یہود و نصاریٰ کے ساتھ اسلام کا روادارانہ طرز عمل

مستشرقین کی اسلام سے نفرت اور اس کے خلاف رویہ

مستشرقین (Orientalists) کی اسلام سے نفرت اور اس کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ مختلف وجوہات پر مبنی ہے۔ بعض افراد کا گمان ہے کہ شاید اس کی وجہ مسلمانوں کی طرف سے ظلم یا ان کے مال و اسباب کی لوٹ مار ہو، لیکن تاریخی حقائق اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ ذیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے یہود و نصاریٰ کے ساتھ حسنِ سلوک کی چند روشن مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

میثاقِ مدینہ: بین المذاہب رواداری کی بنیاد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مختلف عقائد اور قوموں کو متحد رکھنے کے لیے دنیا کا پہلا تحریری دستور،
"میثاقِ مدینہ”، ترتیب دیا۔

  • مسلمانوں اور یہودیوں کو اپنے اپنے مذہب پر آزادی دی گئی۔
  • تمام افراد کو دینی، عدالتی، اور قانونی آزادی حاصل تھی۔

حوالہ: ڈاکٹر محمد حمید اللہ، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، ص: ۷۶۔

محمد حسین ہیکل اپنی کتاب
”حیات محمد“
میں فرماتے ہیں کہ میثاقِ مدینہ کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا جس میں ہر فرد کو اپنے مذہب کی مکمل آزادی دی گئی، جان و مال محفوظ ہوا اور مدینہ امن کا گہوارہ بن گیا۔
(حوالہ: محمد حسین ہیکل، حیات محمد، مطبعہ النہضہ المصریہ ۱۹۴۷، ص: ۲۲۷۔)

غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کی عملی مثالیں

عیسائیوں کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت

نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں اپنی عبادت کرنے کی آزادی دی گئی۔
(حوالہ: ابن قیم الجوزی، زاد المعاد، ج:۱، ص: ۱۵۔)

یہودیوں اور عیسائیوں کے حقوق کی حفاظت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہِ سینا کے قریب سینٹ کیتھرائن چرچ کے راہبوں اور تمام عیسائیوں کے حقوق کو تحفظ دیا اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ:

  • گرجا گھروں اور راہبوں کی حفاظت کریں۔
  • کسی عیسائی کو اپنے مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

(حوالہ: ڈاکٹر حافظ محمد ثانی، رسول اکرم اور رواداری، ص: ۱۹۲، ۱۹۳۔)

یہودیوں کے خلاف اقدامات اور ان کی وجوہات

مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ سخت رویہ ان کے مسلسل عہد شکنی اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کی وجہ سے تھا۔

اس کے باوجود جنگ کے دوران بھی اسلام نے واضح اصول دیے:

  • صرف لڑنے والے افراد (Combatants) کو نشانہ بنایا جائے۔
  • عورتوں، بچوں، بوڑھوں، اور دیگر غیرمتحارب افراد کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔

(حوالہ: ڈاکٹر خالد علوی، انسانِ کامل، ص: ۳۰۰۔)

خلفائے راشدین کا رویہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہدایات

شام کی طرف فوج بھیجتے وقت حضرت ابوبکر نے درج ذیل ہدایات دیں:

  • عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے۔
  • عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
  • کسی درخت یا کھیتی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔

(حوالہ: ڈاکٹر خالد علوی، انسانِ کامل، ص: ۳۱۰۔)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا امان نامہ

بیت المقدس کی فتح کے بعد عیسائیوں کو امان دی گئی، جس میں ان کے جان و مال، عبادت گاہوں، اور مذہبی آزادی کا تحفظ کیا گیا۔
(حوالہ: ابن جریر طبری، تاریخ الامم والملوک، ج۵، ص: ۲۴۰۵۔)

اسلامی تعلیمات میں مذہبی آزادی اور حقوق

غیر مسلموں کو ذاتی قوانین (پرسنل لاء) اور ثقافت پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی۔
(حوالہ: امام ابوعبیدہ، کتاب الاموال، ص: ۱۴۰۔)

عیسائیوں اور یہودیوں کے گرجا گھروں اور مذہبی علامات کو نقصان پہنچانے سے روکا گیا۔
(حوالہ: امام ابویوسف، کتاب الخراج، ص: ۱۴۳۔)

اگر کوئی مسلمان غیر مسلم کے خنزیر یا شراب کو نقصان پہنچائے تو اسے معاوضہ دینا لازم قرار دیا گیا۔
(حوالہ: رد المحتار، ج:۳، ص: ۲۷۳، بحوالہ اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق، از مولانا مودودی، ص: ۱۶۔)

خلاصہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے ہمیشہ برداشت، عدل، اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی اور حقوق دیے گئے۔ جنگ اور امن دونوں حالتوں میں اسلام کے رویے میں انصاف نمایاں رہا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ سخت رویہ ہمیشہ ان کی سازشوں اور دشمنی کا ردعمل تھا، نہ کہ ظلم یا زیادتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے