ہیومن اور انسانیت کا اسلامی و مغربی تصور
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل

عام طور پر "ہیومن” کا ترجمہ "انسان” کیا جاتا ہے

اور یوں سمجھ لیا جاتا ہے کہ انسان تو بس انسان ہی ہوتا ہے، چاہے وہ مشرق کا ہو یا مغرب کا۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں بلکہ خاصا پیچیدہ ہے۔ ہر تہذیب کا اپنا ایک منفرد تصور انفرادیت ہوتا ہے، جو اس سوال کے جواب سے جُڑا ہوتا ہے:
"میں کون ہوں؟”۔
اس سوال کا جواب زندگی کے مقصد، خیر و شر کی پہچان اور دیگر بنیادی تصورات کو متعین کرتا ہے۔

تاریخی طور پر تصور انسانیت

ماضی میں اس سوال کا عمومی جواب یہ تھا کہ "میں عبد (مسلمان) ہوں”۔
یہ تصور صدیوں تک انسانیت کا جائز اور مقبول تصور رہا۔ مذہبی معاشروں میں یہی تصور انفرادیت غالب تھا، جو انسان کو خدا کا بندہ سمجھتا تھا۔
اگرچہ کچھ معاشروں میں اس کے برعکس نظریات بھی موجود تھے، لیکن وہ اکثریتی تصور نہیں تھے۔

تحریک تنویر اور "ہیومن” کا نیا تصور

یورپ میں سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں تحریک تنویر (Enlightenment) کے زیر اثر ایک نیا تصور سامنے آیا۔ اس کے مطابق انسان عبد نہیں بلکہ آزاد اور قائم بالذات (autonomous) ہے۔
یہ تصور رینی ڈیکارٹ کے مشہور جملے "I think, therefore I am” سے آغاز پاتا ہے۔ ڈیکارٹ کے مطابق کائنات میں واحد ہستی جو اپنے ہونے کا جواز خود رکھتی ہے، وہ "میں” یعنی "I” ہے۔

"ہیومن” کا تصور

  • "ہیومن” اپنے بندہ ہونے کا انکار کرتا ہے اور آزادی کا دعویٰ کرتا ہے۔
  • دوسرے الفاظ میں، یہ تصور خدا کی بندگی کے خلاف بغاوت کا مظہر ہے۔

فوکو کا بیان: "ہیومن” کی پیدائش

مشہور مغربی فلسفی میشل فوکو کے مطابق، "ہیومن” سترہویں صدی میں پہلی بار وجود میں آیا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے پہلے دنیا میں انسان موجود نہیں تھے، بلکہ یہ کہ اس سے پہلے کسی تہذیب یا نظام فکر میں آزادی کو انفرادیت کے جائز اظہار کا معیار نہیں سمجھا گیا تھا۔
یہ دراصل کفر و الحاد کی ایک نئی شکل تھی۔

"Mankind” سے "Humanity” تک

  • "Mankind” (خدا کی رعایا و مخلوق) کا تصور صدیوں سے موجود تھا، لیکن "Humanity” کا تصور سترہویں صدی میں سامنے آیا۔
  • ہیومن ازم (Humanism) اسی تصور پر مبنی ہے، جہاں انسان کی آزادی اور قائم بالذات ہونے کو اس کی بنیادی صفت مانا جاتا ہے۔
  • جدید مغربی الحاد کی بنیاد یہی تصور ہے، اور لبرل ازم، سوشل ازم، نیشنل ازم جیسے تمام نظریات اسی سے جنم لیتے ہیں۔

تصور ذات کی اہمیت

جو لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ تصور ذات (Identity) کا ایمانیات سے گہرا تعلق ہے، وہ کہتے ہیں کہ "انسان تو بس انسان ہے”۔ لیکن یہ بہت سطحی بات ہے۔

زندگی کا مقصد، خیر و شر، علم، حق و عدل جیسے تصورات اس سوال کے جواب سے مکمل طور پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً:

  • حضرت عیسیٰؑ کو مسلمان اور عیسائی دونوں تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کے درمیان اختلاف "تصور عیسیٰؑ” پر ہے، نہ کہ ان کی شخصیت پر۔
  • مسلمانوں کے نزدیک عیسیٰؑ خدا کے رسول ہیں، جبکہ عیسائی انہیں خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔
  • اسی طرح، "ہیومن” اور "مسلمان” کے تصور کو یکساں سمجھنا بھی سنگین غلط فہمی ہے۔

خلاصہ

وہ انسان جو خود کو خدا کا بندہ سمجھتا ہے، اور وہ انسان جو خود کو آزاد و خودمختار سمجھتا ہے، ان دونوں کے معاشرتی اور ریاستی نظام کبھی یکساں نہیں ہو سکتے۔
"ہیومن” کا تصور ایک جدید، الحادی نظریہ ہے جو انسان کو خدا کے مقابل کھڑا کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے