گندم ، جو ، مکئی ، کھجور اور منقے میں سے دسواں حصہ دینا واجب ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

گندم ، جو ، مکئی ، کھجور اور منقے میں سے دسواں حصہ دینا واجب ہے
زرعی پیداوار میں عشر (دسواں حصہ) یا نصف عشر (بیسواں حصہ) ادا کرنا ضروری ہے۔ اسکی مشروعیت کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ [الأنعام: 141]
”اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔“
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فيما سقت السماء والعيون أو كان عثريا العشر ، وما سقى بالنضح نصف العشر
”وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جسے کنوئیں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔“
[بخارى: 1483 ، كتاب الزكاة: باب العشر فيما يسقى من ماء السماء وبالماء الجارى ، أبو داود: 1596 ، ترمذي: 635 ، نسائي: 41/5 ، ابن ماجة: 1817 ، بيهقى: 130/4 ، ابن خزيمة: 2307]
➌ زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر دسواں یا بیسواں حصہ واجب الاداء ہے ، اس پر امت نے اجماع کیا ہے۔
[المغني: 154/4 ، بدائع الصنائع: 54/2 ، فقه الزكاة: 448/1]
امام شوکانیؒ اور دیگر جن حضرات نے یہ موقف اپنایا ہے ان کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ :
لا تاخذا فى الصدقة إلا من هذه الأصناف الأربعة: الشعير، والحنطة ، والزبيب ، والتمر
”جو ، گندم ، منقی اور کھجور ، ان چار اصناف کے علاوہ کسی غلے پر زکوٰۃ وصول نہ کرنا ۔ “
[صحيح: تمام المنة: ص / 369 ، طبراني كبير كما فى المجمع: 75/3 ، مستدرك حاكم: 401/1 ، امام ہیثمیؒ فرماتے هيں كه اس كے رجال صحيح كے رجال هيں۔ امام حاكم نے اس كي سند كو صحيح كها هے اور امام ذهبيؒ نے اس كي موافقت كي هے۔ امام زيلعيؒ نے اس كو ثابت كيا هے۔ نصب الراية: 389/2 ، شيخ محمد صبحي حلاق نے اسے حسن كها هے۔ التعليق على سبل الاسلام: 41/3]
سنن ابن ماجہ کی روایت میں الذرة ”مکئی“ کا لفظ زیادہ ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 400 ، ارواء الغليل: 801]
معلوم ہوا کہ چار اصناف ہی ثابت ہیں لٰہذا ان ہی سے عشر لیا جائے گا۔ چونکہ اصل براءت ذمہ ہے اور مسلمان کا مال حرام ہے اس لیے صرف اتنا ہی لیا جا سکتا ہے جتنے کے متعلق قطعی دلیل ثابت ہو جائے اور دلیل سے صرف مذکورہ چار اشیاء ہی ثابت ہوتی ہیں لٰہذا ان ہی پر اکتفا کیا جائے گا۔
(ابن عمر رضی اللہ عنہما ) اس کے قائل ہیں۔ امام ابن مبارکؒ ، امام حسنؒ ، امام ابن سیرینؒ اور امام شعبیؒ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ نیز امام احمدؒ سے بھی ایک روایت میں یہی قول مروی ہے۔
[المغنى: 156/4]
(امیر صنعانیؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[سبل السلام: 814/2]
(البانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[تمام المنة: ص/ 368]
(ابن منذرؒ، ابن عبد البرؒ ) اہل علم نے اجماع کیا ہے کہ گندم ، جو ، کھجور اور منقے میں زکوٰۃ واجب ہے۔
[المغنى: 154/4]
(شوکانیؒ) انہوں نے بھی غالباً پانچویں صنف (یعنی مکئی) سے رجوع کر لیا تھا اسی لیے اپنی دوسری کتاب ”السيل الجرار“ میں صرف چار اصناف کا ہی ذکر کیا ہے۔
[السيل الجرار: 43/2]
اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) صرف ایسی کھیتیوں اور پھلوں میں زکوٰۃ ہے جو کھانے اور ذخیرہ کرنے کے قابل ہوں۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) لکڑی ، گھاس اور بانس کے علاوہ ہر ایسی چیز پر زکوٰۃ واجب ہے جسے زمین اگاتی ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 1884/3 ، فتح القدير: 2/2 ، اللباب: 151/1 ، الشرح الكبير: 447/1 ، الشرح الصغير: 609/1 ، القوانين الفقهية: ص/ 105 ، مغنى المحتاج: 281/1 ، المهذب: 156/1 ، المغنى: 690/2 ، كشاف القناع: 236/2 ، المجموع: 432/5]
(یوسف قرضاوی) ابو حنیفہؒ کا مذہب راجح ہے ۔
[فقه الزكاة: 355/1]
(راجح) درج بالا حدیث کہ جس میں صرف چار اصناف سے ہی زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم ہے اگرچہ شیخ البانیؒ اور دیگر چند علماء نے تو اسے صحیح کہا ہے لیکن فی الحقیقت وہ ثابت نہیں ہے کیونکہ اس میں ابو حذیفہ راوی صدوق سیئی الحفظ ہے ، سفیان ثوری مدلس راوی کا عنعنہ ہے اور طلحہ بن یحیٰی راوی مختلف فیہ ہے۔ نیز شیخ البانیؒ نے اس حدیث کو ثابت کرنے کے لیے جن روایات سے استشہاد کیا ہے وہ یا تو مرسل و ضعیف ہیں یا اس معنی کی نہیں ہیں ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: إرواء الغليل: تحت الحديث /801 ، نصب الراية: 386/2]
ہمارے علم کے مطابق چونکہ یہ روایت ثابت نہیں ہے اس لیے عمومی دلائل کی وجہ سے ہر زمینی پیداوار پر نصاب تک پہنچنے کے بعد زکوٰۃ فرض ہے۔ والله اعلم اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ [الأنعام: 142]
”کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو ۔“
مِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [البقرة: 267]
”اس چیز میں سے (خرچ کرو ) جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی۔“
فيما سقت السماء …. العشر
”وہ زمین جسے آسمانی پانی سیراب کرے اس کی پیداوار میں دسواں حصہ واجب ہے۔“
[بخاري: 1483 ، كتاب الزكاة: باب العشر فيما يسقى من ماء السماء وبالماء الجاري ، أبو داود: 1596]
ليس فى ما دون خمسة أو ساق من تمر ولا حب صدقة
”پانچ وسق سے کم کسی کھجور اور کسی غلے میں صدقہ نہیں ہے۔“
[مسلم: 1627 ، كتاب الزكاة: باب ، دار مي: 1578 ، موطا: 513]
جو فصلیں رہٹ وغیرہ کے ذریعے سیراب کی جاتی ہیں ان میں بیسواں حصہ فرض ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فيما سقت الأنهار والغيم العشورو فيما سقى بالسانية نصف العشر
”جو زمینیں نہروں اور آسمانی بارش کے ذریعے سیراب ہوتی ہیں ان میں سے دسویں حصے نکالے جائیں گے اور جس زمین کو جانوروں کے ذریعے پانی لا کر سیراب کیا جاتا ہے اس میں بیسواں حصہ ہے۔“
[مسلم: 981 ، كتاب الزكاة: باب ما فيه العشر أو نصف العشر ، أبو داود: 1597 ، نسائي: 41/5 ، ابن خزيمة: 2309 ، دار قطني: 130/2 ، بيهقي: 130/4]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: او كان بعلا العشر ”یا وہ زمین بارش کے بغیر زمینی نمی و رطوبت سے ہی سیراب ہوتی ہو تو اس میں دسواں حصہ ہے (بعلا کا لفظ عثریا کا بدل ہے ) ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1411 ، كتاب الزكاة: باب صدقة الزرع ، أبو داود: 1596 ، نسائي: 2488]
(نوویؒ) اس مسئلے پر اتفاق ہے ۔
[شرح مسلم: 61/4]
معلوم ہوا کہ اگر زمین کسی ایسے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو جس میں مشقت نہ ہو یا کم مشقت ہو مثلاً بارش ، شبنم ، اولے ، زمینی نمی و رطوبت اور چشموں وغیرہ سے تو اس میں دسواں حصہ زکوٰۃ نکالنا ضروری ہے لیکن اگر کسی مشقت طلب ذریعے سے سیراب کی جاتی ہو مثلا اونٹ ، بیل ، یا آدمی پانی لا کر سیراب کریں یا کنوؤں یا ٹیوب ویل سے پانی لا کر ، یا پانی خرید کر سیراب کیا جائے یا جیسے آج کل معین رقم ادا کر کے نہری پانی سے فصلوں کو سیراب کیا جاتا ہے تو ان سب صورتوں میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہو گی ۔
اس کا نصاب پانچ وسق تقریبا بیسں مَن ہے
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس فيما دون خمسة أو سق صدقة
”پانچ وسق سے کم (غلے ) پر زکوٰۃ نہیں ۔“
[بخاري: 1447 ، كتاب الزكاة: باب زكاة الورق ، مسلم: 979 ، أبو داود: 1558 ، ترمذي: 622 ، نسائي: 17/5 ، ابن ماجة: 1793 ، مؤطا: 2441 ، أحمد: 6/3]
یہ حدیث گذشته عام حدیث فيما سقت السماء العشر کی تخصیص کر دیتی ہے لٰہذا پانچ وسق سے کم غلے میں زکوٰۃ واجب نہیں۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) پانچ وسق سے کم اور زیادہ ہر مقدار میں زکوٰۃ واجب ہے۔
[الحاوى: 210/3 ، الأم: 40/2 ، المغنى: 61/4 ، الكافي لابن عبدالبر: ص / 101 ، المبسوط: 3/3 ، بدائع الصنائع: 60/2]
ان کا کہنا ہے کہ عموم کی دلالت قطعی ہے اور قطعی عمومات کو ظنی دلائل سے خاص نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ عام اور خاص دونوں ہی ظنی ہیں بلکہ خاص دلالت و اسناد کے اعتبار سے زیادہ راجح ہے۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ عام کو خاص پر محمول کرنا ائمہ اصول کے نزدیک متفق علیہ معاملہ ہے لٰہذا اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے ایسا کہے (یعنی کہ عام کی تخصیص نہیں کی جائے گی) تو جو شخص ایسے حکم سے بھی جاہل ہے وہ مجتہد کیسے ہو سکتا ہے اور اگر علم کے باوجود ایسا کہے تو پھر اس کے بر خلاف صحیح دلیل کے ساتھ حجت قائم ہو چکی ہے۔
[السيل الجرار: 42/2 ، نيل الأوطار: 98/3]
(ابن حزمؒ ) پانچ وسق سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
[المحلى بالآثار: 58/4]
(ابن منذرؒ) امام ابو حنیفہؒ کے قول کے علاوہ اس پر اجماع ہے کہ پانچ وسق سے کم غلے میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ۔
[نيل الأوطار: 98/3]
(ابن قدامہؒ) پانچ وسق سے کم غلے میں زکوٰۃ واجب نہیں ۔
[المغنى: 161/4]
(ابن قیمؒ) انہوں نے اسی موقف کو ثابت کیا ہے۔
[إعلام الموقعين: 348/2]
◈ ایک وسق ساٹھ (60) صاع کا ہوتا ہے ، ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں ، ایک مد ایک رطل اور تہائی رطل کے برابر ہوتا ہے۔
جدید پیمانے کے مطابق ایک صاع تقریبا اڑھائی کلو گرام اور ایک وسق چارمن کا ہوتا ہے اور اس طرح پانچ وسق بیسں من وزن ہوا۔
ان کے علاوہ سبزیوں وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں
اس موقف کے اثبات کے لیے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کیا جاتا ہے:
➊ عطا بن سائبؒ فرماتے ہیں کہ :
أراد عبدالله بن مغيرة أن ياخذ من أرض موسى ابن طلحه من الخضروات صدقة
”عبد اللہ بن مغیرہؒ نے موسی بن طلحہ کی زمین سے سبزیوں کی زکوٰۃ لینے کا ارادہ کیا“ تو موسی بن طلحہؒ نے کہا کہ تم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
ليس فى ذلك صدقة
”اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“
[دار قطني: 97/2 ، حافظ ابن حجرؒ بيان كرتے هيں كه درست بات يه هے كه يه روايت مرسل هے۔ تلخيص الحبير: 321/2]
➋ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کھیرا ، ککڑی ، تربوز ، انار اور گنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ معاف فرمائی ہے۔
[دار قطني: 97/2 ، حاكم: 401/1 ، طبراني كبير: 151/20 ، حافظ ابن حجرؒ رقمطراز كرتے هيں كه اس روايت ميں ضعف و انقطاع هے۔ تلخيص الحبير: 321/2]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس فى الخضروات صدقة
”سبزیوں میں زکوٰۃ نہیں ۔“
[دار قطني: 96/2 ، امام دارقطنيؒ فرماتے هيں كه اس كي سند ميں مروان سنجاري راوي ضعيف هے۔]
(راجح) چونکہ یہ اور اس معنی کی تمام روایات ضعیف و نا قابل حجت ہیں اس لیے امام شوکانیؒ کا یہ موقف پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ علاوہ ازیں عمومی دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر زمینی پیداوار پر ، جبکہ وہ نصاب کو پہنچتی ہو ، زکوٰۃ فرض ہے اور اس میں سبزیاں بھی شامل ہیں ۔ والله اعلم
پھلوں کا درختوں پر تخمینہ لگانا
زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو درختوں پر موجود انگور اور تر کھجور کے تخمینے کے لیے بھیجنا مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو اہل خیبر کی کھجوروں کا تخمینہ لگانے کے لیے بھیجا تھا۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1473 ، كتاب الزكاة: باب خرص النخل والعنب ، ابن ماجة: 1820]
تخمینے سے مراد یہ ہے کہ جب انگور اور کھجور میں مٹھاس پیدا ہو جائے تو سارے پھل پر سرسری طور پر نظر دوڑائے پھر اندازہ لگائے کہ جب یہ انگور یا کھجور خشک ہو جائے گی تو اس وقت اس کی مقدار اور وزن کتنا رہ جائے گا۔
(مالکؒ ، شافعیؒ) تخمینہ لگانا جائز ہے۔
(ابو حنیفہؒ) یہ جائز نہیں ہے کیونکہ یہ غیب کی خبریں ہیں۔
[الكافي لابن عبد البر: ص / 101 ، المغنى: 178/4 ، الأم: 42/2 ، الحاوى: 220/3 ، الحجة على أهل المدينة: 510/1 ، نيل الأوطار: 102/3]
شہد میں دسواں حصہ واجب ہے
➊ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتے ہیں کہ :
أنه أخذ من العسل العشر
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد سے دسواں حصہ لیا ۔ “
[حسن صحيح: صحيح ابن ماجة: 1477 ، كتاب الزكاة: باب زكاة العسل ، إرواء الغليل: 810 ، صحيح أبو داود: 1424 ، ابن ماجة: 1824]
➋ حضرت ابو سیارہ منعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! میرے پاس شہد کی مکھیاں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أد العشر
”تو دسواں حصہ ادا کرو۔ “
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1476 أيضا ، ابن ماجة: 1823 ، أحمد: 246/4 ، بيهقى: 126/4]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کے متعلق فرمایا:
فى كل عشرة أزقاق زق
”ہر دس مشکوں میں ایک مشک (زکوٰۃ) ہے۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 514 ، كتاب الزكاة: باب ماجاء فى زكاة العسل ، إرواء الغليل: 286/3 ، ترمذي: 669]
(یوسف قرضاوی) راجح یہی ہے کہ شہد میں زکوٰۃ واجب ہے۔
[فقه الزكاة: 426/1]
(احمدؒ) شہد میں دسواں حصہ (زکوٰۃ) ہے۔
(ابو حنیفہؒ) اگر شہد کی مکھیاں عشری زمین میں ہوں تو زکوٰۃ ہے بصورت دیگر نہیں۔
(مالکؒ ، شافعیؒ) شہد میں زکوٰۃ نہیں ۔
[المغني لابن قدامة: 183/4]
(ابن حزمؒ ) شہد میں زکوٰۃ نہیں ۔
[المحلى بالآثار: 39/4]
(بخاریؒ) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے شہد میں زکوٰۃ کو ضروری نہیں سمجھا۔
[بخارى: قبل الحديث/ 1483 ، كتاب الزكاة: باب العشر فيما يسقى من ماء السماء والماء الجارى]
(البانیؒ) شہد کی زکوٰۃ کے متعلق احادیث روایت کی گئی ہیں اور ان میں سے بہترین حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ مروی ہے۔
[تمام المنة: ص/ 354]
(راجح) گذشتہ صیح احادیث سے شہد کی زکوٰۃ ثابت ہو جاتی ہے اور یہ اس آیت مما أخرجنا لكم من الأرض کے عموم میں بھی شامل ہے کیونکہ مکھیاں زمین کی فصلوں سے ہی اسے حاصل کر کے شہد بناتی ہیں۔
زکوٰۃ وقت سے پہلے دینا بھی جائز ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان العباس سأل النبى صلى الله عليه وسلم فى تعجيل صدقته قبل أن تحل فرخص له فى ذلك
”حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا زکوٰۃ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ادا ہو سکتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی اجازت دے دی ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 1430 ، كتاب الزكاة: باب فى تعجيل الزكاة ، أبو داود: 1624 ، ترمذي: 673 ، ابن ماجة: 1795 ، أحمد: 104/1 ، دارمي: 385/1 ، بيهقي: 11/4]
(شافعیؒ ، احمدؒ ، ابو حنیفہؒ) وقت (یعنی سال گزرنے) سے پہلے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
(مالکؒ) یہ جائز نہیں ہے۔
[نيل الأوطار: 109/3]
(ابن قدامهؒ) وقت سے پہلے بھی زکوٰۃ ادا کی جا سکتی ہے۔
[المغنى: 79/4]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 402/3]
(ابن حزمؒ ) وقت سے پہلے زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
[المحلى بالآثار: 213/4]
(ابن بازؒ ) وقت سے پہلے بھی زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 571/2]
حاکم وقت پر لازم ہے کہ وہ ہر جگہ کے اغنیاء کی زکوٰۃ وہیں کے فقراء پر صرف کرے
➊ جس حدیث میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کرنے کا ذکر ہے اس میں ہے کہ :
توخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم
” (زكوٰة) ان کے اغنیاء سے وصول کی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے گی ۔“
[بخاري: 1458 ، كتاب الزكاة: باب لا توخذ كرائم أموال الناس فى الصدقة ، مسلم: 19 ، أبو داود: 1584 ، ترمذي: 265 ، نسائي: 2435 ، ابن ماجة: 1783]
➋ حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے پاس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے والا شخص آیا :
فأخذ الصدقة من أغنيائنا فجعلها فى فقرائنا
”تو اس نے ہمارے اغنیاء سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے فقراء میں تقسیم کر دی ۔“
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 99 ، كتاب الزكاة: باب ما جاء أن الصدقة توخذ من الأغنياء فترد على الفقراء ، ترمذى: 649 ، ابن خزيمة: 2632 ، شيخ صبحي حلاق نے اسے حسن كها هے۔ التعليق على الروضة الندية: 491/1]
➌ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل مقرر کیا گیا۔ جب وہ واپس آئے تو انہیں کہا گیا مال کہاں ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا کیا مال کے لیے آپ نے مجھے روانہ کیا تھا؟
أخذناه من حيث كنا ناخذه على عهد رسول الله ووضعناه حيث كنا نضعه
”ہم نے مال وہاں سے لیا جہاں سے عہد رسالت میں لیا کرتے تھے اور وہیں تقسیم کر دیا جہاں پر اسے (عہد رسالت میں ) تقسیم کیا کرتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1467 ، صحيح أبو داود: 1431 ، كتاب الزكاة: باب فى الزكاة تحمل من بلد إلى بلد ، أبو داود: 1625 ، ابن ماجة: 1811]
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ ، ثوریؒ) جس شہر سے زکوٰۃ وصول کی گئی ہے اس کے علاوہ کسی اور شہر میں اسے صرف کرنا جائز نہیں۔
(احناف) ایسا کرنا جائز ہے۔
[الأم: 91/2 ، المغنى: 131/4 ، المبسوط: 18/3 ، الاختيار: 122/1 ، نيل الأوطار: 110/3 ، تحفة الأحوذى: 354/3]
(راجح) ضرورت اور مصلحت کے وقت کسی دوسرے شہر میں بھی مال زکوٰۃ صرف کیا جا سکتا ہے (البتہ عام حالات میں بہتر یہی ہے کہ جس علاقے سے زکوٰۃ وصول کی جائے اسی علاقے کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے جیسا کہ گذشتہ دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے ) ۔
[تحفة الأحوذى: 355/3]
اور امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
باب أخذ الصدقة من الأغنياء وترد فى الفقراء حيث كانوا
”باب اس بیان میں کہ مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اور فقراء پر خرچ کر دی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں ۔“ اس باب کے تحت امام بخاریؒ نے یہ حدیث نقل کی ہے:
تو خذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم
[بخارى: 1496 ، كتاب الزكاة]
غالباً امام بخاریؒ نے فقرائهم کی ضمیر کو تمام مسلمانوں کی طرف لوٹایا ہے۔
(ابن جبرینؒ) کسی مصلحت کے تحت زکوٰۃ دوسرے شہر میں بھی منتقل کی جا سکتی ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 65/2]
زکوٰۃ ادا کرنے والا اپنی زکوٰۃ حاکم وقت کے سپرد کرنے سے ہی بری الذمہ ہو جاتا ہے خواہ حاکم ظالم ہی ہو
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب میرے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو اپنے نفسوں کو تم پر فضیلت دیں گے اور ایسے معاملات ہوں گے جنہیں تم برا سمجھو گے۔ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! تو آپ ہمیں (ایسے وقت کے متعلق) کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
تو دون الحق الذى عليكم وتسألون الله الذى لكم
”تم اپنے اس حق کو ادا کر دینا جو تمہارے ذمے ہے اور تمہارا جو حق (ان پر ہے) اسے اللہ تعالی سے مانگنا۔“
[بخاري: 3603 ، كتاب المناقب: باب علامات النبوة فى الإسلام ، مسلم: 1843 ، ترمذي: 2190]
➋ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جبکہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر رہا تھا ، مجھے بتلائیے کہ اگر ہمارے اوپر ایسے امراء ہوں جو ہمارا حق ہم سے روک لیں لیکن اپنا حق ہم سے مانگیں (تو ہم کیا کریں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتهم
”سنو اور اطاعت کرو بلا شبہ ان پر وہ کچھ ہے جو ان پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور تم پر وہ کچھ ہے جو تم پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔“
[مسلم: 1846 ، كتاب الإمارة: باب فى طاعة الأمراء وإن منعوا الحقوق ، ترمذي: 2199]
➌ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ادفعوا إليهم ما صلوا الخمس
”تم ان کی طرف (ان کے حقوق) ادا کرو جب تک کہ وہ پانچوں نمازیں پڑھتے رہیں ۔“
[طبراني أوسط: 1369 ، مجمع الزوائد: 28/3 ، 1369]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
ادفعوها إليهم وإن شربوا الخمور
”تم اسے (یعنی ان کے حقوق کو ) ان کی طرف ادا کرو اگرچہ وہ شرابیں پیئیں ۔“
[بيهقي: 115/4]
(جمہور ) زکوٰۃ کا مال ظالم حکام کے سپرد کرنا جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 115/3]
حاکم وقت زکوٰۃ نہ دینے والوں سے زبردستی بھی وصول کر سکتا ہے
بلکہ مزید جرمانہ بھی ڈال سکتا ہے جیسا کہ بھز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أعطاها مـوتـحـرا بها فله أجرها ومن منعها فإنا أخذوها وشطر ماله
”جو شخص حصول ثواب کی نیت سے زکوٰۃ ادا کرے گا اس کو اس کا ثواب ملے گا اور جس نے زکوٰۃ روک لی تو ہم زبردستی زکوٰۃ وصول کریں گے اور اس کا مزید کچھ مال بھی (جرمانے کے طور
پر ضبط کرلیں گے ) ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 1393 ، كتاب الزكاة: باب زكاة السائمة ، أبو داود: 1575 ، نسائي: 2444]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1