آل تقلید کے سوالات اور ان کے جوابات
تحریر:فضل اکبر کاشمیری

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
تقلیدی حضرات آئے دن طرح طرح کے سوالات لکھ کر اہل حدیث عوام سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کے جوابات دیں۔ یہ سوالات امین اوکاڑوی کلچر کا بنیادی حصہ ہیں۔ اگر ان لوگوں سے جوابی سوالات کیے جائیں تو یہ ان کا کبھی جواب نہیں دیتے بلکہ انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ایک صاحب نے خیرپو ضلع سانگھڑ سندھ سے دیوبندیوں کے دس سوالات بھیجے ہیں اور یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان کے جوابات لکھ کر اپنے سوالات بھی لکھے جائیں۔ اس مطالبے کے مطابق درج ذیل مضمون لکھا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل کشا سمجھنے والے اور وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے دیوبندیوں کے دس سوالات اور ان کے جوابات مع سوالات درج ذیل ہیں۔ والحمد لله
[مشکل کشا کے لیے دیکھیے کلیات امدادیہ ص 91، وحدت الوجود کے لیے دیکھیے کلیات امدادیہ ص 218، 219 و مقالات سواتی ج 2 ص 375]

تقلیدی سوال نمبر 1:

”آپ لوگ جب اکیلے نماز پڑھتے ہو تو تکبیر تحریمہ اللہ اکبر آہستہ کہتے ہو۔ قرآن کی صریح آیات یا حدیث سے صراحتاً جواب دیں کہ اکیلا نمازی تکبیر تحریمہ آہستہ کہے۔“
جواب: سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”فأمرنا بالسكوت، پھر ہمیں سکوت (خاموشی) کا حکم دیا گیا۔“
(صحیح بخاری: 340، صحیح مسلم: 539)
اس حدیث پر عمل کر کے اہلِ حدیث نمازی مکبر نہ ہونے کی حالت میں تکبیر تحریمہ آہستہ کہتے ہیں۔ امام کی جہری تکبیروں کے لیے دیکھیے الاسفن الکبری المسبقی (2/18 وسندہ حسن)

اہل حدیث، سوال نمبر 1:

دیوبندیوں کے روحانی باپ حاجی امداد اللہ صاحب نے لکھا ہے:
”اور اس کے بعد اس کو ہو بہو کے ذکر میں اس قدر منہمک ہو جانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہو جائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں، اس حالت کے حاصل ہو جانے پر وہ سراپا نور ہو جائے گا۔“
(کلیات امدادیہ ص 18، ضیاء القلوب)
بندے کا اللہ بن جانا کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے؟

تقلیدی سوال نمبر 2:

”آپ لوگ مقتدی بن کر امام کے پیچھے اللہ اکبر آہستہ کہتے ہو، صاف قرآن یا حدیث میں لکھا ہوا پیش کریں کہ مقتدی امام کے پیچھے اللہ اکبر آہستہ کہے، حدیث میں مقتدی کی بھی تصریح ہو اور آہستہ کا بھی لفظ ہو۔“
جواب: مقتدی ہو یا منفرد سب مکبر نہ ہونے کی حالت میں تکبیر تحریمہ آہستہ کہیں گے جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔
دیکھیے صحیح بخاری (340)، صحیح مسلم (539)

اہل حدیث، سوال نمبر 2:

دیوبندیوں کے روحانی باپ اور بانی مدرسہ دیو بند محمد قاسم نانوتوی نے لکھا ہے: ”بلکہ اگر بالفرض بعد از زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا۔“
(تحذیر الناس ص 85 طبع مکتبہ حفیظیہ گوجرانوالہ)
وہ آیت یا حدیث پیش کریں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کوئی نبی پیدا ہونے سے ختم نبوت میں کچھ فرق نہ آئے گا۔

تقلیدی سوال نمبر 3:

”اگر کوئی نمازی تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کے بجائے اللہ اعظم یا اللہ اجل کہہ دیتا ہے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں۔ صاف قرآن و حدیث سے حکم بیان فرمائیں، قیاس واجتہاد نہ فرمائیں۔“
جواب: تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کے بجائے ”اللہ اعظم اور اللہ اجل“ کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث و اجماع اور آثار سلف صالحین میں نہیں ہے لہذا تکبیر تحریمہ کی جگہ یہ الفاظ کہنا بدعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وكل بدعة ضلالة) اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (صحیح مسلم: 867)
لہذا اس حالت میں نماز نہیں ہوگی کیونکہ گمراہی والی نماز فاسد ہے۔

اہل حدیث، سوال نمبر 3:

دیوبندیوں کے روحانی پیشوا اشرف علی تھانوی نے نور محمد (نامی شخص) کے بارے میں بطور اقرار لکھا ہے:
”آسرا دنیا میں ہے از بس تمہاری ذات کا
تم سوا اوروں سے ہر گز کچھ نہیں ہے التجا
بلکہ دن محشر کے بھی جس وقت قاضی ہو خدا
آپ کا دامن پکڑ کر یہ کہوں گا برملا
اے شہ نور محمد وقت ہے امداد کا “
(امداد المشتاق ص 16 فقرہ نمبر 288)
یہ کہنا کہ نور محمد کے سوا دنیا میں کوئی آسرا نہیں ہے اور حشر کے دن اللہ کے سامنے بھی نور محمد کو پکارنا وقت ہے امداد کا کسی آیت یا حدیث سے ثابت ہے؟

تقلیدی سوال نمبر 4:

”آپ حضرات امام کے پیچھے مقتدی بن کر جہر سے آمین کہتے ہو جہری نمازوں میں، کوئی ایک آیت یا حدیث ایسی پیش کریں کہ جس میں صراحتاً مقتدی کا لفظ ہو اور جہری کے ساتھ آمین کی بھی تصریح ہو، ورنہ جواب قابل قبول نہ ہوگا۔“
جواب: صحیح بخاری میں ہے کہ
”أمن ابن الزبير ومن وراءه حتى إن للمسجد للجة“
ابن الزبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے مقتدیوں نے آمین کہی حتی کہ مسجد میں شور ہوا۔
(صحیح بخاری: 780)
صحابہ و تابعین کے اس عمل پر کسی کا انکار ثابت نہیں ہے لہذا جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے اختتام پر آمین بالجہر کے جواز پر صحابہ کرام و تابعین کا اجماع ہے۔ سری نمازوں میں آمین بالسر پر اجماع ہے۔
تنبیہ: اجماع شرعی حجت ہے۔ دیکھیے المستدرک للحاکم (1/116، 399 وسندہ صحیح) وابراء اہل الحدیث والقرآن شیخ عبداللہ غازی پوری (ص 32) و ماہنامہ الحدیث حضرو (ص 4)

اہل حدیث، سوال نمبر 4:

دیوبندیوں کے روحانی پیشوا رشید احمد گنگوہی ایک خط میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اور وہ جو میں ہوں وہ تو ہے۔“
(فضائل صدقات ص 558 واللفظ له، مکاتیب رشیدیہ ص 10)
اس سے معلوم ہوا کہ کاتب کے نزدیک وہ جو کاتب ہے وہ اللہ ہے۔ معاذ اللہ! اس عقیدے کا ثبوت آیت یا حدیث سے پیش کریں۔

تقلیدی سوال نمبر 5:

”باجماعت نماز میں امام بلند آواز سے سلام کہہ کر نماز ختم کرتا ہے اور مقتدی حضرات آہستہ سلام کہتے ہیں، صاف طور پر امام اور مقتدی کا یہ فرق قرآن یا حدیث میں لکھا ہوا پیش کریں، قیاس اور الزامی جواب کی طرف جانے کی زحمت نہ کریں۔“
جواب: مقتدیوں کا آہستہ سلام کہنا سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے صحیح بخاری (340)، صحیح مسلم (539)
امام کا بلند آواز سے سلام کہنا اجماع سے ثابت ہے۔ والحمد لله

اہل حدیث، سوال نمبر 5:

دیوبندیوں کے ایک بزرگ صوفی عبدالحمید سواتی نے فوائد عثمانی نامی کسی کتاب سے محمد عثمان نامی ایک آدمی کے بارے میں بغیر انکار کے لکھا ہے:
”خواجہ مشکل کشا: پیر دستگیر“
(فیوضات حسینی عرف تحفہ ابراہیمیہ ص 28)
محمد عثمان کے ”خواجہ مشکل کشا“ اور ”پیر دستگیر“ ہونے کا ثبوت آیت یا حدیث سے پیش کریں۔

تقلیدی سوال نمبر 6:

غیر مقلد حضرات نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص جہر سے پڑھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے آپ کا یہ عمل ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد فاتحہ اور سورۃ اخلاص پڑھی یعنی تکبیر اول کے بعد کی تصریح ہو۔“
جواب: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے جنازے پر سورہ فاتحہ اور ایک سورت جہراً پڑھی اور فرمایا: ”سنة وحق“ یہی سنت اور حق ہے۔
(سنن النسائی 4/74، 75، 1989 ملخصاً وسندہ صحیح)
صحابی جب کسی کام کو سنت کہے تو اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے۔ دیکھیے اصول حدیث کی مشہور کتاب مقدمہ ابن الصلاح مع شرح العراقی (ص 69)
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اہلِ حدیث امام سورہ فاتحہ اور ایک سورت مثلاً سورۃ اخلاص وغیرہ جہراً پڑھتا ہے۔
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”السنة فى الصلاة على الجنازة أن تكبر ثم تقرأ بأم القرآن“ الخ، نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تم تکبیر کہو پھر سورۂ فاتحہ پڑھو۔
(منتقی ابن الجارود: 540 وسندہ صحیح، ماہنامہ الحدیث حضرو 3 ص 26)
اسی روایت میں آیا ہے کہ ”ولا تقرأ إلا في التكبيرة الأولى“ اور تم قراءت صرف پہلی تکبیر میں ہی کرو۔ (منتقی ابن الجارود: 540 و مصنف عبدالرزاق: 6428)
ایک روایت میں آیا ہے: ”السنة فى الصلاة على الجنازة أن يقرأ فى التكبيرة الأولى بأم القرآن مخافتة“ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر اولیٰ میں سورہ فاتحہ خفیہ (آہستہ) پڑھی جائے۔
(سنن النسائی 4/28، 1991، یہ حدیث صحیح ومحمد بن الملقن في تخفة الحتاج 788)
یہ حدیث مرفوع ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے اہل حدیث مقتدی تکبیر اولیٰ کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھتے ہیں۔ والحمد لله

اہل حدیث، سوال نمبر 6:

دیوبندیوں کے بزرگ زکریا تبلیغی کاندھلوی اپنی کتاب فضائل درود میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے، جامی کے اشعار کا ترجمہ بلا انکار لکھتے ہیں:
رسول خدا نگاہِ کرم فرمائیے، اے ختم المرسلین رحم فرمائیے.
عاجزوں کی دستگیری، بیکسوں کی مدد فرمائیے.
(فضائل درود ص 136، 137)
ان اشعار کا ثبوت قرآن مجید کی آیت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے پیش کریں۔

تقلیدی سوال نمبر 7:

”کسی صحابی کے جنازہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتحہ پڑھی اور سورۃ اخلاص پڑھی اور جہر کیا؟ ایسی حدیث صحیح ہو جس میں نماز جنازہ کی تصریح ہو اور جہر کی بھی تصریح ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کی بھی تصریح ہو اور کسی کا قول نہ ہو، بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح حدیث ہو۔“
جواب: سابقہ سوال (نمبر 6) کے جواب میں باحوالہ ثابت کر دیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت جہراً پڑھی اور فرمایا: یہ سنت اور حق ہے۔
(سنن النسائی: 1989، وسندہ صحیح)
صحابی جب کسی عمل کو سنت کہے تو اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے جیسا کہ اصولِ حدیث سے ثابت کر دیا گیا ہے۔

اہل حدیث، سوال نمبر 7:

دیوبندیوں کے روحانی بزرگ محمود حسن اسیر مالٹا نے رشید احمد گنگوہی کی موت پر مرثیہ میں کہا:
”اٹھا عالم سے کوئی بانی اسلام کا ثانی“
(کلیات شیخ الہند ص 87)
آیت یا حدیث سے ثابت کریں کہ گنگوہی صاحب سبہ، رحمہ اللہ، بانی اسلام (اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے ثانی تھے۔

تقلیدی سوال نمبر 8:

”نماز جنازہ کے اندر کتنی چیزیں فرض ہیں؟ کتنی چیزیں واجب ہیں؟ کتنی سنت اور کتنی مستحب ہیں؟ سب کچھ حدیث صحیح سے ثابت کریں۔“
جواب: مقتدیوں کے لیے نماز جنازہ کا مختصر طریقہ درج ذیل ہے:
(1) تکبیر (اللہ اکبر) کہیں
(2) سورہ فاتحہ پڑھیں
(3) تکبیر کہیں اور درود ابراہیمی پڑھیں
(4) تکبیر کہیں اور دعا پڑھیں
(5) ایک طرف سلام پھیر دیں۔
یہ سب اعمال آہستہ آواز سے کریں۔ دلائل کے لیے دیکھیے منتقی ابن الجارود (540 وسندہ صحیح)، مصنف عبدالرزاق (678)
جنازہ اسی طریقے سے پڑھنا چاہیے، باقی رہا یہ سوال کہ کیا فرض ہے اور کیا واجب؟ تو یہ سوال بدعت ہے۔ دیکھیے
مسائل الإمام احمد واسحق بن راهویه (1/132، 133، ت 189)
یاد رہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ (صحیح مسلم: 867)

اہل حدیث، سوال نمبر 8:

ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے:
”لیکن آپ صاجبہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی، اور ساتھ گدھی بھی تھی، دونوں کی شرمگاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی۔“
(غیر مقلدین کی غیر مستند نماز ص 43، مجموعہ رسائل ج 3 ص 350، حوالہ: 198، تجلیات صفر ج 5 ص 488)
وہ صحیح حدیث پیش کریں جس میں شرمگاہوں پر نظر پڑنے کا ثبوت لکھا ہوا ہو۔

تقلیدی سوال 9:

”نماز جنازہ کے اندر آپ کا امام بلند آواز سے تکبیریں کہتا ہے اور آپ کے مقتدی آہستہ آواز سے، کیا حدیث سے صاف صریح طور پر ثابت ہے کہ امام نماز جنازہ کی تکبیریں بلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ؟“
جواب: سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے رکوع و سجود والی نماز پڑھائی تو تکبیر بالجہر کہی اور نماز کے بعد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
(الاسفن الكبرى المسبقی 2/186 وسندہ حسن لذاتہ)
اس پر اجماع ہے کہ نماز جنازہ میں امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے تکبیریں کہیں گے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اجماع امت شرعی حجت ہے۔

اہل حدیث، سوال نمبر 9:

دیوبندیوں کے بزرگ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں: ”اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے امتیوں کے حالات سے پورے واقف ہیں ان کی صداقت و عدالت پر گواہ ہوں گے۔“
(تفسیر عثمانی ص 92 تحت آیت: 143)
وہ آیت یا حدیث لکھیں جس سے یہ ثابت ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے امتیوں کے حالات سے پورے واقف ہیں۔

تقلیدی سوال نمبر 10 (آخری):

”آپ کا امام نماز جنازہ کا سلام بلند آواز سے کہتا ہے اور مقتدی آہستہ۔ کیا امام اور مقتدیوں کا یہ فرق صراحتاً حدیث صحیح سے ثابت ہے؟“
جواب: حدیث صحیح سے اجماع امت کا حجت ہونا ثابت ہے۔
(دیکھیے المستدرک 1/64)
امام کا بلند آواز سے سلام کہنا اجماع سے ثابت ہے اور مقتدیوں کا آہستہ سلام کہنا سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔
دیکھیے صحیح بخاری (340)، صحیح مسلم (786)
لہذا اہل حدیث کا عمل قرآن وحدیث پر جاری ہے۔ والحمد لله

اہل حدیث، سوال نمبر 10 (آخری):

دیوبندیوں کے ایک بزرگ عاشق الہی میرٹھی دیوبندی (اشرف علی تھانوی کے بارے میں) لکھتے ہیں:
”واللہ العظیم مولانا تھانوی کے پاؤں دھو کر پینا نجات اخروی کا سبب ہے۔“
(تذکرة الرشید ج 2 ص 113)
وہ آیت یا حدیث لکھیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اشرف علی تھانوی دیوبندی کے پاؤں دھو کر پینا نجات اخروی کا سبب ہے۔

سوال و جواب کا اختتام:

آل دیو بند و آل تقلید کے دس سوالات کے جوابات مع دس سوالات پیش کر دیے گئے ہیں۔ روئے زمین کے تمام دیوبندیوں و تقلیدیوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اہلِ حدیث کے ان دس سوالات کو نقل کر کے مطابق سوالات جوابات لکھیں۔ ان تمام سوالات کا تعلق عقیدہ و ایمان سے ہے اور فروعی اختلافات سے قطع نظر عقیدہ و ایمان کے یہ سوالات بطور جواب اس لیے لکھے گئے ہیں کہ دیوبندیوں کے ساتھ اہل حدیث کا اصل اختلاف عقائد، ایمان اور اصول میں ہے۔ تنبیہ: آل تقلید نے جو فروعی و فقہی سوالات کیے ہیں ان کے جوابات وہ اپنے مزعومہ امام (جن کی تقلید کے یہ لوگ مدعی ہیں) سے باسند صحیح کبھی پیش نہیں کر سکتے۔
ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا
(14 شعبان 1427ھ)

چند مزید سوالات اور ان کے جوابات

تقلیدی (سوال نمبر 1):

”بھینس کا گوشت کھانا، دودھ پینا، دہی، لسی استعمال کرنا، اس کے بارے میں حدیث پیش کریں۔“
جواب: اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ (الاجماع للامام ابن المنذر، رقم: 9) معلوم ہوا کہ بھینس کا حلال ہونا اجماع سے ثابت ہے اور اجماع شرعی حجت ہے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے،
دیکھیے المستدرک للحاکم (ح 399، 1/1161 وسندہ صحیح)
جب بھینس کا حلال ہونا ثابت ہو گیا تو گوشت، دودھ، دہی اور لسی کا حلال ہونا خود بخود ثابت ہو گیا اور اسی پر اجماع ہے۔ والحمد لله

اہل حدیث (سوال نمبر 1):

فتاوٰی عالمگیری میں لکھا ہوا ہے کہ:
إذا ذبح كلبه وباع لحمه جاز
اگر کوئی شخص اپنا کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچے تو جائز ہے۔ (ج 3 ص 115)
اس مسئلے کی دلیل کیا ہے اور کیا فتاویٰ عالمگیری کو کتاب وسنت کا نچوڑ سمجھنے والوں نے خود اس مسئلے پر کبھی عمل کیا ہے؟

تقلیدی (سوال نمبر 2):

”قربانی فرض ہے یا واجب یا سنت، صریح حکم قرآن وحدیث سے دکھائیں۔“
جواب: قربانی سنت ہے۔
دیکھیے صحیح بخاری، کتاب الاضاحی، باب سنة الأضحية ح 5545، 5546

اہل حدیث (سوال نمبر 2):

ملا کاسانی حنفی نے لکھا ہے کہ:
”قال مشايخنا فيمن صلى وفي كمه جرو كلب أنه تجوز صلاته“
ہمارے مشایخ نے اس آدمی کے بارے میں کہا جو آستین میں کتے کا بچہ اٹھا کر نماز پڑھے (بشرطیکہ اس کا منہ بندھا ہوا ہو) تو اس کی نماز جائز ہے۔ (بدائع الصنائع ج 2 ص 74)
کیا آل تقلید نے کبھی اس مسئلے پر خود عمل کیا ہے؟

تقلیدی (سوال نمبر 3):

”8 تراویح کس سن ہجری میں شروع ہوئیں، حدیث دکھائیں۔“
جواب: آٹھ رکعات کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن لذاتہ سند کے ساتھ ہے۔
دیکھیے صحیح ابن خزیمہ (2/138، ح 1070)، صحیح ابن حبان، الاحسان (4/62، ح 2401، 2406)
اس روایت کے راوی عیسیٰ بن جاریہ اور یعقوب القمی دونوں جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ ہجرت سے پہلے مسجد نبوی میں آٹھ رکعات تراویح پڑھائی جاتی تھیں۔

اہل حدیث (سوال نمبر 3):

فتاوٰی عالمگیری میں لکھا ہوا ہے کہ:
ولو ترك وضع اليدين والركبتين جازت صلاته بالإجماع
اور اگر (سجدے میں) دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے (زمین پر رکھنا) ترک کر دے تو اس کی نماز (اہل الرائے کے نزدیک) بالا جماع جائز ہے۔ (ج 2 ص 70)
کیا آپ نے ایسی نماز کبھی لوگوں کے سامنے پڑھی ہے؟

تقلیدی (سوال نمبر 4):

”8 تراویح کے پہلے امام کا نام حدیث کے اندر سے بتائیں۔“
جواب: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،
صحیح ابن خزیمہ (ح 1070)، صحیح ابن حبان (ح 2401، 2406) اور جواب سوال نمبر 3

اہل حدیث (سوال نمبر 4):

دیوبندیوں کے پیر حاجی امداداللہ صاحب نے لکھا ہے کہ:
”یا رسول کبریا فریاد ہے یا محمد مصطفی فریاد ہے
آپ کی امداد ہو میرا یا نبی حال ابتر ہوا فریاد ہے
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل
اے مرے مشکل کشا فریاد ہے“
(کلیات امدادیہ ص 90، 91)
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل کشا سمجھنا اور آپ کے سامنے (آپ کی وفات کے بعد) فریادیں کرنا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت ہے؟

تقلیدی (سوال نمبر 5):

”پہلی مسجد کا نام بتائیں جس میں آٹھ تراویح شروع ہوئیں؟“
جواب: مسجد النبی۔
دلیل کے لیے دیکھیے صحیح ابن خزیمہ (ح 1070) و صحیح ابن حبان (ح 2401، 2406)

اہل حدیث (سوال نمبر 5):

حاجی امداد اللہ کہتے ہیں: ”جہاز امت کا حق نے کر دیا ہے آپ کے ہاتھوں بس اب چاہو باد یا تر او یا رسول اللہ پھنسا ہوں بیک طرح گرداب غم میں ناخدا ہو کر مری کشتی کنارے پر لگاؤ یا رسول اللہ۔“
(کلیات امدادیہ ص 205)
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کشتی کنارے پر لگانے کے لیے پکارنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟

تقلیدی (سوال نمبر 6):

”تکبیر تحریمہ فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب، حکم صراحتاً حدیث سے یا قرآنی آیت سے ہو۔“
جواب: تکبیر تحریمہ واجب یعنی فرض ہے۔
دلیل نمبر 1: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ”ثم استقبل القبلة فكبر“ پھر قبلہ رخ ہو کر تکبیر کہو۔
(صحیح البخاری: 6251)
دلیل نمبر 2: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”وإحرامها التكبير“ اور نماز کا احرام تکبیر سے ہے۔
(الاسفن الکبری المسبقی ج 2 ص 6 وسندہ صحیح)
یہ حدیث مرفوع حکماً ہے، لہذا ثابت ہوا کہ تکبیر تحریمہ شرائط نماز میں سے ہے۔

اہل حدیث (سوال نمبر 6):

محمد زکریا تبلیغی دیوبندی لکھتے ہیں:
”میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ دونوں کی جوتیوں کی خاک اپنے سر پر ڈالنا باعث نجات اور فخر اور موجب عزت سمجھتا ہوں۔“
(آپ بیتی ج 3 ص 459 قول محمد زکریا برائے رائے پوری و مدنی صاحبان)
اس کا ثبوت قرآن وسنت سے پیش کریں؟
الخلاصہ: ہم نے آپ کے تمام سوالات مکمل نقل کر کے مطابق سوالات جوابات لکھ دیے ہیں اور اپنے سوالات بھی پیش کر دیے ہیں۔ اب آپ پر یہ لازم ہے کہ جوابات پر معارضہ کرنے سے پہلے ہمارے سوالات مکمل نقل کر کے مطابق سوال جواب لکھیں۔ یاد رہے کہ جو جواب مطابق سوال نہ ہو وہ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وما علينا إلا البلاغ
(29 ذوالحجہ 1426ھ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1