آمین بالجہر: جہری نمازوں میں میں اُونچی آواز سے آمین پر 6 صحیح احادیث
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب القول المتین فی الجہر بالتامین سے ماخوذ ہے۔

القول المتين فى الجهر بالتأمين

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين أما بعد:
اہل الحدیث اور اہل الرائے کے درمیان آمین کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اہل الحدیث کی تحقیق ہے کہ جہری نمازوں میں امام اور مقتدی دونوں کو آمین بالجہر کہنی چاہیے۔ سری نمازوں میں آمین بالسر کہنے پر اجماع ہے۔ اہل الرائے کا خیال ہے کہ جہری نمازوں میں امام اور مقتدی کو آمین بالسر (خفیہ) کہنی چاہیے۔ اس مسئلہ میں جانبین کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

اہل الحدیث کا تعارف

شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ الحرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ونحن لا نعني بأهل الحديث المقتصرين على سماعه أو كتابته أو روايته بل نعني بهم كل من كان أحق بحفظه و معرفته وفهمه ظاهرا وباطنا و اتباعه باطنا وظاهرا”
(لفظ) اہل حدیث سے ہماری مراد (صرف) وہ لوگ نہیں جو حدیث کے سماع، کتابت اور روایت میں مشغول ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو حدیث کو یاد کرتے ہیں (حفاظت کرتے ہیں) معرفت اور فہم رکھتے ہیں، نیز ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے اس کی اتباع کرتے ہیں۔
(مجموع فتاوی ج 2 ص 95)
حافظ ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں:
"وبهذا يتبين أن أحق الناس بأن تكون هي الفرقة الناجية أهل الحديث والسنة الذين ليس لهم متبوع يتعصبون له إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم”
اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں میں فرقہ ناجیہ کے سب سے زیادہ حق دار اہل الحدیث والسنہ ہیں جن کا متبوع (وامام) سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی نہیں ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے فرامین کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔
(مجموع فتاوی ج 3 ص 347)
امام ثقہ حافظ احمد بن سنان القطان الواسطی (متوفی 259ھ) فرماتے ہیں:
"ليس فى الدنيا مبتدع إلا هو يبغض أهل الحديث وإذا ابتدع الرجل نزع حلاوة الحديث من قلبه”
دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہل حدیث سے بغض نہ رکھتا ہو اور جب کوئی شخص بدعتی ہو جاتا ہے تو حدیث کی مٹھاس اس کے دل سے نکل جاتی ہے۔
(معرفة علوم الحدیث ص 4 وسندہ صحیح، شرف اصحاب الحديث الخطيب ص 73، عقيدة السلف ص102)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے پوچھا گیا کہ کیا بخاری، مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابوداود طیالسی، دارمی، بزار، دار قطنی، بیہقی، ابن خزیمہ اور ابو یعلی الموصلی مقلد تھے یا مجتہد؟ تو انھوں نے جواب دیا:
"الحمد لله رب العالمين، أما البخاري وأبو داود فإنهما كانا فى الفقه من أهل الإجتهاد وأما مسلم والترمذي والنسائي وابن ماجه وابن خزيمة وأبو يعلى والبزار ونحوهم فهم على مذهب أهل الحديث ليسوا مقلدين لواحد بعينه من العلماء”
سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں (امام) بخاری اور ابو داود تو فقہ میں مجتہد (مطلق) ہیں اور مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابو یعلی اور بزار وغیرہ اہل الحدیث کے مذہب (منہج) پر تھے، کسی ایک عالم کی تقلید شخصی نہیں کرتے تھے۔
(مجموع فتاوی 40،39/20)
اس تمہید کے بعد آمین کی روایات کا مختصر اور جامع جائزہ پیش خدمت ہے:

پہلی حدیث

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إذا أمن الإمام فأمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه))
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو جائے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
(صحیح بخاری، باب جہر الامام بالتأمین، ح 780؛ صحیح مسلم، ح 410/72)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جہر سے آمین کہے۔ امام محمد بن اسحاق بن خزیمة النیسابوری (متوفی 311ھ) فرماتے ہیں:
"في قول النبى صلى الله عليه وسلم: ((إذا أمن الإمام فأمنوا)) مـابـان وثبت أن الإمام يجهر بـآمين، إذ معلوم عند من يفهم العلم أن النبى صلى الله عليه وسلم لا يأمر المأموم أن يقول آمين عند تأمين الإمام إلا والمأموم يعلم أن الإمام يقوله، ولو كان الإمام يسر آمين لا يجهر به لم يعلم المأموم أن إمامه قال آمين أولم يقله. ومحال أن يقال للرجل إذا قال فلان كذا فقل مثل مقالته وأنت لا تسمع مقالته، هذا عين المحال، ومالا يتوهمه عالم أن النبى صلى الله عليه وسلم يأمر المأموم أن يقول آمين إذا قاله إمامه وهو لا يسمع تأمين إمامه”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو“ سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ امام کو جہر سے آمین کہنی چاہیے کیونکہ ہر صاحب علم سمجھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو امام کی آمین کے وقت آمین کہنے کا حکم نہیں فرماتے مگر مقتدی امام کی آمین کو جانتا ہو۔ اور اگر امام آمین بالسر کہے، بالجہر نہ کہے تو مقتدی کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ امام نے آمین کہی ہے یا نہیں کہی۔ اور یہ محال ہے کہ آدمی سے کہا جائے کہ جب فلاں یہ کہے تو تم بھی اسی طرح کہو حالانکہ تم اس کی بات نہیں سن رہے ہو، یہ قطعی طور پر محال ہے اور کوئی عالم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی کو آمین اس وقت کہنے کا حکم دیں جب امام آمین کہے اور مقتدی امام کی آمین نہ سن رہا ہو۔
(صحیح ابن خزیمہ ج 1 ص 286 ح 570)
کئی قرائن امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے اس بیان کی تائید کرتے ہیں:
1) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری مرفوع احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اس حدیث میں آمین بالجہر مراد ہے، مثلاً حدیث نعیم الحجر رحمہ اللہ، حدیث اسحاق بن ابراہیم الزبیدی وغیرہ (تفصیل آئندہ سطور میں آرہی ہے ان شاء اللہ)
2) منصور بن میسرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہا تو آمین کہی، یہاں تک کہ ہمیں سنا دیا، آپ کے پیچھے جو (نماز پڑھ رہے) تھے انھوں نے بھی آمین کہی
(مصنف عبدالرزاق ج 2 ص 95-96، حدیث 2634)
اس اثر کے سارے راوی ثقہ ہیں، سوائے منصور بن میسرہ (تابعی) کے۔ اگر یہ تصحیف نہیں ہے تو اس کے حالات مجھے معلوم نہیں۔
خالد بن ابی عزہ کے بارے میں ظفر احمد تھانوی لکھتے ہیں:
”فلم أقف على ترجمته، ولكنه ثقة على قاعدة ابن حبان“
مجھے اس کے حالات نہیں ملے لیکن وہ ابن حبان کے قاعدہ پر ثقہ ہیں۔
(اعلاء السنن ج 4 ص 277)
دیوبندیوں کے نزدیک قرون ثلاثہ میں کسی راوی کا مجہول ہونا چنداں مضر نہیں۔ دیکھیے اعلاء السنن (161/3) ولفظه:
"والجهالة فى القرون الثلاثة لا يضر عندنا”
اور قرونِ ثلاثہ میں مجہول ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے۔
3)محدثین نے اس حدیث پر آمین بالجہر کے ابواب باندھے ہیں، مثلاً:
➊ البخاري الامام (باب جہر الامام بالتأمين)
➋ ابن خزيمة الامام (باب الجہر بأمين عند انقضاء فاتحة الكتاب)
➌ النسائي الامام (جہر الامام بأمين)
➍ ابن ماجه الامام (باب الجہر بأمين)
4)الزین بن منیر (متوفی 695ھ) نے کہا:
"والقول إذا وقع به الخطاب مطلقا حمل على الجهر”
جب مطلقاً (بلا قید سر و جہر) خطاب وارد ہو (قرینے کے بغیر) تو جہر پر ہی محمول ہوگا۔
(فتح الباری 212/2)
5) دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
6) آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی اس حدیث کا جہری مفہوم ہی متحقق ہوتا ہے۔

دوسری حدیث

نعیم الحجر (التابعی) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ پس آپ نے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھی۔ پھر آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی، جب آپ نے ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ ‏ (1-الفاتحة:7) پڑھا تو آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو الله اكبر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو الله اكبر کہتے۔ پھر فرماتے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہوں۔
(سنن نسائی، ج 2 ص 134، ح 905 وسندہ صحیح)
اس حدیث کو درج ذیل ائمہ نے صحیح قرار دیا ہے:
➊ ابن خزيمة (صحیح ابن خزيمة ج 1 ص 251)
➋ ابن حبان (صحیح ابن حبان ج 3 ص 145)
➌ الدار قطني (السنن ج 1 ص 306)
➍ الحاكم (المستدرك ج 1 ص 232)
➎ الذہبي (تلخيص المستدرك ج 1 ص 232)
➏ البيهقي (السنن الكبرى ج 2 ص 46)
➐ الخطیب (تفسير ابن كثير ج 1 ص 16)
➑ ابن حجر رحمہ اللہ (تغليق التعلیق ج 2 ص 321)
محمد بن علی النیموی نے بھی اس کے متعلق ”واسنادہ صحیح“ کہا ہے۔
(آثار السنن ص 94-341)
اس حدیث سے امام اور مقتدیوں کا آمین بالجہر کہنا ثابت ہوتا ہے۔
(ملاحظہ فرمائیں تفسير ابن كثير 1/16)
سعید بن ابی ہلال کتب ستہ کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں، ان سے اس حدیث کے راوی خالد بن یزید المصری بالا اتفاق ثقہ ہیں۔ خالد کی سعید سے روایت: صحیح بخاری (کتاب الطهارة، باب فضل الوضوء والغسل، رقم الحدیث 136) اور صحیح مسلم (کتاب الاضاحی، رقم الحدیث 1977 قبل 1978) وغیرہما میں ہے جو اس امر کی قوی دلیل ہے کہ سعید سے خالد کا سماع قبل از اختلاط ہے۔ خالد بن یزید 139ھ کو فوت ہوئے (تہذیب التہذیب 11/3) اور سعید بن ابی ہلال 133ھ یا 135ھ یا 149ھ کو فوت ہوئے (تہذیب التہذیب 84/4)۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خالد بن یزید انہی سعید بن ابی ہلال اللیثی کے قدیم شاگردوں میں سے ہیں، لہذا اس کا ان سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے، اسی لیے متعدد ائمہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

تیسری حدیث

حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا:
"أخبرنا يحيى بن محمد بن عمرو بالفسطاط قال: حدثنا إسحاق بن إبراهيم بن العلاء الزبيدي قال: حدثنا عمرو بن الحارث قال: حدثنا عبدالله بن سالم عن الزبيدي قال: أخبرني محمد بن مسلم عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع صوته وقال: ((آمين))”
یحییٰ بن محمد بن عمرو نے ہمیں فسطاط میں حدیث بیان کی (انھوں نے کہا:) ہمیں اسحاق بن ابراہیم بن العلاء الزبیدی نے حدیث بیان کی (انھوں نے کہا:) ہمیں عمرو بن حارث نے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد اللہ بن سالم عن زبیدی حدیث بیان کی (کہا:) مجھے محمد بن مسلم (الزہری) نے عن سعید بن مسیب و ابی سلمہ کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ کی قراءت سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور فرماتے: آمین“
(صحیح ابن حبان 3/147 ح 1803)

سند کی تحقیق

اسے درج ذیل ائمہ محدثین نے صحیح قرار دیا ہے:
➊ ابن حبان (صحیح ابن حبان 3/147)
➋ ابن خزيمة (صحیح ابن خزيمة ج 1 ص 287)
➌ الحاكم (مستدرك ج 1 ص 223 مع معرفة السنن والآثار 532/1)
➍ الذہبي (تلخيص المستدرك 223/1)
➎ الدار قطني (سنن دار قطني 1/335، وقال هذا إسناد حسن)
➏ بیہقی (التلخيص الحبير ج 1 ص 236 بلفظ حسن صحیح)
➐ ابن القيم (إعلام الموقعين ج 2 ص 397)
➑ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخيص الحبير میں اسے نقل کر کے سکوت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر کا تلخيص میں کسی حدیث کو ذکر کر کے سکوت کرنا دیوبندی علماء کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے، لہذا یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا گیا ہے۔
(دیکھیے توجيه علوم الحديث الشيخ ظفر احمد تھانوی ص 5، معارف السنن ج 5 ص 385، توضيح الكلام ج 5 ص 211)
اس حدیث کو کسی قابل اعتماد امام نے ضعیف نہیں کہا۔

راویوں کی تحقیق

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور فقیہ صحابی ہیں۔ سعید بن المسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن بالا اتفاق ثقہ ہیں۔ محمد بن مسلم، امام زہری ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزيمة کی روایت سے ظاہر ہے۔ آپ کتب ستہ کے مرکزی راوی ہیں اور آپ کی جلالت و انتقام پر اتفاق ہے۔
(تقريب التہذيب: 6296)
امام زہری بہت کم تدلیس کرتے تھے۔ (ميزان الاعتدال ج 2 ص 40) حافظ صلاح الدین العلائي نے جامع التحصيل میں انھیں دوسرے طبقہ میں شمار کیا ہے جن کے عنعنہ کو (بعض) ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کی صورت میں) قبول کیا ہے۔ مولانا ارشاد الحق اثری نے توضيح الكلام (1/388-390) میں امام زہری پر تدلیس کے اعتراض کے جوابات دیے ہیں۔
تنبيه: لیکن میری تحقیق میں راجح یہی ہے کہ امام زہری مدلس ہیں، لہذا یہ سند ضعیف ہے، لیکن دوسرے شواہد کے ساتھ صحیح ہے، دیکھیے: چوتھی حدیث وغیرہ۔
محمد بن الولید الزبیدی صحیحین کے راوی اور ثقة ثبت من كبار أصحاب الزهري تھے۔
(التقريب: 6372)
عبداللہ بن سالم الاشعری صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ بیہقی بن حسان اور عبد اللہ بن یوسف نے آپ کی تعریف کی ہے۔ نسائی نے کہا: ”ليس به بأس“، ابن حبان نے ثقہ قرار دیا، دارقطنی نے بھی آپ کی توثیق کی ہے۔
(ملخصاً من تہذيب التہذيب 200/5)
ذہبی نے کہا: صدوق فيه نصب (الكاشف 80/2)۔ ابن حجر نے کہا: ”ثقة رمي بالنصب“ (التقريب: 3335)۔ نصب کا الزام مردود ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ابن خزيمة، الحاكم، بیہقی اور ابن القيم نے بھی اس کی حدیث کو صحیح قرار دے کر اس کی توثیق کی ہے۔
ان کے مقابلے میں ابو عبید الآجری نے ابوداود سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ کے قتل پر اعانت کی ہے اور ابو داود اس کی مذمت کرتے تھے، لیکن یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے:
1. جمہور کے خلاف ہے۔
2. اس کا تعلق روایت حدیث کے ساتھ نہیں بلکہ اجتہادی امور کے ساتھ ہے۔
3. بقول آجری، ابوداود 202ھ میں پیدا ہوئے (التہذيب 151/4) اور بقول آجری عن ابی داود، عبد اللہ بن سالم 79ھ کو فوت ہوا۔ (التہذيب 200/5) یعنی اس کی وفات کے تقریباً سوا تین سال بعد ابوداود پیدا ہوئے، لہذا انھیں یہ قول کس طرح معلوم ہوا؟ سند کے انقطاع کی وجہ سے بھی اس قول کی نقل مردود ہے۔
سوالات الآجری عن ابی داود کا مصنف ابو عبید محمد بن عثمان الآجری ہے جس کے حالات نامعلوم ہیں۔ سوالات کا محقق محمد علی قاسم العمری لکھتا ہے:
"لم أوفق فى الحصول على عبارة صريحة فى تعديل الآجري إذلم يترجم له أحد فيما أعلم حتى يذكر مايفيد ذلك”
آجری کی توثیق کے بارے میں مجھے صریح عبارت نہیں ملی۔ میرے علم کے مطابق کسی نے بھی اس کے حالات نہیں لکھے تاکہ وہ ذکر کرے جو اس کے بارے میں ہو۔ (ص 41)
اگر یہ جرح باسند صحیح بھی ہوتی تو مردود تھی۔ سرفراز صفدر صاحب دیوبندی لکھتے ہیں:
”اصول حدیث کی رو سے ثقہ راوی کا خارجی یا جسمی، معتزلی یا مرجی وغیرہ ہونا اس کی ثقاہت پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتا اور صحیحین میں ایسے راوی بکثرت موجود ہیں۔“
(احسن الكلام ط دوم ج 1 ص 30)
عمرو بن الحارث الحمصی کو ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
(تہذيب التہذيب 13/8)
ابن حبان، ابن خزيمة، الحاكم، الدار قطني، بیہقی، اور ابن القيم نے اس حدیث کی تصحيح یا تحسين کی ہے۔ کسی سند کو صحیح کہنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس سند کا ہر راوی صحیح کہنے والے کے نزدیک ثقہ یا صدوق ہے۔
(دیکھیے نصب الراية 264/30149/1، لسان الميزان 1/414/5,227)
ان کے مقابلے میں حافظ ذہبی نے کہا: ”غير معروف العدالة“ (ميزان الاعتدال 251/3)
حافظ ابن حجر نے کہا: ”مقبول“ (التقريب: 5001)
یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے:
1. غیر مفسر ہے۔
2. جمہور کے خلاف ہے۔
3. ان کے اپنے کلام میں بھی تعارض ہے۔ حافظ ذہبی نے خود عمرو بن الحارث کی حدیث کی تصحيح میں موافقت کی اور ابن حجر نے سکوت کیا ہے۔
”وإذا تعارضا تساقطا“
(ملاحظہ ہو ميزان الاعتدال 552/2)
لہذا ثابت ہوا کہ عمرو بن الحارث ثقہ وصحیح الحديث ہے۔
اسحاق بن ابراہیم بن العلاء الزبیدی امام بخاری کی کتاب ”الأدب المفرد“ کے راوی ہیں۔ ابن حبان نے کتاب الثقات (113/8) میں اسے ذکر کیا ہے۔
ابن معين نے كها: ”لا بأس به ولكنهم يحسدونه“
(الجرح والتعديل 2/209 وسنده صحیح)
ابن خزيمة، الحاكم، الدار قطني، بیہقی، الذہبي اور ابن القيم نے اس کی حدیث کی تصحيح وتحسين کر کے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔
ان کے مقابلے میں مروی ہے کہ امام نسائی نے کہا: ”ليس بثقة“
(تہذيب التہذيب /189)
آجری نے ابو داود سے روایت کیا کہ محمد بن عوف نے کہا:
"ما أشك أن إسحاق بن زبريق يكذب” (ايضا)
ابوداود نے (بروایت الآجری) کہا: ”ليس بشيء“
(ميزان الاعتدال 181/1)
ذہبی نے کہا: ”ضعيف“، ابن حجر نے کہا: ”صدوق يهم كثيرا وأطلق محمد بن عوف أنه يكذب“
(التقريب: 330)
یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے:
1. جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔
2. ذہبی کا قول ان کی تصحيح کے معارض ہے۔ ”وإذا تعارضا تساقطا“
3. نسائی کے قول کی سند تاریخ دمشق لابن عساکر (77/8) میں موجود ہے، اس قول کا راوی، امام نسائی کا بیٹا عبد الکریم ہے جس کا ذکر تاریخ الإسلام للذہبي (25/299) اور الانساب للسمعاني (484/5) میں ہے لیکن توثیق مذکور نہیں، لہذا یہ مجہول الحال ہے۔ یعنی یہ قول امام نسائی سے ثابت نہیں ہے۔
4. آجری کی عدالت نامعلوم ہے، لہذا اس کی ابن عوف وابوداود سے نقل مردود ہے۔
5. یہ جرح حسد پر مبنی ہے، اس لیے مردود ہے۔
اسحاق بن ابراہیم سے بڑے بڑے اماموں نے حدیث بیان کی ہے، مثلاً یعقوب بن سفیان الفارسی، محمد بن یحییٰ الذہلی، ابو حاتم الرازی، عثمان بن سعید الدارمی اور بخاری وغیرہ۔ (دیکھیے تہذيب الكمال 2/369)
یعقوب الفارسی اور امام بخاری صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔ (دیکھیے قواعد في علوم الحديث للتہانوی البخاري، 222/19-223 والتكميل سليماني/يعقوب، ج 1 ص 24)
لہذا اسحاق بن ابراہیم الزبیدی کو کذاب کہنا انتہائی غلط ہے۔ معلوم ہوا کہ اسحاق بن ابراہیم مذکور: حسن الحديث ہے۔

چوتھی حدیث

امام ترمذی نے کہا:
"حدثنا بندار (محمد بن بشار) حدثنا يحيى بن سعيد وعبدالرحمن بن مهدي قالا: حدثنا سفيان عن سلمة بن كهيل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر رضى الله عنه قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم قرأ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ (1-الفاتحة:7) فقال: ((آمين)) ومد بها صوته (قال) وفي الباب عن على وأبي هريرة رضي الله عنهما قال أبو عيسى: حديث وائل بن حجر حديث حسن”
بندار نے ہمیں حدیث بیان کی (انھوں نے کہا:) ہمیں یحییٰ بن سعید و عبدالرحمن بن مہدی نے حدیث بیان کی (انھوں نے کہا:) ہمیں سفیان نے عن سلمہ بن کہیل عن حجر بن عنبس حدیث بیان کی کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ (1-الفاتحة:7) کا پڑھا پھر کہا: آمین اور اپنی آواز کو اس کے ساتھ کھینچا۔ امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن ہے۔ (جامع ترمذي 2/27-28 ح 248)

سند کی تحقیق

امام دار قطني نے کہا: ”هذا صحيح“ (سنن دار قطني 334/1، التلخيص الحبير 236/1)
ابن حجر نے کہا: ”وسنده صحيح“ (تلخيص الحبير 353236/1)
البغوي نے کہا: ”هذا حديث حسن“ (شرح السنة 58659/3)
ابن القيم نے کہا: ”وإسناده صحيح“ (إعلام الموقعين 396/2)
ہمارے علم کے مطابق کسی قابلِ اعتماد امام نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا ہے۔ متاخرین کا متقدمین کے مقابلے میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔

راویوں کی تحقیق

حجر بن عنبس ثقہ تھے۔ (الكاشف 150/1)
سلمہ بن کہیل کتب ستہ کے راوی اور ثقہ تھے۔ (الكاشف /308)
سفیان ثوری ثقہ حافظ فقیہ عابد امام حجة تھے۔ (التقريب: 2445)
آپ مدلس بھی تھے۔ (ميزان الاعتدال 2/169)
آپ سے یحییٰ بن سعید القطان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔ (دیکھیے العلل لأحمد بن حنبل 1/207، الكفاية للخطيب ص362، تہذيب التہذيب 192/11)
امام بخاری نے تصریح کی ہے کہ آپ سلمہ بن کہیل سے تدلیس نہیں کرتے تھے۔ (العلل الكبير لترمذي 926/2، التمهيد لابن عبدالبر 34/1، شرح علل الترمذي لابن رجب 751/2)
العلاء بن صالح نے آپ کی متابعت کی ہے۔ (الترمذي: 249، المجمع الكبير للطبراني 45/22 ولفظه فجهر بآمين)
سنن ابی داود کے تمام نسخوں میں علی بن صالح لکھا ہوا ہے۔ مگر امام بیہقی نے الخلافيات (قلمي ص 151) میں اپنی سند کے ساتھ ابو داود سے یہ حدیث العلاء بن صالح کے نام سے روایت کی ہے۔ العلاء بن صالح جمہور علماء کے نزدیک ثقہ ہیں۔ ابن معین، ابو داود، ابو حاتم، ابن حبان، یعقوب بن سفیان، ابن نمیر اور المحلبی نے آپ کو ثقہ کہا ہے۔
امام بخاری نے کہا: ”لا يتابع (اس کی فلاں حدیث میں متابعت نہیں کی گئی)“ یہ جرح غیر مفسر ہے۔
ابن مدینی نے کہا: ”اس نے منکر احادیث بیان کی ہیں“
جمہور کی توثیق کے مقابلے میں یہ جرح مردود ہے۔
ذہبی نے کہا: ”ثقة يغرب“ ثقہ ہے اور غریب روایات بیان کرتا ہے۔ (الكاشف 309/2)
ابوزرعہ نے کہا: ”لا بأس به“ (الجرح والتعديل 357/6)
ابوحاتم کا قول: ”كان من عتق الشيعة“ (ميزان الاعتدال 101/3) مجھے الجرح والتعديل میں نہیں ملا اور اگر یہ کلمات ان سے ثابت بھی ہوں تو مردود ہیں۔
حافظ ذہبی نے العلاء بن صالح کے ترجمہ میں عن المنہال بن عمر وعن عباد بن عبد الله عن علي رضي الله عنه ایک روایت ذکر کی ہے کہ علی رضی اللہ عنه نے فرمایا: میں عبداللہ ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی ہوں اور صدیق اکبر ہوں … الخ
(اظہار تحسين في إخفاء التأمين ص 129، نیز دیکھیے سنن ابن ماجة: 120)
العلاء بن صالح اس روایت میں متفرد نہیں ہیں، بلکہ ابو اسحاق نے ان کی متابعت کی ہے۔
(مستدرك 3/112,111)
اس روایت کا اصل الزام عباد بن عبداللہ رافضی پر ہے جو سخت مجروح ہے۔ حافظ ابن تيمية نے عباد کی اس روایت کو ”كذب ظاهر“ (کھلا جھوٹ) قرار دیا۔
(منهاج السنة 199/4 حوالہ تخريج الخصائص للنسائي ص 25)
ذہبی نے اسے حدیث باطل کہا۔
(تلخيص المستدرك 11/3 ح 4584)
لہذا العلاء اس روایت کے الزام سے بری ہے۔

سفیان ثوری کی حدیث کے متن کی تحقیق

سفیان سے یہ روایت ابن مہدی، یحییٰ بن سعید، المحاربی، اور وکیع نے ”مد بها صوته“ اور ”يمد بها صوته“ کے الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے۔
محمد بن کثیر، الفریابی، قبیصہ اور ابوداود الحفری نے ”رفع بها صوته“ اور ”يرفع بها صوته“ کے الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے، لہذا دونوں روایتیں صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی توضيح کرتی ہیں۔
محمد بن کثیر کی روایت سنن دارمی (284/1) اور سنن ابی داود (574/1ح74/1) میں موجود ہے۔ آپ کتب ستہ کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔ حافظ ذہبی نے کہا: ”الحافظ الثقة“ (سير أعلام النبلاء 383/10) اور ابن معین کی جرح نقل کر کے بطور تردید فرمایا: شخص پل عبور کر گیا ہے (اس پر جرح مردود ہے) اور ہمارے علم میں اس کی کوئی چیز منکر نہیں جس کی وجہ سے اسے کمزور قرار دیا جائے۔
(ایضاً ص 384)
محمد بن کثیر کی متابعت دو ثقہ راویوں نے کی ہے۔
①ابو داود الحفری (السنن الكبرى 57/2) ان کی روایت میں ’رفع بها صوته‘ کے الفاظ ہیں۔ ابوداود عمر بن سعد الحفری صحیح مسلم کا راوی اور ثقہ عابد تھا۔ (التقريب 4904)
ان کے شاگرد عباس بن محمد الدوری ثقہ حافظ تھے۔ (التقريب: 3189)
الدوری کے شاگرد ابوطاہر محمد بن الحسن المحمد آبادی ثقہ تھے۔ امام حاکم نے کہا: ”كان من أكابر المشائخ الثقات“ (الانساب ج 5 ص 217)
ذہبی نے کہا: ”كان من أعيان الثقات العالمين بمعاني التنزيل وبالأدب“ نیز کہا: ”الإمام العلامة المفسر“ (سير أعلام النبلاء 305,304/15)
الحمد آبادی کے شاگرد ابوطاہر محمد بن محمد بن محمش الزیادي الشافعي النيسابوري ”الفقيه العلامة القدوة …… الأديب“ تھے۔ (النبلاء 276/17)
ذہبی نے کہا: ”كان إمام أصحاب الحديث ومسندهم ومفتيهم“ (ایضاً ص 277)
حاکم نے آپ کی تعریف کی ہے۔ (الانساب ج 3 ص 185)
بیہقی نے انھیں ”الإمام“ کہا اور ان کی ایک روایت کو محفوظ کہا۔ (السنن الكبرى ج 8 ص 22)
عبد الغافر بن اسماعیل نے کہا: ”إمام أصحاب الحديث بخراسان وفقيههم بالإتفاق بلا مدافعة“ (تاريخ نيسابور ص 8)
تراویح کی بحث میں اہل الرائے ان کی روایت کو پیش کرتے ہیں۔ (دیکھیے آثار السنن للنيموي ص 252)
ابو طاہر اس روایت میں منفرد نہیں ہیں بلکہ احسن بن علی بن عفان نے بھی یہ حدیث ابو داود الحفری سے بیان کی ہے۔
(معرفة السنن والآثار قلمي بیہقی 210/1، الخلافيات قلمي ص 50، ولفظه: جهر بها صوته)
الحسن بن علی بن عفان صدوق ہیں۔ (التقريب 1241)
امام دار قطني وغیرہ نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے (تہذيب التہذيب 2/261)
ان کے شاگرد ابوالعباس محمد بن یعقوب بالاتفاق ثقہ ہیں۔ (دیکھیے تذكرة الحفاظ 3/820 ت 835)
ابوالعباس کے شاگرد ابوعبداللہ الحاکم صاحب المستدرك صدوق مشہور ہیں۔ (دیکھیے تذكرة الحفاظ 3/1039 ت 962، ميزان الاعتدال 608/3)
② الفریابی نے ”يرفع صوته“ کے الفاظ روایت کیے ہیں۔ (سنن دار قطني 333/1)
محمد بن یوسف بن واقد الفریابی کتب ستہ کے راوی اور الإمام الحافظ شيخ الإسلام تھے۔ (النبلاء 114/10)
آپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔ ابن معین وغیرہ نے آپ کو ثقہ کہا ہے۔
الفریابی سے حمید بن زنجویہ نے یہ حدیث بیان کی، حمید ثقہ ثبت ہے۔ (التقريب: 1558)
ابن زنجویہ کے شاگرد ایکی بن محمد بن صاعد الحافظ الإمام الثقة تھے۔ (تذكرة الحفاظ 2/776)
ابن صاعد سے امام دار قطني بیان کرتے ہیں جو بالا اتفاق ثقہ اور معتدل امام تھے۔
③ قبیصہ نے بھی ’يرفع بها صوته‘ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔
(معجم الكبير للطبراني 44/22 111)

شعبہ کی روایت

سلمہ بن کہیل سے حجر بن عنبس اور علقمہ بن وائل کی سند کے ساتھ امام شعبہ نے جو روایت بیان کی ہے وہ سفیان ثوری اور العلاء بن صالح وغیرہما کی روایت کے خلاف ہے۔ یہ روایت مسند احمد (316/4)، سنن دار قطني (334/1)، سنن بیہقی (57/2، 58)، مسند طيالسي (1024)، صحیح ابن حبان (146/3 ح 1802) اور مستدرك حاکم (232/2) وغیرہ میں ہے۔
شعبہ سے محمد بن جعفر اور یزید بن زریع نے ”أخفى بها صوته“ (آپ نے اپنی آواز پست رکھی) کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی، ابو داود طيالسي، عمرو بن مرزوق اور سلیمان بن حرب وغیرہ نے ”خفض بها صوته“ اور ”يخفض بها صوته“ (اپنی آواز پست رکھی) کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
ابو الولید الطيالسي سے اختلاف ہے، ان کے شاگرد اسماعیل بن اسحاق القاضی (ثقہ بالا جماع) کی روایت میں ”يخفض بها صوته“ کے الفاظ ہیں۔ حاکم اور ذہبی نے اس روایت کی تصحيح کی ہے۔ ابراہیم بن مرزوق (متکلم فیہ) کی روایت میں ”رافعاً بها صوته“ کے الفاظ ہیں۔ ابن مرزوق کی روایت شاذ اور اسماعیل القاضی کی روایت محفوظ ہے۔
شعبہ سے عبد الصمد اور وہب بن جریر نے یہ حدیث بیان کی ہے، اس میں خفض وغیرہ الفاظ نہیں، بلکہ ”قال آمين“ (آپ نے آمین کہی) کے الفاظ ہیں۔
(صحیح ابن حبان 146/3)
حافظ ابن حبان نے اس پر باب ’أن يجهر بآمين‘ باندھا ہے۔
عبد الصمد بن عبد الوارث کتب ستہ کے راوی اور صدوق ثبت فی شعبہ ہیں۔ (تقريب: 1080)
وہب بن جریر بھی کتب ستہ کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (التقريب: 7372)
اور ان دونوں تک سند بالکل صحیح ہے۔ معلوم ہوا کہ شعبہ سے روایت میں ان کے شاگردوں کا اختلاف ہے۔ شعبہ بن الحجاج کتب ستہ کے راوی ثقہ حافظ متقن تھے۔ (التقريب: 2790)
مگر جمہور غیر جانبدار محدثین نے متعدد ملاحظات کی وجہ سے آپ کی اس روایت کو خطأ (غلط) اور سفیان کی روایت کو صواب قرار دیا ہے۔
حاکم اور حافظ ذہبی نے اگر شعبہ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے تو امام بخاری اور امام ابو زرعہ نے شعبہ کی حدیث کو خطأ اور نوری کی حدیث کو أصح قرار دیا۔ (العلل الكبير للترمذي 1/217)
امام دار قطني نے کہا:
"يقال أنه وهم فيه لأن سفيان الثوري ومحمد بن سلمة بن كهيل وغيرهما رووا عن سلمة فقالوا: ورفع صوته بآمين وهو الصواب”
(سنن دار قطني 334/1 1256)
امام بیہقی نے کہا:
"وقد أجمع الحفاظ: محمد بن إسماعيل وغيره على أنه أخطأ فى ذلك”
(معرفة السنن والآثار قلمي 210/1)
سفیان ثوری کی حدیث کو شعبہ کی روایت پر کئی لحاظ سے ترجیح حاصل ہے:
1. سفیان کی العلاء بن صالح (ثقہ) نے متابعت کی ہے اور شعبہ کا کوئی متابع نہیں۔
2. سفیان کی روایت کے دو شاہد ہیں، اور شعبہ کا کوئی شاہد نہیں۔

شاہد نمبر 1:

کہا جاتا ہے علقمہ بن وائل نے بھی یہ حدیث یجهر بآمين اپنے والد وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔
(مسند احمد 2/318، السنن الكبرى للبيهقي /58)
علقمہ بن وائل صحیح مسلم کے راوی ہیں، ابن سعد اور ابن حبان نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے۔ (التہذيب 7/247)
ناقابل تردید دلائل سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنے والد سے احادیث سنی ہیں۔ (دیکھیے صحیح مسلم: 2980 أوتر قيم دار السلام: 4387)
علقمہ سے ابو اسحاق (عمرو بن عبد اللہ الہمدانی) راوی ہیں، آپ کتب ستہ کے راوی اور ثقہ عابد تھے۔ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (التقريب: 5065)
آپ مدلس بھی تھے۔ (دیکھیے طبقات المدلسين: 3/91)
آپ سے شریک نے یہ حدیث بیان کی ہے، آپ سے شریک کی روایت قبل از اختلاط ہے کیونکہ وہ آپ سے قدیم السماع تھے۔ (ميزان الاعتدال 273/2)
سماک نے ابو اسحاق کی متابعت کی ہے۔ (كتاب التمييز لمسلم ص 8، قلمي)
سماک صحیح مسلم کے راوی اور صدوق تھے، عکرمہ سے ان کی روایت میں خاص کر اضطراب ہے اور وہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور تلقین قبول کر لیتے تھے۔ (التقريب 5065)
شریک بن عبداللہ القاضی صحیح مسلم کے راوی صدوق يخطئ كثيرا تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة وكان عادلا فاضلا عابدا شديدا على أهل البدع تھے۔
(التقريب: 2797)
یعنی منصب قضاء پر فائز ہونے کے بعد ان کا حافظہ کمزور پڑ گیا تھا، ایسے راوی سے روایت متابعات میں جب کہ اصل صحیح یا حسن ہو تو پیش کی جا سکتی ہے۔
شریک سے اسود بن عامر (ثقہ) نے اور ان سے احمد بن حنبل وغیرہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔

شاہد نمبر 2:

کہا جاتا ہے کہ عبدالجبار بن وائل نے بھی یہ حدیث اپنے والد سے آمین بالجہر کے مفہوم کے ساتھ بیان کی ہے۔
(دیکھیے سنن ابن ماجة: 855، مصنف ابن ابی شيبة 2/425 7959، مسند احمد 4/315 18841، سنن دار قطني 334/1 ح 1259، نسائي بحوالہ نصب الراية 311/1)
عبدالجبار بن وائل صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ تھے، ان کے والد سے ان کی روایت مرسل ہے۔
(التقريب: 3744)
دیوبندیوں کے نزدیک مرسل حجت ہے۔
(احسن الكلام 262/1)
دیگر محدثین کے نزدیک مرسل ضعیف ہوتی ہے مگر صحیح وحسن لذاتہ روایت کی تائید اور اعتضاد (تقویت) کی صورت میں اسے شواہد میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
عبدالجبار سے ابو اسحاق وغیرہ نے یہ حدیث بیان کی ہے، ابواسحاق سے زہیر، یونس بن ابی اسحاق، زید بن ابی انیسہ اور ابوبکر بن عیاش نے یہ حدیث بیان کی۔
زہیر ثقہ ثبت ہیں مگر ان کا سماع ابواسحاق سے آخری عمر کا ہے، آپ کتب ستہ کے راوی ہیں۔
(التقريب: 2051)
یونس صحیح مسلم کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں، آپ کو کچھ اوہام بھی ہوئے ہیں۔ حافظ ذہبی نے کہا: ”بل هو صدوق ما به بأس“
(ميزان الاعتدال ج 4 ص 483)
زید کتب ستہ کے راوی اور ثقة لہ افراد تھے۔ (التقريب: 2118)
ابو بکر بن عیاش قول راج میں جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں، لہذا حسن الحديث ہیں۔ (دیکھیے نور العينين طبع جدید ص 168)
جمہور محدثین نے شعبہ کی روایت کو خطأ اور ثوری کی روایت کو صواب قرار دیا ہے۔ شعبہ کی روایت میں اضطراب ہے، یہ بات ابوبکر الاثرم نے کہی ہے جبکہ سفیان کی روایت میں اضطراب نہیں ہے۔
(دیکھیے التلخيص الحبير 1/337)
محدثین کا قاعدہ اور ضابطہ ہے کہ سفیان اور شعبہ کی روایت میں جب بھی اختلاف ہو تو سفیان کی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔ امام بیہقی نے کہا:
"لا أعلم إختلافا بين أهل العلم بالحديث أن سفيان وشعبة إذا اختلفا فالقول قول سفيان”
علم حدیث کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جب سفیان اور شعبہ کے مابین اختلاف ہو تو سفیان کا قول راجح ہوگا۔ (إعلام الموقعين 2/1396، عون المعبود 3/207، الخلافيات للبيهقي 50/1 قلمي)
يحيى القطان نے کہا: جب شعبہ سفیان کی مخالفت کرے تو میں سفیان کے قول کو لیتا ہوں۔ (الجرح والتعديل 223/4-224 وسنده صحیح، تہذيب التہذيب 101/4)
یعنی حدیث کی روایت میں، نیز ملاحظہ فرمائیں: (شرح علل الترمذي لابن رجب ج 1 ص 156، 177)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت (جو کہ ثوری کی سند کے ساتھ ہے) کے دیگر صحابہ سے شواہد بھی ہیں جب کہ شعبہ کی روایت کا کوئی شاہد نہیں ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات گزر چکی ہیں۔
وہ مالی امام ترمذي کہتے ہیں: اس باب میں علی رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت

امام ابن ماجة نے کہا:
"حدثنا عثمان بن أبى شيبة: ثنا حميد بن عبدالرحمن: ثنا ابن أبى ليلى عن سلمة بن كهيل عن حجية بن عدي عن على رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ (1-الفاتحة:7) ، قال: آمين
عثمان بن ابی شیبہ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں حمید بن عبدالرحمن نے حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں ابن ابی لیلیٰ نے حدیث بیان کی وہ سلمہ بن کہیل سے وہ حجية بن عدی سے وہ علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ ‎ ‏(1-الفاتحة:7) کہا تو آمین کہی۔
(سنن ابن ماجة 1/278 حدیث 854)
امام بیہقی نے کہا:
"أخبرنا أبو الحسين بن الفضل القطان ببغداد: أنبأ أبو الحسين بن عثمان المري (!): ثنا محمد بن على الوراق: ثنا عثمان بن أبى شيبة: ثنا حميد بن عبدالرحمن الرواس عن محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلى عن سلمة بن كهيل عن حجية بن عدي عن على رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ((آمين)) إذا قرأ ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ (1-الفاتحة:7)
ابوالحسین بن الفضل نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا:) ابوالحسین بن عثمان نے حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں محمد بن علی نے حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں عثمان بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں حمید بن عبد الرحمن الرواس نے، وہ محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے، وہ سلمہ بن کہیل سے، انھوں نے حجية بن عدی کے واسطے سے حدیث بیان کی کہ علی رضی اللہ عنه نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ (1-الفاتحة:7) کہا تو آمین کہی۔
(الخلافيات قلمي ص 52)

سند کی تحقیق

حجية بن عدی کو ابن حبان اور المحلبی نے ثقہ کہا۔ البوشنجي نے بھی توثیق کی۔ ترمذي نے اس کی ایک حدیث کو حسن صحیح کہا (1539، الاضاحي)۔
ذہبی نے کہا: ”وهو صدوق إن شاء الله“ (ميزان الاعتدال 466/1)
ابن حجر نے کہا: ”صدوق يخطئ“ (التقريب رقم 1150)
ابوحاتم نے کہا: ”لا يحتج بحديثه شبيه بالمجهول“
ابن سعد نے کہا: ”كان معروفا وليس بذاك“
ابن المديني نے کہا: ”لا أعلم روى عنه إلا سلمة بن كهيل“
ابن حجر نے کہا: ”روى عنه الحكم بن عتيبة وسلمة بن كهيل وأبو إسحاق السبيعي“
حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کی تصحيح کی ہے۔ حاکم نے کہا:
”ولم يحتجا بحجية بن عدي وهو من كبار أصحاب أمير المؤمنين على رضي الله عنه“
معلوم ہوا کہ حجية عند الجمہور صدوق ہے اور اس کی حدیث حسن ہے۔
سلمہ بن کہیل ثقہ ہیں۔ (جیسا کہ گزر چکا ہے)
محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ مگر اہل الرائے اس کی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔
(راجع نور الصباح ص 164-165، إظهار التحسين في إخفاء التأمين از حبیب اللہ ڈیروی ص 121)
حمید بن عبد الرحمن الرواسی ثقہ ہے۔ (التقريب 1551)
عثمان بن ابی شیبہ صحیحین کے راوی ہیں اور امام ابن حجر نے کہا:
”ثقة حافظ شهير وله أوهام وقيل كان لا يحفظ القرآن“ (التقريب: 4513)
ان سے ابن ماجة اور محمد بن علی الوراق نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں صرف ایک علت قادحہ (ضعف ابن ابی لیلیٰ) ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے بھی سفیان ثوری کی روایت کی تائید ہوتی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ آمین بالجہر کے قائل تھے۔ کوئی صحابی آمین بالسر کا قائل نہیں تھا، کسی صحابی سے خفیہ آمین باسند صحیح یا حسن ثابت نہیں ہے۔

پانچویں حدیث

امام ابو یعلیٰ الموصلی نے کہا:
"ثنا هدبة قال: ثنا هارون بن موسى النحوي عن ثابت عن ابن أم الحصين عن جدته أنها سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقرأ: ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ (1-الفاتحة:4) فقرأ حتى بلغ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ ‏(1-الفاتحة:7) قال: آمين”
ہمیں ہدیہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ہارون بن موسیٰ النحوی نے حدیث بیان کی وہ ثابت سے وہ ابن أم الحصين سے وہ اپنی دادی (أم الحصين رضی اللہ عنہا) سے بیان کرتے ہیں کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ (1-الفاتحة:4) پڑھتے ہوئے سنا، پس آپ نے قراءت کی حتیٰ کہ ﴿وَلَا الضَّالِّينَ﴾ ‏(1-الفاتحة:7) پر پہنچ گئے، تو کہا: آمين (مسند ابي يعلىٰ ص 252-251 313)
یہ سند حسن لذاتہ ہے، راویوں کا مختصر اور جامع تعارف درج ذیل ہے:
ہدبة بن خالد کے بارے میں حافظ ابن حجر نے کہا:
”ثقة عابد، تفرد النسائي بتضعيفه“ ثقہ عابد تھے، ان پر جرح میں امام نسائی منفرد ہیں۔ (التقريب: 7269)
ہدبة پر امام نسائی کی جرح باسند صحیح ان سے ثابت نہیں ہے، ہمیں یہ جرح کتاب الضعفاء للنسائي اور سنن النسائي میں نہیں ملی۔ واللہ اعلم
ہدبة مذکور صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں، اگر ان پر امام نسائی کی جرح باسند صحیح ثابت بھی ہو جائے تو بھی جمہور کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
ہارون بن موسیٰ النحوی کے بارے میں حافظ ابن حجر نے کہا: ”ثقة مقري إلا أنه رمي بالقدر“ ثقہ، قاری قرآن تھے، مگر ان پر قدری ہونے کا الزام ہے۔ (التقريب: 7246)
صحیحین کے اس راوی پر قدری ہونے کا الزام مردود ہے۔ والحمد للہ
ثابت بن اسلم البنانی، کتب ستہ کے راوی اور ثقة عابد تھے۔ (التقريب: 810)
ابن أم الحصين ثقہ ہیں۔ (التقريب: 7532)
أم الحصين رضی اللہ عنہا صحابیہ ہیں۔ (التقريب: 8720)
معلوم ہوا کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔

آثار صحابہ

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر
امام ابن خزيمة نے کہا:
"حدثنا محمد بن يحيى نا أبو سعيد الجعفي حدثني ابن وهب أخبرني أسامة وهو ابن زيد عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنه: كان إذا كان مع الإمام يقرأ بأم القرآن فأمن الناس أمن ابن عمر رضى الله عنه ورأى تلك السنة”
(صحیح ابن خزيمة /287 572)
محمد بن یحییٰ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں ابوسعید الجعفی نے حدیث بیان کی (کہا) مجھے ابن وہب نے حدیث بیان کی (کہا) مجھے اسامہ بن زید نے نافع سے حدیث بیان کی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے، سورہ فاتحہ پڑھتے پھر لوگ آمین کہتے تو آپ رضی اللہ عنہ بھی آمین کہتے، اور اسے سنت قرار دیتے۔

سند کی تحقیق

نافع مولى ابن عمر ثقة ثبت فقيه مشهور ہیں۔ (التقريب: 7082)
اسامہ بن زید (الليثي ابوزيد المدني) صحیح مسلم کا راوی ہے اور عند الجمہور ثقہ و صدوق ہے۔ ابن وہب عن اسامہ بن زيد عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سند سے متعدد روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔ (راجع تحفة الأشراف للمزي 55,54/6)
یحییٰ بن سعید، احمد بن حنبل، ابو حاتم، نسائی، البرقي اور ابوالعرب نے جرح کی ہے۔ یحییٰ بن معین، ابن عدي، انجلي، مسلم، ابن حبان (وقال: يخطئ)، ابن شاہین اور یعقوب بن سفیان وغیرہم نے ثقہ صدوق و صحیح الحديث کہا ہے۔ آجری کی روایت کے مطابق ابو داود نے اسے صالح قرار دیا۔ الحاكم اور ابوعلي الطوسي نے اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔ ابن خزيمة وغیرہ نے اس کی حدیث کی تصحيح کی ہے۔
ابن عدي کا قول ہے: ”يروي عنه ابن وهب نسخة صالحة. ليس بحديثه بأس“
(ملخصاً من تہذيب الكمال مع البامش 347/2 – 351 و تہذيب التہذيب 209/1-210 وغیرہما)
ذہبی نے کہا: ”الإمام العالم الصدوق“ (سير أعلام النبلاء 342/6)
اور کہا: ”صدوق قوي الحديث والظاهر أنه ثقة“ (معرفة الرواة المتكلم فيهم لا يوجب الرد للذهبي ص 64 رقم 26)
البوصيري نے الزوائد میں اس کی ایک حدیث کو صحیح قرار دیا۔ (سنن ابن ماجة 1014/2 ح 3052)
امام زيلعي حنفي نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا۔ (نصب الراية 162/3)
علی بن المديني نے کہا: ”كان عندنا ثقة“ (سوالات محمد بن عثمان بن ابی شيبة رقم 103 ص 98)
محمد بن عثمان بن ابی شيبة ثقہ ہے اور اس پر جروح مردود ہیں۔ (دیکھیے میری کتاب "الأسانيد الصحيحة في أخبار أبي حنيفة” ص 81)
شمس الحق عظيم آبادي رحمہ اللہ نے ابن سيد الناس سے نقل کیا کہ ”إسناده حسن“ (تعلیق المغني 252/1) یعنی اس کی ایک روایت بلحاظ سند حسن ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے، لہذا اس کی حدیث حسن ہے۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ”وقد يرتقى حديثه إلى رتبة الحسن“ (سير أعلام النبلاء 323/6)
حافظ ابن حجر نے کہا: ”صدوق يهم“ (التقريب: 317)
حافظ صاحب امام ابن عدي سے ایک راوی کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
”لم أر له متنا منكرا ربما يهم وهو حسن الحديث“ (الكامل لابن عدي 1178/3، لسان الميزان 69/3)
معلوم ہوا کہ يهم والی روایت کا راوی حسن الحديث ہوتا ہے (بشرطیکہ اس کے موثقین زیادہ ہوں اور روایت مذکورہ میں اس کا وہم ہونا ثابت نہ ہو۔)
دیوبندیوں کا اصول ہے کہ مختلف فیہ راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے۔ ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
”وكذا إذا كان الراوي مختلفا فيه: وثقه بعضهم وضعفه بعضهم فهو حسن الحديث“
(قواعد في علوم الحديث ص 46 مع تحقيق أبي غدة المطلي)
اور اسامہ بھی مختلف فیہ راوی ہیں۔ بعض نے جرح کی اور اکثر و جمہور علماء نے انھیں ثقہ قرار دیا، لہذا ان کی حدیث بذات خود حسن ہے۔ واللہ اعلم
ابن وہب کتب ستہ کے راوی اور ثقہ حافظ عابد ہیں۔ (التقريب: 3694)
ابوسعید (یحییٰ بن سلیمان) الجعفی صحیح بخاری کا راوی ہے، اس سے ابوزرعہ وغیرہ نے روایت کی۔ ابوزرعہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ (لسان الميزان 2/416)
ابن حبان نے ثقہ قرار دیا۔ (كتاب الثقات 263/9 وقال: ربما أغرب)
دارقطني نے کہا: ”ثقة“
مسلمة بن قاسم نے کہا: ”لا بأس به وكان عند العقيلي ثقة وله أحاديث مناكير“ (مسلمة بذات خود ضعیف ہے)
ابن خزيمة نے اپنی صحیح میں اس سے روایت کی ہے، ابوحاتم نے کہا: ”شيخ“
ان کے مقابلے میں امام نسائی نے کہا: ”ليس بثقة“
حافظ ابن حجر نے کہا: ”صدوق يخطئ“ (ملخصاً من تہذيب التہذيب 227/11 و تقريب التہذيب: 7564 وغیرہما)
جمہور کے مقابلے میں یہ جرح مردود ہے، لہذا ابوسعید الجعفی کی حدیث حسن لذاتہ ہے۔
ان کے شاگرد محمد بن یحییٰ (الذہلي) ثقہ حافظ جلیل تھے۔ (التقريب: 6387)
خلاصہ یہ کہ حدیث بلحاظ سند حسن ہے، لہذا شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا اسے ”إسناده ضعيف“ کہنا قرین صواب نہیں ہے۔ واللہ اعلم
امام بیہقی لکھتے ہیں:
وروينا عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه كان يرفع بها صوته إما ما كان إماما أو مأموما،
ابن عمر رضی اللہ عنہما امام ہوتے یا مقتدی، (دونوں صورتوں میں) آمین بلند آواز سے کہتے تھے۔
(السنن الكبرى 2/59)
ان کا غالباً اس حدیث کی طرف اشارہ ہے۔
وقال نافع: كان ابن عمر رضي الله عنهما لا يدعه ويحضهم وسمعت منه فى ذلك خبرا،
نافع نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما آمین (کہنا) نہیں چھوڑتے تھے اور انھیں (اپنے شاگردوں کو) اس کی ترغیب دیتے تھے اور میں نے اس سلسلے میں ان سے ایک خبر سنی ہے۔
(بخاری مع فتح الباری 2/209)
بعض روایات میں ہے کہ خیر سنی ہے۔ یہ روایت( مصنف عبدالرزاق 2641) میں موصولاً موجود ہے۔
تنبیہ: (مصنف عبدالرزاق 2/97) میں ابن جریج کے بعد أخبرت نافع چپ گیا ہے۔ جبہ مسیح“ کی جگہ ”أخبرني نافع“ ہے جیسا کہ (فتح الباری 2/209) میں ہے۔ فوائد ابن معین میں صحیح سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے:
أن ابن عمر كان إذا ختم أم القرآن لا يدع آمين، يؤمن إذا ختمها ويحضهم على قولها وسمعت منه فى ذلك خبرا
ابن عمر رضی اللہ عنہما جب سورہ فاتحہ ختم کرتے تو آمین (کہنا) نہ چھوڑتے، جب فاتحہ ختم کرتے تو آمین کہتے اور اسے کہنے کی ترغیب دیتے، میں نے ان سے اس کے متعلق ایک روایت بھی سنی ہے۔
یہ روایت ابن حجر نے تغلیق التعلیق (2/319) میں اپنی سند کے ساتھ بیہقی بن معین سے نقل کی ہے۔
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:
قال عطاء: آمين دعاء أمن ابن الزبير رضي الله عنهما ومن ورائه حتى أن للمسجد للجة
اور عطاء نے کہا: آمین ایک دعا ہے، ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان لوگوں نے جو ان کے پیچھے تھے اتنی بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔
(مع فتح الباری 2/208)
یہ روایت مصنف عبدالرزاق (2640)، وعنه ابن حزم في المحلى (3/264)، مصنف ابن ابی شیبہ (2/427)، مسند الشافعی بترتیب محمد عابد السندھی (1/82 ح 230، 231)، کتاب الثقات لابن حبان (6/265)، السنن الكبرى للبیہقی (2/59)، تغلیق التعلیق (2/318) میں باسند صحیح موجود ہے۔
اس حدیث کے راوی عطاء بن ابی رباح کے متعلق ابن حجر کہتے ہیں:
”ثقة فقيه فاضل لكنه كثير الإرسال“
(التقريب: 4591)
وہ کتب ستہ کے مرکزی راوی ہیں، ان کی یہ روایت ان کا مشاہدہ ہے لہذا متصل ہے مرسل نہیں ہے۔ عطاء سے امام ابن جریج اس حدیث کے راوی ہیں، ابن معین، ابن سعد، ابن حبان، اسحاقی اور الذہبی وغیرہ نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے، ان پر حبیب اللہ ڈیروی کی متعہ والی جرح بلا سند اور مردود ہے۔
(مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ فرمائیں میری کتاب "نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین” کا مقدمہ ص 40-42)
آپ مدلس تھے مگر آپ نے کہا:
"إذا قلت قال عطاء فأنا سمعته منه وإن لم أقل سمعت“
یعنی اگر میں کہوں کہ عطاء نے کہا ہے، تو وہ میں نے اس سے سنا ہے، اگرچہ میں سماع کی تصریح نہ کروں۔
(التعلیق الكبير لابن خیثمہ ص 152، وسنده صحیح، تہذیب التہذیب 6/360)
مصنف عبدالرزاق میں ابن جریج کی عطاء سے سماع کی تصریح بھی ہے، الفاظ یہ ہیں:
"قال: قلت له: أكان ابن الزبير رضي الله عنهما يؤمن على أثر أم القرآن؟ قال: نعم يؤمن ومن ورائه حتى أن للمسجد للجة“
ابن جریج نے کہا: میں نے (عطاء بن ابی رباح) سے پوچھا کیا ابن زبیر رضی اللہ عنہما فاتحہ کے اختتام پر آمین کہتے تھے؟ تو انھوں نے کہا: ہاں اور جو ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے وہ بھی، یہاں تک کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔
(مصنف عبدالرزاق 2/96-97)
ابن جریج سے یہ حدیث عبدالرزاق (مصنف: 2640)، محمد بن بکر (تغلیق التعلیق 2/318 بحوالہ مسند اسحاق بن راہویہ)، مسلم بن خالد (مسند الشافعی 1/82)، سفیان بن عیینہ (بلفظ لعله: مصنف ابن ابی شیبہ 2/427)، خالد بن ابی نوف (کتاب الثقات لابن حبان 6/265) نے بیان کی ہے۔
عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی کتب ستہ کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ تھے۔ حافظ ذہبی نے کہا:
”الحافظ الكبير عالم اليمن …… الثقة الشيعي“
(سیر اعلام النبلاء 9/563-564)
محمد بن بكر البرسانی کتب ستہ کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ تھے۔
حافظ ذہبی نے کہا:
"الإمام المحدث الثقة”
(سیر اعلام النبلاء 9/421)
مسلم بن خالد عند الجمہور ضعیف تھے، ابن حبان، ابن عدی، ابن معین اور دارقطنی نے انھیں ثقہ کہا۔ احمد، ابن معین (فی روایة)، ابن مدینی، بخاری، ابن سعد اور الساجی وغيرہ نے ان پر جرح کی۔ بخاری کی جرح انتہائی شدید ہے مگر بعد کے الفاظ میں کچھ نرمی پیدا کر دیتے ہیں۔ حافظ ابن حجر نے کہا:
”فقيه صدوق كثير الأوهام“
(التقريب: 6625)
خلاصہ یہ کہ مسلم بن خالد حافظے کی وجہ سے ضعیف ہیں مگر صحیح اور حسن حدیث کے شواہد میں ان کی روایت پیش کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم
سفیان بن عیینہ کتب ستہ کے راوی، ثقہ، حافظ، فقیہ، امام، حجت تھے:
”إلا أنه تغير حفظه بآخرة وكان ربما دلس لكن عن الثقات“
(التقريب: 2451)
ابوبکر بن ابی شیبہ کا ان سے سماع قبل از اختلاط کا ہے کیونکہ ابوبکر کی ان سے روایات صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔ خالد بن ابی نوف کو ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے (6/264)۔ ہمارے علم کے مطابق اس پر کسی نے بھی جرح نہیں کی، ابن حجر نے ”مقبول“ (عند المتابعة) قرار دیا۔ (التقريب: 1683)
لہذا اس کی روایت شواہد میں مقبول ہے اور وہ مجہول الحال ہے۔ واللہ اعلم
خالد سے مطرف بن طریف اس روایت کے راوی ہیں جو کہ کتب ستہ کے راوی اور ثقہ فاضل تھے۔ (التقريب: 6705)
مطرف سے ابوحمزہ السكری (محمد بن میمون المروزی) نے یہ حدیث بیان کی ہے، جو کہ کتب ستہ کا راوی اور ثقہ فاضل تھا۔ (التقريب: 1348)
ابوحمزہ سے علی بن الحسن بن شقیق نے یہ حدیث بیان کی جو کہ کتب ستہ کے راوی اور ثقہ حافظ تھے۔ (التقريب: 4706)
علی بن الحسن سے اسحاق بن ابراہیم یعنی امام ابن راہویہ اور احمد بن منصور المروزی نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
امام اسحاق بن ابراہیم صحیحین کے راوی اور ثقہ حافظ مجتہد قرین احمد بن حنبل تھے۔
اور التقريب (335) میں ہے کہ ابو داود نے ان کے متعلق کہا: ان کا حافظہ زندگی کے آخری ایام میں متغیر ہو گیا تھا لیکن حافظ ذہبی نے ابوداود کی طرف منسوب اس قول کی تردید کرتے ہوئے کہا:
"فهذه حكاية منكرة”، یعنی یہ تغیر والی حکایت منکر ہے۔ (سیر اعلام النبلاء 11/377)
اور اختلاط کے الزام کی زبردست تردید کی ہے۔
(یاد رہے کہ ابو داود سے اس قول کا راوی ابوعبید محمد بن علی الآجری ہے جو کہ مجہول الحال ہے، دیکھیے تیسری حدیث۔ اگرچہ حافظ ذہبی نے کہا: "وما علمت أحدا لينه“ تو ہم کہتے ہیں:
”وما علمنا أحدا وثقه“
لہذا تغیر اور اختلاط کا الزام بالکلیہ مردود ہے۔
احمد بن منصور المروزی صحیح مسلم کا راوی اور صدوق تھا۔ (التقريب: 112)
ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا۔
(صحیح مسلم کا راوی ہونے میں اس کے متعلق اختلاف ہے، ابو حاتم نے کہا: صدوق تھا)
امام ابن راہویہ سے ان کے راوی (مشہور شاگرد) عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمن بن شیرویہ نے یہ حدیث بیان کی۔
ابن شیرویہ: الإمام الحافظ الفقيه تھا۔ (سیر اعلام النبلاء 14/166)
وسمع المسند كله من إسحاق أيضا وراجع التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد لابن نقطة (ص 319 رقم 382)
حاکم نے کہا: "واحتجوا به“ (أيضاً) اس کی احادیث سے صحیح ابن حبان بھری پڑی ہے مثلاً: (دیکھیے ج احدیث 12، 51، 281، 28)
عبد اللہ بن محمد الازدی سے ابن حبان نے یہ روایت بیان کی۔ (کتاب الثقات 6/265)
احمد بن منصور سے ابو بکر محمد بن الحسین القطان نے یہ حدیث بیان کی، اس شخص کو ابن ناجیہ نے ”يكذب“ کے الفاظ کے ساتھ متہم کیا ہے۔
امام دارقطنی نے کہا: "ليس به بأس“ (تاریخ بغداد 2/232)
امام بیہقی نے اس کی ایک روایت کو ”صحیح“ قرار دیا۔ (السنن الكبرى للبیہقی 10/329)
معلوم ہوا کہ وہ جمہور کے نزدیک ”ليس به بأس“ اور ”صحيح الرواية“ ہے لہذا اس کی روایت شواہد میں پیش کی جا سکتی ہے۔
ابوبکر القطان کا شاگرد ابویعلی حمزہ بن عبدالعزیز الصیدلانی النیشاپوری تھا۔
حافظ ذہبی نے کہا: الشيخ الثقة العالم، شيخ الأطباء
(سیر اعلام النبلاء 17/264، نیز دیکھیے العبر 2/212، وفیات سنہ 406ھ، الانساب 3/573، اللباب 2/254، تذكرة الحفاظ 3/1064، شذرات الذہب 3/181، الحلقة الأولى من تاریخ نیشابور المنتخب من السياق للامام عبدالغافر ص 315-316، رقم 626)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند بالکل صحیح ہے لہذا امام بخاری کا اسے بطور جزم بیان کرنا بجا ہے۔

چند غلط فہمیوں کا ازالہ

یہ روایت خود ان (علی بن الحسن بن شقیق) کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے۔ (اظہار الحسین ص 68)
علی بن الحسن نے ابوحمزہ کی کتاب ”الصلوة“ کی ایک حدیث میں اشتباہ کی وجہ سے تمام ”كتاب الصلوة“ (کو بیان کرنا) چھوڑ دیا تھا، انھوں نے حدیث مذکور کو ابوحمزہ سے بیان کیا ہے۔
امام اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں:
”ثنا على بن الحسن قال: ثنا أبو حمزة السكري“ (کتاب الثقات 6/265)
معلوم ہوا کہ علی بن الحسن نے یہ حدیث ابوحمزہ سے سنی ہے، اور آگے اپنے شاگردوں کے سامنے بیان کی ہے لہذا یہ حدیث ابوحمزہ السكری کی ”كتاب الصلوۃ“ کے علاوہ کسی دوسری کتاب سے علی بن الحسن نے سنی ہے اور ان کے نزدیک معتبر ہے اسی لیے انھوں نے اپنے دو شاگردوں کو یہ حدیث بطور تحدیث سنائی ہے۔
(ابوحمزہ السكری 126ھ کو فوت ہوئے، تہذیب التہذیب، اظہار الحسین ص 69)
علی بن الحسن بن شقیق 137ھ کو پیدا ہوئے (التہذیب 7/299)
یعنی وہ ابوحمزہ کی وفات کے وقت 29 سال کے تھے۔ کسی محدث نے یہ نہیں کہا کہ ان کا سماع ابوحمزہ سے بعد از اختلاط کا ہے۔ بلکہ حافظ ابن حبان نے ابوحمزہ سے ان کی روایت کو صحیح قرار دیا۔
(راجع صحیح ابن حبان 4/70 رقم 2424)
حافظ ہیثمی نے اس کی تصحیح پر سکوت کیا ہے۔ (موارد الظمآن: 679)
حافظ ابن حجر نے بھی سکوت کیا ہے۔ (الخصائص الكبرى 2/16 ص 522)
اس کی تصحیح ابن السکن سے اور تقویت احمد بن حنبل سے نقل کی، یعنی ابن حبان وغیرہ کے نزدیک علی بن الحسن بن شقیق کا ابوحمزہ السكری سے سماع اختلاط سے پہلے اور صحیح حالت کا ہے لہذا اختلاط کا الزام مردود ہے۔
امام ابن ابی شیبہ نے (المصنف میں) کہا:
حدثنا وكيع قال: حدثنا الربيع عن عطاء قال: لقد كان لنا دوي فى مسجدنا هذا بآمين إذا قال الإمام غير المغضوب عليهم ولا الضالين
عطاء بن ابی رباح نے کہا: ہماری مسجد میں جب امام ”غير المغضوب عليهم ولا الضالين“ کہتا تو آمین سے بھنبھناہٹ ہوتی تھی۔ (ابن ابی شیبہ 2/426)
یہ روایت ابن جریج کی روایت کا شاہد ہے، وکیع کتب ستہ کے راوی اور ثقہ حافظ عابد تھے۔ (التقريب: 7414)
الربيع سے مراد الربيع بن صبیح السعدی ہے۔ (راجع تہذیب الكمال قلمی 1/405)
الربيع مذکور جمہور کے نزدیک حافظے کی وجہ سے ضعیف ہیں، احمد بن حنبل اور ابوزرعہ وغیرہ نے اس کی تعدیل کی، ابن سعد، نسائی اور الساجی وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (تہذیب 3/247)
حافظ ذہبی نے کہا:
"وكان صدوقا غزا عابدا ضعفه النسائي“
(الكاشف 236)
حافظ ابن حجر نے کہا:
"صدوق سيء الحفظ وكان عابدا مجاهدا، قال الرامهرمزي: هو أول من صنف الكتب بالبصرة“
(التقريب: 1895)
ایسے راوی کی روایت صحیح یا حسن کی تائید میں شواہد ومتابعات میں پیش کی جا سکتی ہے۔

عکرمہ مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت

امام ابن ابی شیبہ نے کہا:
حدثنا وكيع قال: ثنا فطر قال: سمعت عكرمة يقول: أدركت الناس ولهم ضجة وفي نسخة: زجة المحلى 3/2: ضجة فى مساجدهم بآمين إذا قال الإمام غير المغضوب عليهم ولا الضالين
وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) فطر نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) میں نے عکرمہ (تابعی) سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، میں نے لوگوں کو (ان کی مساجد میں) اس حال میں پایا کہ جب امام ”غير المغضوب عليهم ولا الضالين“ کہتا تو لوگوں کے آمین کہنے سے مساجد گونج اٹھتی تھیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 2/425)
امام وکیع بالاتفاق ثقہ ہیں۔ (التقريب: 7414)
فطر بن خلیفہ صحیح بخاری کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں، احمد بن حنبل، یحییٰ بن سعید، الحلبی، ابن سعد، ابن معین، ابو حاتم، نسائی، الساجی، ابونعیم، ابن حبان، ابن نمیر اور ابن عدی وغیرہ نے اسے ثقہ وصدوق قرار دیا ہے۔ (راجع التہذیب 8/297)
السعدی، الدارقطنی، وفی روایة ابی داود (لعله من طریق الآجری) عن احمد بن یونس، ابوبکر بن عیاش، قطبة بن العلاء ضعیف عند الجمہور، راجع المیزان) نے جرح کی۔ قطبہ کی جرح ان کے ذاتی ضعف کی وجہ سے مردود ہے۔ احمد بن یونس کی جرح باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی السعدی في نفسه، ثقہ وصدوق امام ہونے کے باوجود متعنت (متشدد) تھے اور ان پر ناصبی ہونے کا الزام تھا۔ ان کی اور امام دارقطنی کی جرح جم غفیر کے قول کے مقابلے میں مردود ہے۔
حافظ ابن حجر (فطر بن خلیفہ کے بارے میں) کہتے ہیں:
”صدوق رمي بالتشيع“ (التقريب: 5441)
حافظ ذہبی نے کہا:
"الشيخ العالم، المحدث الصدوق“ (سیر اعلام النبلاء 7/30)
اور کہا:
"وحديثه من قبيل الحسن“ (النبلاء 7/33) یعنی اس کی حدیث حسن کی قسم سے ہے۔
زیلعی حنفی نے فطر بن خلیفہ پر السعدی کی جرح کا رد کیا ہے۔ (نصب الرایة 1/344، 349، وراجع ج 2 ص 223)
ہیثمی نے اسے ثقہ کہا۔ (مجمع الزوائد 9/104)
اور کہا:
”ثقة وفيه كلام لا يضر“ (ج 5 ص 70)
فطر کا استاد عکرمہ مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہے۔ (راجع تہذیب الكمال قلمی 2/1106)
عکرمہ صحیح بخاری وغیرہ کا راوی اور عند الجمہور ثقہ ہے۔
امام بیہقی نے کہا:
”وعكرمة عند أكثر الأئمة من الثقات الأثبات والله أعلم“ (السنن الكبرى 8/233، وراجع نصب الرایة 3/343)
ابن ناصر الدین نے کہا:
"احتج أحمد ويحيى والبخاري والجمهور بما روى“ (شذرات الذہب 1/130)
حافظ ابن حجر نے کہا:
”ثقة ثبت عالم بالتفسير ولم يثبت تكذيبه عن ابن عمر ولا يثبت عنه بدعة“ (التقريب: 4673)
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے اور عطاء کی روایت کا قوی شاہد ہے لہذا عطاء کی روایت بالکل صحیح ہے۔ واللہ اعلم
ان آثار کے مقابلے میں کسی صحابی سے باسند صحیح یا حسن، آمین بالسر ثابت نہیں ہے۔

چھٹی حدیث

امام ابن ماجہ نے کہا:
حدثنا إسحاق بن منصور: أخبرنا عبدالصمد بن عبدالوارث: ثنا حماد بن سلمة: ثنا سهيل بن أبى صالح عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ما حسدتكم اليهود على شيء، ما حسدتكم على السلام والتأمين
اسحاق بن منصور نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں عبدالصمد بن عبدالوارث نے حدیث بیان کی (کہا) ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی کہ (کہا) ہمیں سہیل بن ابی صالح نے وہ اپنے باپ سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود نے تمھارے ساتھ کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام اور آمین پر حسد کیا۔
(سنن ابن ماجہ ص 278 حدیث 856)
اس حدیث کے بارے میں عبد العظیم بن عبد القوی المنذری (المتوفی 656ھ) نے کہا:
”رواه ابن ماجه بأسناد صحيح“ (الترغیب والترہیب 1/328)
شیخ بوصیری نے کہا:
”هذا إسناد صحيح ورجاله ثقات احتج مسلم بجميع رواته“ (زوائد ابن ماجہ: 856)
ذکوان ابو صالح کتب ستہ کے راوی اور بالاتفاق ثقہ ہیں۔
حافظ ابن حجر نے کہا:
”ثقة ثبت وكان يجلب الزيت إلى الكوفة“ (تہذیب التہذیب 3/219، التقريب: 1841)
سہیل بن ابی صالح صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان وغیرہ کا راوی ہے اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہے۔
امام ترمذی نے اس کی ایک منفرد حدیث کے بارے میں کہا:
”حسن صحيح“ (سنن الترمذی: 1906، وتحفة الأشراف: 12595)
حافظ ذہبی نے کہا:
”الإمام المحدث الكبير الصادق“ (سیر اعلام النبلاء 5/258)
حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا:
”صدوق تغير حفظه بأخرة روى له البخاري مقرونا وتعليقا“ (التقريب: 2675)
سہیل سے حماد بن سلمہ اور خالد بن عبد اللہ کی روایات صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا اس سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے لہذا اختلاط کا الزام مردود ہے۔ (کسی محدث نے اس کی تصریح نہیں کی کہ حماد کا سماع اس سے بعد از اختلاط ہے)
حماد بن سلمہ صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان اور صحیح ابی عوانہ وغیرہ کے راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔
حافظ ابن حجر نے کہا: ثقة عابد أثبت الناس فى ثابت وتغير حفظه بآخرة
(التقریب: 1399)
حماد سے عبدالصمد بن عبدالوارث کی روایت صحیح مسلم وغیرہ میں ہے۔
(تہذیب الکمال مطبوع 7 / 258)
لہذا عبدالصمد کا ان سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔
(دیکھیے مقدمہ ابن الصلاح مع شرح العراقی ص 466 النوع 62)
صحیح ابن خزیمہ میں خالد بن عبد اللہ نے حماد کی متابعت کی ہے۔ (1/ 288، 574) خالد بن عبداللہ الطحان کتب ستہ کے راوی اور ثقہ ثبت تھے۔ (التقریب: 1647)
حماد کا شاگرد عبدالصمد بن عبد الوارث کتب ستہ کا راوی، صدوق ثبت فی شعبہ تھا۔ (التقریب: 4080)
اسحاق بن منصور بن بہرام الکوسیج صحیحین کے راوی، عبدالصمد بن عبدالوارث کے شاگرد اور ثقہ ثبت تھے۔ (تہذیب الکمال مطبوع 2/ 475، التقریب: 384) خالد بن عبداللہ کے شاگرد ابو بشر الواسطی اسحاق بن شاہین صحیح بخاری کے راوی اور صدوق تھے۔ (التقریب: 359)
صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
إن اليهود قوم حسد وهم لا يحسدونا على شيء كما يحسدونا على السلام وعلى آمين
بے شک یہود حاسد قوم ہے، اور وہ ہم سے جتنا سلام اور آمین پر حسد کرتے ہیں اتنا کسی چیز پر نہیں کرتے۔ (ج 1 ص 288، رقم 574)
اس متن کے تین شواہد اور بھی ہیں:

شاہد نمبر 1:

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:
ثنا على بن عاصم عن حصين بن عبدالرحمن عن عمر بن قيس عن محمد بن الأشعث عن عائشة رضي الله عنها قالت … استأذن رجل من اليهود … ((إنهم لا يحسدونا على شيء كما يحسدونا … وعلى قولنا خلف الإمام آمين))
علی بن عاصم نے ہمیں حدیث بیان کی وہ حصین بن عبدالرحمن سے، وہ عمر بن قیس سے، وہ محمد بن اشعث سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (مفہوم حدیث ہے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ یہود ہمارے امام کے پیچھے آمین کہنے سے حسد کرتے ہیں۔
(مسند احمد 6 / 135)
محمد بن الأشعث مقبول من الثانيه ووهم من ذكره فى الصحابة
(التقریب: 5742)
ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا۔ (تہذیب التہذیب 9/55)
عمر بن قیس (الماصر ابوالصباح) صدوق ربما وهم ورمي بالإرجاء (التقریب: 4958)
محمد بن الاشعث کا شاگرد تھا۔ (تہذیب الکمال قلمی ج 2 ص 1021)
جمہور علماء کے نزدیک وہ ثقہ تھا۔ (راجع التہذیب العسقلانی 7/430)
حافظ ذہبی نے فیصلہ کیا کہ وہ ثقة مرجي تھا۔ (الکاشف ج 2 ص 276)
لہذا حافظ ذہبی کی بات جمہور کے مطابق ہونے کی وجہ سے فیصلہ کن ہے۔ حصین بن عبد الرحمن السلمی ابوالبذیل الکوفی کتب ستہ کا راوی ہے، ثقة تغير حفظه في الآخر (التقریب: 1369)
اس سے علی بن عاصم کی روایت سنن ترمذی میں ہے۔ (تہذیب الکمال مطبوع ج 6 ص 521) علی بن عاصم مختلف فیہ راوی ہے، جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، بعض نے اس پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا مگر متعدد محدثین نے اسے سچا قرار دیا ہے۔
ابن حجر نے کہا: صدوق يخطي ويصر ورمي بالتشيع روایت میں بھی خطا کرتا ہے
اور اس پر اصرار کرتا ہے۔ (التقریب: 4758)
علي بن عاصم، امام احمد بن حنبل رحمه الله كا استاد تها اور ظفر احمد تهانوي لكهتے هيں: وكذا شيوخ أحمد كلهم ثقات
(قواعد في علوم الحدیث ص 133)
حافظ ذہبی نے اسے الإمام العلم شيخ المحدثين مسند العراق قرار دیا (النبلاء 9/249) وہ قول راجح میں ضعیف ہے لیکن وہ اس حدیث کے ساتھ متفرد نہیں بلکہ سلیمان بن کثیر نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔ (ملاحظہ ہو السنن الکبری 2/56)
سلیمان بن کثیر کتب ستہ کا راوی ہے، اور جمہور کے نزدیک لا بأس به ہے بلکہ غیر زہری میں ثبت ہے (التہذیب 4/216) اس کی یہ روایت غیر زہری سے ہے، لہذا یہ روایت علی بن عاصم کا قوی متابع ہے، بیہقی کی سند میں عمرو بن قیس ہے۔ واللہ اعلم

شاہد نمبر 2:

امام طبرانی نے المجمع الاوسط میں روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن اليهود قد سئموا دينهم وهم قوم حسد ولم يحسدوا المسلمين على أفضل من ثلاث: رد السلام واقامة الصفوف وقولهم خلف إمامهم فى المكتوبة آمين
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود اپنے دین سے اکتا چکے ہیں اور وہ حاسد لوگ ہیں۔ وہ جن اعمال پر مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں ان میں سے افضل ترین یہ ہیں:
(1) سلام کا جواب دینا
(2) صفوں کو قائم کرنا
(3) اور ان کا فرض نمازوں میں امام کے پیچھے آمین کہنا۔
(الترغیب والترہیب ج 1 ص 328، 329 وقال المنذری: رواه الطبراني في الاوسط بإسناد حسن قال البیہقی في مجمع الزوائد 2/113، رواه الطبرانی فی الاوسط 4907 وإسنادہ حسن)
اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے۔
حافظ منذری اور حافظ ہیثمی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: اور اپنے وقت میں اگر علامہ بیہقی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں تھی تو اور کس کو تھی
(احسن الکلام 1/233 حاشیہ 2 بار دوم)
تنبیہ: اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ ان احادیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرض نماز میں امام کے پیچھے آمین کہنے سے یہودی حسد کرتے ہیں۔ (آمین بالجہر سے انہیں چڑ ہے ورنہ اگر دل میں آمین کہی جائے تو انہیں معلوم کیسے ہوگا اور ان کا حسد کرنا کیسا؟)

شاہد نمبر 3:

خطیب بغدادی نے تاریخ (11/43) اور ضیاء المقدسی نے المختارة (5/107 ح 1729، 1730) میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ (الفاظ خطیب کے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن اليهود ليحسدونكم على السلام والتأمين
بے شک یہود تم سے سلام اور آمین پر حسد کرتے ہیں۔ اس کے سارے راوی ثقہ وصدوق ہیں لہذا اس کی سند صحیح ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین بالجہر کہنا متواتر احادیث کے ساتھ ثابت ہے۔ مانعین کے پیش کردہ دلائل، غیر صریح، مبہم، معلول، ضعیف اور بلا سند ہیں لہذا صحیح ومتواتر احادیث کے مقابلے میں مردود و باطل ہیں۔

چند غلط فہمیوں کا ازالہ

بعض لوگوں نے کہا: آمین دعا و ذکر ہے اور دعا و ذکر میں اصل اختفاء ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ‎﴿٥٥﴾‏
(7-الأعراف:55)
”اپنے رب سے عاجزی اور آہستگی کے ساتھ دعا کیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ “
(اظہار الحسین فی اخفاء التأمین ص 5451)
جواب:
1) آیت ﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ﴾ کے معنی ہمارے علم کے مطابق آج تک کسی مستند مفسر نے بھی خفیہ آمین کہنے کے نہیں کیے (تفسیر ابن جریر، تفسیر ابن ابی حاتم، تفسیر ابن کثیر، تفسیر ابن جوزی، تفسیر معالم التنزیل، تفسیر بیضاوی، تفسیر کبیر، تفسیر مدارک، تفسیر جلالین اور تفسیر فتح البیان وغیرہ دیکھ لیجیے۔ نیز ملاحظہ ہو الظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین 1/87) لہذا یہ مفہوم جدید اختراع اور خود ساختہ ہے۔
2) حکم آمین اس آیت کے عموم سے مستثنیٰ اور مخصوص ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آمین بالجہر کہی ہے لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قرآن کی آیت کے مفہوم کے تعین میں حجت ہے۔ اس آیت کے مفہوم سے اور بھی کئی دعائیں مستثنیٰ ہیں مثلاً صحیح مسلم میں ہے:
فلما قضى النبى صلى الله عليه وسلم صلوته ثم دعا عليهم…
(كتاب الجهاد باب مالقى النبي صلی اللہ علیہ وسلم من أذى المشرکین ح 1794/107)
اور صحیح مسلم میں ہی براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: فسمعته يقول: رب قني عذابك … الخ
(كتاب الصلوة باب استحباب تبيين الإمام ح 709/92)
بدلیل آیت ﴿ادْعُوا رَبَّكُمْ﴾ اہل الرائے کے نزدیک ہر دعا کو اگر خفیہ پڑھنا لازم آتا ہے تو وہ خود اس آیت کے خود ساختہ مفہوم کے خلاف بلند آواز میں کیوں دعائیں کرتے ہیں؟ مثلاً جہری نماز میں فاتحہ بالجہر پڑھتے ہیں جو دعا ہے۔ فرضوں کے بعد اونچی آواز سے دعا کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر ان کے مقتدی اونچی آواز میں آمین بھی کہتے ہیں۔ کیا رائے ونڈ میں تبلیغی اجتماع کے آخری دن لاؤڈ سپیکر پر بلند آواز سے دعا کی جاتی ہے جس میں شمولیت کے لیے لوگ شد رحال کر کے آتے ہیں؟
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور کھانے کے اور۔
ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا خفیہ کی ہے وہ خفیہ کرنی چاہیے اور جو بالجہر کی ہے وہ بالجہر کرنی چاہیے۔ چونکہ آمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے بالجہر ثابت ہے لہذا آمین بالجہر کہنی چاہیے۔ قرآن مجید کے عموم کی تخصیص خبر واحد کے ساتھ ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے۔
(الاحکام الآمدی 2/347)
بلکہ آمین بالجہر کی جو روایات ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کی ہیں ان کی روشنی میں امام مسلم رحمہ اللہ نے فیصلہ فرمایا:
تواترت الروايات كلها أن النبى صلى الله عليه وسلم جهر بآمين
ساری متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آمین بالجہر کہتے تھے۔
(التمييز قلمی ص، الامام مسلم رحمہ اللہ)
اور متواتر احادیث کے ساتھ قرآن مجید کی تخصیص سب کے نزدیک جائز ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث دونوں بیک وقت حجت ہیں اور ان پر عمل کرنا فرض ہے۔ قرآن وحدیث ایک دوسرے کی تشریح وتبیین کرتے ہیں اور ان میں الحمد للہ ذرہ برابر بھی تضاد نہیں۔
بعض لوگوں نے حافظ ابن حزم اندلسی سے نقل کیا ہے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ وامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مقتدی آمین سراً کہے
(دیکھیے اظہار الحسین ص 30)
جواب:
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ 384ھ میں قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ (النبلاء 18/185)
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ 161ھ میں فوت ہوئے۔ (الکاشف 1/301)
لہذا یہ بلا سند بات کا لعدم کے حکم میں ہے۔ جب سفیان ثوری رحمہ اللہ کا مذہب اختفاء آمین ان سے باسند صحیح ثابت نہیں تو ان کی روایت کردہ حدیث (جس میں وہ منفرد بھی نہیں اور بالجہر کی صراحت بھی ہے) کے مطابق ان کا عمل ہونا زیادہ قرین قیاس ہے۔
بعض لوگوں نے منطقی موشگافیاں کرتے ہوئے لکھا ہے: قارئین کرام یہاں بھی قولوا کا صیغہ مطلق ہے، یہاں بھی جہر ربنا لك الحمد کا کیا جائے حالانکہ بالاتفاق اس کو پوشیدہ پڑھا جاتا ہے۔ (اظہار الحسین ص 24)
جواب:
اتفاق کا دعویٰ صحیح نہیں ہے بلکہ ربنا لك الحمد جہر سے پڑھنا بھی صحیح ہے اور اس کے متعدد دلائل ہیں:
1) صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں ربنا لك الحمد … إلخ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر پوچھا: ابھی بولنے والا کون تھا؟ اس نے کہا: میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے اوپر فرشتوں کو دیکھا ایک دوسرے پر جلدی کر رہے تھے کہ اس عمل کو پہلے کون لکھے۔
(1/102، دارمی ص 155، نسائی 1/172، طحاوی 1/131)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ربنا لك الحمد بالجہر بھی جائز ہے۔
2) امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: نا معتمر عن أيوب عن الأعرج سمعت ابوبكر أبا هريرة رضى الله عنه يرفع صوته باللهم ربنا ولك الحمد
(مصنف مطبوع 1/248 اور مصنف قلمی ج 1 ص 171)
یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اونچی آواز کے ساتھ اللهم ربنا ولك الحمد کہتے تھے۔ اس کی سند بالکل صحیح ہے اور اس کے راوی کتب ستہ کے راوی ہیں اور بالاجماع ثقہ ہیں۔
ہمارے شیخ الاستاذ ابومحمد بدیع الدین الراشدی السندھی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ (اردو میں) لکھا ہے جس کا نام ہے: نشاط العبد بجهر ربنا ولك الحمد. تفصیل کے لیے اس رسالہ کا مطالعہ کریں۔
بعض لوگوں نے الدولابی کی کتاب الکنی (1/196) سے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نقل کیا کہ ما رأيته إلا ليعلمنا میں نہیں خیال کرتا مگر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دینے کے لیے ایسا کیا۔ (اظہار الحسین ص 107) اور اس سند کے ایک راوی بیہقی بن سلمہ بن کہیل کے بارے میں ابن خزیمہ، ابن حبان اور الحاکم سے ثقہ وغیرہ ہونا نقل کیا۔
جواب:
یہ راوی محدثین کی بہت بڑی اکثریت کے نزدیک ضعیف ہے:
1) ابن معین نے کہا: ضعيف الحديث، ليس بشيء (وفي رواية العقيلي: لا يكتب حديثه)
2) ابو حاتم نے کہا: منكر الحديث ليس بالقوي
3) بخاری نے کہا: فى حديثه مناكير … منكر الحديث
4) ترمذی نے کہا: يضعف فى الحديث
5) نسائی نے کہا: ليس بثقة، متروك الحديث
6) ابن نمیر نے کہا: ليس ممن يكتب حديثه
7) دارقطنی نے کہا: متروك ضعيف
8) العجلی نے کہا: ضعيف الحديث وكان يغلو فى التشيع
9) ابن سعد نے کہا: كان ضعيفا جدا (تہذیب التہذیب 11/197)
10) یعقوب بن سفیان نے اس باب میں ذکر کیا جن کی روایت سے منہ پھیرا جاتا ہے اور کہا: وكنت أسمع أصحابنا يضعفونهم
11) ابوعبید آجری نے ابوداود سے نقل کیا: ليس بشيء (ملخصاً از تہذیب التہذیب 11/225)
12) حافظ ذہبی نے کہا: ضعيف (الکاشف 3/226)
13) ابن حجر نے کہا: متروك وكان شيعيا (التقریب: 7561)
14) بیہقی نے کہا: ضعيف، ووثقه ابن حبان (مجمع الزوائد ج 6 ص 89)
15) ابن عدی نے کہا: مع ضعفه يكتب حديثه (الکامل ج 7 ص 2655)
16) ابن المبارک نے کہا: ضعيف (الضعفاء للعقيلي 4/405)
17) العقيلي نے اسے کتاب الضعفاء میں ذکر کیا۔ (الضعفاء الكبير 2/405)
18) جوزجانی نے اسے ذاهب الحديث کہا۔ (راجع احوال الرجال ص 62 رقم 60-61)
19) ابن جوزی نے اسے کتاب الضعفاء والمتروكين میں ذکر کیا۔ (3/196 رقم 3720)
20) بیہقی نے کہا: رواه ابن خزيمة … محتجا به ويحيى بن سلمة فيه ضعف (السنن الكبرى 9/285)
21) ابن الترکمانی حنفی نے بھی بیہقی بن سلمہ پر سخت جرح نقل کی۔ (الجوهر النقي 3/301)
22) ابوزرعہ رازی نے اسے کتاب الضعفاء میں ذکر کیا۔ (ج 2 ص 669 رقم 360)
23) ابو نعیم الاصبہانی نے اسے کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے کہا: عن أبيه فى حديث مناكير (الضعفاء ص 62 رقم 274)
ان علماء کے مقابلے میں، ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا اور پھر تعارض کا شکار ہوتے ہوئے اسے اپنی کتاب المجروحين والمحدثين والضعفاء والمتروكين (3/112) میں ذکر کیا اور ان الفاظ کے ساتھ سخت جرح کی :
منكر الحديث جدا يروي عن أبيه أشياء لا تشبه حديث الثقات كأنه ليس من حديث أبيه فلما أكثر عن أبيه مماخالف الأثبات بطل الإحتجاج به فيما وافق الثقات
اور ابن معين سے نقل كيا: وكان يحدث عن أبيه أحاديث ليس لها أصول
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے یہ قاعدہ بتایا ہے کہ اگر ابن حبان ایک ہی شخص کو کتاب الثقات اور کتاب الضعفاء دونوں میں ذکر کریں تو: فتساقط قولاه ان کے دونوں قول ساقط ہو گئے۔
(میزان الاعتدال ج 2 ص 552)
لہذا بیہقی بن سلمہ کے سلسلہ میں بھی ابن حبان کے دونوں اقوال ساقط ہو گئے ہیں۔ حاکم اور امام ابن خزیمہ کی بات جمہور محدثین کے مقابلے میں مردود ہے۔ امام ابن خزیمہ نے متعدد راویوں سے اپنی صحیح میں استدلال و احتجاج کیا ہے مثلاً مومل بن اسماعیل اور محمد بن اسحاق وغیرہما مگر اہل الرائے ان کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتے مگر جب جمہور کے خلاف ان کا شاذ قول ہو تو ان کے نزدیک حجت بن جاتا ہے۔ تلك إذا قسمة ضيزى
حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
حالانکہ اس کی سند میں ابراہیم بن ابی اللیث کذاب وضاع واقع ہے
(اظہار الحسین ص 144)
اور اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں: سفیان ثوری رحمہ اللہ سے یہ روایت کئی شاگرد نقل کرتے ہیں۔
ملاحظہ ہو:
حضرت امام عبید اللہ بن عبد الرحمن الاشجعی اپنے استاد حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے يمد بها صوته نقل فرماتے ہیں۔ (دیکھیے سنن بیہقی ج 2 ص 57)
یہ چھ شاگرد خود بھی بلند پایہ امام ہیں اور بڑے بڑے ائمہ حدیث کے استاد بھی ہیں … اور بڑے ثقہ بھی ہیں یہ سب مد بها صوته یا يمد بها صوته کے الفاظ نقل کرنے پر متفق ہیں۔ (اظہار الحسین ص 150)
نقاب کشائی
واضح رہے سنن بیہقی (المعروف بالسنن الكبرى 2/57) میں الاشجعی کی روایت ابراہیم بن ابی اللیث سے ہی ہے، جسے ڈیروی اپنی کتاب کے ص 144 پر کذاب و وضاع قرار دے چکے ہیں، پھر اسی کذاب وضاع کی روایت سے بڑی شان و شوکت سے استدلال اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مقصد صرف عوام المسلمین کو دھوکا دینا ہے۔ ورنہ ایک شخص کو خود کذاب تسلیم کرنے کے بعد اس کی روایت کو بطور دلیل پیش کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟
ان دوغلی چال چلنے والوں کو کیا اس بات کی فکر نہیں ہے کہ قیامت کے دن رب کائنات کے دربار میں ان کا کیا جواب ہو گا؟ تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ ڈیروی صاحب اور ان جیسے اہل الرائے کی کتابوں و تحقیقات کا یہی حال ہے ان کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ جو راوی مرضی کے مطابق ہے وہ ان کے نزدیک ثقہ ہے چاہے اسے بیسیوں علماء نے کذاب وضعیف ہی قرار دیا ہو اور جو راوی مرضی کے خلاف ہو وہ کذاب و متروک ہے چاہے اسے بیسیوں علماء نے ثقہ وصدوق ہی قرار دیا ہو۔ بعض جگہ جب مرضی ہو تو قرآن مجید پیش کر کے صحیح احادیث کو خبر واحد اور ظنی الثبوت وغیرہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن و صحیح حدیث میں جمع تطبیق و توفیق نہیں دی جاتی اور جب مرضی ہوتی ہے موضوع وضعیف روایات کی بدولت قرآن مجید کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سب کارروائیاں خواہشات نفسانیہ کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ میں نے یہ چند فقرے جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں لکھے بلکہ ان اہل الرائے کی دھاندلیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً:
❀ ظفر احمد تھانوی عثمانی دیوبندی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے اعلاء السنن شیخ عداب محمود المش العربي اپنی کتاب رواة الحديث میں ص 27 پر لکھتے ہیں:
طبع هذا الكتاب مع مقدماته الثلاثة فى واحد وعشرين جزءا وفي هذا الكتاب بلايا وطامات مخجلة
یہ کتاب اپنے تین مقدموں کے ساتھ اکیس جلدوں میں شائع ہو چکی ہے اور کتاب میں بلائیں اور شرمندہ کن مصیبتیں ہیں۔ اس کتاب کی تیسری جلد کے ص 161 وغیرہ پر تھانوی صاحب نے لکھا ہے کہ قرون ثلاثہ میں کسی راوی کا مجہول ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے۔ اور اسی جلد ص 131 پر عن يحيى بن سباق عن رجل من آل الحارث عن ابن مسعود رضى الله عنه … إلخ کو ففيه رجل مجهول فلا يحتج به کہہ کر رد کر دیا ہے۔
(نیز دیکھیے ج 2 ص 103)
❀ سرفراز خان صفدر دیوبندی اپنی کتاب (احسن الکلام 2/70) میں محمد بن اسحاق تابعی کو کذاب کہتے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی دوسری کتاب (تسکین الصدور طبع اول ص 191) میں سماع موتی کے سلسلہ میں (مستدرک 2/595) سے ایک حدیث پیش کر کے اس کی تصحیح نقل کرتے ہیں حالانکہ اس حدیث کا دارو مدار محمد بن اسحاق ہی پر ہے۔ وہ اسے صحیح روایت قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک اس کا انکار شیخ حدیث کا انکار ہے۔ (دیکھیے توضیح الکلام 1/290) نیز دیکھیے سماع الموتى (ص 288، 289)
❀ حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی نے اپنی کتاب نور الصباح کے مقدمہ ص 18 بترقیمی طبع دوم، میں ابن جریج پر سخت جرح کی ہے۔ اور اپنی اسی کتاب کے ص 22 پر اسی ابن جریج کی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے، بلکہ ص 222 پر اسے” ثقہ ہے مگر سخت قسم کا مدلس ہے قرار دیا ہے۔ “
ڈیروی صاحب نے ص 224 پر حجاج بن ارطاة کو ضعیف، مدلس، کثیر الخطاء اور متروک الحدیث قرار دیا ہے اور اس کتاب کے ص 167، 168 پر اسی حجاج بن ارطاة کی روایت کو پیش کر کے اسے صحیح حدیث قرار دیا ہے۔
(راجع مجمع الزوائد 2/11)
مختصر یہ کہ اس قوم کا اوڑھنا بچھونا ہی تقلید پرستی، مغالطہ دہی اور دھوکا بازی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تعصب اور بے اصولیوں سے بچائے۔
اگر کوئی شخص میری اس کتاب میں غلطی اور وہم کی نشاندہی کر دے تو میں اس کا شکریہ ادا کر کے علی الاعلان رجوع کروں گا۔ وما علينا إلا البلاغ
(1989/11/23ء بروز جمعرات)
(مراجعة الطبعة الثانية 15 /ستمبر 2006ء)
(الطبعة الثالثة 19 / مارچ 2013ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1