سوال:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
📖 "كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(صحیح مسلم: 867)
جبکہ دوسری طرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
📖 "نعمت البدعۃ ھذہ”
"یہ اچھی بدعت ہے۔”
(صحیح بخاری: 2010)
تو ان دونوں اقوال میں موافقت کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر ہر بدعت گمراہی ہے تو عمر رضی اللہ عنہ نے "اچھی بدعت” کیسے کہہ دیا؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بدعت کی دو اقسام ہیں:
لغوی بدعت (بدعت لُغویہ):
یہ ہر وہ نیا عمل ہوتا ہے جو پہلے نہ کیا گیا ہو، لیکن وہ کسی شرعی اصول کے تحت آتا ہو۔
ایسی بدعت کو "نئی چیز” کہا جاتا ہے، لیکن یہ دینی بدعت (بدعت شرعیہ) نہیں ہوتی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب "نعمت البدعۃ ھذہ” کہا، تو ان کی مراد لغوی بدعت تھی، نہ کہ شرعی بدعت۔
شرعی بدعت (بدعت شرعیہ):
یہ وہ نیا کام ہوتا ہے جو دین میں شامل کر دیا جائے، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بدعت کو "گمراہی” کہا، وہ یہی بدعت شرعیہ ہے۔
پس، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ دونوں میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول "نعمت البدعۃ ھذہ” کی وضاحت
یہ الفاظ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہے جب انہوں نے صحابہ کو رمضان میں تراویح باجماعت پڑھتے ہوئے دیکھا۔
یہ ایک ایسا عمل تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کیا تھا، لیکن پھر چھوڑ دیا، تاکہ امت پر فرض نہ ہو جائے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ جماعت کی شکل میں اس عمل کو جاری کیا، تو اس کو "بدعت” کہا، لیکن یہ لغوی بدعت تھی، نہ کہ شرعی بدعت۔
📖 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کے بارے میں "یہ اچھی بدعت ہے” کہنا لغوی بدعت کے معنی میں ہے، نہ کہ شرعی بدعت کے معنی میں، کیونکہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ: 22/234)
📖 امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت لغویہ اور بدعت شرعیہ۔ بدعت شرعیہ وہ ہے جو قرآن و سنت سے متصادم ہو، جبکہ بدعت لغویہ وہ ہے جو دین میں داخل کیے بغیر کسی نئے عمل کو اپنانے کا نام ہے۔”
(جامع العلوم والحکم: رقم 28)
ہر بدعت گمراہی ہے – اس حدیث کی وضاحت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
"وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”
"نئے نئے (دینی) کاموں سے بچو، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(سنن ابو داود: 4607)
📖 امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہر وہ عمل جو دین میں نیا داخل کیا جائے اور اس کی کوئی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو، وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
(الاعتصام: 1/37)
غلط فہمی: کیا بدعت کی پانچ اقسام ہوتی ہیں؟
بعض علماء نے بدعت کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا:
◈ واجب بدعت (مثلاً: قرآن کی تجوید سیکھنا)
◈ مستحب بدعت (مثلاً: مدارس اور دینی کتابیں لکھنا)
◈ مباح بدعت (مثلاً: نئے طریقے سے مسجد بنانا)
◈ مکروہ بدعت (مثلاً: کچھ اضافی ذکر کے طریقے اپنانا)
◈ حرام بدعت (مثلاً: کسی نئے دین کو ایجاد کرنا)
لیکن یہ تقسیم درست نہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت کو بغیر کسی تخصیص کے گمراہی کہا ہے۔
📖 امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"بدعت کو تقسیم کرنا (یعنی بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ) غلط ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "ہر بدعت گمراہی ہے” فرمایا، اور کسی بدعت کو مستثنیٰ نہیں کیا۔”
(الاعتصام: 1/191)
خلاصہ:
"ہر بدعت گمراہی ہے” والی حدیث سے مراد شرعی بدعت ہے، یعنی جو چیز دین میں نئی شامل کی جائے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول "نعمت البدعۃ ھذہ” لغوی بدعت کے طور پر تھا، نہ کہ شرعی بدعت کے طور پر، کیونکہ تراویح کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھی۔
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا غلط ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت کو کلی طور پر گمراہی قرار دیا ہے۔
لغوی بدعت (جیسے دینی مدارس کا قیام، پرنٹنگ پریس، دینی کتابیں لکھنا) قابلِ قبول ہے، لیکن شرعی بدعت (نئے طریقے سے عبادت ایجاد کرنا) ہر حال میں ناجائز اور گمراہی ہے۔
لہٰذا، دین میں ہر بدعت گمراہی ہے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول لغوی بدعت کے معنی میں تھا، نہ کہ دینی بدعت کے معنی میں۔
واللہ اعلم بالصواب