آدم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان گفتگو
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

457۔ آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے درمیان کیا گفتگو ہوئی تھی ؟
جواب :
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :
«إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ‎ ﴿٣١﴾ قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ‎ ﴿٣٢﴾ ‏ قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ‎ ﴿٣٣﴾ ‏ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ‎ ﴿٣٤﴾ ‏ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ‎ ﴿٣٥﴾ ‏ قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ‎ ﴿٣٦﴾ ‏ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ‎ ﴿٣٧﴾ ‏ إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ‎ ﴿٣٨﴾ ‏ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ‎ ﴿٣٩﴾ ‏ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ‎ ﴿٤٠﴾ ‏ قَالَ هَٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ ‎ ﴿٤١﴾ ‏ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ‎ ﴿٤٢﴾ ‏ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ ‎ ﴿٤٣﴾ ‏ لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ ‎ ﴿٤٤﴾» [الحجر: 31-44]
”مگر ابلیس، اس نے انکار کر دیا کہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو۔ فرمایا : اے ابلیس! تجھے کیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوتا؟ اس نے کہا میں کبھی ایسا نہیں کہ اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا ہے، جو بدبودار، سیاه کیچڑ سے ہے۔ فرمایا : پھر اس سے نکل جا، کیونکہ یقیناً تو مردود ہے۔ اور بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک خاص لعنت ہے۔ اس نے کہا : اے میرے رب پھر مجھے اس دن تک مہلت دے جب وہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا : تو بے شک تو مہلت دیے گئے لوگوں سے ہے۔ ایسے وقت کے دن تک جو معلوم ہے۔ اس نے کہا : اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خاص کیے ہوئے ہیں۔ فرمایا : یہ راستہ ہے جو مجھ تک سیدھا ہے۔ بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں، مگر جو گمراہوں میں سے تیرے پیچھے چلے۔ اور بلاشبہ جہنم ضرور ان سب کے وعدے کی جگہ ہے۔ اس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک تقسیم کیا ہوا حصہ ہے۔“
مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں على الاعلان ان کا تذکرہ کرنے کا ذکر کرتے ہیں اور فرشتوں کو آدم علیہ السلام کو سجده کرنے کا حکم دے کر آدم علیہ السلام کو شرف بخشنے کا ذکر کرتے ہیں اور تمام فرشتوں کے درمیان سے ان کے دشمن ابلیس کا سجدے سے پیچھے ہٹنے کا ذکر ہے اور ابلیس کے ایسا کرنے کی وجہ اس کا حسد، کفر، عناد، تکبر اور باطل پر فخر کرنا ہے۔

458۔ ابلیس اور اولاد آدم کے درمیان کیا عداوت ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
« وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ‎ ﴿٦١﴾ ‏ قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ‎ ﴿٦٢﴾ ‏ قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا ‎ ﴿٦٣﴾ ‏ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ‎ ﴿٦٤﴾ ‏ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا ‎ ﴿٦٥﴾ » [الإسراء: 61-65]
”اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، اس نے کہا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔ اس نے کہا کیا تو نے دیکھا، یہ شخص جسے تو نے مجھ پر عزت بخشی، یقیناً اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی اولاد کو ہر صورت جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔ فرمایا : جا، پھر ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا تو بے شک جہنم تمھاری جزا ہے، پوری جزا۔ اور ان میں سے جس کو تو اپنی آواز کے ساتھ بہکا سکے بہکا لے اور اپنے سوار اور پیادے ان پر چڑھا کر لے آ اور اموال اور اولاد میں ان کا حصہ دار بن اور انھیں وعدے دے اور شیطان دھوکا دینے کے سوا انھیں وعدہ نہیں دیتا۔ بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں اور تیرا رب کافی کارساز ہے۔“
آیات مذکورہ میں اللہ تعالیٰ ابلیس کی آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے عداوت کا ذکر فرماتے اور یہ بتلاتے ہیں کہ ان کی دشمنی آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت سے ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں، ابلیس کے سوا سب نے انھیں سجدہ کیا، ابلیس نے انھیں حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ پر فخر کرتے ہوئے انھیں سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا:
« أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا » میں اسے سجدہ کروں، جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔ بلکہ میں ان کی اولاد پر غلبہ پانے کی کوشش کروں گا اور چند ایک کے سوا سب کو گمراہ کروں گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: