اسلام دینِ پاکیزگی
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ان تمام امور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو دین و دنیا میں انسانوں کو پیش آتے ہیں۔ ان میں ایک پہلو قضائے حاجت کے آداب کی تعلیم کا بھی ہے۔ دین اسلام نے یہ آداب بھی سکھلائے ہیں تاکہ انسان اپنی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے حیوان سے ممتاز رہے۔ علاوہ ازیں ہمارا دین طہارت و نظافت والا دین ہے جو ہر مسلمان سے طہارت و صفائی کا متقاضی ہے لہٰذا ہم یہاں بالا اختصار ان آداب شرعیہ کا ذکر کرتے ہیں جو ایک مسلمان کو بیت الخلا میں جاتے وقت اور قضائے حاجت کے دوران ملحوظ خاطر رکھنے چاہئیں ۔
بیت الخلا میں داخل ہونے کی دعا
جب کوئی مسلمان قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا میں داخل ہو تو پہلے بایاں قدم اندر رکھے اور (داخل ہونے سے پہلے) یہ دعا پڑھے:
«بِسْمِ اللہِ» اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الـخُبْثِ والـخَبَائِثِ»
فتح الباری 1/244۔ سنن ابی داؤد الطہارۃ باب مایقول الرجل اذا دخل الخلاء؟ حدیث 6۔
"اللہ کے نام سے میں خبیث نر اور خبیث مادہ شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔”
باہر آتے وقت کی دعائیں
قضائے حاجت سے فراغت کے بعد باہر نکلتے وقت پہلے دایاں قدم باہر رکھے اور (باہر آکر) یہ کہے:
"غفرانك”
سنن ابی داؤد الطہارۃ باب مایقول الرجل اذا خرج من الخلاء ؟ حدیث 30۔ جامع الترمذی الطہارۃ باب مایقول اذا خرج من الخلاء؟ حدیث 7۔
"تیری بخشش کا سوال کرتا ہوں۔”
"الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الأَذَى وعَافَانِي”
سنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب مایقول اذا خرج من الخلاء ؟ حدیث 301 (ضعیف)
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس نے مجھ سے نجاست دور کر دی اور تندرستی دی۔”
پردہ اور جگہ کا انتخاب
جب کوئی شخص (چار دیواری کے بجائے) کسی کھلی جگہ میں قضائے حاجت کا ارادہ کرے تو اسے دور اور ایسی جگہ تلاش کرنی چاہیے جو نگاہوں سے محفوظ ہو۔
قبلہ رخ ہونے کی ممانعت
قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف نہ منہ کرے نہ پیٹھ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
صحیح البخاری الوضوء باب لا تستقبلوا القبلۃ بغائط أو بول حدیث 144۔ صحیح مسلم الطہارۃ باب الاستطابۃ حدیث 264۔
چھینٹوں سے بچاؤ
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے بدن اور کپڑوں کو پیشاب کی چھینٹوں سے بچائے۔ بہتر یہ ہے کہ نرم جگہ تلاش کرے تاکہ چھینٹے نہ اڑیں۔
ممنوع مقامات
لوگوں کے راستوں، سائے کی جگہوں، چشموں اور گھاٹوں پر قضائے حاجت یا پیشاب نہ کرے۔
سنن ابی داؤد الطہارۃ باب المواضع التی نھی عن البول فیھا حدیث 25۔
سنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب النھی عن الخلاء علی قارعۃ الطریق حدیث 328۔
مسند احمد 3/36۔
کیونکہ یہ لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔
اللہ کے ذکر والی چیزیں ساتھ نہ لے جائے
بیت الخلاء میں ایسی چیز نہ لے جائے جس پر آیات یا اللہ کا ذکر لکھا ہو۔ اگر مجبوری ہو تو جیب میں بند یا کپڑے میں لپیٹ لے۔
قضائے حاجت کے دوران گفتگو سے پرہیز
قضائے حاجت کے وقت گفتگو نہ کرے۔
حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حرکت کو ناپسند کرتا ہے۔
سنن ابی داؤد الطہارۃ باب کراھیۃ الکلام عند الخلاء حدیث 15۔
سنن ابن ماجہ حدیث 342۔
مسند احمد 3/36۔
اسی دوران قرآن کی تلاوت کرنا بھی منع ہے۔
استنجا کا صحیح طریقہ
قضائے حاجت کے بعد پانی یا مٹی کے ڈھیلے استعمال کرے۔ دونوں ہوں تو بہتر ہے۔
کم از کم تین مرتبہ صفائی کرے۔
ٹشو یا کپڑا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ صفائی مکمل ہو جائے۔
ممنوع اشیاء برائے استنجا
استنجا کے لیے ہڈی، جانور کی لید یا گوبر استعمال نہ کرے۔
صحیح البخاری الوضوء باب الاستنجاء بالحجارة حدیث 156۔
سنن النسائی الطہارۃ باب النھی عن الاستطابۃ بالعظم حدیث 39۔
اعضاء سے نجاست کا مکمل ازالہ
جسم پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہنے دے ورنہ پاک حصہ ناپاک ہو سکتا ہے۔
استنجا اور وضو کی ترتیب
بعض فقہاء کے مطابق وضو سے پہلے استنجا شرط ہے، دلیل:
"يغسل ذكره ويتوضأ”
صحیح مسلم الحیض المذی حدیث 303۔
"وہ اپنی شرم گاہ دھوئے، پھر وضو کرے۔”
امام نوویؒ کہتے ہیں: بہتر ہے کہ وضو سے پہلے استنجا کر لیا جائے تاکہ اختلاف سے بچ جائے۔
پیشاب کی بے احتیاطی اور عذابِ قبر
نبی ﷺ نے فرمایا:
"اِسْتَنْزِهُوا مِنْ اَلْبَوْلِ, فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ اَلْقَبْرِ مِنْهُ”
سنن الدارقطنی 1/127 حدیث 457۔
"پیشاب سے خوب بچو، کیونکہ عذابِ قبر کی اکثریت اسی سے ہوتی ہے۔”
حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے اور فرمایا کہ اس کی اصل صحیحین میں ہے۔
صحیح البخاری حدیث 216۔ صحیح مسلم حدیث 292۔
حسن وضو کی تاکید
حضرت شبیب ابوروحؓ روایت کرتے ہیں:
"…إِنَّهُ يَلْبِسُ عَلَيْنَا الْقُرْآنَ… لا يُحْسِنُونَ الْوُضُوءَ”
مسند احمد 3/47247۔
"ہمیں قرآن کی قراءت میں خلط ملط ہو جاتا ہے کیونکہ بعض لوگ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں مگر اچھا وضو نہیں کرتے۔ جو ہمارے ساتھ نماز پڑھے وہ اچھا وضو کرے۔”
اہلِ قباء اور طہارت کی فضیلت
"فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا…”
النور: 9/108
"اس میں ایسے مرد ہیں جو خوب پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
"ہم ڈھیلے استعمال کر کے پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔”
مختصر زوائد مسند بزار 1/155 (ضعیف)
نتیجہ
قضائے حاجت کے یہ تمام آداب اور شرعی ہدایات دراصل اسلام کی اس عظیم تعلیم کی عکاسی کرتے ہیں جس میں ظاہر و باطن، جسم و روح کی پاکیزگی کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ مسلمان کی شخصیت کا حسن اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ طہارت، نظافت اور ستر و حیا کے ان اصولوں پر عمل کرے جن کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کی ہے۔
اسلام نے انسان کو حیوانی سطح سے بلند کر کے اسے وقار، تہذیب اور پاکیزگی کا پابند بنایا ہے۔ یہی وہ امتیاز ہے جو مسلمان کو زندگی کے ہر پہلو میں ممتاز کرتا ہے۔
اگر مسلمان ان آداب کی پابندی کرے—
• اس کی عبادت خالص اور درست ہوتی ہے،
• اس کی صحت اور صفائی برقرار رہتی ہے،
• ماحول دوسروں کے لیے تکلیف دہ نہیں بنتا،
• اور وہ اللہ کے قریب تر ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ظاہر و باطن کی پاکیزگی، حسنِ آداب، اور شریعت کے احکام پر سچے دل سے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔