سادہ لوح مسلمان ان کی فریب کاریوں میں آ جاتے ہیں، کیونکہ یہ ٹھگ میٹھا زہر کھلاتے ہیں۔ ان کی وحشیانہ نہ لوٹ مار کے بہت سے طریقے ہیں۔ جہاں یہ تیجا، جمعرات، ساتواں، دسواں، چالیسواں اور برسی کے نام پر بیوگان اور یتیموں کا بے دریغ مال ہڑپ کر جاتے ہیں، وہاں اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو ”ریفریشمنٹ“ (گیارہویں) کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے ”علماء“ کا کہنا ہے کہ یہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ ہے، جبکہ ان کے عوام تو اس کو کچھ اور ہی سمجھتے ہیں۔ وہ تو اسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ الله کے نام کی نیاز و نذر سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ اعتقاد بد ہے کہ اگر انہوں نے گیارہویں کا دودھ نہ دیا تو اس کی وجہ سے ان کی بھینس یا گائے مر جائے گی یا بیمار ہو جائے گی یا رزق ختم ہو جائے گا اور اولاد کی موت واقع ہو جائے گی یا گھر میں نقصان ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ عقیدہ شرعاً حرام و نا جائز اور صریح شرک ہے۔ رہا ایصال ثواب کے لیے صدقہ کی بات کرنا تو سوال یہ ہے کہ آخر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کی اس قدر تعظیم کیوں ؟ گیارہویں صرف انہیں کے نام پر کیوں، حالانکہ یہ لوگ عقیدہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے سخت خلاف ہیں۔ شیخ رحمہ الله صحیح العقیدہ اور متبع سنت مسلمان تھے، جبکہ یہ بدعقیدہ اور بدعتوں کے دلدادہ ہیں۔
گیارہویں ہندوستانی بدعت ہے، جو شیعہ کی تقلید میں اپنائی گئی ہے، کیونکہ وہ بھی اپنے ائمہ کے لیے نیاز برائے ایصال ثواب دیتے ہیں۔ خوب یاد رہے کہ سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت سے یہ طریقہ ایصال ثواب ہرگز ہرگز ثابت نہیں۔ اگر اس کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی اور یہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہوتا تو وہ اس کا اہتمام کرتے۔
علامہ ابن رجب رحمہ الله (795-736ھ) نے کیا خوب لکھا ہے :
فاما ما اتفق السلف على تركه، فلا يجوز العمل به، لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا تعمل به .
”جس کام کو چھوڑنے پر سلف کا اتفاق ہوا، اسے کرنا جائز نہیں، کیونکہ انہوں نے یہ جان کر اسے چھوڑا تھا کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔“ [فضل علم السف على علم الخلف لابن رجب : ص 31]
جس کام کے چھوڑنے پر سلف صالحین متفق ہوں، اس کام کا کرنا جائز نہیں۔ گیارہویں سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت سے ثابت نہیں، لہٰذا یہ بدعت سئیہ اور شنیعہ ہے۔
گیارہویں باطل ہے۔
➊ علامہ شاطبی رحمہ الله (م 790ھ) بدعات کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لو كان دليلا عليه لم يعزب عن فهم الصحابة والتابعين، ثم يفهمه هؤلاء، فعمل الأولين كيف كان مصادم لمقتضي هذا المفهورم و معارض له، ولو كان ترك العمل فما عمل به المتأخرون من هذا القسم مخالف لإجماع الأولين، وكل من خالف الإجماع فهو مخطيء، و أمة محمد صلى الله عليه وسلم لا تجتمع على ضلالة، فما كانوا عليه من فعل أو ترك فهو السنة و الأمر المعتبر، وهو الهدي، وليس ثم إلا صواب أو خطأ، فكل من خالف السلف الأولين فهو على خطأ، و هذا كاف . . . . .
”اگر اس پر کوئی دلیل ہوتی تو فہم صحابہ و تابعین سے غائب نہ رہتی کہ بعد میں لوگ اسے سمجھ لیتے ! سلف کا عمل اس مفہوم کے خلاف و معارض کیسے تھا ؟ اگرچہ ان کا عمل یہاں ترک عمل ہی ہے۔ اس طرح کی چیزوں میں متاخرین نے جو عمل کیا ہے، وہ سلف کے اجماع کے خلاف ہے اور ہروہ شخص جو اجماع کی مخالفت کرتا ہے، وہ خطا کار ہے، کیونکہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی، لہٰذا سلف جس کام کو کرنے یا چھوڑنے پر متفق ہوں، وہی سنت اور معتبر امر ہے اور وہی ہدایت ہے۔ کسی کام میں دو ہی احتمال ہوتے ہیں، درستی یا غلطی، جو شخص سلف کی مخالفت کرے گا، وہ خطا پر ہو گا اور یہی اس کے خطا کار ہونے کے لیے کافی ہے۔۔۔ “
[الموافقات للشاطبي : 72/3]
نیز لکھتے ہیں :
فلهذا كله يجب على كل ناظر فى الدليل الشرعي مراعاة ما فهم الأولون، وما كانوا عليه فى العمل به، فهو أحري بالصواب، وأقوم فى والعمل . . . . .
” ان ساری باتوں کے پیش نظر شرعی دلیل میں غور کرنے والے ہر شخص کے لیے سلف کے فہم و عمل کا لحاظ رکھنا فرض ہے، کیونکہ وہی درستی کے زیادہ قریب اور علم وعمل میں زیادہ پختہ ہے۔ “ [الموافقات للشاطبي : 77/3]
➋ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ الله (744-704ھ) لکھتے ہیں :
ولا يجوز إحداث تأويل فى آية أو سنة لم يكن على عهد السلف، ولا عرفوه و لا بينوه للأمة، فإن هذا يتصمن أنهم جهلوا الحق فى هذا، وضلوا عنه، واهتدي إليه هذا المعترض المتأخر .
”کسی آیت یا حدیث کا ایسا مفہوم و مطلب نکالنا جائز نہیں، جو سلف کے زمانہ میں نہ تھا، نہ انہوں نے اسے پہچانا اور نہ امت کے لیے بیان کیا۔ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس بارے میں حق سے جاہل رہے ہیں اور اس سے گمراہ رہے ہیں اور یہ اعتراض کرنے والا، بعد والا شخص اس کی طرف راہ پا گیا ہے۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي لابن عبدالهادي : ص 318]
➌ سنی امام، ابوبکر محمد بن القاسم بن بشار، المعروف بابن الانباری رحمہ الله (328-272ھ) فرماتے ہیں :
من قال فى القرآن قولا يوافق هواه، لم يأخذ عن أئمّة السلف، فأصاب، فقد أخطأ، لحكمه على القرآن بما لا يعرف أصله، ولا يقف على مذهب أهل الأثر والنقل فيه .
”جس شخص نے قرآن کریم کی تفسیر میں اپنی خواہش کے موافق ایسا قول کہا:، جسے اس نے ائمہ سلف سے اخذ نہیں کیا، اگر وہ درست ہے تو بھی غلط ہے، کیونکہ اس نے قرآن کریم پر ایسا حکم لگایا ہے، جس کی وہ دلیل نہیں جانتا تھا اور نہ ہی وہ اس بارے میں اہل اثرونقل (سلف صالحین) کے مذہب پر واقف ہوا ہے۔“ [الفقيه والمتفقه للخطيب البغداي : 223/1، وسندهٗ صحيحٌ]
➍ حافظ ابن القیم رحمہ الله (751-691ھ) لکھتے ہیں :
إن إحداث قول فى تفسير كتاب الله الذى كان السلف والأئمة على خلافه يستلزم أحد الأمرين، إما أن يكون خطأ فى نفسه، أو تكون أقوال السلف المخالفة له خطأ، ولا يشك عاقل أنه أولي بالغلط و الخطأ من قول السلف .
”کتاب اللہ کی تفسیر میں کوئی ایسا قول نکالنا کہ سلف اور ائمہ دین اس کے خلاف تھے، اس کی دو صورتیں بن سکتی ہیں، یا تو وہ قول خود غلط ہو گا یا پھر اس کے خلاف سلف کے اقوال غلط ہوں گے۔ کوئی عاقل اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ سلف کے اقوال کی نسبت وہ قول خود غلطی اور خطا کے زیادہ لائق ہے۔“ [مختصر الصواعق المرسلة لابن القيم : 128/2]
ثابت ہوا کہ اہل بدعت عقائد و اعمال میں جو سلف صالحین کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی ضلالت و جہالت کے لیے اتنا ہی کافی ہے، لہٰذا مبتدعین اپنے شرکیہ عقائد و بدعیہ اعمال پر جو قرآن و حدیث کے دلائل سے سلف کے خلاف استدلال کرتے ہیں، اس سے ان کی ضلالت و جہالت پر مہر ثبت ہو جاتی ہے۔
یار رہے کہ سلف صالحین و ائمہ اہل سنت کے خلاف عقائد و اعمال رکھنے والے اہل سنت والجماعت کہلوانے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر گیارہویں کا کوئی شرعی ثبوت یا جواز ہوتا تو سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت کرنے میں پہل کرتے۔ اگر انہوں نے ایسا کام نہیں کیا تو یہ باطل ہے۔
علامہ شاطبی رحمہ الله ( م 790ھ) لکھتے ہیں :
فالحذر من مخالفة الأولين، فلو كان ثم كان ثم فضل ما، لكان الأولون أحق به، والله المستعان !
سلف کی مخالفت سے بہت زیادہ بچنا چاہیئے۔ اگر اس کام (جسے سلف نے نہیں کیا) میں کوئی فضیلت ہوتی تو پہلے لوگ اس کے بہت زیادہ مستحق تھے۔ واللہ المستعان۔ [الموافقات للشاطبي : 56/3]
گیارہویں بدعت ہے !
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله (728-661ھ) لکھتے ہیں :
و من تعبد لعبادة ليست واجبة و الا مستحبة، وهو تعتقدها واجبة أو مستحبة، فهو ضال مبتدع بدعة سيئة، لا بدعة حسنة، باتفاق أئمة الدين، فإن الله لا يعبد إلا بما هو واجب أو مستحب .
”جو شخص ایسی عبادت کرے جو شریعت میں واجب یا مستحب نہیں ہے اور وہ اس کو واجب یا مستحب سمجھتا ہے، وہ گمراہ بدعتی ہے، اس کی یہ بدعت سیئہ ہے، حسنہ نہیں ہے۔ اس پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اسی طریقے سے کی جائے گی، جو شریعت میں واجب یا مستحب ہے۔“ [مجموع الفتاوي لابن تيمية : 160/1]
علامہ شاطبی رحمہ الله (م 790ھ) لکھتے ہیں :
في كثير من الأمور يستحسنون أشياء، لم يأت فى كتاب و لا سنة و لا عمل بأمثالها السلف الصالح، فيعملون بمقتضاها و يشابرون عليها، و يحكمونها طريقا لهم مهيعا و سنة لا تخلف، بل ربما أوجبوها فى بعض الأحوال .
”بدعتی لوگ بہت سے امور میں ان کاموں کو مستحب قرار دے دیتے ہیں، جن پر کتاب سنت میں کوئی دلیل نہیں، نہ ہی سلف صالحین نے اس طرح کا کوئی کام کیا ہے۔ بدعتی لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں، ان پردوام کرتے ہیں اور اس بدعت کو اپنے لیے واضح راستہ اور غیرمعارض سنت سمجھتے ہیں، بلکہ بسا اوقات وہ اس کو بعض حالات میں واجب بھی قرار دیتے ہیں۔“ [الاعتصام : 212/1]
امام ابن ابی لعزالحنفی (731-792ھ) لکھتے ہیں :
و صاروايبتدعون من الدلائل والمسائل ما ليس بمشروع، و يعرضون عن الأمر المشروع .
”بدعتی لوگ ایسے دلائل ومسائل کے گھڑنے کے درپے ہیں، جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ مشروع کام سے اعراض کرتے ہیں۔ “ [شرح العقيدة الطحاوية لابن ابي العزالحنفي : 593]
گیارہویں قرب الہٰی کا ذریعہ نہیں !
گیارہویں اگر قرب الہٰی کا ذریعہ ہوتی تو ائمہ اہل سنت ضرور ایسا کرتے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله ( 728-661ھ) لکھتے ہیں :
باب العبادات والديانات والتقربات متلقاة عن الله ورسوله، فليس لأحد أن يجعل شيئا عبادة أو قربة إلا بدليل شرعي .
”عبادات، دین کے مسائل اور قرب الہٰی کے کام اللہ و رسول سے ہی لیے جاتے ہیں۔ کسی اور کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دلیل شرعی کے بغیر کوئی عبادت یا قرب الہٰی کا کوئی طریقہ گھڑ لے۔“ [مجموع الفتاوي لابن تيمية : 35/31]
اگر گیارہویں کے ثبوت پر کوئی دلیل ہوتی تو سلف صالحین ضرور اس کا اہتمام کرتے، لہٰذا یہ بے ثبوت عمل ہے، جو قرب الہٰی کا ذریعہ نہیں۔
امام ابن قیم رحمہ الله (751-691ھ) لکھتے ہیں :
و لا دين إلا ما شرعه الله، فالأصل فى العبادات البطلان حتي يقوم دليل على الأمر .
”دین صرف وہی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے۔ عبادات میں قاعدہ یہ ہے کہ جب تک کسی دینی امر پر دلیل شرعی قائم نہ ہو جائے، وہ باطل ہے۔“ [اعلام الموقعين لابن القيم : 344/1]
ابن کثیر رحمہ اللہ رحمہ الله (774-770ھ) عبادات کے متعلق لکھتے ہیں :
وباب القربات يقتصبر فيه على النصوص، ولا ينصرف فيه بأنواع الأقيسة والآرء .
”قرب الہٰی کے کام نصوص شرعیہ پر موقوف ہیں۔ ان میں کسی قسم کے قیاس و آراء کو کوئی دخل نہیں۔“ [ تفسير ابن كثير : 401/4]
علامہ شاطبی رحمہ الله (م 790ھ) لکھتے ہیں :
لا تجد مبتدعا ممن ينسب إلي الملة ألا و هو يستشهد على بدعته بدليل شرعي، فينزله على ما وافق عقله و شهونه .
”آپ اسلام کی طرف منسوب ہر بدعتی کو ایساہی پائیں گے کہ وہ اپنی بدعت پر دلیل شرعی سے استدلال کرتا ہے، پھر اس کو اپنی عقل و خواہش کے مطابق ڈھال لیتاہے۔“ [ الاعتصام للشاطبي : 134/1]
گیارہویں کے بدعت ہونے پر ایک دوسری دلیل
یاد رہے کہ عبادات کے لیے وقت یا جگہ کا تعین کرنا شریعت کا حق ہے ، بندوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ عبادات کے لیے جگہ یا وقت کا تقرر کرتے رہیں . سلف صالحین نے سختی سے اس کا رد کیا ہے ، لہٰذا خاص شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے لیے صدقہ کرنا اور خاص گیارہویں کو ، یہ اسے ناجائز اور غیرمشروع بنا دیتا ہے .
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م 790ہ) لکھتے ہیں :
و من ذلك تخصيص الأيام الفاضلة بأنواع من العبادات التى لم تشرع بها تخصيصا كتخصيص اليوم الفلاني بكذا و كذا من الركعات أو بصدقة كذا و كذا، أو الليلة بقيام كذا و كذا ركعة أو بختم القرآن فيها أو ما أشبه ذلك.
”عام دنوں کو ان عبادات کے ساتھ خاص کرنا، جو ان دنوں میں مشروع نہیں ہیں، جیسا کہ کسی دن کو خاص عدد رکعات یا خاص صدقہ کے ساتھ خاص کرنا یا فلاں رات کو اتنی اتنی رکعات پڑھنا یا خاص رات میں قرآن کریم مکمل کرنا وغیرہ۔“ [ الاعتصام للشاطبي : 12/2]
علامہ ابوشامہ (225-599ھ) لکھتے ہیں :
ولا ينبغي تخصيص العبادات بأوقات لم يخصصها بها الشرع، بل يكون جميع أفعال البر مرسلة فى جميع الأزمان، ليس لبعضها على بعض فضل إلا ما فضله الشرع، و خصة بنوع من العبادة، فإن كان ذلك اختص بتلك الفضيلة تلك العبادة دون غيرها كصوم يوم عرفة و عاشوراء و الصلاة فى جوف الليل والعمرة فى رمضان، و من الأزمان ما جعله الشرع مفضلا فيه جميع أعمال البركعشر ذي الحجة وليلة القدر التى هي خير من ألف شهر، أى العمل فيها أفضل من العمل فى ألف شهر، ليس فيها ليلة القدر، فمثل ذلك يكون أى عمل من اعمال البرحصل فيها كان له الفضل على نظيره فى زمن آخر، فالحاصل أن المكلف ليس له منصب التخصيص، بل ذلك إلي الشارع، وهذه كانت صفة عبادة رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم .
”عبادات کو ان اوقات کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں، جن اوقات کے ساتھ ان کو شریعت نے خاص نہیں کیا، بلکہ تمام نیکی کے کام تمام زمانوں میں جائز ہیں۔ کسی کام کو تخصیص میں کسی پر فضلیت نہیں ہے، مگر اس کو جسے شریعت نے فضلیت دی ہے اور کسی قسم کی عبادت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اگر کسی فضلیت کو کسی کام کے ساتھ خاص کر دیا گیا تو وہ عبادت ہے، جیسا کہ یوم عرفہ و عاشوراء کا روزہ، آخری رات کی عبادت اور رمضان میں عمرہ، دوسرے کام عبادت نہیں بن سکتے۔ اور بعض اوقات وہ ہیں، جن میں انسانوں کے تمام اعمال کوفضلیت دے دی جاتی ہے، جیسا کہ ذی الحجہ کے دس دن اور وہ لیلۃ القدر، جو ہزار سال سے بہتر ہے، یعنی اس رات میں عمل کرنا ایسے ہزار سال میں عمل کرنے سے بہتر ہے، جن میں لیلۃ القدر نہ ہو۔ اس طرح ہر وہ نیکی کا کام ہے، جس میں خاص فضلیت مقرر کر دی گئی ہو، اس کو دوسرے وقت میں اپنے نیکی کے کام پر فضلیت ہو گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مکلّف (امتی) کے لیے تخصیص کا منصب نہیں ہے، بلکہ تخصیص کا معاملہ شارع کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا انداز یہی تھا۔“ [الباعث على انكار البدع و الحوادث لابي شامة : ص 165 ]
الحاصل :
گیارہویں بدعت ہے۔ سلف صالحین سے صدقہ کی یہ ہیئت و کیفیت ثابت نہیں۔