آئمہ اربعہ کی اہانت سے متعلق شرعی حکم اور ایک تفصیلی فتوٰی
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

اہانتِ آئمہ اربعہ کرنے والے کے متعلق شرعی حکم

مقدمہ:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں مسلمان کی جان، مال اور عزت و آبرو کو جو تحفظ حاصل ہے، وہ شریعت اسلامیہ کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ جب کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کی عزت و حرمت شریعت کے لحاظ سے محترم قرار پاتی ہے، اور کوئی دوسرا مسلمان اس کی جان، مال اور عزت پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

اسلام میں مسلمان کی حرمت:

◈ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’حرمة مال المسلم کحرمة دمہ‘‘(مسند الشہاب:177)
مسلمان کے ما ل کی حرمت، اس کے خون کی حرمت کی طرح ہے۔

◈ ایک اور مقام پر آپﷺ نے فرمایا:

> **’’المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ التقوی ھھنا التقوی ھھنا‘‘**
(ریاض الصالحین:271)
> مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے تنہا چھوڑتا ہے اور نہ ہی اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے۔ (اور آپﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا)

مسلمان کی تذلیل و تحقیر کا شرعی مقام:

◈ اسلام میں مسلمان کی عزت و حرمت کو نہایت اہمیت دی گئی ہے۔
◈ کسی بھی مسلمان کی تذلیل یا تحقیر کرنے سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔
◈ انبیاء کی اہانت کرنے والا شخص شریعت میں مرتد اور واجب القتل قرار پاتا ہے۔
◈ لیکن اگر کوئی شخص کسی امتی مسلمان کی تذلیل کرے، تو وہ مرتد یا واجب القتل نہیں ہوتا، البتہ یہ عمل حرام ہے۔

آئمہ اربعہ کی تذلیل کا شرعی حکم:

◈ آئمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ – یہ وہ جلیل القدر شخصیات ہیں جن پر پوری امت کو فخر ہے۔
◈ ان کی تذلیل یا سبّ و شتم عام مسلمان کی نسبت زیادہ شدید اور قبیح عمل سمجھا جاتا ہے۔
◈ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
➤ آئمہ کی اہانت سے صرف ایک فرد نہیں بلکہ پوری امت کے اہل ایمان کو تکلیف پہنچتی ہے۔
◈ لہٰذا اگر کوئی شخص آئمہ اربعہ میں سے کسی کی تذلیل کرتا ہے تو:
➤ وہ واجب القتل یا مرتد کے درجے میں تو نہیں آتا۔
➤ لیکن وہ حرام فعل کا مرتکب ہے۔
➤ اگر اسلامی حکومت قائم ہے تو ایسے شخص کو تعزیری سزا دی جاسکتی ہے تاکہ:
▪ اس کی زبان کے شر سے معاشرہ محفوظ رہے۔
▪ دوسروں کے دل دُکھانے والے اس عمل سے باز رہیں۔

خلاصہ:

◈ آئمہ اربعہ کی تذلیل کرنا شریعت میں حرام ہے۔
◈ اس عمل پر تعزیری سزا اسلامی ریاست کی جانب سے دی جاسکتی ہے۔
◈ یہ سزا اس مقصد کے تحت دی جائے گی تاکہ معاشرے کو فتنہ و فساد سے بچایا جا سکے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1