سوال :
حدیث ہے : ” قرب قیامت کچھ لوگ آئیں گے، وہ سیاہ خضاب لگاتے ہوں گے، جنت کی خوشبو بھی حاصل نہیں کر سکیں گے ۔“ اس کا مفہوم واضح فرما دیں ۔
جواب:
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
”آخری زمانہ میں ایک قوم کبوتر کے پوٹے جیسا سیاہ خضاب لگائے گی۔ وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گی ۔“
(سنن أبي داود : 4213 ، سنن النسائي : 138/8 ، ح : 5078، مسند الإمام أحمد : 273/1 ، المعجم الكبير للطبراني : 413/12، تاريخ ابن أبي خيثمة : 909، المختارة للضياء المقدسي : 233/10، ح : 244 ، شرح السنة للبغوي : 3180 ، وسنده صحيح)
❀ مسند اسحاق بن راہویہ (كما في [ النكت الظراف على الأطراف لابن حجر : 424/4]) میں الفاظ ہیں :
” وہ اپنی ڈاڑھیوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے۔“
بعض لوگ اس حدیث سے سیاہ خضاب کی ممانعت وحرمت پر دلیل لیتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلاف امت اور محدثین کرام میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت وحرمت کا قائل نہیں ۔ دوسری یہ کہ اہل علم نے اس حدیث کا یہ معنی ومفہوم بیان نہیں کیا، بلکہ بعض اہل علم نے اس سے سیاہ خضاب کی حرمت پر استدلال کا رد کیا ہے۔
❀ مشہور محدث ، امام ابوبکر ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (287 ھ ) فرماتے ہیں:
”اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں ۔اس میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن کی نشانی یہ ہوگی ۔“
(فتح الباري لابن حجر : 354/10)
❀ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ (321ھ) فرماتے ہیں:
”اس سے سمجھ آتا ہے کہ وہ قوم اپنے حرام و ناجائز افعال کی بنا پر مذموم ہوگی ۔ سیاہ خضاب فی نفسہ مذموم نہیں ہے۔ اصحاب رسول صلى الله عليه وسلم سیاہ خضاب لگاتے رہے، ان میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔“
(شرح مشكل الآثار : 313/9، ح : 3699)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے۔ ان میں سید نا حسن و حسین رضی اللہ عنہما ، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ بہت سے تابعین کرام بھی ایسا کرتے تھے ۔ بعض لوگوں نے اسے اس لیے مکر وہ سمجھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھوکا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیاہ خضاب کے ذریعے دھو کے کا ارادہ نہ بھی ہو تو اس کا استعمال حرمت کے درجے تک پہنچ جائے اور اس کے استعمال کنندہ پر جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کی وعید صادق آجائے، تو یہ بات آج تک کسی اہل علم نے نہیں کہی ۔ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس معنی کا احتمال ہے کہ وہ اپنے کسی غلط عقیدے یا عمل کی بنا پر جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گے ، سیاہ خضاب کی بنا پر نہیں۔ یہ خضاب تو ان کی ایک نشانی ہے جو رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ان کی پہچان کے لیے بتلائی ہے، جس طرح خارجیوں کے بارے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ان کی نشانی سر کے بالوں کو منڈانا ہے۔ اس کے باوجود سر کے بالوں کو منڈانا حرام نہیں۔“
(الموضوعات : 55/3)
ثابت ہوا کہ مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں ، ورنہ ” آخری زمانے “کی قید کا کیا معنی؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام سے لے کر ہر دور میں موجود رہے!!!
❀ علامہ محمد عبد الرحمن، مبارک پوری رحمہ اللہ (1353ھ) فرماتے ہیں:
”اس حدیث سے سیاہ خضاب کے مکر وہ ہونے کی دلیل لینا صحیح نہیں ۔“
(تحفة الأحوذي : 55/3)