آئمہ اربعہ سے منسوب من گھڑت کتابیں
آئمہ اربعہ سے منسوب من گھڑت، موضوع اور باطل کتابوں کا ذکر پیش خدمت ہے جو چار مشہور اماموں سے منسوب کر دی گئی ہیں، حالانکہ یہ تینوں امام ان کتابوں سے بری ہیں۔
الفقہ الاکبر، المنسوب الی الامام الشافعی رحمہ اللہ،
امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ ”الفقہ الاکبر“ کے نام سے ایک کتاب منسوب کی گئی ہے جسے ”الکوکب الازھر شرح الفقہ الاکبر“ کے نام سے مصطفیٰ احمد الباز نے ”المکتبہ التجاریہ، مکہ مکرمہ“ سعودی عرب سے شائع کیا ہے۔
اس کتاب کے موضوع و من گھڑت ہونے کے چند دلائل درج ذیل ہیں :
① اس کا ناسخ (کا تب) نامعلوم ہے۔
② ناسخ سے لے کر امام شافعی رحمہ الله تک سند نامعلوم ہے۔
③ مصطفیٰ الباز والے نسخہ میں اس کتاب کے نسخوں کا تعارف مختصراً درج ذیل ہے :
(ا۔) مطبوعہ 1900ء
(ب۔) نسخہ محمد بن عبداللہ بن احمد الراوی (مجہول) جدید دور کا لکھا ہوا ؟
(ج۔) شہاب الدین بن احمد بن مصلح البصری، متوفی 986؁ھ کا لکھا ہوا نسخہ ؟
(د۔) احمد بن الشیخ درویش الخطیب کا لکھا ہوا (جدید) نسخہ ؟
(ھ۔) غیر مسلم : کارل بروکلی نے اس کتاب کو امام شافعی رحمہ الله کی طرف منسوب کیا ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سب نسخے بے اصل اور مردود ہیں۔
◈ حاجی خلیفہ صاحب لکھتے ہیں :
لكن فيه شك و الظن الغالب أنه من تأليف بعض أكا بر العلماء
لیکن (امام شافعی رحمہ الله کی طرف ) اس (کی نسبت ) میں شک ہے اور ظن غالب یہی ہے کہ یہ بعض اکا بر علماء کی تصنیف ہے۔ [كشف الظنون 1288/2 ]
یہ اکابر علماء کا بعض مجہول ہے۔
مشہور عربی محقق ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان لکھتے ہیں کہ :
الفقه الأكبر : المكذوب على الإمام محمد بن إدريس الشافعي
الفقہ الاکبر، امام شافعی پر مکذوب (جھوٹ) ہے۔ [كتاب حذر منها العلماء : 293/2 ]
شیخ صالح المقبلی نے بھی اس کتاب کے تصنیف الشافعی ہونے کا انکار کیا ہے، دیکھئے ”العلم الشامخ فی ایثار الحق علی الآباء و المشائخ“ [ ص 180 ]
④ امام شافعی رحمہ الله کے شاگردوں و متقدمین کا لبیہقی وغیرہ نے اس کتاب کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
لطیفہ : الکوکب الازھر شرح الفقہ الاکبر، المکذوب علی الشافعی رحمہ اللہ میں لکھا ہوا ہے کہ : ولا يكفي ايمان المقلد ”اور (عقائد و اصول دین میں) مقلد کا ایمان کافی نہیں ہے۔“ [ ص 42 ]

الفقہ الاکبر المنسوب الی الامام ابی حنیفہ رحمہ اللہ
ملا علی قاری کی شرح کے ساتھ الفقہ الاکبر کا جو نسخہ مطبوعہ ہے اس کے شروع میں نسخہ کے راوی، ناسخ اور ناسخ سے امام ابوحنیفہ تک کوئی سند موجود نہیں ہے۔ حاجی خلیفہ نے لکھا ہے کہ : روي عنه أبو مطيع البلخي ”اسے (امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے ) ابومطیع البلخی نے روایت کیا ہے۔“ [كشف الظنون : 1287/2 ]
ابومطیع الحکم بن عبداللہ البلخی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہیں۔ اسے ابن معین، بخاری اور نسائی وغیرہم نے ضعیف کہا۔ [كتاب الضعفاء و المتروكين : 654]
ایک حدیث کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا : فهذا وضعه أبو مطيع على حماد
اسے ابومطیع نے حماد (بن سلمہ) پر گھڑا ہے۔ [ميزان الاعتدال : 42/3 ت 5523 ]
یعنی ابومطیع وضاع (حدیثیں گھڑنے والا تھا) ابومطیع سے نیچے، اس نسخے کی سند نامعلوم ہے۔
ایک ملا صاحب نے اس کتاب کی ایک دوسری سند فٹ کر رکھی ہے۔ [ ديكهئے مجموعه الرسائل العشرة ص 17 ]
اس سند میں بہت سے راوی مجہول، غیر معروف اور نامعلوم التوثیق ہے۔
نصر بن یحیی البلخی، علی بن احمد الفارسی، علی بن الحسین الغزالی، نصران بن نصر الختلی اور حسین بن الحسین الکاشغری وغیرہم، اس سند کا بنیادی راوی : ملا صاحب مجہول ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ سند بھی موضوع و باطل ہے۔
تنبیہ : اس موضوع رسالے ”الفقہ الاکبر“ میں لکھا ہوا ہے کہ :
فما ذكر الله تعالىٰ فى القرآن من ذكر الوجه واليد والنفس فهو صفات بلا كيف ولا بقال : أن يده قدرته و نعمته لأفيه ابطال الصفة وهو قول اهل القدر والإعتزال ولكن يده صفته بلا كيف
”پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وجه (چہرہ) يد (ہاتھ) اور نفس (جان) کا جو ذکر کیا ہے وہ اس کی بلا کیف صفتیں ہیں اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اس کا ہاتھ اس کی قدرت اور نعمت ہے کیونکہ اس (کہنے ) میں صفت کا ابطال ہے اور یہ قول قدریوں اور معتزلہ کا ہے، لیکن (کہنا یہ چاہئے کہ ) اس (اللہ) کا ہاتھ اس کی صفت ہے بلاکیف۔“ [ ص19 ومع شرح القاري ص 37، 36 ]
اس کے برخلاف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی فرماتے ہیں :
”مثلاً یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد (قدرت) تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ “ [المهند ص 42 جواب سوال : 14، 13، بدعتي كے پيچهے نماز پڑهنے كا حكم ص 18 ]
معلوم ہوا کہ اس کتاب (الفقہ الاکبر) کے مطابق دیوبندی حضرات معتزلہ کے مذہب پر ہیں۔

➌ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ سے منسوب کتاب ”الصلوۃ“ ان سے ثابت ہی نہیں ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ :
وكتاب : الرسالة فى الصلوة، قلت : هو موضوع على الإمام
”یعنی یہ کتاب موضوع (اور من گھڑت ) طور پر امام (احمد) سے منسوب کر دی گئی ہے۔ “ [سير اعلام النبلاء : 330/11 ]
تنبیہ : نماز نبوی کے مقدمہ التحقیق (ص18) میں ”اور امام احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ (متوفی241؁ھ) کی کتاب الصلوۃ وغیرہ “ کے الفاظ دارالسلام والوں کی غلطی کی وجہ سے چھپ گئے ہیں۔ حافظ زبیر علی زئی صاحب اس عبارت سے بری ہیں، مدیر مکتبہ دارالسلام نے اس عبارت مذکورہ کے بارے میں اپنے پیڈ پر لکھ کر دیا کہ ”تسامح کی وجہ سے چھپ گئی ہے۔ جس پر ادارہ مقدمۃ التحقیق کے مؤلف سے معذرت خواہ ہے، عبدالعظیم اسد، دارالسلام لاہور 18/8/2000“

➍ امام مالک رحمہ الله (کے مذہب) سے منسوب ”المدونہ الکبری“ غیر مستند کتاب ہے دیکھئے کتاب ”القول المتین فی الجھر بالتأمین“ [ص73] [ وسير اعلام النبلاء 206/14 والعبر فى خبر من غبر 122/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے