انسانیت یا انسان پرستی؟
آج کل ہمیں بار بار یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ ہم "انسان” بنیں اور اشیاء کو "انسانی” نقطہ نظر سے دیکھیں۔ لیکن اس "انسان” کا مطلب وہی ہے جو "ہیومن ازم” کے تحت سمجھا جاتا ہے۔ دین کی اصل کہانی کو پسِ پشت ڈال کر ہمیں انسانیت کے سبق سکھائے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے غور کیا ہے کہ یہ انسانیت دراصل "انسان پرستی” ہے، جو "خدا پرستی” یا "اسلام” کا متبادل پیش کرتی ہے؟
دین اور انسانیت کے درمیان فرق
ہیومن ازم کا مقصد یہ ہے کہ ہم دنیا کے تمام امور کو اسلام کی بجائے کسی اور پیمانے پر پرکھیں۔ ہمیں سکھایا جا رہا ہے کہ ہم ملتوں کے فرق کو "مسلمان” کی حیثیت سے نہیں بلکہ "انسان” کی نظر سے دیکھیں۔ یہ سوچ درحقیقت ایک نئے دین کی بنیاد ڈالنے کی کوشش ہے، جہاں دین کو غیر ضروری بلکہ غیر معقول سمجھا جائے۔
نئی ملت: "ہیومن ازم”
یہ نئی ملت، جسے "ہیومن ازم” کہا جاتا ہے، انسانوں کے درمیان کسی بھی مذہبی فرق کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس میں دین کی حیثیت "رنگ” یا "نسل” سے بھی کمتر ہو جاتی ہے۔ یعنی دین کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو ماضی میں ملتوں کے فرق کو سمجھنے کے لیے دی جاتی تھی۔
دین کی بنیاد پر تفریق کو غیر اہم بنانا
ہیومن ازم کے تحت انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا ایک "غیر معقول” عمل سمجھا جاتا ہے۔ اس نئی سوچ میں دین کو ایک ذاتی معاملہ قرار دے کر اس کی حیثیت کو کم کر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ "دین” انسانوں کے مابین فرق کرنے کے لیے قابلِ قبول بنیاد بھی نہیں رہتا۔
دینی حمیت کا خاتمہ
ہیومن ازم کا حتمی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے دینی حمیت کو ختم کر دیا جائے۔ مسلمانوں، ہندوؤں، عیسائیوں، اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی پہچان ختم کرکے انہیں صرف "انسان” کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ اس سوچ کو کامیاب بنانے کے لیے نوجوانوں اور باشعور طبقے کو ایک خاص منصوبے کے تحت تیار کیا جا رہا ہے۔
ملتِ اسلامیہ کا تحفظ
ایک مسلمان کے لیے یہ سوچ قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ اسلام ایک شرعی حقیقت ہے، اور اسے ایک سماجی محاورہ نہیں بنایا جا سکتا۔ دین کی بنیاد پر انسانوں کے مابین فرق کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔ "ہیومن ازم” کے عقائد کو اپنانا درحقیقت دینِ اسلام سے انحراف ہے۔