ہیومن ازم کے تحت مذاہب کی اصلاح اور چیلنجز

ہیومن ازم کا تصور

ہیومن ازم ایک ایسا فلسفہ ہے جو انسان کو مرکزِ کائنات مانتا ہے اور انسانی ضروریات، خواہشات اور جذبات کو ہر چیز پر فوقیت دیتا ہے۔ اس کے مطابق انسانیت ہی سب سے بڑی حقیقت ہے اور ہر معاملے کا پیمانہ بھی انسان ہی ہے۔
اس نظریے نے مختلف مذاہب کو چیلنج کیا اور ان میں اصلاحات کے ایجنڈے کو فروغ دیا۔

مذاہب میں اصلاح کا ایجنڈا

ہیومن ازم کے تحت مذاہب کو اُن کے سخت گیر عقائد، احکامات اور غیر منطقی اصولوں سے پاک کرکے انہیں "انسانی مزاج” کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔
اس اصلاح کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:

1. غیر متنازعہ امور کو نمایاں کرنا:

مذاہب سے ایسے عقائد اور احکامات کو زیادہ نمایاں کرنے پر زور دیا جا رہا ہے جو تمام انسانوں کے لیے قابلِ قبول اور مشترک ہیں۔
مثال کے طور پر، اخلاقی تعلیمات اور انسانی خدمت کو مذہب کا بنیادی مقصد بنا دیا جائے۔

2. متنازعہ عقائد کی تاویل:

ایسے مذہبی عقائد اور احکامات جو مختلف مذاہب کے درمیان اختلاف کا باعث بنتے ہیں، انہیں ثانوی حیثیت دی جاتی ہے اور ان کی ایسی تاویل کی جاتی ہے جو "آفاقی” اور "بین المذاہب” ہم آہنگی کے مطابق ہو۔

3. عقلی دلائل کی فوقیت:

مذہبی تعلیمات کو "عقلی” اور "منطقی” دلائل کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ جدید ذہن کے لیے قابلِ قبول ہو سکیں۔
غیر منطقی اور غیبی باتوں کو کمزور بنیادوں پر سائنسی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔

سائنسی توجیہات اور غیبیات

مذہبی عقائد جیسے معجزات اور غیبی امور کی سائنسی وضاحت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ جدید تعلیم یافتہ افراد کے لیے یہ چیزیں قابلِ فہم اور قابلِ قبول بن سکیں۔

تقاربِ ادیان (Interfaith Harmony)

ہیومن ازم کے فلسفے نے "بین المذاہب ہم آہنگی” کے تصور کو بھی فروغ دیا ہے۔
اس کا مقصد مختلف مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ان کے اختلافات کو کم کرنا ہے۔

تقاربِ ادیان کے طریقے:

  • اختلافات کو غیر اہم بنانا: مذہبی اختلافات جیسے توحید اور شرک یا خدا کی صفات جیسے معاملات کو کم اہمیت دی جاتی ہے تاکہ ان سے پیدا ہونے والے تنازعات ختم ہو سکیں۔
  • مشترکہ اخلاقی اصولوں کو فروغ دینا: تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مذاہب کی عزت کریں اور ان کے عقائد پر تنقید سے گریز کریں۔
  • مذہبی شعائر کی مشترکہ تقریبات: جیسے کرسمس کی تقریبات میں مسلمانوں کی شرکت یا دیگر مذاہب کی تقریبات میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ مذاہب کے درمیان فاصلے کم ہوں۔

مذہبِ اسلام اور جدید اصلاحات

اسلام کو بھی ان اصلاحات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں:

1. مذہب کی تفسیر نو:

اسلامی تعلیمات کو نئے پیرائے میں پیش کیا جا رہا ہے، جہاں قرآن و سنت کے احکامات کو جدید انسانی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

2. پرویزیت کی ناکامی:

علامہ غلام احمد پرویز کی کوششیں اسلام کو "ہیومن ازم” کے مطابق پیش کرنے کی ایک مثال ہیں، لیکن ان کا طریقہ مذہبی علم کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا۔

3. عالمی میڈیا اور تعلیمی ادارے:

جدید میڈیا اور مغربی تعلیمی نظام ان اصلاحات کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہیں۔

"ہیومن ازم” کی بنیاد پر مذاہب کی حیثیت

"ہیومن ازم” کے مطابق مذاہب کی حیثیت محض روایتی رسومات اور ذاتی عقائد تک محدود کر دی گئی ہے۔
مذہب کو انسانیت کے "مشترکہ اخلاقی اصولوں” کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور اس سے وابستہ عقائد اور شعائر کو غیر اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

جدید فکری حملے اور ان کا نتیجہ

  • مذہب کا "انسانی تہذیب” کے لیے ماتحت ہونا: مذہبی عقائد کو انسانی خواہشات اور ضروریات کے مطابق بدلنے کی مہم جاری ہے۔
  • امتِ مسلمہ کے چیلنجز: مسلم دنیا میں اس عالمی ایجنڈے کے اثرات واضح ہیں، جہاں اسلام کو اس کی حقیقی تعلیمات سے ہٹانے اور ایک "ہیومن اسٹ” مذہب میں بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
  • کرسمس کیک سے لے کر بین المذاہب تقریبات تک: یہ سب اس ایجنڈے کے چھوٹے چھوٹے مظاہر ہیں، جو امت کے اصل نظریات اور عقائد کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے