ہلال شوال دیکھنے کے متعلق ایک آدمی کی گواہی
کیا قبول کی جائے گی یا نہیں؟ فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: الأم: 94/2 ، المجموع: 239/6 ، تحفة الفقهاء: 530/1 ، فتح القدير: 250/2]
(نوويؒ) تمام علماء کے نزدیک ہلال شوال کے متعلق ایک عادل شخص کی شہادت قابل قبول نہیں۔ سوائے امام ابو ثورؒ کے صرف انہوں نے اسے جائز کہا ہے ۔
[شرح مسلم: 207/4]
امام نوویؒ کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ ”لوگوں کے مابین ماہ رمضان کے آخری دن میں اختلاف ہو گیا تو دو دیہاتیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر شہادت دی کہ اللہ کی قسم گذشتہ شب چاند طلوع ہو چکا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیا ۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اگلے روز عید گاہ کی طرف (نماز عید) کے لیے جانے کا کہا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2051 ، كتاب الصوم: باب شهادة رجلين على رؤية هلال شوال ، أبو داود: 2339 ، أحمد: 314/4 ، بيهقى: 250/4]
(شوکانیؒ) مجرد کسی واقعہ میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ) دو آدمیوں کی گواہی قبول کر لینا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ایک کی (شہادت) قبول نہیں کی جائے گی۔
[نيل الأوطار: 153/3]
(راجح) امام شوکانیؒ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔