گمشدہ مال کی ملکیت اور تصرف کے اسلامی احکام
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

اس لقطہ کا حکم جسے انسان اٹھا لیتا ہے مگر اس کے مالکوں کی تلاش کے باوجود اس کو کوئی بھی نہیں ملتا

اگر اٹھانے والے نے جو چیز اٹھائی ہے وہ گم شدہ مال ہے اور اس نے اس نیت سے اٹھائی ہے کہ وہ اس کا اعلان کرے گا اور اسے اس کے مالک تک پہنچانے کے لیے تگ و دو کرے گا، پھر اس نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا اور اس کا مالک نہ آیا تو وہ چیز اس کے لیے حلال ہو جائے گی اور اس کی ملکیت میں شامل ہو جائے گی۔ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کر سکتا ہے، لیکن اگر اس کا مالک سال کے دوران میں یا اس کے بعد آجائے اور اس چیز کو اس طرح بیان کرے کہ وہ ساری نشانیاں اس پر صادق آتی ہوں تو پھر اس کو وہ چیز لوٹانی ضروری ہو جاتی ہے۔ سال گزرنے سے پہلے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں بلکہ اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے لیکن اگر وہ کوئی ایسی چیز ہو جو ایک سال باقی نہ رہ سکتی ہو جیسے بعض اشیاء خوردنی، جو اگر باقی رہیں تو خراب ہو جاتی ہوں یا ان کی حفاظت بہت زیادہ اخراجات چاہتی ہوں تو پھر انسان اسے بیچ دے تاکہ اس کے اخراجات سے بچ سکے، اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ تب ایسا تصرف کرنا واجب ہو جاتا ہے، لیکن اس وقت تک اس میں تصرف نہ کرے جب تک اس کی پہچان نہ کرا دے، پھر اگر اس کا مالک آجائے تو کہے: یہ لقطہ جو مجھے ملا تھا اس کی حفاظت کے لیے یا اس کی بقا کے اخراجات سے بچنے کے لیے میں نے اس میں یہ تصرف کیا ہے۔ جب سال گزر جائے تو پھر وہ اس کی ملکیت میں شامل ہو جاتا ہے، لہٰذا جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے، اگر اس کا مالک آ جائے تو پھر اس کی مثل کوئی چیز لوٹانا واجب ہوگی یا وہ کسی اور چیز پر باہمی اتفاق کر لیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/245]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: