلہ کشید نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ محدثین کرام اپنی روایات کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔