سوشل میڈیا پر سائنسی دریافتوں کو مذہبی عقائد سے جوڑنے کا رجحان
حالیہ برسوں میں، خصوصاً سوشل میڈیا پر یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی نئی سائنسی دریافت یا نظریہ سامنے آتا ہے، تو اسے مذہبی عقائد سے جوڑنے اور اپنے عقائد کو اس سے درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس رویے پر ناقدین، خصوصاً ایتھسٹ طبقہ، مذہبی لوگوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ طریقہ دیانتداری کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ان کے بقول، مذہب پسند لوگوں کا یہ عمل ’’غلط‘‘ ہے اور اس طرح کے خیالات کو اکیڈمک یا سائنسی حیثیت نہیں مل سکتی۔
اعتراض کی بنیاد: دیانتداری کی کمی کا الزام
مذہبی لوگوں پر اعتراض کا سب سے مضبوط نقطہ یہی ہے کہ ان کا یہ عمل ’’دیانتداری پر مبنی نہیں‘‘ ہو سکتا، کیونکہ وہ سائنسی نظریات کو اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جبکہ ایک سچا محقق ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔ لیکن اس تنقید پر کچھ سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
سوال 1: سائنسدان کا مذہبی ہونا
ایک سائنسدان کا مذہبی ہونا کوئی نئی بات نہیں، بہت سے ہندو، مسلمان، عیسائی، اور یہودی سائنسدان ماضی میں بھی رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اگر ایک سائنسدان کہے کہ اس نے اپنی دریافت کا آئیڈیا مذہبی کتاب سے لیا، تو کیا کوئی سائنسی طریقہ موجود ہے جو اس کے دعوے کو جھٹلا سکے؟ شاید یہ کہا جائے کہ اس کی دریافت میں پہلے سے موجود سائنسی علم کا تسلسل شامل تھا۔ لیکن اگر وہ کسی مذہبی آیت سے متاثر ہوا تو یہ پہلو رد نہیں کیا جا سکتا کہ شاید اسی سے اسے ایک نئی بصیرت ملی ہو۔
سوال 2: نیت کے تعین کا طریقہ
کسی محقق کی نیت کا تعین کرنا مشکل ہے۔ اگر ایک محقق کسی اور مذہب کے عقیدے کی تصدیق کرتا ہے تو کیا اس پر جانبداری کا الزام لگانا درست ہوگا؟ مثال کے طور پر، اگر ایک مسلمان محقق اپنی تحقیق سے ہندو عقیدے ’’آواگون‘‘ کی تائید کرتا ہے، تو کیا اسے پھر بھی جانبدار کہا جائے گا؟
سوال 3: مذہبی متن اور تحقیق کا ربط
اگر کوئی یہ کہے کہ ’’آسمان ستونوں کے بغیر قائم ہیں‘‘ اور اس کا ربط سپیس ٹائم فیبرک سے جوڑ دے، تو کیا اسے علمی بددیانتی سمجھا جائے؟ حقیقتاً یہ عمل ’’لٹریچر ریویو‘‘ کا حصہ ہے، جس میں محققین اپنی تحقیق سے متعلق سابقہ لٹریچر کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہیروڈوٹس سے کارل ساگان تک بہت سے مفکرین نے مذہبی کتب کا ذکر کیا ہے۔
اکیڈمک دنیا اور مذہبی تصورات کا تعلق
یہ اعتراض کہ ’’نئی دریافتوں پر مذہبی عقائد کی تصدیق کیوں کی جاتی ہے؟‘‘ دراصل ایک جدید فیشن کا حصہ بن چکا ہے۔ اگر ہم اس اعتراض کو مان لیں تو قدیم فلسفہ اور سائنس کی بیشتر تحقیق بھی رد کرنی ہوگی، کیونکہ ماضی کے بڑے سائنسدان اور فلسفی اپنی تحقیقات سے اپنے مذہبی عقائد کی تصدیق میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
علم الکلام کی اہمیت اور مغربی فلسفہ
کانٹ نے عقل کی حدود متعین کیں، جس کے بعد علم الکلام کو ناقص علم سمجھا جانے لگا۔ پاکستان میں بھی کچھ لوگ علم الکلام کو ’’غیر علمی‘‘ قرار دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسفے کا بہت سا مواد علم الکلام سے نکلا ہے۔ برٹرینڈ رسل کے بعد مغربی دنیا میں علم الکلام کو بُرا سمجھا جانے لگا، اور ہمارے یہاں بھی یہی رجحان نظر آتا ہے کہ مذہبی عقائد کو سائنس سے ثابت کرنا بددیانتی ہے۔
سائنس اور مذہب: ایک تاریخی ربط
سائنس اور مذہب کا رشتہ تاریخ میں گہرا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب مذہبی رہنما خود سائنسدان ہوتے تھے اور مذہب سائنسی تحقیق کو فروغ دیتا تھا۔ ہر بڑے فلسفی میں علم الکلام کی جھلک نظر آتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سائنس اکثر قدیم تصورات کی تصدیق کرتی رہی ہے، اور یہ خود ایک ’’متکلم‘‘ کی طرح کام کرتی ہے۔
اختتامیہ
میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی محقق نئی سائنسی دریافت کو اپنے عقیدے کی تصدیق کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس پر بددیانتی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی سائنسی یا منطقی بنیاد موجود نہیں کہ یہ عمل غیر دیانتداری پر مبنی ہے۔