آخرت کے انکار کرنے والے کا حکم اور منکرین کو قائل کرنے کے دلائل
سوال:
جو شخص آخرت کی زندگی کا انکار کرے اور اسے قرونِ وسطیٰ کی خرافات میں شمار کرے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور ایسے لوگوں کو آخرت پر ایمان لانے کے لیے کیسے قائل کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص آخرت کی زندگی کا انکار کرے اور اسے قرونِ وسطیٰ کی خرافات میں سے سمجھے، وہ کافر ہے، کیونکہ قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے:
﴿وَقالوا إِن هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا وَما نَحنُ بِمَبعوثينَ ﴿٢٩﴾ وَلَو تَرى إِذ وُقِفوا عَلى رَبِّهِم قالَ أَلَيسَ هـذا بِالحَقِّ قالوا بَلى وَرَبِّنا قالَ فَذوقُوا العَذابَ بِما كُنتُم تَكفُرونَ ﴿٣٠﴾ … سورة الأنعام
"اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے اور ہم (مرنے کے بعد) پھر زندہ نہیں کیے جائیں گے۔ اور کاش تم (ان کو اس وقت) دیکھو جب وہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور وہ فرمائے گا: کیا یہ (دوبارہ زندہ ہونا) برحق نہیں؟ تو وہ کہیں گے: کیوں نہیں! ہمارے پروردگار کی قسم! (بالکل برحق ہے) اللہ فرمائے گا: اب تم اس کفر کے بدلے (جو دنیا میں کرتے تھے) عذاب کے مزے چکھو۔”
منکرین آخرت کے لیے قرآن مجید کے دلائل
قرآن کریم میں منکرینِ آخرت کے بارے میں متعدد مقامات پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں:
﴿وَيلٌ يَومَئِذٍ لِلمُكَذِّبينَ ﴾ سورۃ المطففین (آیات 10-17):
"اس دن جھٹلانے والوں کی تباہی ہے…”
﴿بَل كَذَّبوا بِالسّاعَةِ وَأَعتَدنا لِمَن كَذَّبَ بِالسّاعَةِ سَعيرًا ﴾ سورۃ الفرقان (آیت 11):
"بلکہ یہ تو قیامت ہی کو جھٹلاتے ہیں…”
﴿وَالَّذينَ كَفَروا بِـٔايـتِ اللَّهِ وَلِقائِهِ أُولـئِكَ يَئِسوا مِن رَحمَتى وَأُولـئِكَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴾ سورۃ العنکبوت (آیت 23):
"اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں سے اور اس کی ملاقات سے انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں…”
منکرین آخرت کو قائل کرنے کے دلائل
➊ تواتر کے ساتھ انبیاء کی تعلیمات:
- تمام آسمانی کتابیں اور انبیاء علیہم السلام بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے) کے قائل تھے۔
- تمام امتوں نے اس کو تسلیم کیا ہے۔
- اگر لوگ فلسفیوں اور مفکرین کے غیر ثابت شدہ اقوال کو تسلیم کرتے ہیں تو انبیاء کے متفقہ پیغام کو کیوں نہیں؟
➋ عقلی دلائل:
(۱) پہلی بار پیدا کرنا ممکن ہے تو دوبارہ کیوں نہیں؟
﴿وَهُوَ الَّذى يَبدَؤُا۟ الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ وَهُوَ أَهوَنُ عَلَيهِ﴾ … سورة الروم، آیت 27
’’اور وہی تو ہے جو خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے پھر اسے دوبارہ پیدا کرے گا اور یہ اس کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘
﴿كَما بَدَأنا أَوَّلَ خَلقٍ نُعيدُهُ﴾ … سورة الأنبياء، آیت 104
’’جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا، اسی طرح ہم دوبارہ پیدا کر دیں گے۔ (یہ) ہمارے ذمے وعدہ ہے (جس کا پورا کرنا لازم ہے) بے شک ہم ایسا ضرور کرنے والے ہیں۔‘‘
(۲) کائنات کی عظیم تخلیق، انسان سے کہیں زیادہ مشکل ہے:
﴿لَخَلقُ السَّمـوتِ وَالأَرضِ أَكبَرُ مِن خَلقِ النّاسِ﴾ … سورة غافر، آیت 57
’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا (کام) ہے۔‘‘
﴿أَوَلَم يَرَوا أَنَّ اللَّهَ…﴾ … سورة الأحقاف، آیت 33
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے تھکا تک نہیں، وہ اس (بات) پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے؟ ہاں یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
﴿أَوَلَيسَ الَّذى خَلَقَ السَّمـوتِ وَالأَرضَ…﴾ … سورة يس، آیات 81-82
’’بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ (ان کو پھر) ویسے ہی پیدا کر دے؟ کیوں نہیں، وہ تو بڑا پیدا کرنے والا (اور) علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ ‘‘
(۳) زمین کی زندگی کے مشاہدے سے دلیل:
﴿وَمِن ءايـتِهِ أَنَّكَ تَرَى الأَرضَ خـشِعَةً…﴾ … سورة فصلت، آیت 39
’’اور (اے بندے!) اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کودبی ہوئی (خشک اور بنجر) دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو شاداب ہو جاتی ہے اور پھوٹنے لگتی ہے۔ بلا شبہ وہ اللہ جس نے زمین کو زندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ بے شک وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘
➌ حسی اور تجرباتی دلائل:
- قرآن میں کئی واقعات کا ذکر ہے جن میں اللہ نے مردوں کو زندہ کیا۔
- ان میں سے ایک سورۃ البقرہ کی آیت 259 میں بیان ہوا واقعہ ہے:
﴿أَو كَالَّذى مَرَّ عَلى قَريَةٍ وَهِىَ خاوِيَةٌ عَلى عُروشِها قالَ أَنّى يُحيۦ هـذِهِ اللَّهُ بَعدَ مَوتِها فَأَماتَهُ اللَّهُ مِا۟ئَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قالَ كَم لَبِثتَ قالَ لَبِثتُ يَومًا أَو بَعضَ يَومٍ قالَ بَل لَبِثتَ مِا۟ئَةَ عامٍ فَانظُر إِلى طَعامِكَ وَشَرابِكَ لَم يَتَسَنَّه وَانظُر إِلى حِمارِكَ وَلِنَجعَلَكَ ءايَةً لِلنّاسِ وَانظُر إِلَى العِظامِ كَيفَ نُنشِزُها ثُمَّ نَكسوها لَحمًا فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ قالَ أَعلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿٢٥٩﴾. … سورة البقرة، آیت 259
’’یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا؟) جس کا ایک ایسے گاؤں سے گزر ہوا جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا، تو اس نے کہا کہ اللہ اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا؟ تب اللہ نے اس کی روح قبض کر لی (اور) سو برس تک( اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو زندہ اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ تم سو برس (مرے) رہے ہو اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق سڑی) بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑ دیتے ہیں اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ پھر جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
➍ حکمت کا تقاضا:
- مرنے کے بعد حساب کتاب کے بغیر زندگی بے مقصد ہو جائے گی۔
- انسان اور حیوان کی زندگی میں فرق باقی نہیں رہے گا۔
﴿أَفَحَسِبتُم أَنَّما خَلَقنـكُم عَبَثًا وَأَنَّكُم إِلَينا لا تُرجَعونَ ﴿١١٥﴾ فَتَعـلَى اللَّهُ المَلِكُ الحَقُّ لا إِلـهَ إِلّا هُوَ رَبُّ العَرشِ الكَريمِ ﴿١١٦﴾ … سورة المؤمنون، آیات 115-116
’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے اس کی شان سب سے اونچی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش بزرگ کا مالک ہے۔‘‘
﴿إِنَّ السّاعَةَ ءاتِيَةٌ أَكادُ أُخفيها لِتُجزى كُلُّ نَفسٍ بِما تَسعى ﴿١٥﴾ … سورة طه، آیت 15
’’قیامت یقینا آنے والی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلہ پائے۔‘‘
➎ قرآن کا واضح اعلان:
﴿وَأَقسَموا بِاللَّهِ جَهدَ أَيمـنِهِم لا يَبعَثُ اللَّهُ مَن يَموتُ بَلى وَعدًا عَلَيهِ حَقًّا وَلـكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٣٨﴾ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذى يَختَلِفونَ فيهِ وَلِيَعلَمَ الَّذينَ كَفَروا أَنَّهُم كانوا كـذِبينَ ﴿٣٩﴾ إِنَّما قَولُنا لِشَىءٍ إِذا أَرَدنـهُ أَن نَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿٤٠﴾ … سورة النحل، آیات 38-40
’’اور یہ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اللہ اسے (قیامت کے دن قبر سے) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں! یہ اس کے ذمے سچا وعدہ ہے جو اسے ضرور پورا کرنا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، تاکہ جن باتوں میں یہ ا ختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کر دے اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارا صرف یہی قول ہوتا ہے کہ ہم اس سے کہتے ہیں: ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
﴿زَعَمَ الَّذينَ كَفَروا أَن لَن يُبعَثوا قُل بَلى وَرَبّى لَتُبعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِما عَمِلتُم وَذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ ﴿٧﴾ … سورة التغابن، آیت 7
’’جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے (اے نبی!) کہہ دو کیوں نہیں، میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے اور یہ (بات) اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔‘‘
نتیجہ:
اگر ان تمام دلائل کے باوجود بھی کوئی بعث بعد الموت کا انکار کرے تو وہ ضدی، ہٹ دھرم اور ظالم ہے۔ ایسے لوگ اپنی واپسی کی جگہ کو جلد جان لیں گے، جو جہنم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب