آب زم زم کے فوائد
سوال : کیا آب زم زم کو دیگر پانیوں پر فضیلت حاصل ہے نیز اس کے فوائد کیا ہیں؟
جواب : بلاشبہ آبِ زمزم کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی ہے اور بہت زیادہ برکتوں والا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« خير ماء علٰي وجه الأرض ماء زمزم فيه طعام الطعم وشفاء السقم » [مسند بزار 1171،كشف الأستار الترغيب والترهيب 1754]
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے بزار اور طبرانی نے المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور بزار کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ [مجمع الزوائد 286/3]
”زمین کی سطح پر سب سے بہتر پانی زمزم کا پانی ہے، اس میں پینے والوں کے لیے کفایت ہے اور بیماری کی شفا ہے۔“
آب زمزم کی فضیلت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معراج ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام نے آ کر زمزم کے پانی سے آپ کے قلب مبارک کو غسل دیا ـ [بخاري، كتاب الصلاة : باب كيف فرضت الصلاة فى الإسراء 349]
اور یہ بات کئی ایک ائمہ نے اپنے مشاہدات میں بیان کی ہے کہ آبِ زمزم واقعی کھانے سے کفایت کرتا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”میں نے ایسے آدمی کا مشاہدہ کیا ہے جو آبِ زمزم سے گنتی کے دن غذائیت حاصل کرتا رہا، تقریباً نصف ماہ یا اس سے زائد اور اسے بھوک نہیں لگتی تھی۔ لوگوں کے ساتھ عام آدمی کی طرح طواف کرتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ بعض اوقات اس پر یہ کیفیت چالیس دن تک رہتی۔“ [زاد المعاد 393/4]
علامہ فاکہی نے لکھا ہے کہ صفیہ بنت بحرہ کہتی ہیں : ”میں نے اُم ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کا ایک بڑا پیالہ دیکھا جو مسجد میں رکھا ہوا تھا۔ اس میں زمزم کا پانی ڈالا جاتا تھا، جب ہم اپنے گھر والوں سے کھانا مانگتے تو وہ کہتے : ”اُم ہانی کے پیالے کی طرف چلے جاؤ۔“ [اخبار مكة 47/2]
زمزم کے پانی کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زمزم جس نیک مقصد کے لیے پیا جائے اللہ تبارک وتعالیٰ وہ پورا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ فاکہی نے ایک روایت نقل کی ہے :
”جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، ہم نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، جب انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی پھر زمزم کے پاس سے گزرتے ہوئے صفا کو نکلنے لگے تو کہا: ”اے لڑکے ! میرے لیے زمزم کا ایک ڈول نکال۔“ ان کے لیے ڈول نکالا گیا، انہوں نے پیا اور اپنے سر اور چہرے پر بھی ڈالا اور کہا :
«زمزم شفاء وهى لما شرب له» [أخبار مكة 37/2]
اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب «جزء ماء زمزم لما شرب له» میں فرماتے ہیں : ”یہ سند موقوف ہونے کے ساتھ حسن ہے اور اس حدیث کے لیے جس بھی سند پر میں واقف ہوا ہوں ان سب سے بہتر ہے۔“
’’ زمزم شفاء ہے اور جس مقصد کے لیے پیا جاتا ہے وہ پورا ہو جاتا ہے۔“
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ روایت اگرچہ موقوف ہے لیکن حکماً مرفوع ہے، اس لیے کہ اس میں جو بات بتائی گئی ہے اس میں رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں۔
سنن ابن ماجہ میں ایک روایت ان لفظوں سے موجود ہے :
«ماء زمزم لما شرب له» [ابن ماجه، كتاب المناسك : باب لشرب من زمزم 3062، ابن ابي شيبة 358/4، أحمد 357/3، أخبار أصفهان 37/2، عقيلي 303/2، تاريخ بغداد 179/3]
’’زمزم کے پانی سے وہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے جس کے لیے اسے پیا جائے۔“
اس روایت کو علامہ البانی رحمہ الله نے صحیح قرار دیا ہے ـ [صحيح ابن ماجه 2484]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«ماء زمزم لما شرب له ان شربته تستشفي به شفاك الله وان شربته لشبعك اشبعك الله به وان شربته ليقطع ظمأك قطعه الله وهى هزمة جبريل وسقيا الله اسماعيل» [دارقطني 545/2، 2702، مستدرك حاكم 373/1]
”زمزم کا پانی جس غرض سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے، اگر تم اس لیے پیو کہ اس کے ذریعے تم کو شفا چاہیے تو اللہ تعالیٰ تمہیں شفا عطا کرے گا اور اگر تم نے اس لیے پیا کہ تم سیراب ہو جاؤ تو اللہ تمہیں سیراب کر دے گا اور اگر تم اس لیے پیو کہ تم اپنی پیاس ختم کر دو تو اللہ اسے ختم کر دے گا۔ یہ جبریل علیہ السلام کے پاؤں کی ضرب ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسماعیل علیہ السلام کو پلانا ہے۔“
بہت سارے محدثین نے آبِ زمزم کو مختلف نیک مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مقاصد پورے کر دیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب ”جزء ماء زمزم لما شرب لہ“ میں فرماتے ہیں : ”میں نے اسے ایک مرتبہ پیا اور اللہ سے دعا کی کہ مجھے حفظِ حدیث میں امام ذہبی جیسی اہلیت عطا کر دے، میں اس وقت حدیث کا ابتدائی طالب علم تھا۔ پھر میں نے ایک مدت بعد حج کیا جو تقریباً بیس سال کے قریب ہے، اس وقت میں اپنے اندر اس سے زائد رتبے کی طلب پاتا تھا پھر میں نے اس سے اونچے رتبے کا سول کیا، مجھے اللہ سے امید ہے کہ میں اسے پالوں گا۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابوبکر بن المقری کے فوائد میں سے سوید بن سعید کے طریق سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ”میں نے ابن مبارک کو زمزم میں داخل ہوتے دیکھا تو انہوں نے کہا: ”اے اللہ ! عبداللہ بن مؤمل نے مجھے ابوالزبیر از جابر حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”آبِ زمزم جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ حاصل ہو جاتا ہے۔“ اے اللہ ! میں اس لیے پی رہا ہوں کہ قیامت کے دن کی پیاس سے بچ جاؤں۔“ اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا رسالے کا مطالعہ کریں۔
حج کے موقع پر کی قربانی
سوال : کیا حج کے موقع پر کی جانے والی قربانی سنت ابراہیمی ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب : حج کے موقع پر جو قربانی کی جاتی ہے وہ سنتِ ابراہیمی ہے۔
مفسر قرآن حکیم سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ابوالطفیل نے سوال کیا :
«يزعم قومك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سعٰي بين الصفا والمروة وان ذٰلك سنة»
”آپ کی قوم کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کی ہے اور یہ سنت ہے۔“ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ”انہوں نے سچ کہا ہے۔“
بلاشبہ جب ابراہیم علیہ السلام کو ارکانِ حج کا حکم دیا گیا تو سعی کے مقام پر شیطان ان کے سامنے آیا، اس نے آگے نکلنے کی کوشش کی تو ابراہیم علیہ السلام اس پر سبقت لے گئے پھر جبرائیل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کو جمرہ عقبہ کے پاس لے گئے، پھر ان کے سامنے شیطان آ گیا تو انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ چلا گیا، جمرہ وسطی کے پاس پھر سامنے آ گیا، انہوں نے اسے پھر سات کنکریاں ماریں۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔ اسماعیل علیہ السلام نے سفید قمیص زیب تن کی ہوئی تھی، وہ کہنے لگے : ”اے میرے ابا جان ! میرے پاس اس کے علاوہ کوئی کپڑا نہیں جس میں آپ مجھے کفن دے سکیں۔“ ابراہیم علیہ السلام وہ قمیص اتارنے کی کوشش کرنے لگے تو انہیں پچھلی جانب سے آواز دی گئی : ”اے ابراہیم ! بلاشبہ تو نے خواب سچا کر دکھایا۔“ ابراہیم علیہ السلام نے جب مڑ کر دیکھا تو اچانک ایک سفید سینگوں والا مینڈھا موجود تھا۔“ [مسند أحمد 297/1، 437/4، المعجم الكبير 268/10، مسند طيالسي 2697، بيهقي 153/5، شعب الايمان 4077، تفسير ابن كثير352/5، تهذيب الآثار ص/60، تفسير طبري 516/2]
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کو ارکانِ حج کا جب حکم ملا تھا اور شیطان کو جمرات کے پاس کنکریاں ماری تھیں، اس موقع پر اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک سفید مینڈھا قربانی کے لیے دے دیا اور ان کے خواب کو سچا کر دیا۔ لہٰذا حج کے موقع پر قربانی کرنا سنتِ ابراہیمی ہے، اس میں کسی بھی اہلِ علم کو اختلاف نہیں۔ یہ چند متجددین کے ناقص اجتہاد کا کرشمہ ہے، وہ ایسے شوشے چھوڑ کر اسلام کی تعلیمات پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں لیکن یہ چراغ پھونکوں سے بجھایا نہ جائے گا اور تاقیامت سنتِ ابراہیمی زندہ رہے گی۔ «ان شاء الله !»