ہندو مت کی لبرل شناخت کا فریب

ہندو مت کی لبرل تصویر: ایک غلط فہمی

ہندو مت اور لبرل نظریہ: عمومی تاثر

عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہندو مت کی کوئی واضح تعریف یا متعین اصول نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ:

  • جو خود کو ہندو کہے، وہی ہندو ہے۔
  • چاہے کوئی ایک خدا مانے، تینتیس کروڑ دیوتا مانے یا بالکل بھی نہ مانے، سب قابلِ قبول ہے۔
  • ہندو مت کسی خاص صحیفے یا عقیدے کا پابند نہیں۔

نامور کانگریسی سیاست دان ششی تھرور نے اپنی کتاب Why I Am a Hindu میں بھی یہی باتیں دہرائی ہیں۔ وہ ہندو مت کو ایک "لبرل” مذہب قرار دیتا ہے جو کسی پر عقیدہ زبردستی مسلط نہیں کرتا اور ہر فرد کو اپنی مرضی کا عقیدہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ششی تھرور کے مطابق، اسی وسعت نظری کی وجہ سے ہندو مت نے ہندوستان میں تقریباً تمام مذاہب کو اپنے اندر جذب کرلیا، سوائے اسلام اور مسیحیت کے۔

اسلام اور مسیحیت ہندو مت میں کیوں شامل نہ ہوسکے؟

ششی تھرور اس سوال سے گریز کرتا ہے کہ اگر ہندو مت ہر قسم کے عقائد کو قبول کر لیتا ہے، تو مسلمان اور مسیحی کیوں ہندو نہیں کہلائے جا سکتے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام اور مسیحیت ایسے عقائد رکھتے ہیں جن کا انکار ہندو مت کی بنیاد پر ضروری ہے:

    • اسلام اور مسیحیت کا یہ دعویٰ ہے کہ حق صرف انہی کے پاس ہے:

(ان الدین عند اللہ الاسلام۔۔۔ و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔۔۔ و آمنوا بما نزل علی محمد ھو الحق من ربھم)

"بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔۔۔ اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش کرے گا، تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔۔۔ اور ایمان لاؤ اس پر جو محمد ﷺ پر نازل کیا گیا، وہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔”

    • دونوں مذاہب کا مقصد حق کو دوسروں تک پہنچانا ہے تاکہ وہ اسے قبول کریں:

(قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا)

"کہہ دو، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔”

ہندو مت کی حقیقی شرط: مکمل لبرلزم یا مخصوص عقیدہ؟

ششی تھرور اور دیگر ہندو دانشوروں کے دعوے کہ "جو خود کو ہندو کہے، وہ ہندو ہے”، مکمل سچ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہندو ہونے کے لیے کچھ بنیادی عقائد کو تسلیم کرنا ضروری ہے اور کچھ عقائد کا انکار بھی لازمی ہے۔ اگر کوئی ان لازمی اصولوں سے اختلاف کرے، تو وہ ہندو نہیں کہلایا جا سکتا۔ اس سچائی کا اعتراف کرنے سے ہندو مت کی "لبرل” تصویر مکمل طور پر ٹوٹ جاتی ہے۔

یہودیت کا ذکر کیوں نہیں؟

یہودیت میں بنی اسرائیل سے باہر کسی کو یہودی بنانے کا رجحان نہیں، اس لیے ششی تھرور نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن اسلام اور مسیحیت کے برعکس، یہودیت کا یہ محدود دائرہ اسے ہندو مت کے ساتھ مقابلے میں غیر اہم بنا دیتا ہے۔

کیرن آرمسٹرانگ اور توحیدی مذاہب پر تنقید

کیرن آرمسٹرانگ، جو کہ عوامی سطح پر مذہب پر لکھنے والی مشہور مصنفہ ہیں، توحیدی مذاہب (اسلام، مسیحیت، اور یہودیت) پر الزام لگاتی ہیں کہ ان میں برداشت کم ہوتی ہے، جبکہ مشرکانہ مذاہب میں برداشت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ تاریخی حقائق کے منافی ہے:

  • مشرکینِ عرب کی جانب سے رسول اللہ اور صحابہ کرامؓ پر کیے جانے والے مظالم کیا "برداشت” کی علامت تھے؟
  • ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں؟

یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ مشرکانہ مذاہب کی برداشت محض ایک پروپیگنڈا ہے، حقیقت نہیں۔

مشرکانہ مذاہب کی "برداشت” کی حقیقت

مشرکانہ مذاہب بظاہر نئے خداؤں کو قبول کرتے ہیں، لیکن ان کی شرط یہ ہوتی ہے کہ:

  • کوئی انہیں غلط نہ کہے۔
  • ان کی بالادستی کو چیلنج نہ کرے۔

جیسے ہی کوئی توحیدی مذہب ان کے باطل عقائد کو چیلنج کرتا ہے، ان کا رویہ برداشت سے عدم برداشت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال جدید لبرل نظریات کی بھی ہے۔ لبرل ازم آزادیِ رائے کا دعویٰ تو کرتا ہے، لیکن جب کوئی اس کی بنیادی اقدار سے اختلاف کرتا ہے تو فوراً عدم برداشت ظاہر ہونے لگتی ہے۔

نتیجہ

ہندو مت اور لبرل ازم کے بارے میں "برداشت” کا دعویٰ محض ایک فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے مشرکانہ مذاہب ہوں یا جدید لبرل نظام، یہ صرف اس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک ان کے بنیادی عقائد کو چیلنج نہ کیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1