ہمارے زمانے کے علماء کے اجماع کی شرعی حیثیت

سوال:

کیا ہمارے زمانے کے علماء کا اجماع حجت ہے اور کیا وہ شرعی طور پر لازم الاتباع ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اجماعِ امت قطعی حجت ہے، لیکن یہ شرط کے ساتھ کہ وہ اجماع ثابت ہو۔
یقینی اور معتبر اجماع صحابہ کرام کا اجماع ہے، کیونکہ بعد میں امت میں اختلافات بڑھ گئے۔

📖 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ضابطے کے مطابق اجماع وہی ہے جو سلف صالحین (صحابہ و تابعین) کے دور میں تھا، کیونکہ بعد میں اختلافات اور انتشار بڑھ گیا۔”
(مجموع الفتاویٰ: 4/63)

📖 ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اجماع وہی معتبر ہے جس پر سلف کا اتفاق ہو، کیونکہ بعد کے زمانے میں تمام اہل علم کے اقوال جمع کرنا ناممکن ہوتا چلا گیا۔”
(الاحکام فی اصول الاحکام: 4/147)

لہٰذا، آج کے زمانے میں علماء کا کسی مسئلے پر اتفاق محض ایک دلیل ہو سکتا ہے، لیکن اسے قطعی اجماع نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ پوری امت کے تمام علماء کے اقوال اکٹھے کرنا ممکن نہیں۔

شرعی اجماع وہی معتبر ہے جو یا تو سلفِ صالحین سے منقول ہو، یا پھر صحیح سند سے ثابت ہو کہ اس پر امت کا کوئی مستقل اختلاف نہیں تھا۔

اجماع کے لیے شرائط

➊ اجماع صحیح سند سے ثابت ہو:
یا تو وہ اجماع مشہور بین العلماء ہو، یا پھر ثقہ ناقل اسے نقل کرے۔

➋ اس اجماع کے خلاف پہلے کوئی مضبوط اختلاف موجود نہ ہو:
اگر کوئی مستقل طور پر معتبر مخالف رائے موجود رہی ہو، تو پھر وہ اجماع نہیں کہلائے گا۔

➌ اجماع کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو:
کیونکہ قرآن و حدیث ہر اجماع سے بالاتر اور مقدم ہیں۔

خلاصہ:

اجماعِ صحابہ حجت ہے اور قطعی دلیل شمار ہوتا ہے۔
بعد کے زمانے میں علماء کا کسی مسئلے پر متفق ہونا ایک مضبوط دلیل ہو سکتی ہے، لیکن قطعی اجماع نہیں کہلا سکتا۔
کسی چیز پر اجماع تب ہی معتبر ہوگا، جب وہ صحیح سند سے ثابت ہو، پہلے کسی مخالف قول کے بغیر ہو، اور کتاب و سنت سے ہم آہنگ ہو۔
لہٰذا، ہمارے زمانے میں علماء کا اجماع محض ایک علمی استدلال ہو سکتا ہے، مگر اسے لازم اور قطعی حجت نہیں کہا جا سکتا۔

پس، مسلمان کو چاہیے کہ وہ کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہ کی اتباع کرے، اور اگر کسی مسئلے میں علماء کی اکثریت کسی بات پر متفق ہو، تو اسے بطور دلیل قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے ہر حال میں قطعی حجت نہ سمجھا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1