ہر رکن میں مسنون اذکار پڑھنا سنت ہے
حالت قیام میں سورہ فاتحہ اور ہر نماز میں گذشتہ بیان کردہ سورتوں یا دیگر قرآنی آیات کی تلاوت کی جا سکتی ہے علاوہ ازیں مزید اذکار مندرجہ ذیل ہیں:
◈ ہر مرتبہ اٹھتے اور جھکتے وقت تکبیر کہی جائے:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يكبر فى كل رفع و خفض و قيام و قعود
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر (مرتبہ ) اٹھتے وقت ، جھکتے وقت ، کھڑے ہوتے وقت اور بیٹھتے وقت تکبیر کہتے ہوئے دیکھا۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 208 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى التكبير عند الر كوع و السجود ، ترمذى: 253 ، أحمد: 418/1 ، نسائي: 1142 ، دارمي: 285/1 ، إرواء الغليل: 330]
اسی کی مثل صحیحین میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث مروی ہے ۔
[بخاري: 786 ، مسلم: 393]
◈ رکوع و سجدہ کے اذکار:
➊ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں سبحان ربي العظيم اور سجدے میں سبحان ربي الاعلي کہتے تھے ۔
[أحمد: 382/5 ، مسلم: 772 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب استحباب تطويل القراءة فى صلاة الليل ، ابن خزيمة: 603 ، ترمذي: 262 ، أبو داود: 871 ، بيهقى: 85/2 ، شرح معاني الآثار: 23531 ، دار قطني: 334/1 ، ابن ماجة: 888]
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں سبحان ربي العظيم اور سبحان ربي الأعلى رکوع و سجدہ میں تین تین مرتبہ کہنے کا ذکر ہے ، وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 187 ، ضعيف ابن ماجة: 187 ، ضعيف ترمذي: 43 ، المشكاة: 880 ، ضعيف الجامع: 525 ، أبو داود: 886 ، ترمذي: 261 ، ابن ماجة: 890 ، بيهقي: 86/2 ۔ شيخ محمد صجی حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على السيل الجرار: 490/1]
(شوکانیؒ) (چونکہ یہ حدیث ضعیف ہے) لٰہذا عدد کی قید کے بغیر جتنی مرتبہ انسان زیادہ سے زیادہ تسبیحات پڑھ سکتا ہے پڑھے۔
[نيل الأوطار: 75/2]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے
سبوح قدوس رَبُّ الْمَلائِكَةِ وَالرُّوح
[مسلم: 487 ، كتاب الصلاة: باب ما يقال فى الركوع والسجود ، أبو داود: 872 ، نسائي: 224/2 ، أحمد: 34/6 ، ابن خزيمة: 606 ، بيهقي: 87/2]
➌ رکوع وسجدہ میں یہ دعا بھی ثابت ہے
اللهم لَكَ سَجَدَتْ وَبِكَ آمَنتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَأَنْتَ رَبِّي سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِى خَلَقَهُ وَصَوْرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ وَشَقٌ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ
[مسلم: 771 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرتها ، دارقطني: 297/1 ، أبو عوانة: 102/2 ، طحاوي: 160/1]
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں بہت زیادہ یہ دعا پڑھتے تھے۔
سُبْحَانَكَ اللهُم رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللهُمَّ اغْفِرُلى
[بخارى: 817 ، كتاب الأذان: باب التسبيح والدعاء فى السجود ، مسلم: 484 ، أبو داود: 477 ، نسائي: 190/2 ، ابن ماجة: 889 ، بيهقى: 86/2 ، أحمد: 43/6]
➎ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجدے میں یہ دعا پڑھتے۔
سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظْمَةِ“ –
[صحيح: صحيح أبو داود: 776 ، كتاب الصلاة: باب ما يقول الرجل فى ركوعه وسجوده ، أبو داود: 873 ، نسائي: 191/2 ، أحمد: 24/6]
➏ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں یہ دعا پڑھتے تھے۔
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنَبِي كُلَّهُ دِقَهُ وَجِلَّهُ وَأَوَّلَهُ وَآخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ
[مسلم: 483 ، كتاب الصلاة: باب ما يقال فى الركوع والسجود ، أبو داود: 878]
➐ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ قیام اللیل کے سجدوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے۔
أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أَحْصِي ثنَاءٌ عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
[مسلم: 486 ، كتاب الصلاة: باب ما يقال فى الركوع والسجود ، أبو داود: 879 ، ابن ماجة: 3841 ، نسائي: 220/2]
➑ دوران رکوع یہ دعا بھی مسنون ہے۔
اللهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ اَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِى وَدَمِيٌّ وَلَحْمِيٌّ وَعَظْمِي وَعَصْبِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
[صحيح: صحيح نسائي: 1006 ، كتاب التطبيق: باب نوع آخر ، نسائي: 1050]
➒ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ جب (آیت) فسبح باسم ربك العظيم [الواقعة: 96] نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کہا کہ اسے اپنے رکوع میں پڑھو اور جب (آیت) سبح اسم ربك الأعلى [الأعلى: 1] نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں پڑھو۔“ وہ روایت ضعیف ہے۔
[ضعيف: إرواء الغليل: 334 ، أحمد: 155/4 ، أبو داود: 869 ، كتاب الصلاة: باب ما يقول الرجل فى ركوعه و سجوده ، ابن ماجة: 887 ، حاكم: 225/1 ، شرح معاني الآثار: 235/1 ، بيهقى: 86/2 ، ابن خزيمة: 600 ، دارمي: 299/1]
◈ رکوع سے اٹھتے وقت کے اذکار:
امام ، مقتدی اور منفرد سب رکوع سے اٹھتے وقت سمع الله لمن حمده اور سیدھے کھڑے ہونے کے بعد ربنا ولك الحمد کہیں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے ، پھر جب رکوع کرتے تو تکبیر کہتے ، پھر رکوع سے اٹھتے وقت سمع الله لمن حمده کہتے پھر سیدھے کھڑے ہو کر ربنا ولك الحمد کہتے ، پھر سجدے کے لیے جھکتے وقت تکبیر کہتے ، پھر جب اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے ، پھر دوبارہ سجدے کے لیے جھکتے وقت تکبیر کہتے ، پھر جب اپنا سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر بقیہ ساری نماز میں یہی عمل کرتے اور جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھ کر اٹھتے تو تکبیر کہتے ۔
[بخارى: 789 ، كتاب الأذان: باب التكبير إذا قام من السجود ، مسلم: 28 ، أبو داود: 738 ، نسائي: 233/2 ، ابن حبان: 1767 ، بيهقي: 67/2]
ہمیں بھی اسی طرح نماز ادا کرنی چاہیے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی ارشاد فرمایا ہے البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قال الإمام سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا ولك الحمد جب امام سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔
[بخاري: 732 ، كتاب الأذان: باب إيجاب التكبير وافتتاح الصلاة ، مسلم: 411]
اس سے یہ استنباط کرنا کہ مقتدی کو سمع الله لمن حمده نہیں کہنا چاہیے اور امام کو ربنا ولك الحمد نہیں کہنا چاہیے ، درست نہیں ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں کلمات کہتے تھے اور اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ تا ہم یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس حدیث کا مقصد یہ بتانا نہیں کہ امام اور مقتدی اس موقع پر کیا کہیں بلکہ محض یہ بتانا ہے کہ مقتدی کی ربنا ولك الحمد امام کی سمع الله لمن حمده کے بعد ہونی چاہیے۔
[صفة صلاة النبى للألباني: ص/ 135 ، الحاوي للفتاوى: 529/1]
یہی بات راجح و برحق ہے اگرچہ علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے۔
(شافعیؒ ، مالکؒ) ہر نمازی سمع الله لمن حمده اور ربنا ولك الحمد کے دونوں کلمات کہے گا خواہ امام ہو ، مقتدی ہو ، یا منفرد ہو۔ امام عطاء ، امام ابو داود ، امام ابو ہریرہ ، امام ابن سیرین ، امام اسحاق اور امام داود رحمہم اللہ اجمعین کا یہی موقف ہے۔
(ابو حنیفہؒ) امام اور منفرد صرف سمع الله لمن حمده کہیں گے اور مقتدی صرف ربنا ولك الحمد کہے گا ۔
امام ابن منذرؒ نے یہی قول حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ ، حضرت ابو ہریره رضی اللہ عنہ ، امام شعبیؒ ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ سے نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ میرا بھی یہی موقف ہے ۔
[الأم: 220/1 ، شرح المهذب: 252/3 ، الحاوى للماوردي: 123/2 ، المبسوط: 20/1 ، الكافي لابن عبدالب: 43 – 44 ، كشاف القناع: 348/1 ، نيل الأوطار: 88/2]
◈ رکوع سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے:
اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلَا الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمِلَا مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنكَ الْجَدُّ
[مسلم: 487 ، كتاب الصلاة: باب ما يقول إذا رفع رأسه من الركوع ، نسائي: 19832]
◈ ربنا لك الحمد اور واؤ کے ساتھ ربنا ولك الحمد اور اللهم ربنا و لك الحمد تینوں طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
[صفة صلاة النبى للالباني: ص/ 135]
علاوہ ازیں یہ الفاظ بھی ثابت ہیں۔
ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مبار كا فيه
جیسا کہ جب ایک شخص نے یہ کلمات نماز میں کہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق فرمایا کہ ”میں نے تیس سے زائد فرشتے دیکھے جو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھے کہ ان کلمات کو پہلے کون تحریر کرتا ہے ۔“
[بخاري: 799 ، كتاب الأذان: باب فضل اللهم ربنا لك الحمد ، أبو داود: 770 ، نسائي: 1061]
◈ دو سجدوں کے درمیانی اذکار:
➊ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان یہ کلمات کہتے تھے۔
رب اغفرلي ، رب اغفر لي
[صحيح: صحيح أبو داود: 777 ، كتاب الصلاة: باب ما يقول الرجل فى ركوعه وسجوده ، أبو داود: 774]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے۔
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجُبُرُنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي
[حسن: صحيح أبو داود: 756 ، كتاب الصلاة: باب الدعاء بين السجدتين ، أبو داود: 850 ، ترمذي: 274 ، ماجة: 898 ، أحمد: 371/1 ، حاكم: 262/1 ، بيهقي: 122/2 ، امام نوويؒ نے اس كي سند كو جيد كها هے۔ المحمد 414/3 ، شيخ ٓصجی حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على الروضة الندية: 279/1]
تشہد کی دعائیں پیچھے تشہد کے بیان میں تفصیلا ذکر کر دی گئی ہیں۔
◈ دنیا و آخرت کی بہتری کے لیے بہت زیادہ دعا کرنا (مشروع ہے) خواہ مسنون ہو یا نہ ہو
جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
ثم ليتخيـر مـن الـدعـاء أعجبه إليه فيدعو
” (تشہد کے بعد ) پھر اسے جو دعا پسند ہو پڑھے ۔“
[بخاري: 835 ، كتاب الأذان: باب ما يتخير من الدعاء بعد التشهد]
اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ لفظ ہیں۔
ثم ليتـخـيـر مــن المسألة ما شا
”پھر وہ جو چاہے مانگے ۔“
[مسلم: 402 ، كتاب الصلاة: باب التشهد فى الصلاة]