سوال : کیا ماہِ رمضان میں اعتکاف سنتِ مؤکدہ ہے ؟ غیر رمضان میں اعتکاف کے کیا شرائط ہیں ؟
جواب : رمضان میں اعتکاف سنت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں اعتکاف کیا، آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ اور علماء نے اس کے مسنون ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ لیکن اعتکاف اس طریقہ پر ہونا چاہیے جس کے لئے اس کی مشروعیت ہوئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان مسجد کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے اس طرح لازم پکڑے کہ دنیاوی کاروبار سے فارغ ہو کر اطاعت الٰہی میں لگ جائے، تمام دنیاوی مشاغل سے دور رہے، اطاعت کے مختلف کاموں جیسے صلاۃ اور ذکر الٰہی وغیرہ میں لگا رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی تلاش و جستجو میں اعتکاف کرتے تھے۔ معتکف کو دنیاوی کاروبار سے دور رہنا چاہیے۔ پس وہ نہ خرید و فروخت کرے، نہ مسجد سے باہر نکلے، نہ جنازہ میں شریک ہو، نہ بیمار کی بیمار پرسی کرے۔
بعض لوگ اعتکاف میں ہوتے ہیں اور زائرین شب و روز ان سے ملاقات کے لیے آتے رہتے ہیں۔ اس میں حرام باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ جو مقصدِ اعتکاف کے خلاف ہے۔
لیکن اگر اس کے گھر کا کوئی شخص اس کے پاس جائے اور کچھ بات چیت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ کے اعتکاف کی حالت میں صفیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی زیارت کی اور آپ سے کچھ دیر گفتگو کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تقرب کے لئے اعتکاف کرے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ تعالیٰ “
جواب : رمضان میں اعتکاف سنت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں اعتکاف کیا، آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ اور علماء نے اس کے مسنون ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ لیکن اعتکاف اس طریقہ پر ہونا چاہیے جس کے لئے اس کی مشروعیت ہوئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان مسجد کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے اس طرح لازم پکڑے کہ دنیاوی کاروبار سے فارغ ہو کر اطاعت الٰہی میں لگ جائے، تمام دنیاوی مشاغل سے دور رہے، اطاعت کے مختلف کاموں جیسے صلاۃ اور ذکر الٰہی وغیرہ میں لگا رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی تلاش و جستجو میں اعتکاف کرتے تھے۔ معتکف کو دنیاوی کاروبار سے دور رہنا چاہیے۔ پس وہ نہ خرید و فروخت کرے، نہ مسجد سے باہر نکلے، نہ جنازہ میں شریک ہو، نہ بیمار کی بیمار پرسی کرے۔
بعض لوگ اعتکاف میں ہوتے ہیں اور زائرین شب و روز ان سے ملاقات کے لیے آتے رہتے ہیں۔ اس میں حرام باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ جو مقصدِ اعتکاف کے خلاف ہے۔
لیکن اگر اس کے گھر کا کوئی شخص اس کے پاس جائے اور کچھ بات چیت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ کے اعتکاف کی حالت میں صفیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی زیارت کی اور آپ سے کچھ دیر گفتگو کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تقرب کے لئے اعتکاف کرے۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمہ اللہ تعالیٰ “