الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على عبد الله ورسوله وخليله نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين. أما بعد:
بلاشبہ خوش قسمت انسان اپنی اصلاح، تزکیہ اور دنیا و آخرت میں شرور و مہلکات سے نجات کے لیے کوشش کرتا ہے، یہ ایک عظیم مقصد اور بلند مرتبہ غایت ہے جس کی جانب اہل ایمان نے اپنی توجہ مرکوز کی، اور نجات کے ذرائع اور ان امور کے بارے میں غور و فکر میں مشغول رہے جو ان کی کامیابی اور سلامتی کا باعث ہیں، یہاں تک کہ یہ فکر امت کے بہترین افراد، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم تک بھی پہنچی۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
بينا أنا جالس فى ظل أطم من الآطام مر على عمر رضي الله عنه، فسلم علي، فلم أشعر أنه مر ولا سلم، فانطلق عمر حتى دخل على أبى بكر رضي الله عنه، فقال له: ما يعجبك أني مررت على عثمان فسلمت عليه، فلم يرد على السلام؟ وأقبل هو وأبو بكر فى ولاية أبى بكر رضي الله عنه، حتى سلما على جميعا، ثم قال أبو بكر: جاءني أخوك عمر، فذكر أنه مر عليك، فسلم فلم ترد عليه السلام، فما الذى حملك على ذلك؟ قال: قلت: ما فعلت، فقال عمر: بلى والله لقد فعلت، ولكنها عبيتكم يا بني أمية، قال: قلت: والله ما شعرت أنك مررت بي، ولا سلمت، قال أبو بكر: صدق عثمان، وقد شغلك عن ذلك أمر؟ فقلت: أجل، قال: ما هو؟ فقال الله عنه: توفى الله عز وجل نبيه صلى الله عليه وسلم قبل أن نسأله عن نجاة هذا الأمر، قال أبو بكر: قد سألته عن ذلك، قال: فقمت إليه فقلت له: بأبي أنت وأمي، أنت أحق بما، قال أبو بكر: قلت: يا رسول الله ما نجاة هذا الأمر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قبل مني الكلمة التى عرضت على عمي، فردها علي، فهي له نجاة
مسند أحمد بن حنبل – مسند العشرة المبشرين بالجنة وغيرهم – مسند أبي بكر الصديق رضی اللہ عنه / 21
میں ایک قلعے کے سائے میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے سلام کیا، لیکن مجھے نہ تو ان کے گزرنے کا شعور ہوا اور نہ ان کے سلام کا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے کہا: کیا یہ بات آپ کو عجیب نہیں لگتی کہ میں عثمان کے پاس سے گزرا، انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے جواب نہ دیا؟
پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر میرے پاس آئے اور دونوں نے مجھے سلام کیا، اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہارے بھائی عمر میرے پاس آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ وہ تمہارے پاس سے گزرے، تمہیں سلام کیا لیکن تم نے جواب نہیں دیا، تمہیں اس کا کیا سبب تھا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! تم نے ایسا کیا تھا، لیکن یہ تمہاری قبیلے کی عادت ہے اے بنی امیہ! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ تم مجھ سے گزرے تھے یا تم نے مجھے سلام کیا تھا،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عثمان سچ کہہ رہے ہیں، لیکن تمہیں کچھ اور خیال تھا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بتایا: ہاں، مجھے اس بات نے مشغول کر رکھا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا بات تھی؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے یہ فکر لاحق تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلا لیا، اور ہم نے ان سے یہ نہ پوچھا کہ اس معاملے (نجات) میں کامیابی کیسے حاصل ہوگی؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا، تو میں ان کے پاس گیا اور کہا: میرے والد اور والدہ آپ پر قربان، آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس معاملے میں نجات کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس کلمہ کو قبول کرلے جو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا تھا، لیکن انہوں نے اسے رد کر دیا، وہی اس کے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔
جو شخص اس عظیم واقعے پر غور کرے گا وہ جان جائے گا کہ نجات کا معاملہ ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ امر ہے یہاں تک کہ یہ معاملہ سچے مومنین کے دلوں کو مشغول اور فکر مند رکھتا ہے، دیکھیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نجات کا مسئلہ کس قدر فکر میں ڈالے رہا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: عثمان جنت میں ہیں۔
أخرجه أبو داود في السنن (4649)، وصححه الألباني في الروض النضير (425).
اور ان کے متعلق یہ بھی فرمایا: آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی ضرر نہیں ہوگا۔
أخرجه الترمذي (3701) وحسنه الألباني في «المشكاة» (6073).
حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے گھر میں تھے اور ان کی زوجہ بھی ان کے پاس موجود تھیں، اچانک وہ رونے لگے، ان کی زوجہ نے پوچھا: آپ کو کس بات نے رلایا؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد آیا: ﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ۔ ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا۔﴾
[سورة مريم: 71-72]
”اور تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے، یہ تیرے پروردگار کے ذمے قطعی طے شدہ امر ہے۔ پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچا لیں گے اور نافرمانوں کو اسی میں گھٹنوں کے بل گراہوا چھوڑ دیں گے۔ “
اور میں نہیں جانتا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں گا جو اس سے نجات پائیں گے یا نہیں۔
أخرجه الحاكم في المستدرك / 631/4.
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی، نجات کے اسباب کی تلاش میں اس قدر فکر مند رہتے تھے، تو ان کے بعد آنے والوں کا کیا حال ہوگا؟
یہ ایک مختصر پیغام ہے جس میں میں نے ان دس اہم امور کی نشاندہی کی ہے جو بندے کی نجات کے لیے انتہائی مؤثر ہیں، ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان امور کو سیکھے، ان پر عمل کرے، اور ان کو اپنے اہل و احباب کو سکھائے تا کہ دنیا اور قیامت کے دن نجات حاصل کرے اور دائمی نعمتوں والی جنت میں خوشی و کامرانی سے ہمکنار ہو۔
بلاشبہ لوگوں کو نجات کی دعوت دینا، اس کے راستے ہموار کرنا، اور اس کے اسباب یاد دلانا ایک جاری رہنے والا طریقہ اور سنت ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ﴿وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ﴾
[سورة غافر: 41]
” اور اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو۔“
اور کہا گیا ہے۔
ما بال دينك ترضى أن تدنسه وثوبك الدهر مغسول من الدنس ، ترجو النجاة ولم تسلك مسالكها إن السفينة لا تجري على اليبس
کیا بات ہے کہ تم اپنے دین کو داغدار کرنے پر راضی ہوتے ہو، جبکہ تمہارا لباس ہمیشہ میل کچیل سے دھلا ہوا رہتا ہے، تم نجات کی امید رکھتے ہو لیکن اس کے راستے پر نہیں چلتے، یقیناً کشتی خشکی پر کبھی نہیں چل سکتی۔
بلاشبہ اللہ نے بندے کے لیے نجات کا راستہ واضح کر دیا ہے، اس کے دروازے اس کے لیے کھول دیے ہیں، اور اسے خوش بختی کے حصول کے طریقے بتائے ہیں، اس کے اسباب عطا کیے ہیں، اور اس کی نافرمانی کے وبال سے اسے خبردار کیا ہے، نیز اس نے اسے اپنی اور دوسروں کی زندگی میں گناہوں کے اثرات اور اس کے انجام کا مشاہدہ بھی کرایا ہے۔
عدة الصابرين / 284
اور کسی نے کیا خوب کہا ہے:
واحسرتاه تقضى العمر وانصرمت ساعاته بين ذل العجز والكسل ،والقوم قد أخذوا درب النجاة وقد ساروا إلى المطلب الأعلى على مهل
ہائے افسوس ! زندگی گزر گئی اور اس کے لمحات ختم ہو گئے، عاجزی اور کاہلی کی ذلت میں بسر ہوتے رہے۔
اور لوگ نجات کے راستے پر چل پڑے اور آہستہ آہستہ اپنے اعلیٰ مقاصد کی جانب بڑھ گئے۔
وصلى الله وسلم وبارك وأنعم على عبده ورسوله نبينا محمد صلى الله عليه وسلم وآله وصحبه أجمعين
پہلا سبب: اللہ کی توحید اور اسی کے لیے دین خالص کرنا
قیامت کے دن نجات کے سب سے بڑے اسباب میں سے ایک، بلکہ حقیقت میں نجات صرف اسی پر منحصر ہے، وہ اللہ کی توحید اور دین کو خالص اسی کے لیے کرنا ہے، اس سے پہلے ذکر کی گئی عظیم روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گزر چکا ہے: من قبل مني الكلمة التى عرضت على عمي، فردها علي، فهي له نجاة
مسند احمد بن حنبل – مسند العشرہ المبشرین بالجنۃ وغیرھم – مسند ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ 21
جو شخص مجھ سے وہ کلمہ قبول کرے جو میں نے اپنے چچا پر پیش کیا تھا لیکن انہوں نے اسے رد کر دیا تو وہ کلمہ اس کے لیے نجات کا سبب بن جائے گا۔
یہاں کلمہ سے مراد کلمہ توحید "لا إله إلا الله” ہے۔
مراد یہ نہیں کہ انسان صرف زبان سے اس کلمہ کا تلفظ کرے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس کے مفہوم پر عمل کرتے ہوئے دین کو اللہ کے لیے خالص کیا جائے اور عبادت میں اسے اکیلا مانا جائے۔
توحید وہ عظیم مقصد ہے جس کے لیے اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا اور انہیں وجود بخشا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾
[سورة الذاريات: 56]
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔ “
نیز فرمایا: ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ﴾
[سورة الإسراء: 23]
”اور تمہارے رب نے فیصلہ کیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو۔“
اور فرمایا: ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾
[سورة البينة: 5]
”اور انہیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں دین کو خالص اسی کے لیے کرتے ہوئے یکسو ہو کر۔“
قیامت کے دن نجات اور کامیابی کی بنیاد اللہ کی توحید ہے، توحید کے ذریعے حاصل ہونے والی نجات دو اقسام پر مشتمل ہے:
پہلی قسم: جہنم میں داخل ہونے سے مکمل نجات، اگر کوئی شخص توحید کو مکمل طور پر پورا کرے اور اس کی کامل حالت میں اس پر عمل کرے، تو وہ جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہوگا بلکہ بغیر حساب و کتاب اور عذاب کے براہ راست جنت میں داخل ہو جائے گا۔
دوسری قسم: جہنم میں ہمیشہ رہنے سے نجات۔
یہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے توحید کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا اور اس میں کچھ کمی رہ گئی، بلکہ وہ بعض معاصی اور کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو گئے جنہوں نے ان کے ایمان اور توحید کو کمزور کر دیا، ان گناہوں کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہونے کے مستحق ہو جاتے ہیں، لیکن ان کا توحید پر ایمان انہیں جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بچا لے گا، آخر کار ان کا انجام جنت میں داخلہ ہوگا۔
اور جو قیامت کے دن توحید کے بغیر آئے گا، اس کے لیے کبھی بھی نجات کی کوئی امید نہیں ہوگی، اور نہ ہی رحمت اور مغفرت حاصل کرنے کا کوئی راستہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے فرمایا: ﴿وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾
[سورة المائدة: 72]
”اور مسیح نے کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ . وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ .﴾
[سورة فاطر: 36-37]
”اور جنہوں نے کفر کیا، ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان پر موت کا فیصلہ ہوگا کہ وہ مر جائیں اور نہ ان سے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ ہم ہر کفر کرنے والے کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ اور وہ جہنم میں چیخیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں نکال دے تاکہ ہم اچھے عمل کریں، جو ہم پہلے کرتے تھے۔ (جواب دیا جائے گا:) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ تم نصیحت حاصل کر سکتے، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا؟ تو اب عذاب کا مزہ چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے ان تین اقسام کا ذکر کیا ہے۔ وہ جو جہنم میں داخل ہونے سے نجات پائیں گے، وہ جو ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنے سے نجات پائیں گے، اور وہ جو بالکل نجات نہیں پائیں گے۔ اور یہ سب اللہ نے یکے بعد دیگرے اس آیت میں ذکر کیے ہیں: ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ﴾
[سورة فاطر: 32]
”پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا۔ تو ان میں سے کچھ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں، اور کچھ میانہ روی اختیار کرنے والے ہیں، اور کچھ اللہ کے حکم سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں یہی بڑا فضل ہے۔“
اور پھر فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ﴾
[سورة فاطر: 36]
”اور جنہوں نے کفر کیا، ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان پر موت کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں، اور نہ ان سے عذاب میں تخفیف کی جائے گی، ہم ہر کفر کرنے والے کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔“
پہلی قسم اس آیت میں بیان ہوئی ہے: ﴿وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ﴾
[سورة فاطر: 32]
”اور ان میں سے بعض معتدل ہیں، اور بعض نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جہنم میں داخل ہونے سے نجات پائیں گے، اور وہ بغیر حساب اور عذاب کے براہ راست جنت میں داخل ہوں گے۔“
مقتصد اور سابق بالخیرات میں فرق یہ ہے کہ مقتصد وہ شخص ہے جس نے واجبات ادا کیے اور حرام سے بچا، جبکہ سابق بالخیرات وہ شخص ہے جو واجبات کے ساتھ مستحبات پر بھی عمل پیرا ہوا۔
دوسری قسم اس آیت میں بیان ہوئی ہے: ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ﴾
[سورة فاطر: 32]
”اور ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں۔“
یہ وہ لوگ ہیں جو گناہوں کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو سکتے ہیں، مگر وہ جہنم میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے۔
ظالم لنفسہ وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس پر معاصی اور گناہوں سے ظلم کیا، جو کفر سے کم ہیں، ایسے لوگ عذاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور جہنم میں داخل ہو سکتے ہیں، مگر چونکہ ان کا ایمان اور توحید مکمل ہے، اس لیے وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے اور آخر کار اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے۔
تیسری قسم اس آیت میں بیان ہوئی ہے: ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَىٰ عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُم مِّنْ عَذَابِهَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ﴾
[سورة فاطر: 36]
”اور جنہوں نے کفر کیا، ان کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان پر موت کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں، اور نہ ان سے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ ہم ہر کفر کرنے والے کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔“
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے قیامت کے دن نجات کی کوئی امید نہیں ہوگی، کیونکہ انہوں نے اللہ کی توحید کو قبول نہیں کیا بلکہ شرک اور کفر کی طرف گئے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: لما نزلت: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ﴾ شق ذلك على أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالوا: أينا لا يظلم نفسه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس هو كما تظنون، إنما هو كما قال لقمان لابنه: ﴿يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾
جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ﴾ ، تو یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر گراں گزری اور انہوں نے کہا: ہم میں سے کون ہے جو اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ ظلم نہیں جس کا تم خیال کر رہے ہو، بلکہ یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی: ﴿يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾
صحيح مسلم – كتاب الإيمان – باب صدق الإيمان وإخلاصه / 124.
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر شرک سے کی، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شرک سے بچے وہ ہمیشہ کے لیے دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیت کی تفسیر گناہ سے کی تھی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ہر قسم کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: جو لوگ اس آیت کے مفہوم سے پریشان ہوئے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ ظلم صرف انسان کے اپنے نفس کا ظلم ہے، اور کہ وہ شخص ہی امن اور ہدایت حاصل کرے گا جو اپنے نفس پر ظلم نہ کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ شرک اللہ کےکتاب میں ظلم ہے، اور اس صورت میں امن اور ہدایت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے ایمان کو اس ظلم سے آلودہ نہ کرے، جو شخص اپنے ایمان کو شرک کے ظلم سے آلودہ نہیں کرتا، وہ امن اور ہدایت کا مستحق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴾
[سورة فاطر: 32]
”پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا۔ تو ان میں سے کچھ اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں، اور کچھ میانہ روی اختیار کرنے والے ہیں، اور کچھ اللہ کے حکم سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں یہی بڑا فضل ہے۔“
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور توبہ نہیں کی تو اسے سزا نہیں ملے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ . وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ.﴾
[سورة الزلزلة: 7-8]
”جو شخص ذرہ برابر بھی اچھا عمل کرے گا، وہ اسے دیکھے گا، اور جو ذرہ برابر بھی برا عمل کرے گا، وہ اسے دیکھے گا۔“
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا: یا رسول اللہ، ہم میں سے کون ہے جو برا عمل نہیں کرتا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يا أبا بكر ، ألست تنصب ؟ ألست تحزن ؟ ألست تصيبك اللأواء ؟ فهذا ما تجزون به
أخرجه الإمام أحمد في المسند 71، وأصله في جامع الترمذي 3039، وصححه الألباني في تحقيقه «الإيمان» لابن تيمية ص 67.
اے ابو بکر، کیا تو غمگین نہیں ہوتا، کیا تجھے تکلیف نہیں آتی، کیا تجھے کوئی مصیبت نہیں آتی، پس یہی تو ہے جس کا دنیا میں بدلہ دیا جاتا ہے۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایمان والا شخص اگر توبہ کرے تو جنت میں داخل ہو جائے گا، اور اسے دنیا میں گناہوں کا بدلہ مصیبتوں کی صورت میں مل سکتا ہے، لہذا جو شخص تینوں قسم کے ظلم سے محفوظ رہا، اسے کامل امن اور ہدایت حاصل ہوگی، اور جس نے اپنے آپ کو ظلم سے محفوظ نہ رکھا تو اسے کامل امن اور ہدایت حاصل نہ ہو سکے گی، لیکن پھر بھی اسے جنت میں داخل ہونا لازمی ہے جیسے دوسری آیت میں وعدہ کیا گیا ہے، اور وہ صراط مستقیم پر رہ کر جنت تک پہنچے گا، اور اس کی ہدایت اور امن میں کمی اس کے ایمان میں کمی کے مطابق ہوگی جو اسے اپنے نفس پر ظلم کی وجہ سے آئی ہے۔
الإيمان لابن تيمية / 66-67
دوسرا سبب: اتباع سنت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے مبارک طریقے کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کا اہتمام قیامت کے دن نجات کے عظیم اسباب میں سے ہے، اسی لیے امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا: "من أراد النجاة فعليه بكتاب الله وسنة نبيه”
ذم الهوى وأهله لأبي إسماعيل الهروي / 4 / 118.
”جو شخص نجات چاہتا ہے اسے کتاب اللہ اور سنت نبوی کو لازم پکڑنا چاہیے۔“
اسی طرح مالک بن انس رحمہ اللہ نے فرمایا: السنة سفينة نوح؛ من ركبها نجا، ومن تخلف عنها غرق
أخرجه الخطيب البغدادي في تاريخه / 308/8.
سنت نوح کی کشتی کی مانند ہے، جو اس میں سوار ہوا، وہ نجات پا گیا، اور جو اس سے پیچھے رہ گیا، وہ غرق ہو گیا۔
دنیا کی مثال سمندر کی مانند ہے، جسے تمام مخلوقات کو عبور کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس کنارے تک پہنچ سکیں جہاں ان کے اصل گھر، وطن اور ٹھکانے ہیں، لیکن اس سمندر کو عبور کرنا ممکن نہیں، سوائے نجات کی کشتی میں سوار ہو کر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے، تاکہ وہ قوموں کو نجات کی کشتی بنانے اور اس میں سوار ہونے کا طریقہ سکھائیں، یہ کشتی اللہ کی اطاعت، اس کے رسولوں کی فرمانبرداری، صرف اسی کی عبادت، عمل کو خالص اسی کے لیے کرنا، آخرت کی فکر میں مستعد ہونا، اس کی طلب کرنا اور اس کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔
چنانچہ کامیاب لوگ اٹھے، کشتی تیار کی، اور اس میں سوار ہو گئے، انہوں نے سمندر کو یوں ہی پار کرنے کی خواہش ترک کر دی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ نہ تو یہ محض چلنے سے عبور ہو سکتا ہے اور نہ تیرنے سے۔
لیکن نادانوں نے کشتی بنانے، اس کے آلات تیار کرنے اور اس میں سوار ہونے کو مشکل سمجھا اور کہا: ہم سمندر میں اتر جائیں گے، اور اگر نہ چل سکے تو تیراکی کر لیں گے، یہی لوگ دنیا میں زیادہ ہیں، انہوں نے سمندر میں چھلانگ لگادی، لیکن جب چلنے سے عاجز آگئے تو تیراکی کرنے لگے، یہاں تک کہ غرق ہو گئے، جبکہ کشتی والے نجات پاگئے جیسے نوح علیہ السلام کے ساتھ لوگ بچ گئے تھے اور زمین کے باقی لوگ غرق ہو گئے تھے، اس مثال اور دنیا والوں کی حالت پر غور کریں تو آپ کو یہ بات حقیقت کے عین مطابق نظر آئے گی۔
عدة الصابرين / 456.
اسباب نجات میں سے یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی بڑی اہمیت دی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح طریقہ کو اختیار کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾
[سورة الأحزاب: 21]
”تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[سورة النور: 63]
”جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ خوف کھائیں کہ کہیں ان پر کوئی فتنہ نہ آجائے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔“
اور اس مضمون پر بہت ساری آیات موجود ہیں۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: "والمقصود: أن بحسب متابعة الرسول الله تكون العزة والكفاية والنصرة، كما أن بحسب متابعته تكون الهداية والفلاح والنجاة، فالله جعل سعادة الدارين بمتابعته وجعل شقاوة الدارين فى مخالفته، فلأتباعه الهدى والأمن والفلاح والعزة، والكفاية والنصرة والولاية والتأييد، وطيب العيش فى الدنيا والآخرة، ولمخالفيه الذلة والصغار، والخوف والضلال، والخذلان والشقاء فى الدنيا والآخرة”
زاد المعاد / 39/1.
مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے مطابق عزت، کفایت اور مدد ملتی ہے، جیسے کہ اس کی پیروی سے ہدایت، فلاح اور نجات ملتی ہے، اللہ نے دنیا و آخرت کی کامیابی اپنی پیروی میں رکھی ہے، اور مخالفت میں دنیا و آخرت کی ناکامی رکھی ہے، پس اس کے پیروکاروں کو ہدایت، امن، فلاح، عزت، کفایت، مدد، ولایت، اور دنیا و آخرت میں خوشحال زندگی ملتی ہے، اور اس کے مخالفوں کو ذلت، خوف، گمراہی، بددلی، اور دنیا و آخرت میں بدبختی ملتی ہے۔
جو شخص اپنی عبادات اور اعمال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے منحرف ہوتا ہے، وہ نجات سے دور ہوگا اور اس کے اعمال رد کر دیے جائیں گے، نجات کے لیے وہ اعمال قابل قبول ہوں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہوں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
صحيح مسلم – كتاب الأقضية – باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور / 1718
”جو شخص ایسا عمل کرے جو ہمارے حکم کے مطابق نہ ہو، تو وہ مردود ہے۔“
جو شخص نجات کا طلبگار ہے اس پر لازم ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کو اختیار کرے، ان کے طریقے کو مضبوطی سے تھامے رکھے، اور دین میں بدعت ایجاد کرنے یا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلنے سے اجتناب کرے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو نصیحت کرتے ہوئے جب بھی خطبہ ارشاد فرماتے، بدعات سے خبردار کرتے اور اپنی سنت پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے ہوئے ان سے کہتے: "فإن خير الحديث كتاب الله. وخير الهدى هدى محمد. وشر الأمور محدثاتها. وكل بدعة ضلالة
صحيح مسلم – كتاب الجمعة – باب تخفيف الصلاة والخطبة / 867
”پس بلا شبہ سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے، اور بدترین معاملات وہ ہیں جو بعد میں ایجاد کی جائیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری سنت کو اپنائے گا، وہ قیامت کے دن میرے حوض کوثر پر آئے گا اور اس سے پئے گا، اور جو شخص میری سنت کو بدل کر بدعات کو اپنائے گا، وہ میرے حوض سے دور کیا جائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك، فأقول: سحقا سحقا لمن غير بعدي
صحيح البخاري – كتاب الرقاق – باب في الحوض وقول الله تعالى إنا أعطيناك الكوثر / 6583
آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیسی کیسی بدعتیں جاری کیں، پھر میں کہوں گا دوری ہو، دوری ہو ایسے لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے بعد دین کو بدل دیا۔
لہذا ہر اس شخص پر جو اپنی بھلائی کا خواہش مند ہو اور اپنی نجات چاہتا ہو، واجب ہے کہ خواہشات اور بدعات سے اجتناب کرے اور ہر معاملے میں سنت کو اختیار کرے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اسے سمجھا، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم فى النار إلا ملة واحدة. قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي
جامع الترمذي – أبواب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم – ما جاء في افتراق هذه الأمة / 2641، وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة 203 و 1492
بلاشبہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔
اس اتباع کو حاصل کرنے کا راستہ یہ ہے کہ مسلمان کتاب و سنت کی بنیاد پر شرعی علم حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرے، تاکہ وہ اپنے رب کی عبادت بصیرت کے ساتھ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کر سکے۔
علم کے ذریعے انسان رسوائیوں سے نجات پاتا ہے، جبکہ جہالت ذلت اور ہلاکت کا سبب بنتی ہے، علم ہی بلند مقامات تک پہنچانے والا رہنما اور راہ دکھانے والا ہے، اور وہی اندھیروں کو روشن کرنے والا چراغ ہے، یہ علم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے آیا، جن پر اللہ کی طرف سے درود وسلام ہو۔
تیسرا سبب: اللہ کا خوف اور اس کا تقویٰ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾
[سورة النور: 52]
”اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اور خوف الہی رکھے، اور اس کے عذابوں سے ڈرتا رہے، تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسے امور کا ذکر فرمایا ہے جن کے بغیر کامیابی، نجات اور فلاح حاصل نہیں ہو سکتی، اور وہ ہیں: اللہ کی اطاعت، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سنت کی پیروی کے ذریعے، یہ دونوں امور پہلے ذکر ہو چکے ہیں۔
اب باقی دو امور یہ ہیں: اللہ کا خوف (خشیت الہی)، تقویٰ۔
خشیت الہی قیامت کے دن نجات کے لیے بہت اہم بنیاد ہے، اللہ تعالیٰ نے نجات پانے والوں اور ایمان والوں کی صفت یہ بیان کی ہے: ﴿مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ﴾
[سورة المؤمنون: 57]
”وہ اپنے رب کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔“
اور اپنے اس قول سے ان کا وصف بیان فرمایا: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ﴾
[سورة الأنفال: 2]
”ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔“
خشیت الہی انسان کو برے کاموں سے روکنے، نیک اعمال بجالانے اور عبادات کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے، اسی لیے حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المؤمن جمع إحسانا وشفقة، والمنافق جمع إساءة وأمنا ، ثم تلا الحسن: ﴿إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ﴾ مومن بھلائی اور خوف کو جمع کرتا ہے، جبکہ منافق برائی اور بے خوفی کو جمع کرتا ہے، پھر حسن بصری رحمہ اللہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ” بے شک وہ لوگ جو اپنے رب کے خوف سے کانپتے رہتے ہیں۔ “
أخرجه الطبري في تفسيره / 68/17.
خشیت الہی تب ہی پیدا ہوتی ہے جب بندہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور اس کی صفاتِ عالیہ کو پہچانے، اور اللہ تعالیٰ کی کائناتی اور شرعی نشانیوں میں غور و فکر کرے، جتنا زیادہ بندہ اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہے، اتنا ہی وہ اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾
[سورة فاطر: 28]
”اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔“
جہاں تک تقویٰ کا تعلق ہے، یہ بندے کے لیے ہر بھلائی کی جڑ ہے اور قیامت کے دن نجات کا بڑا سبب ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾
[سورة الزمر: 61]
”اور اللہ ان لوگوں کو ان کی کامیابی کے ساتھ نجات دے گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، نہ انہیں کوئی برائی چھوئے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾
[سورة الفصلت: 18]
”اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَأَنجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾
[سورة النمل: 53]
”اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے۔“
تقویٰ اصل میں وقایتہ سے ماخوذ ہے، اور اس کی بہترین تعریف طلق بن حبیب رحمہ اللہ کے اس قول میں ملتی ہے، جب ان سے پوچھا گیا: ہمیں تقویٰ کے بارے میں بتائیں، تو انہوں نے فرمایا: "التقوى: عمل بطاعة الله؛ رجاء رحمة الله على نور من الله، والتقوى: ترك معصية الله؛ مخافة عقاب الله على نور من الله”
أخرجه هناد بن السري في الزهد / 552.
تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت کرے، اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے، اللہ کے نور کی رہنمائی میں، اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کی نافرمانی کو چھوڑ دے، اللہ کے عذاب کے خوف سے، اللہ کے نور کی روشنی میں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اسلام کے فرائض ادا کرے، دین کے واجبات پورے کرے، اور گناہوں اور حرام امور سے بچے، وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب اور نجات پانے والا ہوگا۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن قوقل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: يا رسول الله! أرأيت إذا صليت المكتوبة وحرمت الحرام وأحللت الحلال؛ أأدخل الجنة؟ قال له: نعم
صحيح مسلم – كتاب الإيمان – باب بيان الإيمان الذي يدخل به الجنة وأن من تمسك بما أمر به دخل الجنة/ 15.
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر میں فرض نمازیں ادا کروں، حرام کو حرام سمجھوں اور حلال کو حلال مانوں، تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔
جو شخص اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے اور اسے واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے بچنے پر صبر کا عادی بنائے، تو اللہ تعالیٰ اسے نجات عطا فرمائے گا اور سیدھے راستے کی ہدایت دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾
[سورة العنكبوت: 69]
”اور جو لوگ ہمارے راستے میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے، اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔“
یہ عمل جو حکم کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب پر مبنی ہے، لازمی طور پر علم اور بصیرت کی بنیاد پر ہو، تا کہ بندہ جان سکے کہ اسے کس چیز سے بچنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا﴾
[سورة الشورى: 52]
”اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف ایک روح (وحی) بھیجی، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا ہیں، لیکن ہم نے اسے ایک نور بنایا جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں ہدایت دیتے ہیں۔“
بکر بن خنیس رحمہ اللہ نے کہا: كيف يكون متقيا من لا يدري ما يتقي!
جامع العلوم والحكم لابن رجب: 1/402
جو یہ نہیں جانتا کہ اسے کس چیز سے بچنا ہے، وہ متقی کیسے بن سکتا ہے۔
چوتھا سبب: زبان کی حفاظت
نجات اور سلامتی کے ذرائع میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اسے ہر ایسی بات سے بچائے جو نامناسب ہو۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! نجات کس چیز میں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
املك عليك لسانك، وليسعك بيتك، وابك على خطيئتك
جامع الترمذي: 2406، صححه الألباني في الصحيحة: 890
اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کو لازم پکڑو، اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «اپنی زبان کو قابو میں رکھو» میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی باتوں پر غور کرے، اگر بات خیر کی ہو تو کہے، اور اگر اس کے برعکس ہو تو خاموش رہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت
صحيح البخاري – كتاب الأدب – باب من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره /6018. صحيح مسلم – كتاب الإيمان – باب الحث على إكرام الجار والضيف ولزوم الصمت إلا من الخير وكون ذلك كله من الإيمان / 48
جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔
زبان کی خطرناکی بہت بڑی ہے، اور اس کا گناہ انسان، اس کے دین، اور اس کے معاشرے پر بڑا اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں سخت وعید آئی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن العبد ليتكلم بالكلمة ما يتبين فيها يزل بها فى النار أبعد مما بين المشرق والمغرب
صحيح البخاري – كتاب الرقاق – باب حفظ اللسان/6477. صحيح مسلم – كتاب الزهد والرقائق – باب التكلم بالكلمة يهوي بها في النار /2988
بے شک بندہ ایسی بات کہہ دیتا ہے جس پر وہ غور نہیں کرتا، اور اسی کے سبب وہ آگ میں اتنی دور جا گرتا ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔
چونکہ نجات کا زبان کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اس لیے بدن کے تمام اعضاء اپنے انجام میں زبان کے ساتھ وابستہ ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أصبح ابن آدم فإن الأعضاء كلها تكفر اللسان؛ فتقول: اتق الله فينا، فإنما نحن بك؛ فإن استقمت استقمنا، وإن اعوججت اعوججنا
أخرجه الترمذي في «جامعه» 2407، وصححه الألباني في صحيح الجامع» 344
جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اللہ سے ڈر ہمارے معاملے میں، کیونکہ ہم تیرے ساتھ ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے، اور اگر تو ٹیڑھی رہی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
پس زبان کی حفاظت اور اس کو کنٹرول میں رکھنا دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں کی جڑ ہے، اور اس کو بے لگام چھوڑ دینا اور اس کی حفاظت نہ کرنا ہلاکت اور خسارے کا سبب ہے۔ اسی لیے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دین کے اصولوں اور بھلائی کے ابواب کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو آخر میں فرمایا:
ألا أخبرك بملاك ذلك كله؟ قلت: بلى يا نبي الله، فأخذ بلسانه، قال: كف عليك هذا ، فقلت: يا نبي الله، وإنا لمؤاخذون بما نتكلم به؟ فقال له: ثكلتك أمك يا معاذ، وهل يكب الناس فى النار على وجوههم – أو على مناخرهم إلا حصائد ألسنتهم
جامع الترمذي – أبواب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم – باب ما جاء في حرمة الصلاة / 2616. وصححه الألباني في «السلسلة الصحيحة» 1122
کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کی جو چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا: اسے اپنے قابو میں رکھو۔ میں نے کہا: اللہ کے نبی ! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پر پکڑے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے، معاذ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑبڑ ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
پس مؤمن پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان کو بے فائدہ باتوں سے بچائے، کیونکہ ایسی حالت میں خاموشی سلامتی اور نجات ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں صحیح سند سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا:
من صمت نجا
أخرجه الترمذي في «جامعه» 2501، وصححه الألباني في «السلسلة الصحيحة 536
جو خاموش رہا، اس نے نجات پائی۔
پانچواں سبب: فتنوں سے بچنا
یقیناً فتنوں سے بچنا، ان سے دور رہنا، اور ان کے دروازے بند کر دینا بندے کے لیے دنیا اور قیامت میں نجات کا ذریعہ ہے، اور یہ اس کے دین اور دنیا کی سلامتی کا باعث ہے۔ اس بات پر متعدد نصوص دلالت کرتی ہیں، جن میں سے ایک وہ حدیث ہے جو عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کی، جب انہوں نے کہا:
يا رسول الله! ما النجاة؟ قال: املك عليك لسانك، وليسعك بيتك وابك على خطيئتك
أخرجه الترمذي في «جامعه» 2406 ، وصححه الألباني في «الصحيحة» 890
یارسول اللہ! نجات کس میں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کو لازم پکڑو، اور اپنے گناہوں پر رویا کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان وليسعك بيتك اور ”اپنے گھر کو لازم پکڑو“ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے گھر میں رہنے کی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پر جب فتنوں کا زمانہ ہو، تاکہ وہ ان فتنوں سے بچا رہ سکے۔ گھروں میں انسان کو فتنوں سے بچاؤ اور سلامتی ملتی ہے، اور اگر وہ گھر سے نکل کر فتنوں کا سامنا کرتا ہے تو وہ اپنی ہلاکت کو دعوت دیتا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کے لیے یہ مشروع کیا گیا ہے کہ وہ کثرت سے فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کریں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
تعوذوا بالله من الفتن، ما ظهر منها وما بطن
صحيح مسلم – كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها – باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النار عليه / 2867.
ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔
اس زمانے میں کچھ جدید آلات اور وسائل گھروں میں داخل ہو چکے ہیں، جو انسان کو مختلف قسم کی فتنوں اور شرور میں مبتلا کر سکتے ہیں، خواہ وہ خواہشات کی شکل میں ہوں یا شکوک و شبہات کی صورت میں۔ ان وسائل کے غیر محتاط استعمال اور خراب ویب سائٹس اور پروگراموں تک رسائی نے بہت سے لوگوں کو بڑے نقصان میں ڈال دیا ہے۔ اسی لیے حدیث میں ذکر کردہ گھروں میں ٹھہرنے کی نجات اس شرط کے ساتھ ہے کہ ان جدید آلات کا ایسا استعمال نہ کیا جائے جو انسان پر فتنوں کے دروازے کھول دے، اس کے اخلاق، دنیا اور آخرت کو تباہ کر دے۔ ایسی صورت میں نقصان بہت بڑا ہو گا۔
پس خوش نصیبی اور نجات فتنوں سے بچنے اور ان کے شر سے محفوظ رہنے میں ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن السعيد لمن جنب الفتن
بے شک سعادت مند وہ ہے جو فتنوں سے بچا دیا جائے۔
أخرجه أبو داود في سننه 4263، وصححه الألباني في الصحيحة» 1975
چھٹا سبب: دعاؤں کی کثرت اور اللہ کی طرف رجوع
دعا دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں کی کنجی ہے۔ جب بندہ یہ جان لے کہ دنیا اور آخرت میں نجات صرف اسی کو ملے گی جسے اللہ بچائے، تو اس پر واجب ہے کہ وہ نجات اللہ سے طلب کرے۔ نجات صرف اللہ کے اختیار میں ہے، اس لیے اپنی نجات اللہ سے مانگو، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ﴾
[سورة البقرة: 186]
”اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (کہہ دیجیے) کہ میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو انہیں چاہیے کہ وہ میرے حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾
[سورة الغافر: 60]
”اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔“
پس جو شخص اپنی نجات چاہتا ہو، اسے اللہ سے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں، ہر قسم کی بھلائی کے لیے، وہ اللہ سے ثابت قدمی مانگے، گمراہی سے بچنے کی دعا کرے، اور اصلاح و بھلائی کی دعائیں کرے، خواہ وہ دنیا کی ہوں یا آخرت کی۔
سب سے عظیم دعا علی الاطلاق وہ ہے جو سورہ فاتحہ میں موجود ہے: ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾
[سورة الفاتحة: 6]
”ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔“
اس سورہ کے آخر تک، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنے سیدھے راستے کی ہدایت دے دیتا ہے تو وہ دنیا اور آخرت میں قطعی طور پر نجات پا جاتا ہے۔
اس دعا کی بندے کے لیے اہمیت اور اس کی بے پناہ ضرورت کے پیشِ نظر اللہ نے اسے دن اور رات میں سترہ مرتبہ پڑھنا فرض کیا، جو کہ فرض نمازوں کی رکعات کی تعداد کے برابر ہے۔ اس لیے مسلمان پر لازم ہے کہ جب وہ سورة الفاتحہ پڑھے، تو اس عظیم دعا کی اہمیت اور اس کی مسلسل ضرورت کو محسوس کرے، کیونکہ ہدایت حاصل کرنے سے ہی انسان کو خیر، نجات اور دونوں جہانوں میں بڑی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
چنانچہ دعا اور اللہ کی طرف رجوع، اور اس سے عاجزی کے ساتھ سوال کرنا دنیا اور آخرت میں نجات کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں۔ اسی لیے انبیاء کرام اللہ سے نجات کی دعا کرتے تھے، اور اللہ ان کی دعاؤں کو قبول فرماتا اور انہیں پیش آنے والی مصیبتوں سے بچا لیتا۔ بطور مثال:
اللہ کے نبی نوح علیہ السلام کی دعا: ﴿قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ . فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَن مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ.﴾
[سورة الشعراء: 117-118]
”اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے، پس تو میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے اور مجھے اور میرے ساتھ ایمان والوں کو نجات عطا فرما۔“
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَأَنجَيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ﴾
[سورة الشعراء: 119]
”تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھ والوں کو بھری ہوئی کشتی میں نجات دی۔“
اللہ کے نبی لوط علیہ السلام کی دعا: ﴿رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ﴾
[سورة الشعراء: 169]
”اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے اعمال سے نجات دے۔“
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ﴾
[سورة الشعراء: 170]
”تو ہم نے اسے اور اس کے تمام گھر والوں کو نجات دی۔“
اللہ کے نبی یونس علیہ السلام کی دعا: ﴿فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾
[سورة الأنبياء: 87]
”پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا: تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے تھا۔“
چنانچہ اللہ نے فرمایا: ﴿فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ﴾
[سورة الأنبياء: 88]
”تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم سے نجات دی، اور اسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں۔“
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے حال کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ . وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ۔﴾
[سورة الصافات: 114-115]
”اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا، اور انہیں اور ان کی قوم کو بڑے رنج و غم سے نجات دی۔“
اسی طرح جو شخص قرآن کریم پر غور کرے، وہ اس میں انبیاء کی دعاؤں اور ان کے اپنے رب سے سوالات کو بارہا پائے گا۔ وہ ہر حال میں اللہ کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھکتے اور دعا کرتے تھے، تو اللہ نے ان کی دعائیں قبول کیں، ان کی خواہشات پوری کیں۔ جو بھی رب العالمین کی طرف رجوع کرے اور اسے پکارے، اللہ اسے کبھی مایوس نہیں کرتا اور نہ ہی کسی سوالی کو خالی واپس کرتا ہے۔ پس جو دنیا اور آخرت میں نجات چاہتا ہے، اسے دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اور بندے پر لازم ہے کہ وہ ہر رات یاد کرے کہ اس کی نجات اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور نجات صرف اسی کے لیے ہے جسے اللہ نجات دے۔ تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرے، امید کے ساتھ، عاجزی سے، اور یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ اسے نجات پانے والوں میں شامل کر لے اور کامیاب بنائے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا أتيت مضجعك فتوضأ وضوءك للصلاة، ثم اضطجع علىٰ شقك الأيمن، ثم قل: اللهم أسلمت وجهي إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ، ولا منجىٰ منك إلا إليك، اللهم آمنت بكتابك الذى أنزلت وبنبيك الذى أرسلت، فإن مت من ليلتك فأنت علىٰ الفطرة، واجعلهن آخر ما تتكلم به
کہ جب تم اپنی خواب گاہ میں آؤ تو نماز کی طرح وضو کرو، پھر اپنی داہنی جانب پر لیٹ جاؤ، اس کے بعد کہو: اے اللہ! میں نے تجھ سے امیدوار اور خائف ہو کر اپنا منہ تیری طرف جھکا دیا اور ہر کام تیرے سپرد کر دیا اور میں نے تجھے اپنا پشت و پناہ بنایا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تجھ سے (یعنی تیرے غضب سے) سوا تیرے پاس کے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔ اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی ہے اور تیرے اس نبی پر (بھی) جسے تو نے (ہدایت خلق کے لیے) بھیجا ہے۔ پس اگر تو اسی رات میں مرا تو ایمان پر مرے گا اور اس دعا کو اپنا آخری کلام بنا۔
صحیح البخاري – كتاب الوضوء – باب فضل من بات على الوضوء /247. صحيح مسلم – كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار – باب ما يقول عند النوم وأخذ المضجع/2710.
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فهو الذى ينجي من نفسه بنفسه، ويعيذ من نفسه بنفسه، وكذلك الفرار؛ يفر عبده منه إليه، وهذا كله تحقيق للتوحيد والقدر، وأنه لا رب غيره، ولا خالق سواه، ولا يملك المخلوق لنفسه ولا لغيره ضرا ولا نفعا، ولا موتا ولا حياة ولا نشورا، بل الأمر كله لله، ليس لأحد سواه منه شيء
شفاء العليل/273.
وہی ہے جو اپنے آپ کو اپنی ذات سے بچاتا ہے اور اپنی ذات سے پناہ دیتا ہے، اور اسی طرح فرار ہے؛ اس کا بندہ اس سے بھاگ کر اسی کی طرف آتا ہے، اور یہ سب کچھ توحید اور تقدیر کی حقیقت کو ثابت کرتا ہے، اور یہ کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں، نہ کوئی خالق ہے سوائے اس کے، اور مخلوق نہ اپنے لیے اور نہ دوسروں کے لیے نفع و نقصان اور موت و حیات کا مالک ہے، نہ قیامت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا، بلکہ سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس کے سوا کوئی بھی اس میں سے کچھ نہیں کر سکتا۔
ساتواں سبب: توبہ و استغفار کو لازم پکڑنا
کتاب و سنت کی نصوص واضح طور پر بتاتی ہیں کہ توبہ و استغفار کے بڑے فضائل ہیں، اور یہ دونوں قیامت کے دن نجات کے لیے ایک عظیم سبب ہیں۔ اس پر صحابی جلیل حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عجبت لمن يهلك والنجاة معه! قيل: وما هي؟ فقال: الاستغفار
أخرجه الدينوري في «المجالسة وجواهر العلم» 4/49
میں اس شخص پر تعجب کرتا ہوں جو ہلاک ہو جائے حالانکہ نجات اس کے ساتھ ہے! پوچھا گیا: وہ کیا ہے؟ تو فرمایا: استغفار۔
جب حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
املك عليك لسانك، وليسعك بيتك، وابك علىٰ خطيئتك
اپنی زبان پر قابو رکھ، اپنے گھر میں رہ، اور اپنی خطا پر رونا۔
أخرجه الترمذي في «جامعه» 2406، وصححه الألباني في الصحيحة» 890
فرمان نبوی: اور اپنی خطا پر رونا، توبہ اور استغفار کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہاں گناہ سے مراد انسان کے تمام گناہ اور لغزشیں ہیں، کیونکہ واحد لفظ جب اضافت کے ساتھ آتا ہے تو اس میں عمومیت شامل ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بندے کو استغفار اور توبہ کے وقت اپنے گناہوں کی کثرت کا پورا شعور ہونا چاہیے، چاہے وہ چھپے ہوں یا ظاہر، پرانے ہوں یا نئے۔ بندہ ان تمام گناہوں سے اللہ سے معافی مانگے اور سچی توبہ کرے، تاکہ نجات اور عظیم کامیابی حاصل کر سکے۔
اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں یہ دعا کیا کرتے تھے:
اللهم اغفر لي ذنبي كله: دقه وجله، وأوله وآخره، وعلانيته وسره
صحيح مسلم – كتاب الصلاة – باب ما يقال في الركوع والسجود/483
”اے اللہ! میرے تمام گناہ معاف فرما دے، چھوٹے بڑے، اول و آخر، ظاہری و پوشیدہ۔“
تو جب بندہ اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرے، تمام گناہوں کو ترک کر دے، ان پر ندامت کا اظہار کرے، دوبارہ ان کی طرف نہ پلٹنے کا پختہ ارادہ کرے، اور اللہ سے کثرت کے ساتھ استغفار کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں نجات عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾
[سورة الأنفال: 33]
”اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپکے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں۔“
پس ان کی توبہ اور استغفار ان کی نجات اور عذاب کے دور ہونے کا سبب بنے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طوبىٰ لمن وجد فى صحيفته استغفارا كثيرا
أخرجه ابن ماجه في سننه 3818، وصححه الألباني في صحيح الجامع 3930
اس شخص کے لیے خوشخبری ہو جو اپنے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار پائے۔
اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات میں کثرت سے توبہ و استغفار کیا کرتے تھے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
والله إني لأستغفر الله وأتوب إليه فى اليوم أكثر من سبعين مرة
صحيح البخاري – كتاب الدعوات – باب استغفار النبي صلى الله عليه وسلم في اليوم والليلة 6308
کہ اللہ کی قسم! میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: إن كنا لنعد لرسول الله صلى الله عليه وسلم فى المجلس الواحد مائة مرة: رب اغفر لي وتب على إنك أنت التواب الرحيم
أخرجه أبو داود في سننه» 1516 واللفظ له، والترمذي في «جامعه» 3434، وصححه الألباني في السلسلة الصحيحة» 556
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مجلس میں سو مرتبہ یہ کہتے ہوئے شمار کرتے تھے:رب اغفر لي وتب على إنك أنت التواب الرحيم
آٹھواں سبب: تکبر اور خود فریبی سے اجتناب
نجات کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے اچھے اعمال پر فخر نہ کرے، اور اپنی عبادات پر دھوکہ نہ کھائے، بلکہ اس سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے، کیونکہ اس سے بچنا نجات کا سبب ہے۔ اور جو شخص اس پہلو کو نظر انداز کرے اور خود پسندی اور غرور میں مبتلا ہو جائے، وہ یقینی طور پر ہلاکت کا شکار ہو گا۔ جیسے کہ شیخ حافظ حکمی رحمہ اللہ نے کہا: اور خود پسندی سے بچو، کیونکہ عجب انسان کے اعمال کو سیلاب کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس نیک اعمال اور مختلف عبادات کی کثرت ہوتی ہے، لیکن ان کے دل میں غرور یا خود پسندی داخل ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے اعمال پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں یہی رویہ ان کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے اور ان کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتا ہے۔
اور انسان پر واجب ہے کہ وہ یہ جانے کہ وہ ہمیشہ کمی کا شکار ہے، اور چاہے وہ اپنے عمل میں کتنا بھی آگے بڑھ جائے، وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لن يدخل أحدا عمله الجنة، قالوا: ولا أنت يا رسول الله؟ قال: لا، ولا أنا إلا أن يتغمدني الله بفضل ورحمة
صحيح البخاري – كتاب المرضى – باب تمني المريض الموت /5673. صحيح مسلم – كتاب صفة القيامة والجنة والنار – باب لن يدخل أحد الجنة بعمله / 2816. واللفظ للبخاري.
کہ کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ کیا آپ کو بھی نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل و رحمت( کے دامن) میں ڈھانپ لے۔
اور یہ حال اس امت کے بہترین لوگوں کا تھا، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے تابعین کا۔ اسی بات کو بیان کرتے ہوئے تابعین کے عالم عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے کہا: أدركت ثلاثين من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم كلهم يخاف النفاق علىٰ نفسه
أخرجه البخاري في صحيحه» تعليقا مجزوما به 48
میں نے تیس صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا، ان میں سے ہر ایک اپنے آپ پر نفاق کا خوف رکھتا تھا۔
جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، جو اس امت کے بہترین شخص اور نبیوں کے بعد سب سے افضل تھے، نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں ایسی دعا سکھائیں جسے اپنی نماز میں وہ مانگا کرے گا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا سکھائی کہ وہ کہیں:
اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا، ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك، وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم
أخرجه البخاري في صحيحه 834 ، ومسلم في صحيحه 2705
اے اللہ! میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، جبکہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی اور بخش نہیں سکتا، اس لیے تو مجھے اپنی عنایت خاص سے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما، تو ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
تو پھر ان سے کم تر شخص کا حال کیا ہوگا؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: فليس لأحد أن يظن استغناءه عن التوبة إلىٰ الله والاستغفار من الذنوب؛ بل كل أحد محتاج إلىٰ ذٰلك دائما
الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان ص 131
کسی کو یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف توبہ اور گناہوں سے استغفار سے بے نیاز ہے؛ بلکہ ہر شخص کو ہمیشہ اس کی ضرورت ہے۔
پس نتیجہ یہ ہے کہ جب بندہ نیک اعمال کی توفیق پاتا ہے تو اسے اپنے اعمال پر اطمینان نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی ان پر فخر یا غرور کرنا چاہیے، بلکہ اسے اپنے اعمال کے قبول نہ ہونے کا خوف ہونا چاہیے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾
[سورة المؤمنون: 60]
اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مفہوم پوچھا اور کہا: أهم الذين يشربون الخمر ويسرقون؟ قال: لا يا بنت الصديق، ولكنهم الذين يصومون ويصلون ويتصدقون وهم يخافون أن لا تقبل منهم، ﴿أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ﴾
جامع الترمذي – أبواب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم – باب ومن سورة المؤمنين / 3175 . وصححه الألباني في الصحيحة/162
کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، صدیق کی صاحبزادی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں، اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکیاں قبول نہ ہوں۔ یہی ہیں وہ لوگ جو خیرات میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی لوگ بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں۔
نواں سبب: حساب اور اللہ کے حضور کھڑے ہونے کی یاد دہانی
نجات کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اس عظیم دن کو یاد رکھے جب تمام مخلوقات اللہ رب العالمین کے سامنے حساب اور جزا و سزا کے لیے کھڑی ہوں گی۔ اس دن کوئی کسی کے لیے نجات، فائدے یا نقصان کا اختیار نہیں رکھے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ . ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ . يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ .﴾
[سورة الانفطار: 17-19]
”اور آپ کو کیا معلوم کہ بدلے کا دن کیا ہے؟ پھر آپ کو کیا معلوم کہ جزا و سزا کا دن کیا ہے؟ وہ دن جب کوئی جان کسی جان کے لیے کچھ اختیار نہ رکھے گی، اور تمام معاملات اس دن اللہ کے سپرد ہوں گے۔“
مؤمن جب اس دن کی ہولناکیوں اور سختیوں کو یاد کرتا ہے تو اس کے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ آخرت کی تیاری کرنے لگتا ہے۔ وہ وہی اسباب اختیار کرتا ہے جو اس کی نجات اور کامیابی کا ذریعہ بنیں۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ جو لوگ آخرت میں کامیاب ہوں گے، وہ یہ بات تسلیم کریں گے کہ دنیا میں ان کا حساب اور جزا کے دن کو یاد رکھنا ان کی نجات اور کامیابی کا سبب بنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ. إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ .﴾
[سورة الحاقة: 19-20]
”پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، و1ہ کہنے لگے گا: لو میرا نامہ اعمال پڑھو۔ یقیناً مجھے معلوم تھا کہ مجھے اپنا حساب ضرور ملے گا۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ . قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ . فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ. إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ .﴾
[سورة الطور: 25-28]
اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے۔ کہیں گے: ہم اس سے پہلے اپنے اہل میں ڈرتے تھے۔ پس اللہ نے ہم پر فضل کیا اور ہمیں جھلسا دینے والے عذاب سے بچا لیا۔ بے شک ہم اس سے پہلے اسی کو پکارتے تھے، یقیناً وہی بہت مہربان، رحم کرنے والا ہے۔
جو یہ جان لے کہ اسے ایک دن اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اللہ اس سے اس کے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا، تو اسے چاہیے کہ وہ اس دن کے لیے تیاری کرے، سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہو، اور یہ کوشش کرے کہ اس کا جواب درست ہو۔
ابراہیم بن بشار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اذكر ما أنت صائر إليه حق ذكره، وتفكر فيما مضىٰ من عمرك؛ هل تثق به وترجو النجاة من عذاب ربك؟! فإنك إذا كنت كذٰلك شغلت قلبك بالاهتمام بطريق النجاة عن طريق اللاهين الآمنين المطمئنين؛ الذين أتبعوا أنفسهم هواها، فأوقعتهم علىٰ طريق هلكاتهم، لا جرم سوف يعلمون، وسوف يتأسفون، وسيعلم الذين ظلموا أى منقلب ينقلبون
حلية الأولياء/18/8
جو کچھ تمہیں آنے والے دن کے بارے میں معلوم ہے، اس کو بھرپور طریقے سے یاد رکھو، اور اپنی عمر کے گزرے ہوئے حصے پر غور کرو؛ کیا تم اس پر اعتماد کرتے ہو اور اپنے رب کے عذاب سے نجات کی امید رکھتے ہو؟ اگر تم ایسا کرتے ہو تو تمہارا دل نجات کے راستے پر فکر مند ہو گا، نہ کہ ان غافل، مطمئن لوگوں کے راستے پر جو اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے اور خود کو ہلاکت کی راہ میں ڈال لیا۔ یقیناً وہ لوگ بہت جلد اپنی غلطیوں کو جانیں گے، افسوس کریں گے اور پچھتائیں گے، اور وہ جان لیں گے کہ ظالموں کا انجام کیا ہوگا۔
معلی بن زیاد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مغیرہ بن مخادش نے حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا: اے ابو سعید! ہم ان لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں جو یہاں آکر ہمیں ایسی باتیں بتاتے ہیں کہ ہمارے دل تقریباً اڑنے لگتے ہیں؟
حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: لأن تصحب أقواما يخوفونك حتىٰ تدرك أمنا، خير لك من أن تصحب أقواما يؤمنونك حتىٰ تلحقك المخاوف
أخرجه ابن المبارك في الزهد /303
تمہارے لیے یہ بہتر ہے کہ تم ان لوگوں کے ساتھ بیٹھو جو تمہیں خوفزدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ تمہیں امن حاصل ہو جائے، بجائے اس کے کہ تم ان لوگوں کے ساتھ بیٹھو جو تمہیں امن دیتے ہیں یہاں تک کہ تم پر خوف آجائے۔
دسواں سبب: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
یہ اسلام کی عظیم شعار اور اہم عبادات میں سے ہے، اور امت کی نجات کا ایک اہم ذریعہ ہے، بلکہ ہلاکت سے بچنے کے سب سے بڑے اسباب میں سے ہے۔
اس کے ذریعے برائیاں ختم ہوتی ہیں، بھلائیاں بڑھتی ہیں، برکتیں عام ہوتی ہیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ اس کے اثرات بندوں اور معاشروں کی اصلاح میں بے حد و حساب ہیں جنہیں زمین و آسمان کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس عظیم عمل کی ترغیب اور اہمیت کو واضح کرنے کے لیے قرآن و سنت میں کثرت سے نصوص موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾
[سورة آل عمران: 110]
”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
[سورة آل عمران: 104]
”تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ کامیاب ہیں۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾
[سورة التوبة: 71]
”اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔“
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴾
[سورة الحج: 41]
”یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں، اور زکوٰة دیں، اور اچھے کاموں کا حکم کریں، اور برے کاموں سے منع کریں، اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔“
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نجات اور سلامتی کے اسباب میں سے ہونے پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے: ﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ﴾
[سورة الأعراف: 165]
”پھر جب انہوں نے وہ باتیں بھلا دیں جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو برائی سے روکتے تھے اور ظالموں کو ان کے فسق کی وجہ سے سخت عذاب میں پکڑ لیا۔“
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: "مثل القائم على حدود الله والواقع فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة، فأصاب بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها، فكان الذين فى أسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم، فقالوا: لو أنا خرقنا فى نصيبنا خرقا، ولم نؤذ من فوقنا، فإن يتركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا، وإن أخذوا على أيديهم نجوا ونجوا جميعا
صحيح البخاري – كتاب الشركة – باب هل يقرع في القسمة والاستهام فيه: 2993
اللہ کے حدود پر قائم رہنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسی قوم کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی میں جگہ کی تعیین کے لیے قرعہ اندازی کی، جس کے نتیجہ میں کچھ لوگوں نے کشتی کے اوپر والے حصے میں اور کچھ لوگوں نے نیچے والے حصے میں جگہ حاصل کی۔ جو لوگ نیچے والے حصے میں تھے، انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا۔ لہذا انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصے میں ایک سوراخ کر لیں، تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے، تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں گے (اور انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے) تو یہ خود بھی بچ جائیں گے اور باقی لوگ بھی بچ جائیں گے۔
لوگ ہمیشہ خیر میں رہیں گے جب تک ان میں کوئی اس شعیرہ کی پرواہ کرتا ہے، لیکن جب لوگ اس سے منحرف ہو جاتے ہیں تو خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے اور سزا بھی سخت ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إن الناس إذا رأوا المنكر فلم يغيروه أوشك أن يعمهم الله بعقابِهِ
مسند أحمد بن حنبل – مسند العشرة المبشرين بالجنة وغيرهم – مسند أبي بكر الصديق رضي اللہ عنہ: 17
بلا شبہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔
لہذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس عظیم شعیرہ کی پابندی کرے، اور اللہ کے ساتھ اس میں سچا ہو، ساتھ ہی اہل حق اور ہدایت کے راستے کی پیروی کرے۔
اس لیے جب صحابی جلیل جندب بن عبد اللہ رضي اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے کچھ علماء کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر گفتگو کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: لم أر كاليوم قط قوما أحق بالنجاة إن كانوا صادقين
أخرجه ابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني: 2314
میں نے آج تک کوئی ایسی قوم نہیں دیکھی جو اگر وہ سچے ہوں تو نجات کے حق میں اس سے زیادہ مستحق ہو۔
مسلمان کو اس معاملے میں اہل ضلالت اور اہل باطل کے راستوں سے بچنا چاہیے، اور اس شعیرہ کے درست ضوابط، مبارک آداب اور مستحکم قواعد کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت سے اخذ کیے گئے ہیں؛ کیونکہ جب یہ شعیرہ ان قواعد اور ضوابط کے مطابق قائم کی جائے گی تو اس سے اصلاح، بھلائی اور کامیابی حاصل ہو گی۔
اگر اس شعیرہ کو شریعت کے قواعد اور ضوابط کے برخلاف طریقے سے اپنایا جائے تو یہ مسلم معاشروں کے لیے ضرر کا باعث بن سکتی ہے۔ امن بگڑ جائے گا، افراتفری پھیل جائے گی، اموال لوٹے جائیں گے، خون بہایا جائے گا، حرمتیں پامال ہوں گی، اور دیگر کئی قسم کی مفاسد اور نقصانات جنم لیں گے جو کہ ایسے شخص کی وجہ سے ہو سکتے ہیں جسے شریعت کے قواعد اور اصولوں کا کوئی صحیح علم نہیں، اور وہ اپنے آپ اور اپنی امت پر نقصان پہنچاتا ہے۔
جب ایک قوم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضي اللہ عنہ سے سوال کیا: کیا ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کریں گے؟ تو انہوں نے فرمایا "إنه لحسن، ولكن ليس من السنة أن ترفع السيف على إمامك
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف: 37613
یہ اچھا ہے، لیکن سنت نہیں ہے کہ تم اپنے امام کے خلاف تلوار اٹھاؤ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے امام ابو حنیفہ سے نقل کیا کہ ایک شخص نے ان سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ لوگ بھی جڑتے ہیں اور جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں، تو کیا اس کا عمل درست ہے؟ امام ابو حنیفہ نے جواب دیا: نہیں۔ پھر اس سے کہا گیا: کیا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم نہیں دیا ہے اور وہ ایک فرض عمل ہے ! تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا: جی ہاں، لیکن وہ لوگ جو یہ کرتے ہیں، وہ اصلاح سے زیادہ فساد پھیلاتے ہیں؛ خون بہاتے ہیں اور حرام کو حلال سمجھتے ہیں۔ الفتوى الحموية: 321
خاتمہ
سفیان ثوری کے اخوان میں سے ایک شخص نے لکھا کہ مجھے ایک مختصر نصیحت کیجیے، تو سفیان ثوری نے اس کی جانب یہ نصیحت لکھی:
"عافانا الله وإياك من السوء كله يا أخي، إن الدنيا غمها لا يفنى، وفرحها لا يدوم، وفكرها لا ينقضي؛ فاعمل لنفسك حتى تنجو، ولا تتوان فتعطب، والسلام
أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء: 5/7
اللہ ہمیں اور آپ کو ہر برائی سے محفوظ رکھے اے میرے بھائی، بے شک دنیا کا غم کبھی ختم نہیں ہوتا، اور اس کی خوشی عارضی ہے، اس کی فکر کبھی نہیں ختم ہوتی، لہذا اپنی آخرت کے لیے عمل کر تاکہ تم کامیاب ہو، اور سستی مت برتو تاکہ تم ہلاک نہ ہو، والسلام۔
محمد بن سماک نے کہا: "همة العاقل فى النجاة والهرب وهمة الأحمق فى اللهو والطرب
(أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء: 8/204)
عقل مند کی لگن نجات اور بھاگنے میں ہوتی ہے، جبکہ جاہل کی لگن تفریح اور خوشی میں ہوتی ہے۔
ونسأل الله تمام نعمته بالفوز بالجنة والنجاة من النار، وأن يثبت قلوبنا على دينه، إنه قريب مجيب، وصلى الله وسلم على عبده ورسوله نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين.
نصیحت
اے وہ شخص جس کے لیے رجب کے مہینے میں گناہ کافی نہ تھے، یہاں تک کہ اس نے شعبان میں بھی اپنے رب کی نافرمانی کی، یاد رکھ رجب اور شعبان کے بعد اب تم پر رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے، پس اسے بھی نافرمانی کا مہینہ نہ بنا دینا۔
اس مہینے میں قرآن کی تلاوت اور تسبیح کرنے میں خوب محنت کر کیونکہ یہ تسبیح اور قرآن کا مہینہ ہے، تو اس جسم پر محنت کر جس کے لیے نجات کی امید رکھتا ہے کیونکہ وہ جسم آگ کے شعلوں میں جلایا جائے گا۔
کتنے ہی لوگ اہل خانہ، ہمسائے، اور بھائیوں میں سے تھے جنہیں تو جانتا تھا جو پہلے روزے رکھتے تھے، موت نے انہیں ختم کر دیا اور تجھے ان کے بعد زندہ رہنے دیا، پس یا درکھ دور اور قریب کا فاصلہ کتنا مختصر ہے۔