آداب زندگی اور چند بڑے گناہوں کا ذکر
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بولنے چالنے ، کھانے پینے ، رہنے سہنے، سونے جاگنے اور نہانے دھونے سے متعلقہ مفید اصول و ضوابط کو آداب کہا جاتا ہے، انھی آداب کی پابندی اور عدم پابندی سے انسان کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
آداب ایک سرسری نظر میں

اللہ تعالیٰ کے آداب:

اور وہ یہ ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ پر توکل و بھروسہ کرنا۔
(2) اللہ تعالیٰ کا شکر۔
(3) توبہ و استغفار کرنا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب:

اور وہ یہ ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب ہوں ۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کرنا ۔

قرآن مجید کے آداب:

اور وہ یہ ہیں:
(1) قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
(2) اُس کو سمجھنا۔
(3) اُس پر عمل کرنا ۔
(4) اُس کی دعوت کو عام کرنا۔

علم سیکھنے اور سکھانے کے آداب:

اور وہ یہ ہیں:
(1) نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔

رشتہ داری کے آداب:

اور وہ یہ ہیں:
(1) والدین کے آداب۔
(2) اولاد کی تعلیم و تربیت کے آداب۔
(3) میاں بیوی کے آداب و حقوق۔
(4) عزیز واقارب کے ساتھ تعلقات کے آداب۔

دوستوں و دیگر انسانوں کے ساتھ تعلقات کے آداب:

اور وہ یہ ہیں:
(1) دوست احباب کے ساتھ میل جول کے آداب۔
(2) فقراء، غرباء اور مساکین کے آداب۔
(3) انسانوں کے درمیان صلح کرانے کے آداب۔

مجلس و گفتگو کے آداب:

اور وہ یہ ہیں:
(1) آداب مجلس ۔
(2) آداب گفتگو۔
(3) مزاح (خوش طبعی ) کے آداب۔

کھانے کے آداب:

اور ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہیں:
(1) مہمان اور مہمان نوازی کے آداب۔
(2) میانہ روی بلند اخلاق لوگوں کی نشانی ہے۔

اچھے اخلاق :

انسان کے ذاتی کردار کی اچھائیوں کو اچھے اخلاق اور برائیوں کو برے اخلاق کہا جاتا ہے، اچھائی کو اپنانا ضروری ہوتا ہے اور برائی سے بچنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہیں:

تزکیہ نفس:

تزکیہ نفس کا مطلب ہے اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنا۔ گناہوں سے اپنے آپ کو بچانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو اپنے لیے واجب کر لیتا ہے۔ جس کا نتیجہ دنیا اور آخرت کی بربادی کی شکل میں نکلتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلی قوموں کو گناہوں کی وجہ سے تباہ و برباد کیا ہے۔

نیکیوں کی طرف جلدی کرنا:

نیکی چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رضا کا سبب ہے، اور انسان ہر وقت ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا محتاج ہے۔ اسی وجہ سے ضروری ہے کہ نیکی کی طرف توجہ دی جائے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾
(2-البقرة: 148)
”کہ تم نیکیوں کے لیے جلدی کرو ۔ “
کیونکہ نیکی دنیا اور آخرت میں مفید ہے۔

نیک لوگوں کی صحبت:

طبعی طور پر انسان کو کسی نہ کسی سے محبت ضرور ہوتی ہے۔ یہ محبت اگر اچھے لوگوں کے ساتھ ہوتو اس کا انجام بھی بہت اچھا ہے۔ لیکن اگر محبت بُرے لوگوں کے ساتھ ہو تو انجام بھی برا ہوتا ہے۔ سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«مثل الجليس الصالح والجليس السوء كمثل صاحب المسك وكير الحداد، لا يعدمك من صاحب المسك إما تشتريه أو تجد ريحه، وكير الحداد يحرق بدنك أو توبك، أو تجد منهريحا خبيثة»
صحیح بخاری، کتاب البيوع، رقم: 2101.
”اچھے اور بُرے دوست کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ایک کستوری بیچنے والا اور دوسرا بھٹی میں آگ بھڑ کانے والا ہے۔ کستوری والا تجھے کستوری کا تحفہ دے گا، یا تو اس سے کستوری خریدے گا یا پھر کم از کم تو اس سے بہترین خوشبو پائے گا۔ اور بھٹی کو بھڑ کانے والا تیرا بدن یا کپڑے جلائے گا یا اس سے تو بد بو پائے گا۔ “

مسکراتے ہوئے دیکھنا، بولنا اور ملنا:

ایک مسلمان کی اچھی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بھائی سے اچھے انداز کے ساتھ ملے یعنی کھلے ہوئے اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ۔ یہ عمل بھی اللہ کے نزدیک قابل قدر ہے۔ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
«عن ابي ذر، قال: قال لي النبى صلى الله عليه وسلم: لا تحقرن من المعروف شيئا، ولوان تلقى أخاك بوجه طلق»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 2290 .
”سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگر چہ تو اپنے بھائی سے کشادہ پیشانی کے ساتھ ملے۔ “

شرم وحیاء:

شرم و حیاء زندہ قوموں، اور سلیم طبع لوگوں کی علامت ہے۔ اس لیے کہ جو قو میں مردہ ضمیر ہو جاتی ہیں ان میں شرم و حیاء نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اس لیے شریعت اسلامیہ شرم و حیاء کو خاص اہمیت دیتی ہے۔ بلکہ شرم و حیاء کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیتی ہے۔
«عن ابي هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الايمان بضع وستون شعبة، والحياء شعبة من الإيمان.»
صحیح بخاری، کتاب الایمان، رقم: 9 .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایمان کی ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ “

مصیبت زدہ سے اظہار ہمدردی:

مصیبت زدہ شخص کو تسلی دینا، زندہ قوموں کی علامات میں سے ایک علامت ہے کہ ان کو ایک دوسرے کے درد کا احساس ہے۔ یہ کام بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے۔ کہ جس نے اپنے مصیبت زدہ بھائی سے تعزیت کی تو اس کو اسی (مصیبت زدہ) کے برابر ثواب ملے گا۔ مصیبت پر صبر کرنے والے کا ثواب جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ تو یہی اجر و ثواب تعزیت کرنے والے کو مل جائے گا۔ جس سے اس کو ایک خاص عزت و تکریم حاصل ہوگی۔ چنانچہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
«ما من مؤمن يعزى أخاه بمصيبة إلا كساه الله سبحانه من حلل الكرامة يوم القيامة»
سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز رقم: 1601 ۔ سنن الکبری للبیهقی: 4/59، محدث البانی جاللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”جو کوئی مومن اپنے کسی بھائی کی مصیبت پر اسے تسلی دیتا ہے تو اللہ رب العزت اسے روز قیامت کرامت (عزت و تکریم) والے لباسوں میں سے ایک لباس پہنائے گا۔“

یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا:

اچھے معاشرے کے اوصاف حمیدہ میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کمزور لوگوں کا خیال کرتے ہیں۔ تا کہ ان کی زندگی بھی اچھی گزر سکے، اور وہ معاشرے کے باعزت افراد میں شامل ہو جائیں ، اور ان کا احساس کمتری ختم ہو جائے۔ معاشرے کے کمزور افراد میں سے ہی ایک یتیم بھی ہے۔ یتیم وہ بچہ ہے کہ جس کے والدین بچپن میں فوت ہو جا ئیں ۔ اب یہ بچہ چونکہ انتہائی شفقت کرنے والوں سے محروم ہو جاتا ہے، اور اپنے آپ کو بے آسراء اور بے سہارا محسوس کرتا ہے جس سے یہ بچہ بسا اوقات مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب ایسے موقع پر معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ اس بچے کا سہارا بنیں اس کی مشکلات اور پریشانیوں کو ختم کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کریں تا کہ اس کی مشکلات ختم ہو جائیں، اور یہ اچھی زندگی گزار سکے۔ اللہ تعالیٰ نے یتیم کا خیال کرنے کی خوب تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا﴾
(4-النساء: 127)
”اور وہ آپ سے عورتوں کے بارے حکم دریافت کرتے ہیں ۔ آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں اجازت دیتا ہے کہ جو تمہیں قرآن پاک میں سنایا جاتا ہے یتیم عورتوں کے بارے میں ۔ جنہیں تم نہیں دیتے ان کا مقرر کردہ حق مہر ۔ اور ان کو نکاح میں لینا بھی نہیں چاہتے ہو اور بے بس بچوں کے بارے میں ۔ اور یہ کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو، اور جو تم بھلائی کرو گے۔ اللہ اس کو خوب جاننے والا ہے۔“

مسلمانوں کی عزت کی حفاظت:

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت کا محافظ ہے۔ اس پر یہ حق اسلام نے لازم قرار دیا ہے۔
«عن أبى هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المؤمن مرآة المؤمن، والمؤمن أخو المؤمن: يكف عليه ضيعته، ويحوطه من ورائه»
سنن ابی داؤد، کتاب الادب، رقم: 4918 سلسلة الصحيحة رقم: 962.
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن مومن کا آئینہ ہے، اور مومن مومن کا بھائی ہے۔ اس کے مال کا (نقصان ہوتا ہوتو ) بچاؤ کرتا ہے، اور اس کی غیر موجودگی میں اس کی (عزت کی ) حفاظت کرتا ہے۔“

امانت و دیانت داری:

اچھی اور مہذب قوموں کے اچھے اوصاف میں سے ایک وصف امانت و دیانت داری کا بھی ہے۔ یہ خوبی کسی بھی قوم کے اچھے ہونے کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر خوب زور دیا ہے کہ وہ امانت و دیانت داری کو ہمیشہ اپنا شعار بنا ئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
(8-الأنفال: 27)
”اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو، اور نہ ہی جانتے بوجھتے ہوئے اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔“
دوسرے مقام پر ارشادفرمایا:
لیکن جو اس امانت کو اہمیت نہ دیں ان کے لیے انتہائی وعیدیں ہیں، بلکہ ایسے لوگوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
«عن خولة الانصارية رضي الله عنها قالت: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن رجالا يتخوضون فى مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة»
صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، رقم: 3118.
”سیدہ خولہ الانصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بلاشبہ کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناجائز تصرف کرتے ہیں، پس ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ ہے۔“

پردہ پوشی:

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت کا محافظ ہوتا ہے۔ اس لیے ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس سے اس کی عزت پر حرف آتا ہو اور نہ کوئی ایسا کام کرے کہ جو اس کی عزت نفس مجروح کر سکتا ہو۔ وہ امور جو کسی بھی انسان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا باعث بنتے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ کسی بھی انسان کے عیبوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے چونکہ یہ چیز ایک انسان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے اس لیے شریعت اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتی بلکہ ایک مسلمان پر اس بات کو لازم کرتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کرے۔
«عن ابي الدرداء رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من رد عن عرض أخيه رد الله عن وجهه الناريوم القيامة»
سنن ترمذی، ابواب البر الصلة، رقم: 1931۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سید نا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کے چہرے سے جہنم کی آگ دور کر دے گا۔ “

چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام:

کسی بھی معاشرے کی اچھی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ اس معاشرے میں بچوں سے پیار اور بڑوں کا احترام کیا جاتا ہو۔ جس معاشرہ میں بڑوں کا احترام نہ ہو۔ ایسے معاشرے بربادی کے دھانے پر پہنچ جایا کرتے ہیں کیونکہ بڑوں کے تجربات مفید ہوتے ہیں۔ اگر مفید کام کو چھوڑا جائے تو نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس نقصان سے بچانے کے لیے شریعت زبر دست تاکید فرماتی ہے کہ بڑوں کا احترام کیا جائے۔
«عن عبد الله ابن عمر ويرويه، قال ابن السرح: عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من لم يرحم صغيرنا ويعرف حق كبيرنا فليس منا»
سنن ابی داؤد، کتاب الادب، رقم: 4943۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہنچانے وہ ہم میں سے نہیں۔“

دعوت قبول کرنا:

دعوت کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ دعوت کو قبول کرنا پیار اور محبت کا باعث بھی ہے، اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق بھی۔
«عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: حق المسلم على المسلم ست وإذا دعاكفاجبه»
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 2122.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حق ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے۔ جب وہ تجھ کو دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کر ۔ “
”لیکن یہ دعوت کا قبول کرنا مباح اور جائز کاموں میں ہوگا۔ ناجائز اللہ کے حرام کردہ کاموں کی دعوت قطعا قبول نہ کی جائے گی۔ “
اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے کہ:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾
(5-المائدة: 2)
”نیکی اور تقومی کے کاموں پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون مت کرو۔ “

سلام کرنا اور اس کا طریقہ و آداب:

سلام، اسلامی شعائر میں سے ایک ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ السلام عليكم کہنے والا مسلمان ہے۔ اس سے مسلمانوں والا سلوک کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا﴾
(4-النساء: 94)
”اے ایمان والو جب تم زمین میں سفر کیا کرو، تو تم ایسے فرد کو جو تم کو سلام پیش کرے، یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں ہے۔“
«عن عمران بن حصين قال جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: السلام عليكم، فرد عليه السلام ثم جلس فقال النبى صلى الله عليه وسلم: عشر ثم جاء آخر فقال: السلام عليكم ورحمة الله، فرد عليه فجلس فقال: عشرون ثم جاء آخر فقال: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته فرد عليه فجلس، فقال: ثلاثون»
سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب کیف السلام؟ رقم: 5195 ۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: السلام عليكم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دس۔ پھر دوسرا آدمی آیا ، اور اس نے عرض کیا: السلام عليكم و رحمته الله. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تیسں۔ پھر ایک اور آیا تو اس نے کہا السلام عليكم ورحمته الله وبركاته آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس ۔“
ایک اور حدیث میں ہے کہ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے عرض کیا: ”السلام علیکم ورحمة الله وبركاته ومغفرته“ تو آپ نے فرمایا: چالیس، اور پھر فرمایا: ”اس طرح انسان ایک دوسرے پر فضیلت لے جاتے ہیں۔
سنن ابوداؤد، کتاب الأدب، رقم: 5196 ۔

وعدہ پورا کرنا:

با ضمیر اور اچھی قوموں کی علامت ہے کہ وہ قومیں ایفائے عہد کرتی ہیں۔ یعنی اپنے عہد و پیمان کو پورا کرتی ہیں ۔ دین اسلام میں اس کی طرف خوب توجہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے۔
﴿وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾
(17-الإسراء: 34)
”کہ تم اپنے عہدوں کو پورا کرو ۔ کیونکہ معاہدوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔“
اللہ تعالیٰ کے نیک اور صالح بندوں کی علامت بھی یہی ہیں کہ وہ اپنے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
﴿وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا﴾
(2-البقرة: 177)
”کہ اللہ کے بندے وہ ہیں جب کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اس کو پورا کرتے ہیں۔ “

وقت کی پابندی:

وقت کی پابندی اچھی اور منظم قوموں کی پہچان ہے کہ وہ اپنا کام ہر ایک منظم طریقہ کے مطابق کرتی ہیں ۔ تنظیم کسی بھی قوم کے اچھا ہونے کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وقت کی پابندی کو خاص اہمیت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾
(4-النساء: 103)
”پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے رہو، اور جب اطمینان پاؤ تو نماز قائم کرو۔ یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔ “

نرم مزاجی:

کسی بھی انسان کی اچھی اور بہت ہی عالی شان صفات میں سے نرم مزاجی بھی ہے۔ یہ ایسی عظیم صفت ہے کہ جس کی بدولت انسان دنیا اور آخرت کی بلندیوں کو پالیتا ہے۔ چونکہ شریعت اسلامیہ کا مقصد بھی انسان کی دنیا اور آخرت کی فلاح و کامیابی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے نرم مزاجی کی انتہائی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ:
﴿وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا﴾
(17-الإسراء: 28)
”اگر آپ اُن لوگوں سے پہلو تہی کیجیے، اپنے اپنے رب کی جانب سے اس روزی کی خواہش کرتے ہوئے جس کی آپ کو امید ہو، تو ان سے کوئی اچھی بات کہہ دیجیے۔ “
«عن أنس بن مالك قال: خدمت النبى صلى الله عليه وسلم عشر سنين بالمدينة وأنا غلام ليس كل أمرى كما يشتهي صاحبي أن أكون عليه، ما قال لي: فيها أن قط وما قال لي: لم فعلت هذا؟ أو ألا فعلت هذا»
سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب في الحلم واخلاق النبي صلى الله عليه وسلم ، رقم: 2774۔ البانی ہمیشہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں دس سال تک خدمت کی، جبکہ میں ایک نوخیز لڑکا تھا۔ میرے سب کام اس معیار کے نہیں ہوتے تھے جیسے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہوتی تھی۔ (اس کے با وجود ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا، اور نہ یوں کہا: تو نے یہ کیوں کیا؟ اور اس طرح کیوں نہیں کیا؟ “

زبان کی حفاظت کیجئے:

اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں سے ایک نعمت زبان بھی ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ جس پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔
«عن عقبة بن عامر قال: قلت: يا رسول الله ! ما النجاة؟ قال: أملك عليك لسانك، وليسعك بيتك وابك على خطيئتك»
سنن الترمذی، کتاب الزهد، رقم: 2406۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 888.
”سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: نجات کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنی زبان پر کنٹرول رکھیں، اپنے گھر میں رہو، اور اپنے گناہوں پر رؤو“ ۔“

سچ بولنا:

اخلاق حسنہ میں سے سچ بولنا ہے۔ سچ بولنے کا مطلب ہے، واقعہ کے مطابق گفتگو کرنا ۔ سچ بولنا اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے۔
﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا﴾
(4-النساء: 87)
”اللہ سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے؟ “
یعنی اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر سچ بولنے والا ہے۔ سچ بولنے کی تاکید فرماتا ہے۔ سچوں کی تعریف کرتا ہے، اور سچ بولنے والوں کا ساتھ دینے کا حکم ارشاد فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾
(9-التوبة: 119)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور سچوں کا ساتھ دو۔ “

تحائف دینا:

کسی بھی قوم کے اچھے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس فعل سے کسی بھی قوم میں آپس میں محبت پیدا ہو جاتی ہے، اور جب محبت پیدا ہو جاتی ہے تو معاشرہ امن وسکون اور پیارو محبت کا گہوارہ بن جاتا ہے، اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے اس کی خوب ترغیب دی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا ‎﴾
(4-النساء: 86)
”اور جب تم کو کوئی تحفہ دیا جائے تو تم اس سے بہتر تحفہ دو، یا اسی جیسا واپس کر دو ۔ اس لیے کہ تحفہ تحائف کے تبادلے سے پیار اور محبت پیدا ہوتی ہے۔“
چنانچہ:
«عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تها دوا تحابوا»
ادب المفرد للبخارى، باب قبول الهدية رقم: 593 ۔ سنن الكبرى بيهقي: 6/169۔ مؤطا مالك: 908/2 ، رقم: 19.
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: آپس میں ہدیہ لیا دیا کرو اس سے باہمی محبت پیدا ہوگی ۔ “

مشکوک باتوں سے پر ہیز:

معاشرے میں شر و فساد کا منبع مشکوک باتوں پر عمل پیرا ہونا اور مشکوک باتوں پر یقین کرنا ہے۔ اس کی وجہ سے کسی بھی شخص کے لیے نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کر لیے جاتے ہیں کہ جنکا نتیجہ بالآخرلڑائی اور فساد کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ تو گویا لڑائی اور فساد کی جڑ مشکوک باتوں پر عمل کرنا ہے۔ اس وجہ سے شریعت نے شکوک وشبہات والی باتوں سے روکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«دع ما يرينك إلى ما لا يريبك»
سنن الترمذى، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم: 2518۔ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”جو باتیں شک میں ڈالیں انھیں چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالیں انھیں اختیار کرو“

صبر کرنا:

کسی بھی کامیابی کے حصول کے لیے تکلیفیں اور مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ جب تک کوئی انسان مشکلات سے کھیلنا نہ سیکھے، اور ان پر صبر کرنے کی قوت اپنے اندر پیدا نہ کرے، اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عرب لوگ کہتے ہیں جس نے صبر کیا وہ کامیاب ہوا۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ صبر کا مظاہرہ کیا جائے اور صبر کے دامن کو کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کامیابی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾
(8-الأنفال: 46)
”اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ور نہ بزدل ہو جاؤ گے، اور تمہاری ہوا اکھٹر جائے گی، اور صبر کرو۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ “
«عن صهيب قال: قال رسول الله: عجبا لأمر المؤمن، إن أمره كله خير وليس ذاك لأحد إلا للمؤمن، إن أصابته سراء شكر فكان خيرا له وإن أصابته ضرا صبر فكان خير اله»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم: 2999۔
”سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، بیشک اس کے ہر معاملے میں اس کے لیے خیر ہے، اور یہ صرف مومن ہی کے لیے ہے۔ اگر اسے خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے جو اس کے لیے خیر (و برکت) ہے۔ اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، جو اس کے لیے خیر ہے۔ “

اصلاح کرنا:

کسی بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے اصلاح کا ہونا ضروری ہے۔ اصلاح کا مطلب ہے لوگوں کے درمیان ناراضگی کو ختم کرنا، اور ہر بُری عادت ، رسم و رواج کا خاتمہ کرنا۔ جس بھی معاشرے سے بُری عادات ختم ہو جائیں گی یقینا ایسا معاشرہ کامیاب معاشرہ ہوگا، اور جس گھر ، شہر اور ملک سے نفرت اور عداوت ختم ہو جائے گی، وہ گھر ، شہر اور ملک کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے صلح کے حکم پر زور دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہیں:
﴿وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا﴾
(4-النساء: 128)
”اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی بد دماغی ، اور بے پرواہی کا خوف ہو، تو آپس میں جو صلح کر لیں اس پر کوئی گناہ نہیں صلح بہت بہتر چیز ہے، طمع ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے، اگر تم اچھا سلوک کرو، پر ہیز گاری کرو، تو تم جو کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس کو پوری طرح جانتا ہے۔“

عدل وانصاف:

کسی بھی معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیے عدل و انصاف انتہائی ضروری ہے۔ جب تک کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہ ہوگا۔ اس وقت تک وہ معاشرہ انار کی اور انتشار کا شکار ہو گا اور ترقی اور فلاح و بہبود کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ کیونکہ لوگ عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گے۔ جس کی وجہ سے لوگ چین وسکون کے ساتھ اپنے کام کاج سر انجام نہ دے سکیں گے جس سے ترقی کا سفر رک ہو جائے گا۔ جس کا نتیجہ معاشرے کی تباہی اور بربادی کی شکل میں سامنے آئے گا۔ اس لیے کہا جاتا ہے۔ کہ کوئی بھی ملک کفر کی بنیاد پر تو باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر باقی نہیں رہ سکتا ۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامی ظلم و نا انصافی کو بہت برا جانتی ہے۔ کہ جس کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث سے لگایا جاسکتا ہے۔
«عن انس رضى الله عنه ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: الأئمة من قريش إذا حكموا عدلوا، وإذا عاهدو أوفوا ، وإن استرحموا رحموا ، فمن لم يفعل ذلك منهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منهم صرف ولا عدل»
مسندابی داؤد، طیالسی، رقم: 2247۔ مستدرک حاکم: 4/501 ۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حاکم قریش سے ہوں گے، جب وہ فیصلہ کریں گے تو انصاف کریں گے، اور جب وعدہ کریں گے تو پورا کریں گے، اور جب رحم و شفقت طلب کیے جائیں گے تو رحم و شفقت کریں گے، ان میں سے جو ایسا نہیں کرے گا اس پر اللہ کے تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل ۔“

صدقہ و خیرات کرنا:

کسی بھی معاشرے کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس معاشرہ کے خوشحال اور صاحب حیثیت لوگ وہاں کے کمزور وغریب لوگوں پر صدقہ اور خیرات کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ کیونکہ معاشرہ میں کچھ کمزور لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ضروریات زندگی کو پورا نہیں کر پاتے۔ ایسے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا صاحب ثروت لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ تا کہ وہ کمزور لوگ اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں اور معاشرے و کمیونٹی کے اندر کسی حد تک استحکام و اعتدال پیدا ہو سکے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ‎ ﴿٢٤﴾ ‏ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ‎ ﴿٢٥﴾ ‏
(70-المعارج: 24، 25)
”ان کے مالوں میں ایک حصہ متعین ہے۔ (صدقہ و خیرات کے لیے ) سوال کرنے اور نہ کرنے والوں کے لیے، تا کہ کمزور لوگ اپنی ضروریات زندگی بہتر انداز میں پوری کر سکیں ۔ “

برے اخلاق :

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا اُمید ہونا:

اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا اُمید اور مایوس ہونا قطعاً اہل ایمان اور اہل اسلام کا طریقہ نہیں ہے، بلکہ گمراہ اور کا فرقوم کاطریقہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
﴿قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ﴾
(15-الحجر: 56)
”سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا: گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون نا اُمید ہوسکتا ہے۔“
علاوہ ازیں سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گناہوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ یہ بھی ہے:
«الْقَنُوطَ مِن رَّحْمَةِ الله»
طبراني كبير رقم: 8697، 8695، 8698۔ مجمع الزوائد: 13761۔ علامہ ہیثمی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” (بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو جاتا ہے۔“

اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنا:

اللہ تعالیٰ کے تمام بنی آدم، بلکہ تمام مخلوقات پر بے پایاں انعامات و احسانات ہیں، جو شخص ان انعامات و احسانات کی پاسداری اور خیال کرتے ہوئے اللہ کا شکر کرے تو اللہ تعالیٰ اُسے تمام اُمور میں کامیابی اور مزید ترقی عطا فرمائے گا، اور اس کے برعکس اگروہ اللہ کی ناشکری کرنے پہ اتر آیا جو کہ ایک بہت بڑا جرم اور گناہ ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے تمام انعامات سے محروم کر کے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾
(14-إبراهيم:7)
”اور جب تمہارے رب نے یہ خبر دی کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے، تو بے شک میں تمھیں زیادہ دوں گا، اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میر اعذاب بہت سخت ہے۔ “

اللہ تعالیٰ کی ذات پر جھوٹ باندھنا:

اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر افتراء پردازی یعنی جو بات اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ، لیکن اُسے اللہ کی طرف منسوب کرنا، یقینا بہت بڑا گناہ اور ظلم ہے، اور اللہ تعالیٰ کو اذیت و تکلیف پہنچانا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«‏ ومن أظلم ممن افترىٰ على الله كذبا أو كذب بالحق لما جاءه ۚ أليس فى جهنم مثوى للكافرين»
(29-العنكبوت:68)
” اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا جب حق اُس کے پاس آجائے تو وہ اسے جھٹلائے ، کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے؟ “

سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر افتراپردازی یعنی جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ، انسان کو جہنم میں لے جاتا ہے۔ چنانچہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إن كذبا على ليس ككذب على أحد، من كذب على متعمدا فليتبوا مقعده من النار»
صحيح بخاري، كتاب الجنائز باب مَا يَكْرَهُ مِنَ النِّيَاحَةِ عَلَى الْمَيِّتِ، رقم: 1291۔ صحیح مسلم، المقدمة، باب تغليظ الكذب على رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم: 5۔
”مجھ پر جھوٹ بولنا عام جھوٹ باندھنے کے مترادف نہیں ہے۔ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔“

اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقلید کوترجیح دینا:

نبی مکرم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری تمام بنی آدم پر فرض اور لازم ہے، اس لیے کہ وہ انسانی ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾
(4-النساء:13)
”اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا، تو وہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اُن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو گھٹانا یا بڑھانا:

اللہ تبارک و تعالی کے تمام انبیاء ورسل علیہ السلام انتہائی معظم و مکرم اور درجہ کے اعتبار سے تمام بنی آدم و دیگر مخلوقات سے بلند تر ہوتے ہیں لیکن کسی امتی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی نبی یا رسول یعنی سید نا آدم علیہ السلام سے لے کر آخر الزماں پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی نبی یا رسول کے مقام و مرتبہ میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہوئے اُنھیں ”مقام عبوديت“ سے ”مقام الوهيت“ تک پہنچا دے، یا اللہ کا بیٹا قراردے، یا پھر اُن سے متعلق ”عالم الغيب“ اور ”نورمن نور الله“ کا عقیدہ قائم کرلے۔
یادر ہے کہ کسی بھی نبی یا رسول کے مقام کو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مقام سے بڑھانا یا کم کرنا اپنے ایمان کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ نصاریٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾
(5-المائدة:72)
”یقینا وہ لوگ کافر ہوئے جنھوں نے کہا کہ بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہی ہیں، اور مسیح نے کہا: اے بنی اسرائیل! تم لوگ اللہ کی عبادت کرو، جو میرا اور تم سب کا رب ہے۔ بے شک جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرائے گا، تو اللہ نے اُس پر جنت حرام کردی ہے، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ “
نیز ایک دوسرے مقام پر یہودو نصاری کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿‏ وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
(9-التوبة:30)
”اور یہود نے کہا کہ عزیز اللہ کے بیٹے ہیں، اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ اُن کے منہ کی بکواس ہے، اُن لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انھیں ہلاک کر دے، کس طرح حق سے پھرے جارہے ہیں ۔ “
غلو ( زیادتی ) چاہے انبیاء ورسل علیہ السلام کی عظمت وشان میں ہو یا دیگر دینی معاملات میں بہر حال ناجائز اور غلط ہے۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ﴾
(4-النساء:171)
”اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو، اور اللہ کی شان میں حق بات کے علاوہ کچھ نہ کہوں “
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ ‎﴾
(5-المائدة:77)
”آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب ! تم لوگ اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو، اور اُن لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، جو اس سے پہلے خود گمراہ ہو گئے، اور بہتوں کو گمراہ کیا، اور راہ راست سے بھٹک گئے۔ “
علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی غلو کرنے والوں کی بڑی سخت مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«هلك المتنطعون قالها ثلاثا»
صحيح بخاري، كتاب العلم، باب هلک المتنطعون، رقم: 6780 .
”غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی کلمات دھرائے ۔ “
نیز سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم فإنما أنا عبده فقولوا : عبد الله ورسوله»
صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء رقم: 3445 ۔
باب قول الله تعالى: ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا﴾
(19-مريم:16)
” میری تعریف میں مبالغہ مت کرنا جس طرح نصاری نے عیسی کی تعریف میں مبالغہ کیا تھا۔ میں ایک بندہ ہوں، لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان اور مال سے زیادہ محبوب نہ سمجھنا:

نبی مکرم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ایمان کا اولین تقاضا ہے، اور جو شخص اپنے والدین، اپنی اولاد اور مال و دولت سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا اور تمام اُمور میں اُنھیں اپنا فیصل مانتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کی ایسی محبت کے بدلہ میں اُس کے تمام گناہوں کو معاف کر کے اُسے جنت میں داخل کر دیتا ہے، اور یہی ایک سچے اور پکے مومن و مسلمان کی علامت ہے، اس کے برعکس جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے دل سے محبت نہیں کرتا ، اور انہیں اپنا مقتدی اور پیشوا نہیں مانتا ، وہ قطعاً صاحب ایمان نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
(3-آل عمران:31)
”آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔ اور اللہ بڑا معاف کرنے والا ، رحم کرنے والا ہے۔ “
نیز سید نا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين»
صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب حب الرسول صلى الله عليه وسلم من الإيمان، رقم: 15۔ صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 129 .
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اسے اپنے والدین، اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہو جاؤں ۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی سن کر درودو سلام نہ پڑھنا:

ہر مؤمن و مسلمان کا فریضہ ہے کہ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کی آواز اُس کے کانوں تک پہنچے تو اسے فورا نبی مکرم پر تحفہ، گلدستہ درود و سلام پیش کرنا چاہیے۔ مؤمن و مسلمان تو کجا، خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے تمام فرشتے بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو درود کے گلدستے اور سلام کے تحائف بھیجتے رہتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
(33-الأحزاب:56)
” بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود و سلام بھیجو۔ “
جولوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ اُن کے لیے پیغام مسرت ہے۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من صلى على صلوة واحدة، صلى الله عليه عشر صلوات، وحطت عنه عشر خطيئات، ورفعت له عشر درجات»
سنن نسائي، كتاب السهو باب الفضل في الصلوة على النبي صلى الله علیه وسلم، رقم: 1295 ۔ علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”جس نے میری ذات پر ایک مرتبہ درود بھیجا۔ اللہ تعالیٰ اُس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا، دس گناہ معاف فرمائے گا، اور دس درجات بلند فرمائے گا۔ “

روز قیامت کا مذاق اُڑانا اور انکار کرنا :

قیامت کا دن صرف دین اسلام میں نہیں، بلکہ تمام ادیانِ عالم میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اُس دن عدل و انصاف اور دیانت داری کا ترازو، قائم کیا جائے گا، جس میں ہر عمل، محنت مشقت اور کاوش کا مقدار اخلاص کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ قیامت کا دن تمام بنی آدم کے دنیاوی اعمال کے نتیجہ کا دن ہے جس میں ہر آدمی کو اپنے عمل کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔
اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ، اس کے تمام رسل علیہ السلام ، تمام آسمانی کتابوں اور فرشتوں پر ایمان لانا فرض ہے، ٹھیک اسی طرح قیامت کے دن پر بھی ایمان لانا فرض ہے۔ جیسے ان میں سے کسی ایک کے انکار سے کفر لازم آتا ہے، اسی طرح روز قیامت کا مذاق اُڑانے یا انکار کرنے سے بھی کفر لازم آتا ہے۔ لہذا جو شخص روز قیامت کا تمسخر کرے یا انکار کرے، تو اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُم مَّا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ ‎ ﴿٣٢﴾ ‏وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ‎ ﴿٣٣﴾ ‏ وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ ‎ ﴿٣٤﴾ ‏
(45-الجاثية:31تا 34)
”اور جب کہا جاتا تھا کہ بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے، اور قیامت کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے؟ ہم اُسے ایک ظن محض سمجھتے ہیں، اور ہم اُس پر بالکل یقین نہیں کرتے ہیں۔ اور اُن کے اعمال کی برائیاں اُن کے سامنے ظاہر ہو گئیں اور جس عذاب کا وہ مذاق اُڑا ر ہے تھے اس نے اُنھیں گھیر لیا اور اُن سے کہا جائے گا کہ آج ہم تمھیں اُسی طرح بھول جائیں گے، جس طرح تم نے اپنے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے، اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ۔ “

عذاب قبر کا انکار کرنا:

عذاب قبر دین اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کے برحق ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ جو لوگ اس عقیدہ کے برحق نہ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کا انکار کرتے ہیں، ان کا یہ عمل قرآن وسنت کی تعلیم کے صریح مخالف ہے۔
عذاب قبر برحق ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ﴾ ‎
(14-إبراهيم:27)
”اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں حق بات، یعنی کلمہ طیبہ پر ثابت قدم رکھتا ہے، اور اللہ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے، اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ “
اس آیت کی تفسیر سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إذا أقعد المؤمن فى قبره أتاه ملكان أذرقان ثم شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، فذلك قوله:»
صحيح بخاري، کتاب الجنائز رقم: 1369۔ مسنداحمد: 29164.
﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾
(14-إبراهيم:27)
” مؤمن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے، تو اُس کے پاس دوفر شتے نیلی آنکھوں والے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نبی مکرم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو یہ اُس فرمانِ الہی کی تعبیر ہے جو سورہ ابراہیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔ “
اور آل فرعون کو صبح و شام عذاب دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
﴿فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ‎ ﴿٤٥﴾ ‏ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ‎ ﴿٤٦﴾ ‏
(40-غافر:45، 46)
” پس اسے اللہ تعالیٰ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں، اور فرعونیوں کو برے عذاب نے گھیر لیا، وہ لوگ صبح و شام نار جہنم پر پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت آئے گی ، ( اللہ کہے گا) فرعونیوں کوسب سے سخت عذاب میں داخل کرو۔“
اور کفار کوموت کے وقت ہی سے عذاب ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ہے:
﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾
(6-الأنعام:93)
”اور اگر آپ دیکھیں جب ظالم لوگ موت کی سختیاں جھیل رہے ہوتے ہیں، اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے کہتے ہیں کہ آج اپنی جانیں نکالو تمھیں ذلت ورسوائی کا عذاب اس لیے دیا جائے گا کہ تم اللہ کے بارے میں ناحق باتیں کہتے تھے اور تم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔ “
مزید فرمایا:
﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ‎﴾
(8-الأنفال:50)
” کاش کہ آپ دیکھتے جب فرشتے کافروں کی روح نکالتے ہیں، اُن کے چہروں اور اُن کی پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں (اور کہتے ہیں ) کہ چکھو تم جلنے کا عذاب۔“
عذاب قبر کے برحق ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مندرجہ ذیل ہیں۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
«أن يهودية دخلت عليها فذكرت عذاب القبر فقالت لها أعاذك الله من عذاب القبر فسألت عائشة ( رضى الله عنه ) رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عذاب القبر فقال: نعم عذاب القبر، قالت عائشة رضي الله عنها فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد صلى صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر زاد غندر عذاب القبر حق »
صحيح بخاري، كتاب الجنائز باب ما جاء في عذاب القبر، رقم: 1372.
ایک یہودی عورت اُن کے پاس آئی ، اُس نے عذاب قبر کا ذکر چھیڑ دیا اور کہا کہ اللہ تجھ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے بارے میں دریافت کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا جواب یہ دیا کہ ہاں ، عذاب قبر حق ہے۔ نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز ایسی پڑھی ہو اور اُس میں عذاب قبر سے اللہ کی پناہ نہ مانگی ہو۔ اور امام غندر رحمہ اللہ نے اس روایت میں عذاب القبر حق کے الفاظ زائد بیان کیے ہیں۔“
اور سیدنا ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
«خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما غربت الشمس فسمع صوتا فقال: يهود تعذب فى قبورها»
صحيح مسلم كتاب الجنة ، وصفة نعيمها وأهلها، رقم: 7215.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک روز ) سورج غروب ہونے کے بعد ( گھر سے) نکلے تو ایک آواز سنی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود کو اُن کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔ “
قرآن وحدیث میں عذاب قبر کے متعلق جو بتایا گیا ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، مگر اس کی کیفیت اور تفصیلات میں نہیں پڑنا چاہیے، کیونکہ یہ برزخی معاملہ ہے لہذا جتنا بتایا گیا ہے اس پر بعینہ ایمان لانا ضروری ہے، عذاب قبر کا انکار راہ اسلام سے فرار ہے۔
صاحب شرح عقیدہ طحاویہ رقمطراز ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر اور قبر کی نعمتوں، ان لوگوں کے لیے جو ان کے اہل ہیں، کے ثبوت کے بارے میں متواتر احادیث مروی ہیں، اسی طرح قبر میں دو فرشتوں کے سوال کے اثبات پر عقیدہ رکھنا اور ایمان لانا واجب ہے۔ ہم اس کی کیفیت پر کلام نہیں کرتے ، اس لیے کہ ان امور کی واقفیت عقل کا کام نہیں ہے، اس لیے کہ اس دنیا میں یہ معمول نہیں اور شریعت ایسے امور زیر بحث نہیں لاتی جو عقلاً محال ہوں، ہاں کبھی ایسے اُمور شرع میں زیر بحث آتے ہیں جن سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ روح کا جسم کی طرف لوٹنا اس طرح نہیں جیسے دنیا میں لوٹانے کا معمول ہے، بلکہ روح کے اعادہ کا معاملہ دُنیا میں اعادے کی طرح نہیں ۔ “
شرح العقيدة الطحاوية: 209/2، تحقیق شعیب الارنا قط وعبد الله بن عبد الحسن اللہ کی مطبوعه مؤسسة الرسالة.
امام آجری نے الشريعه میں باب یوں باندھا ہے:
«التصديق والإيمان بعذاب القبر»
” عذاب قبر کی تصدیق اور اس پر ایمان کابیان “
پھر اس کے بعد عذاب قبر کے متعلق احادیث بیان کیں اور فرمایا :
«ما أسوأ حال من كذب بهذا الأحاديث لقد ضل ضلالا بعيدا وخسر خسرا مبينا»
الشريعة: 186/2.
”جس شخص نے ان احادیث کو جھٹلایا وہ کس قدر برے حال والا ہے، وہ تو یقینا بہت دور بھٹک گیا اور واضح نقصان اٹھانے والا بن گیا۔ “
علامہ ابو بکر احمد بن علی الرازی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«واعلم أن سؤال منكر ونكير للميت فى القبر عن ربه ودينه حق لوردد الأحاديث عن النبى صلى الله عليه وسلم»
شرح بدء الأمالی، ص: 353.
” یقین کر لو کہ منکر و نکیر کا میت سے قبر میں اس کے رب اور اس کے دین کے بارے میں سوال کرنا حق ہے، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں احادیث مروی ہیں ۔ “
علامہ محمد بن احمد السفارینی رقمطراز ہیں:
«وعذاب القبر واحياء الموتى وقبورهم ومسئلة منكر ونكير لهم ثابت وواجب القول به وأنه يعذب بعد أن ترد الروح اليه فعذاب القبر حق»
لوائح الأنوار السنية: 150/2.
”عذاب قبر اور قبروں میں مردوں کو زندہ کرنا اور منکر و نکیر کا ان سے سوال کرنا ثابت ہے۔ اس کا قائل ہونا واجب ہے اور اعادہ روح کے بعد اس کو عذاب دیا جاتا ہے،سو عذاب قبر حق ہے۔ “
امام ابوالحسن الاشعری رقمطراز ہیں :
«واختلفوا فى عذاب فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام»
مقالات الاسلاميين : 116/2.
”عذاب قبر کے متعلق اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ معتزلہ اور خوارج نے اس کا انکار کیا ہے اور اہل اسلام کی اکثریت اس کی قائل ہے۔“

تقدیر کو جھٹلانا :

عذاب قبر کی طرح ”مسئلہ تقدیر“ بھی بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ جس طرح عذاب قبر کے برحق ہونے پر ایمان لانا واجب ہے، اسی طرح تقدیر پر ایمان لانا بھی واجب اور ضروری ہے۔ نیز سلف و خلف نظم کا یہ عقیدہ ہے کہ جو شخص تقدیر الہی کو پوری صداقت سے قبول کرتا ہے یعنی جس میں کسی قسم کا کوئی تردد نہ ہو، تو وہ سچا اور پکا مؤمن ہے۔ لہذا جو شخص تقدیر الہی میں متردد ( شک کرتا) ہے اُسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ‎ ﴿٤٩﴾ ‏ وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ‎ ﴿٥٠﴾ ‏
(54-القمر:49، 50)
”ہم نے ہر چیز کو ٹھیک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے، اور ہمارا حکم صرف ایک دفعہ(کا ایک کلمہ) ہی ہوتا ہے، جیسے آنکھ کا جھپکنا۔ “
مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیت انفاق کو ایمان بالقدر سے معلق کرتے ہوئے فرمایا:
«لو أن الله عذب أهل سمواته وأهل أرضه: عذبهم وهو غير ظالم لهم، ولو رحمهم كانت رحمته خيرا لهم من أعمالهم ولو أنفقت مثل أحد ذهبا فى سبيل الله ما قبله الله منك حتى تؤمن بالقدر، وتعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطنك، وأن ما أخطأك لم يكن ليصيبك، فلو مت على غير هذا لدخلت النار»
سنن أبي داؤد، کتاب السنة، باب فی القدر : 4699۔ علامہ البانی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
”اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان وزمین (میں رہنے) والوں کو عذاب دے، تو وہ اُن کے لیے ظالم نہیں ٹھہرے گا اور اگر اُن پر رحمت کرے، تو یہ اُن کے لیے اُن کے اعمال سے بہتر ہے، اگر تم اُحد پہاڑ یا اُحد پہاڑ کی مثل سونا راہ الہی میں خرچ کر دو۔ تو اللہ تعالیٰ اُسے اس وقت تک قبول نہیں فرمائے گا، جب تک وہ (اچھی یا بری) تقدیر پر ایمان نہیں لے آتا اور اُسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ جو کچھ اُسے مل گیا ، وہ کسی صورت میں اس سے ضائع نہیں ہوسکتا تھا ، اور جو کچھ نہیں ملاوہ کسی صورت میں اس کو نہیں مل سکتا تھا، اگر تم اس عقیدے کو تسلیم کیے بغیر مر گئے تو تمہیں ضرور آگ میں داخل کیا جائے گا۔“

صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کو گالی دینا:

صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) سے محبت کرنا ، نہ صرف جزوایمان بلکہ عین ایمان ہے۔ کیونکہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوئی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، آپ کے دین کو تقویت پہنچائی، آپ سے خیر خواہی کی الغرض کہ ہر میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورے خلوص کے ساتھ دیا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راضی ہو گیا۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
﴿رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
(58-المجادلة:22)
” اللہ ان سے راضی ہو گیا، اور وہ اُس سے راضی ہو گئے ، وہی اللہ کی جماعت کے لوگ ہیں ، آگاہ رہیے کہ اللہ کی جماعت کے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔ “
ایک دوسرے مقام پر مہاجرین و انصار صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾
(9-التوبة:100)
” اور مہاجرین و انصار میں سے وہ اولین لوگ، جنھوں نے ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت کی ۔ اور وہ دوسرے لوگ، جنھوں نے اُن سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی، اللہ اُن سب سے راضی ہو گیا، اور وہ سب اللہ سے راضی ہو گئے ، اور اللہ نے اُن کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، اُن میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے ، یہی عظیم کامیابی ہے۔“
جس شخص نے ان سے محبت کی ، گویا اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ۔ اور اس کے بر عکس یعنی جس شخص نے صحابہ کو گالی دی یا ان سے بغض رکھا گویا اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی یا بغض رکھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
«لا تسبوا أصحابي، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولانصيفه»
صحيح بخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب قول النبي: لو كنت متخذا خليلا، رقم: 3673.
” میرے اصحاب کو گالی مت دو ، اگر کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد ( پیمانہ ) غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا، اور نہ اُن کے نصف مد کے برابر“
علاوہ ازیں جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب وشتم کا نشانہ بنائے، اُس پر اللہ تعالٰی، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت برستی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
«من سب أصحابي فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين»
صحيح الجامع الصغير رقم: 6285- سلسلة الصحيحة رقم: 2320۔
”جس نے میرے صحابہ کو گالی دی، اُس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ “
اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:
«إنما فاطمة بضعة منى يؤذينى ما أذاها وينصبني ما أنصبها»
سنن ترمذي، كتاب المناقب، باب ما جاء في فضل فاطمة رضى الله عنها، رقم: 3869۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” فاطمہ میرا ایک حصہ ہے، جس نے اُسے تکلیف پہنچائی یا کمزور کیا ، ( گویا ) وہ مجھے تکلیف پہنچاتا ہے اور کمزور بناتا ہے۔“
اور اسی طرح جو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کے جہنم میں جانے کا عقیدہ رکھتا ہو، اُس کا یہ عقیدہ قطعاً بے بنیاد اور غلط عقیدہ ہے۔ اور اس کی دلیل سید نا جابر رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے، جس میں سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام اُن کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور آپ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! حاطب ضرور جہنم میں داخل ہوگا۔ غلام کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«كذبت لا يدخلها فإنه قد شهد بدرا والحديبية»
سنن ترمذي، كتاب المناقب، رقم: 3864۔ البانی جراللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”تو نے جھوٹ بولا ، وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ تو بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوا ہے۔ “

اہل بیت کا احترام نہ کرنا :

اہل بیت کا احترام اور اُن سے محبت کرنا اُسی طرح ایمان کا جزو ہے، جس طرح کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت اور اُن کا احترام کرنا جزوایمان ہے، اور کوئی شخص اُس وقت تک سچا مسلمان اور مؤمن نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ صدق دل سے اہل بیت کا احترام نہ کرے لیکن افسوس کہ بعض لوگ اپنے آپ کو مؤمن و موحد کہنے کے باوجود ”مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم “ میں دخل اندازی اور پھر مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہوئے گمراہی کا شکار ہیں۔ بہر حال اہل بیت کا احترام اور ان سے محبت کرنا، ایمان کا جزو ہے۔ نیز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت سے محبت کرتے تھے، تو پھر کون بد بخت ہے جو اہل بیت سے محبت نہ کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج اور اولاد کے حق میں دعا بھی فرمائی ہے، چنانچہ سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کے اس سوال پر ( کہ ہم آپ کی ذات پر کس طرح درود بھیجیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته»
صحيح بخاري، كتاب الدعوات باب هل يصلى على غير النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، رقم : 6365 .
”اے اللہ! محمد اور آپ کی ازواج (مطہرات) اور آپ کی اولاد پر رحمت نازل فرما“
علاوہ ازیں سید نا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین یعنی سید نا حسن و حسین رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو فرمانے لگے:
«أللهم إنى أحبهما فأحبهما وأحب من تحبهما»
سنن ترمذي، كتاب المناقب، رقم: 3769۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن کہا ہے، اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے۔ صحیح ابن حبان، رقم: 5924۔
”اے اللہ ! میں ان دونوں یعنی حسن و حسین سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما، اور اُس سے بھی محبت فرما جو ان دونوں سے محبت کرتا ہے۔“
معلوم ہوا حسنین اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا، محبت الہی کا ایک بہت بڑا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ اور جو شخص ان سے محبت نہیں کرتا، وہ محبت الہی کا قطعا مستحق نہیں ہوسکتا، بلکہ گناہ گار ہوتا ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ کرنا :

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اچھے کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے بچنے کی تلقین کرنا دین اسلام کا نہایت اہم فریضہ ہے، جو لوگ اخلاص کے ساتھ اس فریضہ کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہیں۔ وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑے اجر وثواب کے مستحق ہیں۔ اور جو لوگ اس میں کوتا ہی یا اس کی تبلیغ سے اعراض کرتے ہیں یا صرف گناہ کی بات کا حکم دیتے ہیں۔ وہ بلاشبہ گناہ کے مرتکب ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
(3-آل عمران:104)
” اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو بھلائی کی طرف بلائے ، اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے، اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔“

حدود اللہ کا مذاق اُڑانا :

دین اسلام ایک عالم گیر دین ہے، اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے لیے جہاں عقائد، اعمال اور اخلاق وغیرہ کے متعلق بیان کیا ہے، وہاں انسانی معاشرہ کی اصلاح اور اسے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے شرعی سزاؤں اور حدود کا تعین بھی فرمایا ہے، تا کہ ظالم کے ظلم، فاسق کے فسق، مجرم کے جرم کو روکا جاسکے۔
چنانچہ ان میں سے چند مثال کے طور پر درج ذیل ہیں تا کہ اس بات کی پوری وضاحت ہو جائے کہ ان خطر ناک جرائم کی سزائیں عادلا نہ حکمت اور مصالح امن کے عین مطابق ہیں۔

زنا:

یہ جرم ان جرائم میں سے ایک ہے جن کی مضر تیں انسانی تمدن اور نظام امن پر حملہ آور ہو کر تہذیب و معاشرت کی متاع تاراج کر ڈالتی ہیں۔ چنانچہ اس کے لیے سزا بھی سخت رکھی گئی کہ اس کا مرتکب اگر شادی شدہ ہے تو اسے سنگسار کیا جائے ، اور اگر غیر شادی شدہ ہے تو اسے سو (100) کوڑے لگائے جائیں۔

قذف :

کسی شریف مرد یا عورت پر زنا کی تہمت اور جھوٹا الزام لگانے سے خاندانی عداوت کا شاخسانہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، اور انتقامی جذبے کی آگ بھڑک کر جنگ و جدال کی نوبت آجاتی ہے، علاوہ ازیں زوجین کے ازدواجی تعلقات بھی ایک بے بنیاد شبہ کی بناء پر نا خوش گوار ہو جاتے ہیں ۔ لہذا اس کے مرتکب کو اسی (80) کوڑے لگانے کا حکم صادر ہوا۔

چوری :

چوری بھی انسانوں کے لیے ہلاکت و تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے لیے سزا بھی سخت ترین تجویز کی گئی کہ ایسے مجرم کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔

رہزنی و قزاقی:

ڈاکہ، رہزنی و قزاقی ایسی ظالمانہ حرکتوں سے لوگوں کا سکون برباد ہو جاتا ہے، اور کوئی شخص بھی جان و مال اور عصمت کو محفوظ نہیں پاتا ، اور ان کی حفاظت کی فوری تدبیر سے بالکل قاصر و مجبور ہوتا ہے۔ لہذا اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے جلا وطنی اور قتل کی سزا رکھی گئی ۔

شراب نوشی :

شراب نوشی انسانیت کو عقل سے معطل اور تعقل و تفکر سے محروم کر دیتی ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شرابی سے عالم بدمستی میں وہ حرکتیں سرزد ہوتی ہیں جو انسانیت کے لیے ننگ و عار اور امن اجتماعی کے لیے مفسدہ عظیم بن جاتی ہیں۔ چنانچہ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے جرم کی نوعیت کے مطابق (40) یا (80) کوڑے سزا متعین کی گئی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو بھی ان حدود میں تنسیخ و ترمیم کرنے کا حق دیا ہے اور نہ تغیر وتبدل کا۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا﴾
(2-البقرة:187)
”یہ اللہ کی حدود ہیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ “
اور جو لوگ حدود اللہ کو پھلانگتے اور ان سے تجاوز کرتے ہیں، وہ ظالم ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
(2-البقرة:229)
”یہ اللہ کی حدود ہیں، انھیں تجاوز نہ کرو اور جولوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں ۔“
حدود اللہ سے تجاوز کرنا اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ﴾
(64-الطلاق:1)
”اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا ، وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا۔ “
نیز حدود اللہ سے تجاوز کرنا جہنم میں جانے کا سبب ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
﴿وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎﴾
(4-النساء:14)
”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، اور اس کی (مقرر کردہ) حدود سے تجاوز کرے گا، اُسے اللہ آگ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ “
ان مذکورہ بالا تمام قرآنی آیات سے معلوم ہوا کہ حدود اللہ کو پھلانگنا اور اُن سے تجاوز کرنا سراسر زیادتی اور ظلم ہے، بلکہ حدوداللہ سے تجاوز کرنے والا شخص جہنمی ہے۔
جو لوگ حدود اللہ کی حفاظت کرتے ہیں، وہ نیک بشارت کے مستحق ہیں، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾
(9-التوبة:112)
”(مؤمنین) برائی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ اور آپ مؤمنوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ “
لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک ”پاکستان“ میں فحاشی وعریانی کو فروغ دینے کی سازش کے تحت اور عورتوں کے حقوق کے استحصال کی خاطر ”تحفظ خواتین ایکٹ“ بنایا گیا ہے، جو اللہ سے بغاوت اور کتاب وسنت میں موجود حدود اللہ سے سراسر تجاوز ہے۔ ہم بطور ثبوت اور نمونہ تحفظ (خواتین ایکٹ 2006ء) کا مختصر تقابلی جائزہ پیش کر دیتے ہیں۔

حدود الله:

حدود اللہ میں ترمیم و تنسیخ کا اختیار اللہ نے کسی کو نہیں دیا۔
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾
(33-الأحزاب:36)

تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء:

ایکٹ میں حدود زنا اور تہمت میں ترمیم و تنسیخ کر کے اللہ کی بغاوت کی گئی ہے۔ (ایکٹ نمبر 45 بابت 1860، دفعہ 367)

حدود الله :

اسلام میں حد زنا کی تقسیم شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری)

تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء:

ایکٹ میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی باطل اصطلاح گھڑی گئی ہے۔

حدود الله :

اسلام میں زانیہ (عورت) اور زانی (مرد) کی سزا سو کوڑے مقرر ہے۔ (سورۃ نور : 2) شادی شدہ کے لیے سزا سنگسار مقرر کی گئی ہے ۔ ( صحیح مسلم)

تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء:

ایکٹ میں زیادہ سے زیادہ زنا کی سزا 5 سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ مقرر کی گئی ہے۔ (ایکٹ نمبر 45، بابت 1860 نئی دفعہ 496 ب)

حدود الله :

اسلام میں حد زنا کے نفاذ کے لیے 4 گواہ مقرر ہیں۔ (سورة نور : 4)

تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء:

ایکٹ میں زنا کی سزا کے لیے 5 گواہ مقرر کیے گئے ہیں۔ (ایکٹ نمبر 5 ، بابت 1898، دفعه 203الف)

حدود الله :

اسلام میں ملزم کے اعتراف پر حد زنا قائم کر دی جاتی ہے۔ ( صحیح بخاری)

تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء:

ایکٹ میں ملزم کے اعتراف کو ویسے ہی نکال دیا گیا ہے۔ (ایکٹ ترمیم نمبر 25)

حدود الله :

اسلام میں قذف ( تہمت زنا) کی سز ا 80 کوڑے اور قاذف ہمیشہ کے لیے گواہی نہیں دے سکتا ہے۔ (النور : 4)

تحفظ خواتین ایکٹ 2006 ء :

ایکٹ میں زیادہ سے زیادہ تہمت زنا کی سز ا 5 سال قید اور 10ہزار جرمانہ ہے۔ (ایکٹ ترمیم نمبر 45، بابت 1860 ،نئی دفعہ 496 ج )

حدود الله :

اسلام میں جرم ثابت ہونے پر حد کے نفاذ میں کوئی معافی نہیں دے سکتا۔ (صحیح بخاری)

تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء:

ایکٹ میں صوبائی حکومت اور صدر مجرم کو معافی دینے کے مجاز ہیں۔ (دفعہ 496 ب، دفعه 496 ج)
تحفظ خواتین کی آرگنائزیشن دنیا کی خواتین کو کھلم کھلا عریانی کی ضلالت ،عورت کا عورت سے شادی کرنا ، خاوند کی محبت کی جگہ بوائے فرینڈ کا عارضی ساتھ، گھر کی جگہ بازار حسن، گود میں اولاد کی جگہ کتیا کے بچے، اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بجائے کلب میں ڈانس ، شرب زم زم کی جگہ شراب نوشی، اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی جگہ ماڈلز اور اداکاری، قرآن مجید کی تلاوت کی جگہ عریاں ناچ و ڈانس ، صحت و تندرستی کی جگہ بیماری اور ایڈز کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ اور یورپ، امریکہ اور انڈیا وغیرہ ممالک میں تو عورت سے عورت غیر فطری طریقے سے اپنی شہوت کی آگ بجھاتی ہیں اور ہمارائٹس آرگنائزیشن اس کے لیے فخر یہ قانون دلاتی پھر رہی ہیں۔

مسلمان کو کافر کہنا:

کسی شخص کے لیے یہ قطعا جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کافر قراردے، کیونکہ جوشخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے، جبکہ اُس میں کفروالی کوئی ایسی بات نہ پائی جاتی ہو، تو وہ خود کفر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إذا قال الرجل لأخيه: يا كافر فقد بات به أحدهما»
صحيح بخارى، كتاب الأدب، باب من كفر أخاه من غير تأويل فهو كما قال، رقم: 6103.
”جب کوئی شخص اپنے بھائی سے یہ کہتا ہے: اے کافر ! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔ “

مسلمان کو ناحق تکلیف پہنچانا :

مؤمن و مسلمان مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی شرعی سبب کے تکلیف و ایذا پہنچانا قطعی طور پر حرام ہے۔ اور اس میں ہر وہ کام اور بات داخل ہے، جس سے مؤمن و مسلمان کی دل آزاری ہو۔ خواہ وہ بے عزتی کے حوالہ سے ہو یا کسی اور حوالہ سے۔ اور جولوگ کسی کو ناحق ایذا پہنچاتے ہیں، وہ دنیا میں تو بدنام ہو کر رہتے ہیں، آخرت میں بھی ان کا شمار بدترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ‎﴾
(33-الأحزاب:58)
” اور جولوگ مؤمن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی قصور کے ایذا پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔“
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ان شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة من تركه الناس اتقاء شره»
صحيح بخاري، كتاب الأدب، باب لم يكن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، فَاحِشَاوَلَا مُتَفَحِشًا، رقم: 2032 ۔
”اللہ کے نزدیک روزِ قیامت سب سے بدتر لوگ وہ ہوں گے، جن کے شر سے ڈرتے ہوئے لوگ اُن سے ملنا چھوڑ دیں۔ “

مسلمان سے قطع کلامی کرنا :

مسلمانوں کے مابین قطع کلامی اور بگاڑ پیدا کرنا شیطان کا اہم ترین منصوبہ ہے۔ بہت سے لوگ جو شیطانی قدموں کے مقلد ہیں، اپنے مسلمان بھائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر بیٹھتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو رنجشوں اور ناراضگیوں کا سلسلہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے، بلکہ بعض سخت طبیعت کے لوگ تو اپنے بھائی سے ہم کلام نہ ہونے ، اور کبھی اُس کے گھر نہ جانے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں کبھی اُسے راہ چلتے دیکھ لیں تو اُس سے اعراض کر لیتے ہیں۔
بہر حال ایسا رویہ اور عمل اسلامی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا انتہائی خطرناک ذریعہ ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے متعلق سخت وعید بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لا يحل لمسلم أن تهجر أخاه فوق ثلاث، فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار»
سنن ابی داؤد، كتاب الأدب، رقم: 4914۔ صحيح الجامع الصغير رقم: 7659 المشكوة رقم: 5035 ۔
” کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے، جس نے تین دن سے زیادہ چھوڑا اور اسی حال میں مرگیا، تو وہ جہنم میں جائے گا۔ “

بلا وجہ لعنت کرنا :

اکثر لوگ غصے کے وقت اپنی زبانوں پر قابو نہیں رکھتے ، اور بلاوجہ لعنت و ملامت کرنا شروع کر دیتے ہیں، انسانوں، چوپایوں، جمادات، ایام اور گھڑیوں، بلکہ بعض اوقات تو اپنی ذات اور اپنی اولاد تک پر لعنتیں بھیج ڈالتے ہیں، اور اس طرح شوہر، بیوی پر، اور بیوی ،شوہر پر۔
بہر حال بلا وجہ لعن و طعن کا یہ معاملہ انتہائی خطر ناک ہے، جیسا کہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إن العبد إذا لعن صعدت اللعنة إلى السماء فتغلق أبواب السماء دونها، ثم تهبط إلى الأرض، فتغلق أبوابها دونها ، ثم تأخذيمينا وشمالا، فإذا لم تجد مسافا رجعت إلى الذى لعن، فإن كان لذالك أهلا و إلا رجعت إلىٰ قائلها »
سنن ابي داؤد، کتاب الأدب، باب فی اللعن، رقم: 4905۔ صحیح الجامع الصغير رقم: 1672.
”جب بندہ کسی پر لعنت کرتا ہے، تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے، اُس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ، پھر وہ زمین کی جانب گرتی ہے، تو اُس کے لیے زمین کے دروازے( بھی ) بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ دائیں بائیں چکر کاٹتی ہے، جب اُسے کوئی راستہ نہیں ملتا تو جس پر لعنت کی گئی ہو، اُس کی جانب پلٹتی ہے، اگر وہ اُس کا مستحق ہو تو فبھا، وگرنہ کہنے والے کی جانب پلٹ آتی ہے۔ “

زکوۃ ادا نہ کرنا :

زکوۃ ادا نہ کرنا سخت وعید کا سبب اور بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے، کیوں کہ زکوۃ دین اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ زکوۃ مال داروں کے ذمہ فقراء کا حق ہے، اور مال داروں پر لازم ہے کہ اس حق کو مستحقین تک پہنچائیں۔ جو لوگ زکوۃ کی ادائیگی سے بھاگتے ہیں، ان کے متعلق قرآنِ مجید اور احادیث میں بڑی سخت وعید اور آخرت میں دردناک عذاب کی وعید بیان ہوئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾
(9-التوبة:34)
”اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں، اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجیے ۔“
اور جو لوگ زکوۃ ادا نہیں کرتے ، قیامت کے روز ان کا مال گنجا سانپ بن کر ان کو ڈسے گا۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من آتاه الله ما لا فلم يؤد زكاته مقل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني بشدقيه ثم يقول أنا مالك أنا كنزك»
صحیح بخاري، كتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكوة، رقم: 1403 .
” جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا، اور اُس نے اُس کی زکوۃ ادا نہ کی تو قیامت کے روز اُس کا مال ایسے گنجے سانپ کی شکل اختیار کر کے جس کی آنکھوں پر دو (سیاہ) نقطے ہوں گے، اُس کے گلے کا طوق بن جائے گا، پھر اُس کے دونوں جبڑے چیر کر کہے گا: میں تیر امال اور خزانہ ہوں ۔“

طاقت کے باوجود حج نہ کرنا :

حج دین اسلام کا پانچواں رکن اور عظیم ترین اسلامی شعار ہے، جو شخص سامانِ سفر اور زادراہ رکھتا ہو، اُس پر لازم ہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی کرے۔ اور جو شخص طاقت کے باوجود اس فریضہ کی ادائیگی نہیں کرتا ، وہ بہت بڑے جرم اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ﴾
(3-آل عمران:97)
”اور اللہ کی رضا کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر فرض ہے، جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اور جو کوئی کفر کرے، تو اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ “
ملاحظه :
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں طاقت کے باوجود حج نہ کرنے کو” کفر“ سے تعبیر کیا ہے۔
علاوہ ازیں امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میر امقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں۔ وہ دیکھیں جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہیں کرتے ، ان پر جزیہ لگادیں، وہ مسلمان نہیں ہیں ، وہ مسلمان نہیں ہیں ۔“
(تفسیر ابن کثیر :520/10)

بلا عذر رمضان کے روزے ترک کرنا:

رمضان المبارک کے روزے رکھنا دین اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن اور انتہائی عظیم الشان فریضہ ہے۔ جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سابقہ امتوں کی طرح اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرض کیا ہے۔ اور جو شخص بلاعذر شرعی روزہ خوری کرے، اُس کے لیے بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ روزہ کی فرضیت بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
(2-البقرة:183)
”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔“
اور جو لوگ بلا عذر شرعی روزہ چھوڑ دیتے ہیں، ان کے لیے بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ سید نا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
«بينما أنا نائم؟ إذا رجلان، فأخذا بضبعي، فأتيابي جبلا وعرا، فقالالي: اصعد، حتى إذا كنت فى سواء الجبل، فإذا أنا بصوت شديد، فقلت: ما هذه الأصوات؟ قال: هذا عوا أهل النار ثم انطلق بي، فإذا أنا بقوم معلقين بعرا قيبهم مشققة أشداؤهم، تسيل أشدافهم دما، فقلت: من هؤلاء فقيل: هؤلاء الذين يفطرون قبل تحلة صومهم»
صحیح ابن حبان، رقم: 7448۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
”میں سویا ہوا تھا، اور میرے پاس دو آدمی آئے ، انھوں نے مجھے بازوؤں سے پکڑا ر مجھے ایک مشکل چڑھائی والے پہاڑ پر لائے، اور دونوں نے کہا: اس پر چڑھیں۔ میں نے کہا: میں نہیں چڑھ سکتا ۔ انھوں نے کہا: ہم آپ کے لیے سہولت پیدا کر دیں گے۔ پس میں چڑھ گیا، یہاں تک کہ میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا، جہاں میں نے شدید چیخ و پکار کی آوازیں سنیں۔ میں نے پوچھا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟ انھوں نے بتایا: یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے۔ پھر وہ میرے ساتھ آگے بڑھے، جہاں میں نے چند لوگ اُلٹے لٹکے ہوئے دیکھے، جن کے منہ چیرے ہوئے ہیں اور ان سے خون بہہ رہا ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: یہ وہ لوگ ہیں جوروزہ وقت سے پہلے افطار کیا کرتے تھے۔ “

کفار کی پیروی کرنا :

نیک لوگوں کے راستے یعنی صراط مستقیم کو چھوڑ کر کفار کے راستے کی پیروی کرنا انتہائی خطر ناک اور مہلک گناہ ہے۔ صاحب بصیرت اور شریعت اسلامیہ سے واقف کوئی شخص اس کھلی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ آج مسلمانوں کی اکثریت نے بہت ساری چیزوں میں کفار کی پیروی شروع کر رکھی ہے۔ سیرت، عادات و اطوار، گفتار و کردار اور چھوٹی بڑی بہت سی چیزوں میں ہم نے اہل مشرق کے ”ملاحدہ“ اور اہل مغرب کے ”لادینوں“ کی تقلید کو اپنایا ہوا ہے۔ بہر حال مسلمانوں کے لیے کسی کافر کی پیروی قطعی ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد ہے، جس میں مسلمانوں کو نماز کے دوران دعائیہ کلمات سکھائے گئے ہیں۔
﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎ ﴿٧﴾ ‏
(1-الفاتحة:6، 7)
”(اے اللہ!) ہمیں سیدھی راہ پر چلا ۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا، ان کی راہ پر نہیں، جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور نہ ان کی جو گمراہ ہوئے ۔ “
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو نماز وتر میں جو دعا مانگنے کے لیے کلمات سکھائے ، ان میں اول کلمات یہ تھے:
«اللهم اهدني فيمن هديت»
صحیح مسلم کتاب الحج، باب فضل المدينة، رقم: 3327 ۔
”اے اللہ ! مجھے ان لوگوں کی راہ پر چلا، جنھیں تو نے راہ دکھائی ۔ “
ان پر دو دلیلوں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کا راستہ الگ ہے یہودو نصاری اور دیگر کفار کا راستہ الگ ہے۔

سود خوری :

سودخوری کبیرہ گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ ہے، تا ہم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مقدس میں سود خوروں کے علاوہ کسی دوسرے سے اعلانِ جنگ نہیں فرمایا ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‎ ﴿٢٧٨﴾ ‏ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ‎ ﴿٢٧٩﴾ ‏
(2-البقرة:278، 279)
”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور جو سود لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے، اگر ایمان والے ہو، تو اُسے چھوڑ دو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا، تو اللہ سے اور اُس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ“
بہر حال تجارت اور ملکی سطح پر غور وفکر کرنے والے شخص کے لیے ان تباہ کاریوں اور ہلاکت آفرینیوں کا ادراک قطعاً مشکل نہیں، جو صرف اور صرف سودی لین دین کی پیدا کردہ ہیں ۔ جن میں افلاس، قرضوں کی ادائیگی سے عاجزی، اقتصادی ڈھانچے میں کمزوری اور معاشرے میں غربت و مفلسی اور امارت کے تعلق سے طبقاتی کشمکش کا وجود میں آنا وغیر ہ قابل ذکر ہیں ۔ اور ایسے میں نتیجتاً ملک کا بہتر سرمایہ چند افراد کے ہاتھوں میں گردش کرتا رہتا ہے، لیکن اس کھلی حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ سود خوروں میں اکثر لوگ محرومیوں کی عبرت ناک تصویر بن کے رہ جاتے ہیں۔ اور شاید یہ اس برے انجام کی ایک جھلک ہے، جو سود خوروں کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلان جنگ کی انتہائی سخت وعید اور تنبیہ کی صورت میں موجود ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ عالی شان کے مطابق سودی کاروبار میں شرکت کرنے والے تمام افراد لعنت کے مستحق ہیں۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ؟
«لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء»
صحیح مسلم، كتاب البيوع، باب لعن آكل الربا وموكله، رقم: 4093.
”رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والوں ، کھلانے والوں، لکھنے والوں اور گواہی دینے والوں سب پر لعنت فرمائی ہے، بلکہ فرمایا کہ یہ سب برابر کے گناہ گار ہیں ۔“
معلوم ہوا کہ سودی کاروبار میں معاونت کرنے والے جملہ امور قطعاً نا جائز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنک میں ملازمت کرنا بھی حرام ہے۔
یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ سود کی حرمت تمام افراد کے لیے عام ہے، چاہے کوئی سرمایہ دار ہو، یا فقیر مسکین، یا کوئی بھی شخص اس حرمت کے حکم سے خالی نہیں ہے۔
امر واقع شاہد ہے کہ کتنے ہی سرمایہ داروں، اور بڑے بڑے تاجروں کوسود نے مفلس بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«درهم ريا يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة وثلاثين زنية»
مسند أحمد: 225/5 رقم: 21957 – صحيح الجامع الصغير رقم: 3375۔ سلسلة الأحاديث الصحيحة رقم: 1033.
” جو آدمی سود جاننے کے باوجود اُس کا ایک درہم کھاتا ہے (وہ اُس کے لیے) چھتیس مرتبہ کے زنا سے زیادہ بھاری اور سخت ہے۔ “
سود کھانے والے حضرات اس حدیث پر ذرا غور فرمائیں، اور سود کا کم سے کم و بال یہ ہے کہ سود و الا مال گنتی میں کتنا ہی زیادہ ہو جائے ، مگر اُس کی برکت قطعی طور پر ختم ہو جاتی ہے، جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ما أحد أكثر من الربا إلا كان عاقبة أمره إلى قلة»
سنن ابن ماجه، کتاب التجارات باب التغليظ في الربا، رقم: 2279- مستدرک حاکم: 3762، رقم: 2390۔ حاکم اور علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سودی مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو، مگر اس کا انجام سوائے کمی کے کچھ نہیں ہوتا۔ “

رشوت لینا اور دینا:

رشوت لینا اور دینا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ کسی آدمی کو اُس کے حق سے محروم کرنے یا کوئی ناجائز اور غیر قانونی کام نکلوانے کی غرض سے حاکم پانج صاحبان یا کسی بھی صاحب عہدہ کو رشوت دینا، اور اُس کا رشوت کو قبول کرنا ، انتہائی گھٹیا جرم ہے، اس لیے کہ اس قسم کے کام فیصلوں میں نا انصافی کرنے ، صاحب حق پر ظلم وستم ڈھانے ، اور کرہ ارض پر فتنہ بپا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
(2-البقرة:188)
”اور تم اپنے اموال آپس میں ناحق نہ کھاؤ، اور نہ معاملہ حکام تک اس غرض سے پہنچاؤ تا کہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ نا جائز طور پر جانتے ہوئے کھا جاؤ“
اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلے میں رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے، جیسا کہ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ؛
«لعن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي فى الحكم»
سنن الترمذي، كتاب الأحكام، باب ماجاء في الراشي والمرتشي فی الحکم، رقم: 1336۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جو فیصلہ کرتے یا کراتے ہوئے رشوت لیں یا دیں۔ “
افسوس کہ دور حاضر میں رشوت کا دائرہ وسیع پیمانے پر پہنچ چکا ہے، ملازمت پیشہ افراد تو اپنی ماہانہ تنخواہ سے کہیں زیادہ رشوت سے کما لیتے ہیں، اور ان کے بیشتر معاملات رشوت کے لین دین سے شروع ہوتے ہیں، اور اس پر اختتام پذیر ہوتے ہیں ۔ یہ مرض ملازمین کی تباہی کا ایک بہت بڑا محرک ہے، اچھا عہدہ صرف اُس شخص کو نصیب ہوتا ہے جو کسی اہلکار کی مٹھی گرم کرے، جو ایسانہ کر سکے وہ اچھے عہدے سے بالکل محروم رہتا ہے۔ اور اس کے برعکس جو لوگ بذریعہ رشوت اپنے معاملات چلاتے ہیں، یہ رشوت کے ذریعے تو بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، اور پھر اپنے منصب کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی حق تلفی کرتے ہیں، اور کہیں پہلے فارغ ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔
اس طرح کے ظالم اور سخت دل لوگوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بددعا کا نشانہ اور ہدف بنتے ہوئے رحمت الہیہ سے دھتکار دیا جانا کچھ بعید از عقل یا تعجب خیز نہیں ہے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لعنة الله على الراشئ والمرتشى»
سنن ابن ماجه، كتاب الاحكام، باب التغليظ في الحيف والرشوة، رقم: 2313۔ صحیح الجامع الصغير رقم: 5114۔
”رشوت دینے اور لینے والے ( دونوں پر) اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ “

زمین پر نا جائز قبضہ کرنا :

جب انسان کے دل سے اللہ تعالیٰ کا خوف ختم ہو جائے تو انسان کی نفسی اور ذہنی قوت اُس کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے، اس لیے کہ وہ اُس نفسی اور ذہنی قوت کو لوگوں پر ظلم ڈھانے اور ان کے اموال پر قبضہ کرنے میں استعمال کرتا رہتا ہے۔ ان مظالم میں سے ایک بہت بڑا ظلم دوسروں کی زمینوں اور جائیدادوں پر نا جائز قبضہ اور انھیں غصب کرنا ہے، جبکہ اس گناہ کی اسلام میں بڑی بھیانک سز ا مقرر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
« من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيمة إلى سبع أرضين»
صحيح بخاري، كتاب المظالم، باب إثم من ظلم شيئًا من الأرض ، رقم: 2454۔
” جس شخص نے ناحق کسی کی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی دبالیا، تو قیامت کے روز اُسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔ “

سفارش کے عوض تحفہ قبول کرنا :

یقینا کسی شخص کا لوگوں کے درمیان صاحب مقام ومرتبہ ہونا ، اس پر اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، بشرطیکہ اس کا شکر بجالائے ، شکر بجالانے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے اس مقام و مرتبہ کو لوگوں کو نفع پہنچانے میں صرف کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے عموم سے ظاہر ہوتا ہے۔
«من استطاع منكم أن ينفع أخاه فليفعل»
اصحیح مسلم کتاب السلام، باب استحباب الرقية من العين والنملة والحمة والنظرة رقم: 5727۔
”تم میں سے جو شخص اپنے کسی بھائی کوفائدہ پہنچاسکتا ہو، توضرور پہنچائے ۔ “
جو شخص اپنے مقام و مرتبہ کے سبب اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچائے، جس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو، تو وہ اللہ کے ہاں اجر و ثواب کا مستحق ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«اشفعوا فلتوجروا»
صحيح بخاري، كتاب الأدب، باب تعاون المؤمنين بعضهم بعضا، رقم: 6027، 2028
”تم سفارش کر دیا کر وہ تمھیں اس کا ثواب مل جائے گا۔ “

سرکاری خزانے میں خرد برد کرنا :

سرکاری خزانہ یعنی بیت المال میں قوم کے فقراء اور غرباء کا حق ہوتا ہے، اور اسے ملکی کاموں پر بھی صرف کیا جاتا ہے، اور جو کوئی اس میں خرد برد کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے بیت المال میں خرد برد کرنے سے نہ صرف غربا اور فقراء کی حق تلفی ہوتی ہے، بلکہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی حرج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے بارے میں بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ارشادفرمایا:
«قم على صدقة بني فلان، وانظر لا تأتي يوم القيامة ببكر تحمله على عاتقك له رغاء يوم القيامة قال: يا رسول الله اصرفها عني فصرفها عنه»
مسند أحمد: 28565، رقم: 22461۔ شیخ شعیب ارناؤط نے اسے ”صحیح الخیرہ“ کہا ہے۔مسند البزار ، رقم: 3737۔
” تم جاؤ اور فلاں قبیلے کی زکوۃ جمع کر کے لاؤ۔ (لیکن ایک بات کا خیال رکھنا ) قیامت کے روز ایسی حالت میں نہ آنا کہ تمہاری گردن پر جوان اُونٹ ہو جو بلبلا رہا ہو۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! مجھے اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیجیے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سبکدوش فرمادیا۔ “

یتیم کا مال کھانا :

ہر مسلمان کا، بلکہ ہر آدمی کا فریضہ ہے کہ وہ یتیموں کے ساتھ حسن سلوک ان سے شفقت اور مہربانی کا سا معاملہ کرے، بالخصوص جو شخص ان کے مال کی سر پرستی اور نگہداشت کے لیے مقرر ہو تو اُس پر بالا ولی لازم ہے کہ وہ ان سے اچھا سلوک کرے۔ اور جو شخص اچھا سلوک کرنے کی بجائے یتیم بچوں کا مال ناجائز طریقے سے ہڑپ کر جائے، تو وہ شخص نہایت سخت گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اور اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ‎﴾
(4-النساء:10)
”جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور عنقریب بھڑکتی آگ کا مزہ چکھیں گے۔ “
اور سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«أربع: حق على الله أن لا يدخلهم الجنة، ولا يذيقهم نعيمها : مد من الخمر، و آكل الربا، و آكل مال اليتيم بغير حق، والعاق لوالديه»
مستدرک حاکم، رقم: 2307۔ امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
” اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ وہ چار آدمیوں کو جنت میں داخل نہیں کرے گا، اور نہ وہاں کی نعمتوں کا انھیں مزہ چکھائے گا، وہ چار قسم کے لوگ مندرجہ ذیل ہیں :
1: مسلسل شراب پینے والا یعنی عادی شرابی۔
2: سود کھانے والا۔
3: بیتیم کا مال ناجائز طریقے سے کھانے والا ۔
4: اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا ۔ “

حرام مال کھانا :

باطل طریقے سے کسی کا مال ہڑپ کرنا قطعی نا جائز وحرام اور مہلک ترین گناہ کبیرہ ہے، جو شخص اس گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس کی کوئی دُعا قبول نہیں ہوتی ، اور مزید یہ کہ ایسا شخص قیامت کے روز جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ﴾
(2-البقرة:188)
” اور تم اپنے اموال آپس میں ناحق نہ کھاؤ۔ “
«اور سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال عزوجل ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ‎﴾ (23-المؤمنون:51) ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾ (2-البقرة:172)
ثم ذكر الرجل يطيل السفر، أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء يا رب يا رب ومطعمه حرام ومشربه حرام، وملبسه حرام وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟»

صحیح مسلم کتاب الزكاة رقم: 1015.
”اے لوگو! اللہ پاک ہے، پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے، یقینا اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اُسی بات کا حکم دیا ہے، جس کا اپنے رسولوں کو حکم دیا تھا:
”اے میرے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمہارے عملوں کو خوب جانتا ہوں۔“
اور اہل ایمان سے کہا: ”اے ایمان والو! ہماری عطا کردہ پاکیزہ چیزیں کھاؤ“
پھر آپ نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو ایک طویل سفر طے کرتا ہے اور بکھرے بال، پراگندہ حالت والا ہوتا ہے، اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر صدا لگاتا ہے: اے میرے پالنہار ! اے میرے پروردگار ! حالانکہ اُس کا کھانا حرام، اُس کا پینا حرام، اُس کا پہننا حرام، (حتی کہ ) اُس کی ساری غذا حرام ہوتی ہے، پھر بھلا اُس کی دُعا کیسے مقبول ہو گی ؟“

ناپ تول میں کمی کرنا :

ایک دوسرے پر رحم دلی، اور ہمدردی اسلامی اخوت کا فریضہ، اور اُس کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اور اسلامی اخوت ہی نہیں، انسانی اخوت بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں اخلاص رکھنا چاہیے، اور آپس میں ناپ تول اور پیمائش میں قطعی طور پر کمی نہیں کرنی چاہیے۔ لہذا جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، وہ جرم عظیم کے مرتکب ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے مقدر میں ہلاکت لکھ رکھی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف مقامات پر مختلف انداز میں ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا ہے، جن میں سے چند ایک مقامات ہم ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔
﴿وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
(17-الإسراء:35)
”اور جب نا پوتو پیمانہ بھر کر دو، اور درست تر از و سے وزن کرو، یہی بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔ “

دھوکہ فریب دینا:

اسلامی اور انسانی اخوت کا تقاضا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے اچھا اور مخلصانہ برتاؤ رکھے۔ جس میں کسی قسم کی دھوکہ دہی ہو، اور نہ فریب کاری۔ اور اس کے برعکس جو شخص کسی کے ساتھ دھو کہ اور فریب دہی کرتا ہے، وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے، چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من غشنا فليس منا»
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : من غشنا فليس منا رقم: 283.
”جس نے ہمیں دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ۔ “

دھوکے سے بولی بڑھانا :

ویسے تو دھوکے کی بہت ساری صورتیں ہیں لیکن ان میں سے ایک اہم اور بڑی صورت یہ بھی ہے کہ ”انسان دھو کے سے اپنے مال کی بولی بڑھائے۔ “
بيع نجش عقد بیع کی ایک قسم ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ ایک ایسا آدمی جو سودے کا خریدار نہیں ہے لیکن قیمت میں اضافہ کر کے بولی دیتا ہے، تا کہ دوسرے شخص کو دھو کے میں ڈال کر اُسے مہنگے داموں سودا خریدنے پر آمادہ کرے۔ ایسے لوگ اکثر طور پر دکانداروں سے ملے ہوتے ہیں۔ اس طرح کسی کو دھوکہ دے کر خرید و فروخت کرنا سخت ممنوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے” بیع نجش “ سے منع فرمایا ہے:
«لا تناجشوا»
صحيح بخاري كتاب البيوع، باب لا يبيع على بيع أخيه الخ. رقم: 2139.
”بیع نجش مت کرو ۔ “

خیانت کرنا :

امانت میں خیانت کرنا ، بہت بڑا گناہ ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس فعل بد کے ارتکاب سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
(8-الأنفال:27)
”اے ایمان والو! اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو، اور جانتے ہوئے اپنے پاس موجود امانتوں میں خیانت نہ کرو۔“
سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«آية المنافق ثلات: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اثتمن خان»
صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب علامات المنافق، رقم: 33.
”منافق کی تین نشانیاں ہیں:
(1) جب بات کرے جھوٹ بولے ۔
(2) جب وعدہ کرے، تو خلاف ورزی کرے۔
(3) اور جب اُس کے پاس ( کوئی ) امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ “

ظلم کرنا :

کسی پر ظلم و ستم کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اور خصوصاً انسان پر ظلم کرنا، اس کی عزت و تکریم مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ لہذا جو لوگ کسی پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں، وہ اللہ تعالی کے ہاں درد ناک عذاب کے مستحق ہیں۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
(42-الشورى:42)
”الزام ان لوگوں پر ہے، جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، اور زمین میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں، انہی کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کی مذمت میں ارشاد فرمایا:
«الظلم ظلمات يوم القيامة»
صحيح بخاري، کتاب المظالم ، باب الظلم ظلمات يوم القيامة ، رقم: 2447۔
”و ظلم کرنے والے کے لیے قیامت کے روز اندھیرے ہوں گے۔ “
معلوم ہوا قیامت کے روز ظالم نور سے محروم ہو گا۔ اندھیرے پر اندھیرا یعنی ان اندھیروں میں وہ دھکے کھاتا اور سر گرداں پھرے گا۔

حاکم وقت کارعا یا پر ظلم کرنا :

حاکم وقت کار عایا پر ظلم کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ چنانچہ سید نا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ما من عبد يسترعيه الله رعية فلم يحطها بنصحه إلا لم يجد رائحة الجنة»
صحيح بخاري، كتاب الأحكام، باب من استرعى رعية فلم ينصح، رقم: 7150۔
”جس آدمی کو اللہ تعالیٰ عوام کا نگہبان بنائے ، اور وہ ان کی خیر خواہی نہ کرے ، تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔ “

جانوروں پر ظلم کرنا:

جانور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق پر ظلم کرنا ، بہت بڑا جرم ہے اور جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے، وہ اولاً : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کا مستحق ہے، اور ثانیاً: یہ کہ ایسا جرم انسان کو جہنم میں لے جانے کا سبب ہے۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
«أن النبى صلى الله عليه وسلم مر عليه حمار قد وسم فى وجهه فقال لعن الله الذى وسمه»
صحیح مسلم، کتاب اللباس والزينه، باب النهي عن ضرب الحيوان في وجهه وسمه فيه ، رقم: 5552۔
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گذرا جس کے منہ کو داغا گیا تھا، تو آپ نے فرمایا : اللہ اس پر لعنت کرے جس نے اسے داغا ہے۔ “
نیز سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«دخلت امرأة النار فى هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض»
صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب إِذا وقع الذباب فى شراب أحدكم فيلغمسه الخ، رقم: 3318 .
” ایک عورت” بلی“ کی وجہ سے جہنم میں گئی۔ اُس نے بلی کو باندھ دیا، اور اُسے نہ کھانا دیا ، نہ اُسے چھوڑا کہ وہ چل پھر کر زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی“

احسان جتلانا :

کسی کے ساتھ نیکی کر کے احسان جتلانا بہت بڑا گناہ ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ﴾
(2-البقرة:264)
”اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو۔ “

غیبت:

کسی کی غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے، اور اس گناہ کا ارتکاب کرنا گویا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے منع فرمایا ہے، نیز اپنے بندوں کو غیبت سے متنفر کرنے کے لیے ایک ایسی مثال بیان فرمائی، جس سے بلاشک وشبہ دل میں کراہت غیبت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ﴾
(49-الحجرات:12)
” اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا گوارہ کرے گا تم اُسے بالکل گوار انہیں کرو گے۔“
غیبت کیا ہے؟ اس کی تعریف کے لیے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ملا حظہ ہو :
«أتدرون ما الغيبة؟ قالوا الله ورسوله أعلم قال: ذكرك أخاك بما يكره قيل: أفرأيت إن كان فى أخي ما أقول؟ قال: إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وان لم يكن فيه فقد بهته»
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحريم العيبة، رقم: 6593.
” کیا تم جانتے ہو، غیبت کسے کہتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا ایسی بات کے ساتھ ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو، غیبت ہے۔ کسی نے کہا: اگر میرے بھائی میں وہ عیب پایا جاتا ہوتو ؟ فرمایا: جو عیب تم بیان کر رہے ہو، اگر وہ اُس میں پایا جاتا ہے تو تم نے اُس کی غیبت کی، اور اگر وہ اُس میں نہیں پایا جاتا تو تم نے اُس پر بہتان تراشا “

چغل خوری :

چغل خوری بھی بڑے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ہے، اس لیے کہ فساد کی غرض سے ایک دوسرے کی باتیں بطور چغلی بیان کرنا، ہمیشہ سے انسانی تعلقات کی خرابی اور دلوں میں بغض وعداوت کی آگ جلانے کا ذریعہ اور سبب رہا ہے۔ لہذا چغل خوری کا ارتکاب جنت میں داخل نہ ہونے اور عذاب قبر میں مبتلا ہونے کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ نے چغل خور کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ‎ ﴿١٠﴾ ‏ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ‎ ﴿١١﴾ ‏
(68-القلم:10تا11)
”اور آپ ہر زیادہ قسم کھانے والے ذلیل انسان کی بات نہ مانیں۔ جو عیب جوئی کرنے والا ، چغلی کھانے والا ہے۔ “
اور سید نا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لا يدخل الجنة قتات»
صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما يكره من النميمة، رقم: 6056۔
” چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “

پڑوسیوں سے بدسلوکی :

پڑوسیوں سے بدسلوکی کرنا اور انہیں ستانا انتہائی سنگین جرم ہے، اور جو شخص اس جرم کا مرتکب ہے، اُس کا دل ایمان کی حلاوت اور چاشنی سے خالی ہے، اللہ تعالیٰ نے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا﴾
(4-النساء:36)
”اور اللہ کی عبادت کرو، اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں اور یتیموں، مسکینوں ،رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی ، پہلو سے لگے ہوئے دوست ، مسافر ، غلام اور لونڈیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرتا ۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے، اور ان سے بدسلوکی کرنے اور انہیں ستانے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ سید نا ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليحسن إلى جاره»
صحيح مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار والضيف، رقم: 176 .
”جو شخص اللہ اور آخرت کے روز پر ایمان رکھتا ہے، اُسے اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔“

مزدور کو پوری اجرت نہ دینا:

مزدور کو اُس کی پوری اجرت (خواہ مخواہ) وقت پر ادا نہ کرنا، بڑا سخت گناہ ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کو اُس کی اجرت جلد از جلد ادا کرنے کی ترغیب دی ہے، چنانچہ سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«أعطوا الأجير أجرة قبل أن يجف عرفه»
سنن ابن ماجه، كتاب الرهن باب أجر الأجير رقم: 2443ـ مشكوة المصابيح، رقم: 2987 ۔ ارواء الغليل، رقم: 1498 ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”مزدور کو اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی مزدوری ادا کرو۔ “

قرض ادا نہ کرنا :

طاقت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا ، انتہائی سخت گناہ ہے، قرض در اصل ایک امانت ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے امانت کی ادائیگی کا بڑا سختی کے ساتھ حکم فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا﴾
(4-النساء:58)
”بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے مالکوں تک پہنچادو۔ “
ہمارے معاشرے میں جہاں دوسری بہت سی خرابیاں پھیلی ہوئی ہیں، وہاں ایک خرابی قرض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برتنے کی بھی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کے ہیبت ناک انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
«من أخذ أموال الناس يريد أداتها ألى الله عنه، ومن أخذ يريد إتلافها أتلفه الله»
صحیح بخاری، کتاب الاستقراض، باب من أخذ أموال الناس يريد ادائها واتلافها، رقم: 2387۔
”جو کوئی لوگوں سے بطور قرض مال لے اور اُسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو اللہ تعالٰی اسے ادئیگی کی طاقت بخش دیتا ہے، اور جو کوئی لوگوں سے قرض ہڑپ کرنے کے ارادے سے لے، تو اللہ تعالیٰ اُسے ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ “

چوری کرنا :

کسی کا مال چرانا انتہائی سنگین جرم اور بڑا گناہ ہے،شریعتِ اسلامیہ نے اس جرم کی بڑی سخت سز ا مقرر فرمائی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
(5-المائدة:38)
”چور اور چورنی کے ہاتھ کاٹ دیا کرو، یہ اُن کے کیے کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عذاب کے طور پر، اور اللہ قوت وحکمت والا ہے۔“
نیز جو شخص چوری کرتا ہے، وہ اُس وقت مؤمن نہیں رہتا، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن»
صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب ما يحذر من الحدود، رقم: 6772.
” اور جب چور چوری کرتا ہے، تو وہ مؤمن نہیں رہتا ۔“

ڈاکہ ڈالنا :

زبر دستی کسی کا مال چھینا اور راہ گیر مسافروں کو لوٹنا بڑا سخت گناہ ہے اور جو شخص اس گناہ کا مرتکب ہے، اُس کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں دردناک عذاب کی وعید ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾
(5-المائدة:33)
”جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلانے میں لگے رہتے ہیں، اُن کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے، یا اُنہیں سولی پر چڑھا دیا جائے، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیے جائیں، یا اُنہیں جلاوطن کر دیا جائے ، یہ رسوائی اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں انہیں عذاب عظیم دیا جائے گا۔“
واضح ہو کہ یہ آیت ، آیت ” محاربہ“ کہلاتی ہے، اُس کا شرعی اصطلاح میں اطلاق کفر، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار وغیرہ پر ہوتا ہے، نیز جو شخص ڈاکہ ڈالتا اور لوٹ مار کرتا ہے، وہ ایمان سے باہر ہو جاتا ہے، یعنی کامل مومن نہیں رہتا، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه فيها أبصارهم وهو مؤمن»
صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب ما يحذر من الحدود، رقم: 6772۔
” جب بھی کوئی لوٹنے والا لوٹتا ہے کہ لوگ ترستی ہوئی نگاہ سے اُسے دیکھ رہے ہوں، تو وہ مؤمن نہیں رہتا۔“

جوا کھیلنا :

جوا کھیلنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے، خواہ وہ تاش پتوں کی صورت میں ہو ،شطر نج کی صورت میں ہو، چوسر کی صورت میں ہو، میچ فکسنگ کی صورت میں ہو، پر چی بانڈز کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں، بہر صورت ہر قسم کا جوا حرام ہے، اس لیے کہ یہ ایک شیطانی فعل ہے جو معاشرے کا امن وسکون خراب کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں لڑائی جھگڑا اور نفرت پیدا کرنے کا سبب بھی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ”جوئے“ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا ہے۔
چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
(5-المائدة:90)
”اے ایمان والو! بے شک شراب، جوا، وہ پتھر جن پر بتوں کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے ہیں، اور فال نکالنے کے تیر ، نا پاک ہیں، اور شیطان کے کام ہیں۔ پس تم اُن سے بچو، شاید کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔“
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾
(5-المائدة:91)
”بے شک شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دینا چاہتا ہے، تو کیا تم لوگ (اب) باز آجاؤ گے۔“
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إن الله حرم على الخمر والميسر والكوبة»
سنن ابی داؤد، کتاب الأشربه، باب الأوعية، رقم: 3696۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”یقینا اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب ، جوا اور شطر نج حرام قرار دیا ہے۔“
مذکورہ بالا تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ جوا کھیلنا حرام ہے، بلکہ جوا کھیلنا تو کجا اس کے کھیلنے کی دعوت دینا بھی باعث گناہ ہے، جس کی تلافی صدقہ کرنا ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے،جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ومن قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق»
صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب من لم ير اكفار من قال : ذلك متأولا أو جاهلا، رقم: 2107 ۔
”جو شخص اپنے ساتھی سے کہے: آؤ جوا کھیلیں، تو اُسے چاہیے کہ صدقہ کرے، ( تا کہ وہ اُس گناہ کا کفارہ بن سکے )۔ “

شراب نوشی :

ہر قسم کی شراب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال قطعی حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اللہ تعالی نے شراب نوشی سے اجتناب کرنے کا قطعی حکم فرمایا ہے، اور اُس کے حرام ہونے پر قومی اور پختہ دلیل مندرجہ ذیل ارشاد الہی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎ ﴿٩٠﴾ ‏ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ‎ ﴿٩١﴾
(5-المائدة: 90، 91)
”اے ایمان والو! بے شک شراب، جوا ، وہ پتھر جن پر بتوں کے نام سے جانور ذبح کیے جاتے ہیں، اور فال نکالنے کے تیر نا پاک ہیں، اور شیطان کے کام ہیں، پس تم اُن سے بچو شاید کہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔ بے شک شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دینا چاہتا ہے، تو کیا تم لوگ (اب) باز آ جاؤ گے۔“
حدیث میں شراب نوشی کرنے والے کے لیے بڑی سخت وعیدہ وارد ہوئی ہے، چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إن على الله عزوجل عهدا لمن يشرب المسكر أن يسقيه من طينة الخبال قالوا : يا رسول الله وما طينة الخبال؟ قال: عرق أهل النار أو عصارة أهل النار»
صحيح مسلم، كتاب الأشربه، باب بيان أن كل مسكر خمر و أن كل خمر حرام، رقم: 5217۔
”اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے اپنے اوپر عہد کر رکھا ہے کہ جو نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں ، انہیں طينة الخبال میں سے ضرور پلائے گا، صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! طينة الخبال کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل جہنم کا پسینہ اور اُن کی گندگیوں کا نچوڑ “
اور سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ومن شرب الخمر مسكرا، لم تقبل له صلاته أربعين صباحا، وإن مات دخل النار ، فإن تاب تاب الله عليه، وإن عاد فشرب فسكر، لم تقبل له صلوة أربعين صباحا فإن مات دخل النار فإن تاب تاب الله عليه، وإن عاد فشرب فسكر ، لم تقبل له صلوة أربعين صباحا، فإن مات دخل النار فإن تاب تاب الله عليه، وإن عاد كان حقا على الله أن يسقبه من ردغة الخبال يوم القيامة، قالوا : يا رسول الله وما ردغة الخبال؟ قال: عصارة اهل النار»
سنن ابی داؤد، کتاب الأشربه، باب من شرب الخمر لم تقبل له صلوة، رقم: 3377۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” جس شخص نے شراب نوشی کی اور نشہ میں مست ہو گیا ، پس چالیس روز تک اُس کی نماز قبول نہیں کی جائے گی، اور اگر اس حال میں مر گیا ، تو (سیدھا) جہنم میں جائے گا، اور اگر توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف فرمادے گا، اگر دوبارہ شراب نوشی کی اور نشہ میں مست ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ اُس کی مزید چالیس روز تک کوئی نماز قبول نہیں کرے گا، اور اگر اسی حالت میں مر گیا تو (سیدھا) واصل جہنم ہوگا، اور اگر توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا، اور اگر پھر اُس نے شراب نوشی کی تو اللہ تعالیٰ اُس کی مزید چالیس روز تک کوئی نماز قبول نہیں فرمائے گا، اگر اسی حالت میں مرگیا، تو واصل جہنم ہوگا اور اگر توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا، اگر (چوتھی بار) پھر شراب نوشی کی تو پھر اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اُسے روز قیامت ردغبة الخبال میں سے پلائے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ردغبة الخبال کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جہنم ( کے زخموں کی گندگیوں ) کا نچوڑ ہے۔ “

تمبا کونوشی :

اسلام نے جہاں دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال ناجائز اور حرام قرار دیا ہے، وہاں تمباکو نوشی یعنی حقہ و سگریٹ وغیرہ کا استعمال بھی نا جائز اور حرام قرار دیا ہے، کیونکہ تمباکو نوشی کا استعمال انسان کو بدنی اور مالی نقصانات سے دو چار کر دیتا ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کے صریح مخالف ہے۔
چنانچہ پروفیسر ڈائمنڈ انسانوں کی بیس ہزار مختلف حالتوں پر بڑی دیر تک ایک لمبی مدت تحقیق اور ریسرچ کرتے رہے، اُن میں سے اسراف (فضول خرچی) کرنے والے، اعتدال کی راہ والے اور برائیوں سے باز رہنے والے بھی تھے۔ پروفیسر صاحب نے جان ہویکنز یونیورسٹی میں اُن میں سے ہر ایک کی فائل کھولی اور اس میں اس شخص کی عادات صحت اور اس کی بیماریوں سے متعلق سب کچھ درج کر دیا۔ اس کی تحقیقات کا آغاز 1919ء میں ہوا اور یہ 1940ء میں جا کر مکمل ہوئیں۔ اس پوری جد و جہد اور کاوش کا نتیجہ مندرجہ ذیل نکلا:
”تمباکو نوشی انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے، اور تمباکو کی استعمالی مقدار کے مطابق اس کی زندگی میں کمی کر دیتی ہے، اس سے گریز کرنے والے اعتدال کی راہ والوں سے عمروں کے اعتبار سے زیادہ لمبی زندگی پاتے ہیں اور اعتدال والے تمباکونوشی میں اسراف کرنے والوں سے زیادہ طویل زندگی پا جاتے ہیں۔“
بحوالہ تمباکو نوشی مضر صحت ص:39۔

تمباکونوشی کے بدنی نقصانات:

1 : نظر کا کمزور ہوجانا۔
2: دل کمزور اور دل کی دھڑکن کا نظام بے ترتیب ہو جانا۔
3 : پٹھوں میں کھچاؤ اور کمزوری کا آجانا۔
4: کھانسی بلغم اور گلے کا گھٹنا جیسی بیماریوں کا پیدا ہو جانا۔
5: بھوک میں کمی آجانا۔
6 : سرطان کی بیماری لگ جانا۔
7 : سینے کی بیماریاں پیدا ہو جانا۔
8 : مردانہ قوت میں کمی واقع ہو جاتا۔
9 : غذا سے مکمل طور پر فائدہ نہ پہنچنا۔
10 : خون کے خلیے خراب ہو جانا۔

تمباکو نوشی کے مالی نقصانات :

1 : مال کا ضیاع ۔
2 : مقروض ہو جانا۔
علاوہ ازیں تمباکو نوشی آدمی کے منہ کو بدبو دار بنادیتی ہے۔ اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ تمبا کو یعنی سگریٹ و حقہ نوشی کی بد بو لہسن اور پیاز سے کم مکروہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من أكل ثوما أو بصلا فليعتزلنا ، أو فليعتزل مسجدنا أو ليقعد فى بنته»
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 855 ۔
” جس نے لہسن یا پیاز کھایا ہو ، اُسے چاہیے کہ ہم سے، اور ہماری مسجد سے جدا رہے، اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔“
اس حدیث نبوی سے معلوم ہوا کہ جب لہسن یا پیاز کھانے والا آدمی بدبو کی وجہ سے مسجد یا اسلامی اجتماعات میں شرکت نہیں کر سکتا، تو تمباکو نوشی کرنے والا آدمی بطریق اولی مسجد یا اسلامی اجتماعات میں شرکت نہیں کر سکتا، کیونکہ تمباکونوشی کی بد بو لہسن یا پیاز سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

ہیروئین کی تباہی ، ہلاکت:

گذشتہ لوگ افیون اور بھنگ جیسی نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے تھے لیکن اب ہیروئین نے نسل انسانی میں تباہی مچارکھی ہے، ایسی گھٹیا اور ذیل عادت کی ابتدا سکول و کالج، یو نیورسٹی یا محلے سے ہوتی ہے۔ ایک بار کسی نے کش لگوا دیا ، تو بس عمر بھر کے لیے تباہی و ہلاکت مسلط ہوگئی ۔ انتہائی افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پہلے اس نشہ کا استعمال صرف لڑکے کرتے تھے لیکن اس جدید دور میں لڑکیاں بھی اُن کے شانہ بشانہ ہیروئن اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ جدید نشہ آور چیزوں کے استعمال سے بڑی تیزی کے ساتھ بیماریاں لاحق بھی ہوتی ہیں، اور ساتھ ساتھ اثر انداز بھی بہت جلد ہوتی ہیں۔
(امراض عامہ)

افیون کا استعمال:

افیون کا استعمال انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ جولوگ افیون کا استعمال کرتے ہیں، ان کے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، اور وہ عمومی طور پر بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ چنانچہ افیون کے استعمال سے آدمی اپنی دُنیا بھول کر خیالاتی اور تصوراتی دنیا میں بھٹکتا رہتا ہے، نیز پست ہمتی اور بے شعوری اس کا مقدر بن جاتی ہے، حتی کہ وہ معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔

حشیش کے نقصانات :

حشیش بھنگ کا دوسرا نام ہے، اور یہ بھی انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، اور اس کے استعمال سے خون کی کمی، بے ہمتی اور ذہنی انتشار لاحق ہو جاتا ہے، جو مجموعی اعتبار سے انسانی صحت پر انتہائی بُری طرح اثر انداز ہوتے ہیں، جس سے انسان کی صحیح فکر اور سوچ مفقود ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں حشیش کے کثرت استعمال سے آدمی بے قابو ہوجاتا ہے اور آخر کار موت کا شکار ہو جاتا ہے۔

زنا کاری:

بیوی یا لونڈی کے علاوہ کسی اور سے جنسی خواہش پوری کرنا، بڑا سنگین جرم ہے، کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ عزت اور نسل کی حفاظت شریعت کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے، بنا بریں شریعت نے زنا کو حرام قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾
(17-الإسراء:32)
زنا کے قریب نہ جاؤ، بلاشبہ وہ بڑی بے شرمی کا کام ہے، اور بُرا راستہ ہے۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ‎ ﴿٦٨﴾ ‏ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ‎ ﴿٦٩﴾ ‏
(25-الفرقان:68، 69)
”اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے ، اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے، اُسے ناحق قتل نہیں کرتے ، اور نہ وہ زنا کرتے ہیں، اور جو کوئی ایسا کرے گا، وہ اپنے گناہوں کا بدلہ پائے گا، قیامت کے دن اُس کا عذاب دہرا کر دیا جائے گا، اور وہ اُسی میں ہمیشہ کے لیے ذلیل وخوار بن کر رہے گا ۔ “
مرتکب زنا ایمان سے خالی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إذا زني الرجل خرج منه الإيمان كان عليه كالظلة، فإذا أقلع رجع إليه الإيمان »
سنن ابی داؤد، کتاب السنه، باب الدليل على زيادة الايمان ونقصانه، رقم: 4690۔ سنن ترمذی کتاب الایمان، باب ما جاء لا يزني الزاني وهو مؤمن، رقم: 2625۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”جب کوئی بندہ زنا میں مشغول ہوتا ہے، تو اُس سے ایمان نکل کر سائبان کی طرح اُس کے سر پر ہو جاتا ہے، پس جب وہ ( زنا سے ) جُدا ہوتا ہے، تو اُس کا ایمان پھر واپس آجاتا ہے۔“
زنا کی وجہ سے اُس شخص کا معاملہ انتہائی خطر ناک بن جاتا ہے، جو بڑھاپے اور قبر کے قریب پہنچ جانے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرتا ہو، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم، قال أبو معاوية ولا ينظر إليهم ولهم عذاب أليم شيخ زان، وملك كذاب، وعائل مستكبر»
صحیح مسلم کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار رقم : 296 ۔
تین افراد ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالی روز قیامت نہ کلام فرمائے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور نہ ہی ان کی طرف نظر فرمائے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا، (اور وہ تین افراد مندرجہ ذیل ہیں)
1 : بوڑھا آدمی جو زنا کرتا ہے۔
2 : جھوٹ بولنے والا بادشاہ۔
3 : متکبر فقیر ۔

لواطت :

مردوں سے جنسی خواہش پوری کرنا یا عورتوں کو غیر فطری راستے سے آنا، انتہائی قبیح گناہ اور غیر اخلاقی جرم ہے، اور ایسا مجرم روز قیامت اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے محروم ہوگا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ‎ ﴿٢٨﴾ ‏ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ‎ ﴿٢٩﴾
(29-العنكبوت:28، 29)
”اور ہم نے لوط کو نبی بنا کر بھیجا، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: تم ایسی برائی کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے بھی نہیں کی ۔ کیا تم مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، راہ چلتے مسافروں کو لوٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بے حیائی کے کام کرتے ہو۔ “
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لا ينظر الله الى رجل أتى رجلا أو امرأة فى الدبر»
سنن ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء في كراهية ايتان النساء في أدبارهن، رقم: 1165 ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”اللہ تعالیٰ ایسے مردکو ( روز قیامت) نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، جو کسی مرد کے پاس شہوت سے آتا ہے، یا عورت کے پاس غیر فطری راستے سے آتا ہے۔ “
شریعت اسلامیہ نے ایسے فعل کے مرتکب کی سزا قتل قرار دی ہے، نیز جس کے ساتھ یہ فعل کیا گیا ہے، اس کی رضامندی سے واقع ہوا ہو، تو بھی اُسے قتل کر دیا جائے گا، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعولبه»
سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، باب فیمن عمل عمل قوم لوط، رقم: 4462۔ سنن ترمذی، کتاب الحدود، باب ما جاء في حد اللوطی، رقم: 1456۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کیا ہے۔
”جس کسی کو تم قوم لوط کا عمل کرتے پاؤ، تو فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کر ڈالو ۔“
شریعت اسلامیہ نے اس فعل بد کی جو سز امقرر کی ہے، اُس کی حکمت بالکل واضح ہے کہ معاشرہ بے راہ روی کا شکار نہ ہو، اور اس فعل سے لگنے والی موذی اور جان لیوا بیماری کی بیخ کنی ہو، آج کل امریکہ، انگلینڈ اور انڈیا جیسے ممالک میں یہ بیماری بہت زیادہ پھیل رہی ہے۔

مشت زنی:

مشت زنی یعنی ہاتھ سے جنسی خواہش پوری کرنا، انتہائی گھٹیا اور غلط کام ہے۔ جنسی خواہشات کی تسکین یا تو بیوی کے ساتھ جائز ہے یا پھر لونڈی کے ساتھ ، علاوہ ازیں اس کے جائز ہونے کی اور کوئی جائز صورت نہیں ہے، مشت زنی ان دونوں صورتوں سے باہر ہے، لہذا جو شخص اس کا مرتکب ہوگا ، یقینا وہ حد سے بڑھ جانے والا اور ملامت کا مستحق ٹھہرے گا، جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ‎ ﴿٧﴾
(23-المؤمنون:5تا7)
” اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں اور مملوکہ عورتوں کے، ایسی صورت میں وہ لوگ لائق ملامت نہیں ہیں ، جو لوگ اس کے سوا کچھ اور چاہیں گے، وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔“

تکبر :

دوسروں کو حقیر اور گھٹیا سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا معزز اور پروقار سمجھنا کبیرہ گناہ ہے، اور ایسے شخص کا ٹھکانہ بہت بڑا ہے، نیز تکبر اللہ تعالیٰ کی محبت سے دوری اور جنت میں داخل نہ ہونے کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ﴾
(16-النحل:23)
”بے شک اللہ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔ “

کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھنا:

چادر، شلوار، قمیص اور عمامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، بڑا سخت گناہ ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلے علیم نے ارشاد فرمایا:
«ما أسفل من الكعبين من الإزار فى النار»
صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار، رقم: 5787 ۔
”تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو، وہ جہنم میں ہوگا۔ “

حسد کرنا:

کسی سے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت یا فضل پر حسد کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اور حسد آدمی کے دین کو بالکل اُسی طرح مونڈھ کے رکھ دیتا ہے، جس طرح بیماری آدمی کے بالوں کو ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہود کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ﴾
(4-النساء:54)
”اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو دیا ہے، اُس پر حسد کرتے ہیں ۔ “
اور سید نا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
«دب إليكم داء الأمم قبلكم الحسد والبغضاء، هي الحالقة، لا أقول تحلق الشعر ولكن تحلق الدين»
سنن ترمذی، کتاب صفة القيامة والرقاق والورع، باب: 65 ، رقم: 2510- صحيح الأدب المفرد، رقم: 197.

جھوٹ بولنا :

بات کرتے وقت جھوٹ بولنا انتہائی گھٹیا حرکت اور بڑا سخت گناہ ہے، چنانچہ ارشاد الہی ہے:
﴿إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ﴾
(16-النحل:105)
”جھوٹ تو وہ لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ، اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔ “
ویسے تو جھوٹ کے بہت سے ذیلی عنوان باندھے جاسکتے ہیں لیکن ہم چند ایک عنوانات پر اکتفا کرتے ہیں۔
بتوفيق الله تعالى وبعونه

بدگمانی:

بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ جیسا کہ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث»
صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ۔ رقم: 6066۔ صحيح مسلم كتاب البر والصلة، باب تحريم الظن والتججس رقم: 6536۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا﴾
(49-الحجرات:12)

”بد گمانی سے بچو، کیونکہ بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ “

جھوٹی گواہی:

کسی لالچ یا تعلق داری (وغیرہ) کی وجہ سے جھوٹی گواہی دینا بھی بڑا سنگین جرم ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹی گواہی دینے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾
(22-الحج:30)
”پس تم لوگ گندگی یعنی بتوں کی عبادت اور جھوٹی بات کہنے سے بچو۔ “

جھوٹا خواب بیان کرنا :

لوگوں پر برتری حاصل کرنے ، مالی فوائد سمیٹنے ، کسی سے کوئی عداوت ہے تو اُسے خوف میں مبتلا کرنے یا کسی اور مقصد کے حصول کے لیے کوئی ایسا خواب بیان کرنا جو دیکھا نہ ہو، انتہائی سخت گناہ ہے۔ حدیث میں جھوٹا خواب بیان کرنے والے کے لیے بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے، چنانچہ سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من تحلم بحلم لم يره كلف أن يعقد بين شعيرتين ولن يفعل»
صحیح بخاری، کتاب التفسير باب من كذب في حلمه، رقم: 7042.
” جس شخص نے ایسا خواب بیان کیا جو اُس نے دیکھا ہی نہیں، قیامت کے روز اُسے مکلف کیا جائے گا کہ جو کے دو دانوں کو گرہ لگائے ، اور وہ یہ ہر گز نہیں کر پائے گا۔“

لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا:

لوگوں کو محض ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی بڑا سخت گناہ ہے، بلکہ موجب ہلاکت ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
«ويل للذى يحدث فيكذب ليضحك به القوم ويل لمويلله»
سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب فی التشديد في الكذب، رقم: 4950۔ سنن ترمذی، کتاب الزهد باب فيمن تكلم بكلمة يضحك بها الناس، رقم: 2315۔ صحیح الجامع الصغير رقم: 7136.
” اُس آدمی کے لیے ہلاکت ہے، جو (محض) لوگوں کو ہنسانے کے لیے باتوں میں جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اُس کے لیے ہلاکت ہے۔ “
ہمارے ممالک کے ڈراموں اور اسٹیج شو میں لوگوں کو جھوٹ بول کر ہنسایا جاتا ہے اور غلو، لغو فضول جھوٹ، گندے اخلاق، طنزیہ باتوں کے علاوہ لوگوں میں بے ہودہ باتوں کی ترویج کی جاتی ہے۔

جھوٹی قسم کھانا :

جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا ، خواہ وہ کسی بھی معاملہ میں ہو بڑا سخت گناہ ہے، اور ایسا شخص قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور اُس کی نظیر رحمت سے محروم ہوگا، نیز ایسا شخص دردناک عذاب کا مستحق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‎﴾
(3-آل عمران:77)
”بے شک جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے میں کوئی معمولی قیمت قبول کر لیتے ہیں، آخرت میں اُن کو کوئی حصہ نہیں ملے گا، اور اللہ اُن سے بات نہیں کرے گا، اور قیامت کے دن اُن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا بھی نہیں، اور نہ انہیں پاک کرے گا ، اور اُن لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔“
یعنی جو لوگ دنیا کی حقیری رقم اور معمولی قیمت پر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کا پاس نہیں رکھتے ، انہیں آخرت کی نعمتوں اور وہاں کے اجر میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، بلکہ اُن کے لیے دردناک عذاب ہو گا، قسم کی تین انواع ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں۔
1۔ یمین لغو ۔
2۔ یمین غموس۔
3۔ یمین معلقہ ۔

یمین لغو:

دوران گفتگو ارادے کے بغیر بے ساختہ قسم کھانا یمین لغو کہلاتا ہے، مثلاً اللہ کی قسم ! تم اسے پی لو، اللہ کی قسم ! تم اسے پڑھ لو، وغیرہ ، ایسی قسم پر نہ کوئی گرفت ہوتی ہے اور نہ کوئی کفارہ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾
(2-البقرة:225)
” اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہار ا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن اُن ( قسموں ) پر تمہارا مواخذہ کرے گا، جو تم نے دل سے کھائی ہوں گی، اور اللہ مغفرت کرنے والا اور بڑا بردبار ہے۔ “

یمین غموس :

جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا ”یمین غموس“ کہلاتا ہے، اور ایسی قسم پر بڑا سخت مواخذہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾
(16-النحل:94)
”اور تم لوگ ایسی قسموں کو آپس میں دھوکہ دہی کا ذریعہ نہ بناؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کا قدم اسلام پر جمنے کے بعد ( تمہارے اس برتاؤ کی وجہ سے) پھسل جائے ، اور اللہ کی راہ سے روکنے کی وجہ سے تمہیں سزا بھگتنی پڑے، اور (آخرت میں ) تمہارے لیے بڑا عذاب ہے۔ “
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی قسم کو بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«الكبائر الإشراك بالله ، وعقوق الوالدين ، وقتل النفس، واليمين الغموس»
صحیح بخاری کتاب الایمان، باب اليمين الغموس، رقم: 6675.
”کبیرہ گناہ ( یہ ہیں کہ ) اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کی ناحق جان لینا اور جھوٹی قسم کھانا۔ “

یمین معلقه :

مستقبل میں کرنے والے کام سے متعلق قسم کھانا یمین معلقہ کہلاتا ہے، جیسے اللہ کی قسم ! میں فلاں کام نہیں کروں گا، اللہ کی قسم ! میں فلاں سے ہم کلام نہیں ہوں گا، وغیرہ ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ قسم سے متعلق حکم الہی یہ ہے کہ مسلمان جب قسم کھائے تو اُسے پورا کرے لیکن اگر قسم ایسی ہو جو کسی عمل صالح کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو، تو ایسی قسم توڑ دی جائے گی اور اُس نیک وصالح کام کو پورا کیا جائے گا، اور قسم کا کفارہ ادا کیا جائے گا، اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾
(2-البقرة:224)
”اور تم لوگ اپنی قسموں میں اللہ کو (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ ، تا کہ لوگوں کے ساتھ بھلائی ، تقویٰ اور اُن کے درمیان اصلاح کا کام نہ کرو ، اور اللہ خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے۔ “
سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها، فليأت الذى هو خير وليكفر عن يمينه»
صحیح مسلم کتاب الایمان، باب ندب من حلف يمينأفرأى غيرها خيرا منها أن يأتى الذى هو خير ويكفر عن يمينه ، رقم: 4273 ۔
”جو کوئی قسم کھائے، اور بعد میں اُس سے بہتر کوئی دوسری صورت نظر آئے، تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے، اور وہی کرے جو بہتر ہے۔“

دیوثیت :

اپنے اہل و عیال میں اخلاقی برائی دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا یا اُسے برداشت کر لینا، اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب بھی ہے، اور اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جنت حرام قراردی ہے، چنا نچہ سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ثلاثة قد حرم الله عليهم الجنة مد من الخمر و العاق، والديوت الذى يقر فى أهله الخبث»
مسند احمد، 13462، رقم 218 – شعب الایمان، رقم: 10799 ۔ صحیح الجامع الصغير رقم: 3052۔ سنن نسائی، کتاب الزكاة، باب المنان بما أعطى، رقم: 2522۔
”تین آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے،
1 : ہمیشہ شراب پینے والا ۔
2 : والدین کی نافرمانی کرنے والا۔
3 : اور دیوث جو اپنے اہل وعیال میں بے حیائی کو برداشت کرتا ہے۔ “

حلالہ کرنا یا کروانا :

عورت تیسری طلاق کے بعد خاوند پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، جو کہ شرعی اور دائمی ہو ، اور وہ خاوند اپنی مرضی سے اُسے طلاق دے یا فوت ہو جائے، تو عدت پوری کرنے کے بعد وہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرنے کی مجاز ہوگئی، اس کے برعکس اگر دوسرے مرد سے نکاح عارضی طور پر کیا جائے ، تا کہ ایک یا دو دن گذر جانے کے بعد طلاق دے کر پہلے مرد کے لیے اُسے حلال کر دے، اسے حلالہ کہتے ہیں، اور ایسا کام کرنے یا کروانے والے دونوں پر لعنت کی گئی ہے، چنانچہ سید نا علی و حارث رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
«إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن المحل والمحلل له»
سنن ترمذى كتاب النكاح، باب ماجاء في المحلل والمحلل له، رقم: 1119۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے اور کروانے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے۔“

کنجوسی کرنا :

صلہ رحمی ، جہاد یا اللہ کی راہ میں کسی بھی خیر کے کام میں خرچ کرنے میں کنجوسی برتنا بھی بڑا سخت گناہ ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اس سے بچنے کے لیے پناہ طلب کی ہے، نیز کنجوسی کرنا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینے کے مترادف ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴾
(9-التوبة:67)
”منافق مرد اور منافق عورتیں سب کا حال ایک ہے، سبھی بُرائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں، اور اللہ کو بھول گئے، تو اللہ بھی انہیں بھول گیا ، بے شک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں ۔“

فضول خرچی :

اللہ تعالیٰ نے انسان کو رزق کی نعمت سے مالا مال کیا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ وہ اس نعمت کو اعتدال اور میانہ روی سے استعمال میں لائے ، تاکہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن سکے، اس کے برعکس جو شخص اس نعمت کا استعمال اعتدال اور میانہ روی کی بجائے ، اس میں فضول خرچی اور اسراف کرتا ہے، تو وہ ناشکرا ہے، بلکہ ناشکری میں شیطان کی مانند ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ‎ ﴿٢٦﴾ ‏ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ‎ ﴿٢٧﴾ ‏وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا ‎ ﴿٢٨﴾ ‏ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿‎٢٩﴾
(17-الإسراء:26تا29)
”اور رشتہ داروں کا ، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہوتے ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے، اگر تم ان لوگوں سے پہلوتہی کرو، اپنے رب کی جانب سے اس روزی کی خواہش کرتے ہوئے جس کی تمہیں امید ہے، تو ان سے کوئی اچھی بات کہہ دو اور اپنے ہاتھ کو ( بخل کی وجہ سے ) اپنی گردن سے باندھا ہوا نہ رکھو، اور نہ (فضول خرچ بن کر) اُسے بالکل ہی کھول دو کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھے جائے۔ “

دنیا کی حرص:

عارضی چیز عارضی ہوتی ہے، خواہ وہ بظاہر کتنی ہی حسین اور خوبصورت نظر کیوں نہ آئے ، یہی حال دنیا کا ہے کہ یہ بظاہر تو اپنی دلکشیوں اور اپنی زمینوں کی وجہ سے بہت خوبصورت نظر آتی ہے، جب کہ حقیقت میں یہ ایک دھوکہ اور فریب ہے، اور سادہ لوح انسان اس فریبی دنیا کے حرص کا شکار ہے لیکن یادر ہے کہ جو شخص صرف دنیا کا حریص ہے، اُسے دنیا میں تو اپنی محنت کا صلہ مل جائے گا لیکن آخرت میں اُسے سوائے آگ کے اور کچھ نہیں ملے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ‎ ﴿١٥﴾ ‏ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎ ﴿١٦﴾
(11-هود:15تا16)
”جو شخص دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتا ہے، تو ہم دنیا میں اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیتے ہیں، اور اس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی، یہی وہ لوگ ہیں، جنہیں آخرت میں عذاب نار کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا، اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا ہوگا، ضائع ہو جائے گا، اور جو کچھ وہاں کرتے رہے تھے (ایمان کے بغیر) بے کار ہی تھا۔ “

مردوں کا سونے کے زیور پہننا :

مردوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے سونا حرام کیا ہے، خواہ وہ انگوٹھی کی شکل میں ہو یا خواہ وہ زنجیر کی شکل میں ہو، خواہ کسی اور شکل میں ہو، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
«رأى خاتما من ذهب فى يد رجل فنزعه فطرحه وقال يعمد أحدكم إلى جمرة من نار فيجعلها فى بدم»
صحیح مسلم، كتاب اللباس والزينة باب تحريم خاتم الذهب، رقم : 2090۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار پھینکا اور فرمایا: تم میں سے کوئی ایک آگ کا انگارہ پکڑتا ہے، اور اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے۔

خودکشی کرنا :

خودکشی ایک ایسا جرم ہے جس کے کرنے سے انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچ گیا ہوں، لیکن حقیقت میں وہ ہمیشہ کی مصیبت میں اپنے آپ کو گرفتار کر لیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ‎ ﴿٢٩﴾ ‏ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا ‎ ﴿٣٠﴾
(4-النساء:29، 30)
”اے ایمان والو! آپس میں مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے خرید و فروخت ہو، اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے، اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم کرے گا ، تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے ، اور یہ اللہ پر آسان ہے۔“
صحیح مسلم کی روایت میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے، اور اس کو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
«قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قتل نفسه بحديدة فحديدته فى بده يتوج بها فى بطنه فى نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحشاه فى نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى فى نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا »
صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب ان من قتل نفسه بشیی رقم: 109 .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے آپ کو تیز دھاری دار آلے کے ساتھ قتل کیا تو وہ تیز دھاری دار آلہ اس کے ہاتھ میں ہوگا، اور مسلسل جہنم کی آگ میں اس کے ساتھ اپنے پیٹ کو چاک کرتا رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ تک جہنم کی آگ میں زہر پیتا رہے گا، اور جس نے کسی پہاڑ سے گر کر خود کشی کی تو وہ اسی طرح جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پہاڑ سے گر کر خود کشی کرتا رہے گا ۔ “

دوسروں کو دعوت عمل دینا اور خود بد عمل ہونا :

یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے بچنے والا انسان بہت خوش قسمت ہے، جو جیسی دعوت دیتا ہے ویسا ہی عمل کرتا ہے لیکن اس کے برعکس دوسروں کو دعوت عمل دینا، اور خود بے عمل اور بدعمل ہونا ، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎ ﴿٢﴾ ‏ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎ ﴿٣﴾ ‏
(61-الصف:2تا3)
”اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جس پر خود عمل نہیں کرتے ، یہ بات اللہ کو بہت ہی زیادہ ناپسند ہے، کہ تم وہ بات کہو جس پر خود عمل نہیں کرتے ۔“

لوگوں کے گھروں میں بلا اجازت جھانکنا :

بغیر اجازت کسی کے گھر تانک جھانک کرنا گناہ کا کام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا﴾
(24-النور:27)
”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو“
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، اجازت لینا اس لیے ضروری ہے کہ بلا اجازت داخلے میں گھر والوں کی (کسی بھی طرح کی ) بے پردگی کا امکان ہوتا ہے، یہی علت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں مذکور ہے:
«أن رجلا اطلع فى جحر فى باب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، ومع رسول الله صلى الله عليه وسلم مدرى يحك به رأسه، فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لو أعلم أنك تنتظرني لطعنت به فى عينك، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنما جعل الإذن من أجل البصر»
صحیح مسلم، کتاب الادب، باب تحریم النظر فی بیت غیره، رقم: 5638۔
” ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سوراخ سے جھانکا ، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک آلہ تھا، جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کھجا رہے تھے ، جب اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا، تو فرمایا : اگر مجھے علم ہوتا کہ تو مجھے دیکھ رہا ہے، تو میں اس کو تیری آنکھوں میں چبھو دیتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اجازت کا حکم اس دیکھنے ہی کی وجہ سے تو مقرر کیا گیا ہے۔ “

دو آدمیوں کا تیسرے آدمی کو چھوڑ کر سر گوشی کرنا :

یہ بھی ایک سنگین گناہ ہے، اور شیطان کے لیے ذریعہ فساد ہے، جس کے ذریعے سے یہ مسلمانوں میں اختلاف، باہمی عداوت اور بغض کے بیچ ہوتا ہے، مثال کے طور پر تین آدمیوں میں سے دو آدمی علیحدگی میں کوئی سرگوشی کرتے ہیں ، خواہ وہ ان کے فائدے کے لیے ہو لیکن شیطان تیسرے آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ شاید یہ میرے خلاف کوئی منصوبہ بنارہے ہیں، وغیرہ ، ایسے خیالات ڈال کر وہ ان پر حملہ آور ہو جاتا ہے، اس لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ سید نا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
«قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كنتم ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون الآخر حتى تختلطوا بالناس من أجل أن تحزنه»
صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم المناجات الاثنين، رقم: 4996۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم تین ہو تو تیسرے کے بغیر دو آپس میں سرگوشی نہ کرو، تا آنکہ اور لوگ آجائیں، کیونکہ ایسا کرنا، یعنی دو آدمیوں کا علیحدہ ہو کر مشورہ کرنا اس تیسرے آدمی کو غمزدہ کرنے کا باعث ہے۔“

فحاشی و عریانی پر مبنی فلمیں دیکھنا:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل، ولا المرأة إلى عورة المرأة، ولا يفضي الرجل إلى الرجل فى ثوب واحد، ولا تفضى المرأة إلى المرأة فى الثوبالواحد»
صحیح مسلم، کتاب الحیض ، باب تحریم العوالي الصورات، رقم: 768۔
”یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مرد مرد کے ستر (شرمگاہ) کو نہ دیکھے، اور عورت عورت کے ستر (شرمگاہ) کو نہ دیکھے، اور مرد مرد کے ساتھ برہنہ ایک کپڑے میں نہ لیٹے ، اور نہ عورت عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں برہنہ لیٹے ۔“
اس حدیث مبارکہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کو ایک ایسا اصول بتایا ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت سی ایسی برائیوں اور گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں، تو اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو مرد کی شرمگاہ اور عورت کو عورت کی شرمگاہ دیکھنے سے منع کیا ہے لیکن مرد کے لیے غیر محرم عورت کے سر تا پاؤں کسی بھی حصے کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے، اسی طرح ہمارے معاشرے میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور فلمیں ، ان میں اس چیز کا خصوصاً اہتمام ہوتا ہے، مرد کے سامنے عورت بے پردہ اور آدھی سے زیادہ بر ہنہ ہوتی ہے، اور ان فلموں میں ایسا کردار ادا کیا جاتا ہے، جس سے نوجوان نسل خواہ مرد ہو یا عورت وہ شہوت سے مغلوب ہو کر وہی کچھ کرتے ہیں جو انہوں نے دیکھا ہوتا ہے۔ اس لیے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ستر دیکھنے کی ممانعت ہے۔ اور ان کا برہنہ ہو کر مردوں کے ساتھ خلوت نشینی اور بدکرداری کا اظہار کرنا، وہ تو اس سے بھی سنگین جرم ہے۔ اور ایسی عورتوں اور مردوں کو جو اپنے ستر کی حفاظت نہیں کرتے ، ان کے انہی اعضاء پر جہنم کی آگ لگائی جائے گی ، ظاہراً تو دیکھنے والوں کے لیے لذت بھرا منظر ہوتا ہے، لیکن اخروی عذاب کے مقابلہ میں یہ انتہائی گھٹیا اور شرم ناک فعل ہوتا ہے۔

حقیقی والد کی بجائے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا :

کچھ لوگ رسمی کاغذات میں جھوٹے انساب کا اندراج کرا لیتے ہیں اور کچھ لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے باپ نے انہیں بچپن ہی میں چھوڑ دیا ہوتا ہے، لہذاوہ ناراضگی اور نفرت جتانے کے لیے اپنی ولدیت بدل ڈالتے ہیں، جبکہ یہ سب حرام ہے اور اس کام کی حرمت شریعت میں وارد ہوئی ہے حتی کہ جو شخص ایسا کرتا ہے، اس پر جنت حرام ہو جاتی ہے۔ چنانچہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم فالجنة عليه حرام»
سنن ابی داود، باب ماجاء فی خضاب السواد ،اقم 4212، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”جو شخص اپنے حقیقی باپ کی بجائے دوسرے کی طرف منسوب ہو، اور اسے اس بات کا علم بھی ہو تو اس پر جنت حرام ہے۔“

بالوں کو سیاہ خضاب لگانا :

بالوں کو سیاہ خضاب لگانے کے بارے میں صحیح اور راجح بات یہی ہے کہ یہ حرام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں اس فعل کو کرنے کی زبر دست وعید آئی ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
«يكون قوم يخضبون فى آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة»
صحیح بخاری ، کتاب المغازی ،رقم 4336، 4327۔
”آخری زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے، جو کالے رنگ کا خضاب استعمال کریں گے، جس کی کیفیت کبوتر کے پیٹ کی مانند ہوگی، یہ لوگ جنت کی خوشبو نہیں پاسکیں گے ۔“
خوبصورتی کے لیے چہرے کے بال اکھاڑنا :
خوبصورتی کے لیے بال اکھاڑنا، خواہ مرد ہو یا عورت، یہ ایسا کام ہے جس کے کرنے والے کو ملعون قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ تخلیق خداوندی کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے، اور جو اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرتا ہے، گویا کہ وہ شراکت کا اعتراف کرتا ہے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
«لعن الله الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنقصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله»
صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب تحريم الواصلة والمستوصلة، رقم:5573.
”اللہ تعالیٰ نے خوبصورتی کے لیے جسم میں رنگ بھرنے و بھروانے والی پر بال اکھاڑنے و اکھٹروانے والی پر اور دانتوں میں فاصلہ کرنے والی پر لعنت کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں ۔ “

داڑھی کا مذاق اڑانا :

داڑھی رکھنا فرض اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى»
صحیح مسلم کتاب الطهارة، باب فضل الفطرة، رقم: 200.
”داڑھیوں کو معاف کر دو، (بڑھاؤ ) اور مونچھیں کتر واؤ ۔“
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:
«جزوا الشوارب، وأرخوا اللحى خالفوا المجوس »
صحیح مسم كتاب الطهارة، رقم: 260 ۔
” مونچھوں کو کاٹو ، اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔“

پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا :

پیشاب کے قطرے یا چھینٹے کپڑوں پر پڑ جانے کی وجہ سے بھی انسان سزا کا مستحق ہو جاتا ہے، اور عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ جیسا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
«مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبرين فقال: أما إنهما ليعذبان وما يعذبان فى كبير، أما أحدهما فكان يمشي بالنميمة، وأما الآخر فكان لا يستتر من بوله»
صحیح مسلم، کتاب الطهاره ، باب الدليل على نجاسة البول، رقم: 292.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوقبروں کے قریب سے گزرے، وہ دونوں قبر والے قبر میں عذاب دیے جا رہے تھے اور عذاب بھی کسی بڑے (گناہ) کی وجہ سے نہیں دیا جارہا تھا۔ ان دونوں میں سے ایک چغلی کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔“

عورتوں کا باریک ، تنگ اور چھوٹا لباس پہننا :

آج کے دور میں اسلام دشمنوں نے ہمارے خلاف بہت سے محاذ جنگ کھول رکھے ہیں، ان میں سے ایک محاذ کپڑوں کے نت نئے فیشنوں اور ڈیزائنوں کا ہے، اس کے علاوہ چھوٹا ، باریک، شفاف اور تنگ لباس جو کہ بے پردگی و بے حیائی کا باعث ہے، لیکن ہمارے معاشرے کی مائیں اور بہنیں سمجھ بوجھ کے باوجود فیشن اور بے حیائی کو فروغ دیتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں نبی کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے، جس میں سخت وعید ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«صنفان من أهل النار لم أرهما قوم معهم سياط كاذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤسهن كأسنمة البخت المائلة لا يدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها ، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا»
صحیح مسلم، كتاب اللباس والزينة باب النساء الكاسيات رقم: 5582.
”میری امت کے دو قسم کے افراد ایسے ہیں، جو کہ جہنمی ہیں، جنہیں میں ابھی تک نہیں دیکھ سکا، یعنی وہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے ایک وہ جن کے ہاتھوں میں گائے کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے، جنہیں وہ لوگوں پر برسایا کریں گے، دوسری وہ عورتیں ہیں جنہوں نے لباس تو پہنا ہو گا لیکن لباس پہنے کے باوجود ننگی ہوں گی، مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی اور خود مردوں کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سرلمبی گردنوں والی اونٹنیوں کی کوہانوں کی مانند ہوں گے، یہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہو سکیں گی، بلکہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکیں گی۔ حالانکہ جنت کی خوشبو سالہا سال کی مسافت کی دوری سے محسوس ہو جائے گی ۔“

مردوں کا عورتوں کی اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا:

فطرت الہی کا تقاضا یہ ہے کہ مرد اپنی مردانگی کی حفاظت کرے، اور عورت اپنی نسوانیت کی حفاظت کرے، جو لوگ اللہ کی اس فطرت میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، خواہ مرد ہو یا عورتیں، ایسے لوگ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
«لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال»
صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبهين بالنساء رقم: 5885.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر، اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔“

عورت کا خوشبو لگا کر باہر نکلنا :

عورتوں کا خوشبولگا کر گھر سے باہر نکلنا شرعاً حرام ہے، اور جو عورتیں ایسا کام کرتی ہیں، ان کے بارے میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
«أيم امرأة استعطرت ثم مرت على القوم ليجدوا ريحها فهي زانية»
مسند أحمد: 414/4، رقم: 17911۔ شیخ شعیب نے اسے جید الا سنادہ کہا ہے۔
” جو عورت عطر استعمال کرے، پھر لوگوں کے پاس سے گزرے تا کہ وہ اس کی خوشبو کو پالیں تو وہ زانیہ ہے۔ “

عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا :

عورت کا اپنے محرم کے بغیر سفر کرنا شرعاً ممنوع و حرام ہے ۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تسافر مسيرة يوم إلا مع ذى محرم»
صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم، رقم: 3268۔
” کسی بھی ایسی عورت کے لیے جو کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے ایک دن اور ایک رات جتنی مسافت کا سفر کرنا حلال (جائز) نہیں ہے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو ۔ “
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں اس کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے یوں ہوئی ہے:
” کسی بھی ایسی عورت کے لیے جو کہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے تین دن یا اس سے زائد سفر حلال ( جائز ) نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا والد ہو ، یا اس کا بیٹا ، یا اسکا خاوند ہو یا اس کا بھائی ہو، یا کوئی بھی محرم ہو ۔ “
صحیح مسلم کتاب الحج، رقم: 3270 ۔
مذکورہ بالا ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عورت اپنے محرم کے بغیر کہیں بھی سفر نہیں کر سکتی ۔ اور مزید یہ کہ جس مرد سے اسکا نکاح شرعاً جائز نہیں ہے، وہ اس کا محرم ہے ، شریعت کے ایسے باعزت اور سنہری اصول ہیں کہ اگر ہم ان پر عمل کریں تو بہت سے فتنوں اور فساد سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

مردوعورت کا مصنوعی بال لگوانا :

مرد و عورت کا مصنوعی بال لگوانا شرعاً ممنوع ہے، چنانچہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
«جاءت امرأة إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله! إن لي ابنة عريسا أصابتها حصبة فتمرق شعرها أفاصله ؟ فقال: لعن الله الواصلة والمستوصلة»
صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة، باب تحريم فصل الواصلة المستوصلة، رقم: 5565.
”ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ، اور عرض کرنے لگی کہ میری بیٹی کی شادی ہے، اور بیماری کی وجہ سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں ، کیا اس کو مصنوعی بال لگا دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے (مصنوعی بال ) لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت کی ہے۔ “

بغیر عذر کے خاوند کا بستر ترک کرنا :

انسان خطاؤں کا پتلا ہے، بسا اوقات اس سے ایسا فیصلہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے میاں بیوی کا اختلاف ہو جاتا ہے یا کوئی ایسی بات ہو جائے جو کہ ناراضگی کا باعث ہو تو ایسی حالت میں بھی عورت کو اپنے خاوند کے تابع رہنا چاہیے، اور اس کی بات ماننے سے انکار نہیں کرنا چاہیے، اور بالخصوص اگر خاوند عورت کو بستر پر بلائے ، اور وہ نہ جائے تو ایسی عورتوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
«إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح»
صحیح بخاری، کتاب النكاح، باب اذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها، رقم: 5193.
” جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے ، اور وہ انکار کر دے، اور وہ شوہر رات بھر ناراض رہے تو صبح ہونے تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔“

بلا عذر شرعی عورت کا طلاق مانگنا :

طلاق یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو شریعت نے ناپسند کیا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے بڑے بڑے فساد بپا ہوتے ہیں۔ خاندان ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں بچے دھتکار دیئے جاتے ہیں لیکن اس وقت عورت اور مرد دونوں ندامت اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت اسکا کوئی حل نہیں ہوتا۔ انہی وجوہات کی بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا عذر طلاق طلب کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا:
«عن ثوبان رضى الله عنه مرفوعا: أيما امرأة سألت زوجها الطلاق من غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة»
صحيح الجامع الصغير رقم: 2707 .
”سید نا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ “

غیر محرم عورت سے مصافحہ کرنا ( ہاتھ ملانا):

غیر محرم عورت سے مصافحہ کرنا یہ شرعی طور پر نا جائز اور حرام ہے، خواہ وہ غیر محرم عورت رشتے دار ہو یا غیر رشتے دار۔ اپنے ملک اور علاقے سے تعلق رکھنے والی ہو یا کسی غیر ملک یا کسی غیر علاقے سے تعلق رکھنے والی ہو، نو جوان ہو یا بوڑھی ہر حال میں غیر محرم عورت سے ہاتھ ملانا درست نہیں ، جیسا کہ نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
«لأن تطعن فى رأس أحدكم بمخبط من حديد خير له من أن تمش امرأة لا تحل له»
صحيح الجامع الصغير رقم: 5045.
”تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی میخ ٹھونک دی جائے تو یہ چیز اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔ ( نامحرم عورت کو چھوئے) “
اور مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس مسئلہ کو اجا گر کر رہا ہے:
«إني لا أصافح النساء»
صحيح الجامع الصغير رقم: 2515۔
”بے شک میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ۔ “
«إني لا أمش أيدى النساء»
معجم کبیر للطبرانی : 232/23۔ معجم اوسط، رقم: 6227۔ مجمع الزوائد: 32/6، رقم: 9870۔ سلسلة الصحيحة رقم: 529.
”میں بیعت لیتے ہوئے عورتوں کے ہاتھوں کو نہیں چھوتا۔ “
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مزید اس بات کو درج ذیل حدیث سے واضح فرمارہی ہیں:
«عن عائشة رضي الله عنها قالت: ولا والله ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يدامرأة قط غير انه يبايعهن بالكلام»
صحیح مسلم، كتاب الامارة، باب كيفية بيعة النساء رقم : 4834.
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں (بیعت لیتے ہوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ مبارک کسی بھی عورت سے نہیں چھوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بس کلام کے ذریعہ بیعت لیا کرتے تھے۔“

غیر محرم عورت کو دیکھنا:

غیر محرم عورت کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا حرام و ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ‎﴾
(24-النور:30)
”مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں یقینا اللہ تعالیٰ سب سے خبر دار ہے۔ “
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«فزنا العين النظر»
صحيح البخاری، کتاب الاستئذان، رقم: 6242.
” یعنی اجنبی عورتوں کو دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے؟ “
لہذا غیر محرم عورتوں کو قصدا دیکھنا یا نگاہ شہوت سے دیکھنا گناہ کا باعث ہے، اور اسی طرح نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اس طرح ہے:
«يا على لا تتبع النظرة النظرة فإن لك الأولى وليست لك الآخرة»
سنن ترمذی، باب ما جاء في نظرة المفاجاة، رقم: 2777۔ علامہ البانی واللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
”اے علی ! تو نظر کے پیچھے نظر مت لگا یعنی کہ لگا تار دیکھے جانا پس تیرے لیے پہلی (نظر) جائز ہے، اور دوسری ( نظر ) تیرے لیے جائز نہیں ہے۔“
یعنی کہ پہلی دفعہ اگر اچانک کسی عورت پر نظر پڑ گئی ہے تو اس کا تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر اس کے باوجود آدمی دیکھتا رہے تو پھر اس کے دیکھنے پر گناہ ہو گا، اب یہ دیکھنا شہوتا ہو تب بھی اور اگر قصدا ہو تو وہ باللی گناہ میں شامل ہے۔ اس لیے مومن مردوں کے لیے اور مومن عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں۔

دورانِ حیض عورت سے جماع کرنا :

دوران حیض عورت سے جماع کرنا جائز نہیں ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ﴾
(2-البقرة:222)
”لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ “
اس فعل کی قباحت اور شناعت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
«من أتى حائضا أو امرأة فى دبرها أو كاهنا فقد كفر بما أنزل لىٰ محمد»
سنن ترمذى كتاب الطهارة، باب ما جاء في كراهية آتيان الحائض، رقم: 135 ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا بیوی کی دبر میں جماع کرے، یا کسی کاہن کے پاس جائے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ شریعت کا انکار کر دیا۔ لہذا مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا کہ حالت حیض میں عورت سے جماع نہیں کرنا چاہیے۔ “

عورت کی غیر فطری جگہ میں جماع کرنا :

یہ ایک کبیرہ گناہ ہے اور اس فعل کا مرتکب وہی آدمی ہوتا ہے جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ اور یہ ایک گھٹیا، فطرت سے ہٹ کر اور بدنما فعل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ملعون من أتى امرأته فى دبرها»
صحيح الجامع الصغير رقم: 5889 ۔
”جو شخص اپنی بیوی کی دبر میں جماع کرتا ہے وہ معلون ہے۔ “
لہذا معلوم ہوا کہ عورت کی غیر فطری جگہ یعنی دبر میں جماع کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے، اور اس کا مرتکب ملعون ہے۔

عدل و انصاف برقرار نہ رکھنا:

اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ عدل و انصاف قائم رکھا جائے حتی کہ بیویوں کے درمیان بھی عدل کرنے کا حکم فرمایا:
﴿وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
(4-النساء:129)
”تم سے یہ تو کبھی نہ ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو، گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کر لو، اس لیے بالکل ہی ایک طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھر ادھر لٹکی ہوئی نہ چھوڑو، اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرلوتو بے شک اللہ تعالیٰ
بڑی مغفرت و رحمت والا ہے۔ “
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة مائل»
سنن ابی داؤد، کتاب فی القسم من النساء رقم: 2133۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
” جس شخص کی دو بیویاں ہوں ، اور وہ ان دونوں میں سے ایک کی طرف زیادہ جھکاؤ اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ( ٹیڑھا )ہوگا۔ “

پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا :

پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا انتہائی سخت گناہ ہے، اور ایسے گناہ کا مرتکب لعنت الہیہ اور درد ناک عذاب کا مستحق ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾
(24-النور:23)
”جو لوگ پاک دامن، بے خبر ، ایمان دار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں تو دنیا اور آخرت میں ان پر اللہ کی لعنت ہے۔ اور ان کو بہت بڑا عذاب دیا جائے گا۔“
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے:
«اجتنبوا السبع الموبقات قيل يا رسول الله وما بسن؟ قال الشرك بالله ، والسحر، وقتل النفس التى حرم الله إلا بالحق، وأكل مال اليتيم، وأكل الرلو و التولى يوم الزحف، وقذف المحصنات الغافلات المؤمنات»
صحیح مسلم کتاب الایمان، باب الكبائر واكبرها ، رقم: 262.
” سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے پر ہیز کرو ،عرض کیا گیا : اے اللہ کے رسول ! وہ کون سی ہیں؟ فرمایا: شرک کرنا ، جادو کرنا، جس کا قتل کرنا جائز نہ ہو اس کو ناحق مارڈالنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد کے دن پیٹھ پھیرنا، پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا ۔ “

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!